قربانی
(Ahmad Raza Mian, Lahore)
جمشید عروسہ سے بے حد محبت کرتا تھا۔ ان کی
شادی بھی اسی محبت کا نتیجہ تھی۔ پانچ سال بعد ان کی محبت جیتی تھی اور
عروسہ کے ماں باپ نے اپنی بیٹی کی خوشیوں کی خاطر اپنی انا کو قربان کر دیا
تھا۔ شادی کے دو سال بعد ان کا آنگن ایک خوبصورت کلی سے مہکنے لگا تھا۔
زرقا کی پیدائش نے دونوں کے رشتے کو مزید مضبوط کر دیا تھا۔ عروسہ کو اپنی
قسمت پر مان تھا۔ وہ جب بھی میکے جاتی بڑے فخر سے جمشید کی اچھائی بیان
کرتی تھی۔ عروسہ کے والدین بھی خوش تھے کہ ان کی بیٹی کے نصیب بھلے نکلے۔
انھیں ایک فرشتہ صفت داماد مل گیا ہے۔ اس پر وہ رب کا لاکھ لاکھ شکر ادا
کرتے اور جمشید کی سلامتی کے لیے ڈھیروں دعائیں مانگتے۔ جمشید بھی حقیقت
میں ایک فرشتہ ہی تھا۔ وہ نہ صرف عروسہ سے محبت کرتا تھا بلکہ دل سے اس کی
عزت بھی کرتا تھا۔ اس کے لیے عروسہ ہی سب کچھ تھی یا پھر کلکاریاں بھرتی
ہوئی ننھی زرقا۔ ایک عورت کو اگر اپنے شوہر کی بے پناہ محبت اور عزت مل
جائے تو اسے کسی شے کی کمی کا کم ہی احساس ہوتا ہے۔۔۔ شادی سے پہلے عروسہ
کی سہیلیوں نے اسے ڈرایا تھا کہ پیار محبت کی یہ شدت شادی کے بعد زیادہ دیر
قائم نہیں رہتی۔ شا دی سے پہلے کیے جانے والے عہد و پیماں شادی کے تھوڑے ہی
عرصہ کے بعد دم توڑ جاتے ہیں۔ اور یوں مایوسیاں جنم لیتی ہیں۔ مایوسیوں کے
یہ سنپولیے پلتے پلتے ایک دن اژدھے کا روپ دھار لیتے ہیں۔ پھر ایک وقت آتا
ہے کہ یہ اژدھا نازک سے رشتے کو بڑی آسانی سے نگل جاتا ہے۔ لیکن عروسہ ان
تمام خدشات سے بے فکر تھی۔ کیوں نہ بے فکر ہوتی۔ جمشید نے کبھی اس کے دل
میں کوئی خدشہ پیدا ہی نہیں ہونے دیاتھا۔ وہ اب بھی اسے ٹوٹ کر چاہتا تھا۔
وہ اب بھی یوں ملتے جیسے شادی کی پہلی رات ملے تھے۔
کچھ ہی عرصہ بعد ایک ہموار راستے پر چلتی ہوئی خوشگوار زندگی اچا نک ڈگمگا
سی گئی تھی۔ ایک دن سیڑھیوں سے پھسل جانے کی وجہ سے عروسہ کی کمر کے مہرے
اپنی جگہ سے ہل گئے تھے۔ اس کا حرام مغز بری طرح متاثر ہوا تھا۔ اور اس کے
جسم کا نچلا حصہ پیرا لائز ہوگیا تھا۔ اچھی خاصی صحت مند اپنے پاؤں پر چلنے
پھرنے والی عروسہ اب ویل چیئر پر تھی۔ جمشید نے عروسہ کے علاج کی خاطر اپنی
پوری توانائی صرف کر دی تھی۔ اسے پورا یقین تھا کہ عروسہ ایک دن اپنے پاؤں
پر ضرور کھڑی ہو گی۔ لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ ویل چیئر عروسہ کی
مستقل ساتھی بن چکی تھی۔ جمشید کی زندگی کا نظام درہم برہم ہو چکا تھا۔
عروسہ کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ زرقا کو سنبھالنا ایک ملازم پیشہ آدمی کے
بس کی بات نہیں تھی۔ اس کی اسی مجبوری کے پیش نظر عروسہ کی چھوٹی بہن رمشا
نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ اپنی بہن اور بھانجی کی دیکھ بھال کرے گی۔ اس وقت
تک جب تک زرقا بڑی نہیں ہو جاتی۔ رمشا کی اس قربانی کی بدولت جمشید کی
زندگی پھر سے معمول پر آگئی تھی۔عروسہ کے والدین کا گھر زیادہ دور نہیں تھا
اس لیے رمشا صبح جمشید کے آفس جانے سے پہلے آجاتی اور اس کے واپس گھر آنے
تک اپنی بہن کے پاس رہتی۔ رمشا کی وجہ سے عروسہ ذہنی طور پر کا فی سنبھل
چکی تھی۔ وہ اپنی معذوری بھی بھول گئی تھی۔ لیکن ایک بات اس نے نوٹ کی تھی
کہ جمشید اب کچھ بدل سا گیا ہے۔ وہ پہلے کی طرح بات نہیں کرتا۔ اس کے لہجے
میں وہ اپنایت نہیں رہی جس نے میاں بیوی کے نازک رشتے کو ایک مضبوط بندھن
میں باندھ رکھا تھا۔ عروسہ جو تھوڑا بہت سنبھلی تھی جمشید کے بدلے ہوئے
رویے نے اسے پھر سے ذہنی مریضہ بنا دیا تھا۔۔۔ جمشید آفس سے جلدی گھر لوٹ
آتا۔ اس کی کوشش ہوتی کہ وہ دیر تک رمشا کو اپنے گھر پر روکے رکھے۔ اس کے
ساتھ باتیں کرے۔ کیونکہ اسے رمشا اچھی لگنے لگی تھی۔ وہ بہت جلد عروسہ کی
محبت کو بھول چکا تھا۔ اب وہ اسے بوجھ لگنے لگی تھی۔ اور وہ اس بوجھ سے
چھٹکارا پانا چاہتا تھا۔ اس کے لیے اسے رمشا کی مدد کی ضرورت تھی۔ رمشا بھی
جمشید کے ساتھ بہت بے تکلف ہو چکی تھی۔ زرقا کی سیرو تفریح کے بہانے اکثر
عروسہ کو اکیلا چھوڑ کر وہ باہر چلے جاتے۔ اور کافی وقت باہر ہی گزارتے۔
رمشا بھی جمشید سے محبت کرنے لگی تھی۔ وہ یہ بات نظر انداز کر چکی تھی کہ
عروسہ اس کی بہن اور جمشید کی منکوحہ ہے۔ جمشید اور رمشا کے درمیان ایک
زندہ لاش تھی۔ جس کی وجہ سے دونوں کا نکاح ممکن نہیں تھا۔ اسی نہ ممکن کو
ممکن بنانے کا دونوں نے فیصلہ کر لیا تھا۔ عروسہ کو زہر ملا کھانا کھلا کر
زندگی کی قید سے آزاد کر کے جمشید نے ایک نئی زندگی کا سفر شروع کرنے کا
منصو بہ بنا لیا تھا۔۔ دوپہر کے وقت رمشا نے اپنی بڑی بہن عروسہ کی پسند کا
کھانا بنایا تھا۔ وہ کھانا لے کر جب عروسہ کے کمرے میں پہنچی تو یہ دیکھ کر
اس کے پاؤں تلے زمین نکل گئی۔ عروسہ فرش پر گری پڑی تھی۔ اس کی ناک اور منہ
سے خون بہہ رہا تھا۔ اپنے شوہر اور چھوٹی بہن کے تعلق کے بارے میں ہر وقت
سوچتے رہنے سے اس کے دماغ کی شریان پھٹ گئی تھی۔۔۔ |
|