مجبور بیوی
(Prof Niamat Ali Murtazai, )
عورت بطورِ عورت فطرت کا شاہکار ہے۔
اس کے کئی ایک روپ ، اظہار اور رویئے ہیں۔ وہ بطورِ بیٹی، بہن، بیوی، ماں
وغیرہ کئی ایک معتبر اور مقدس رشتوں میں بُنی ہوئی ہے۔ اسی طرح اس کے کچھ
روپ منفی بھی ہیں۔جن میں سے سب سے زیادہ منفی بطورِ طوائف ہے۔ایک عورت کوئی
بھی منفی رویہ اپنا سکتی ہے: وہ ایک دھوکے باز بیوی ، دغا باز بہن ، فریبی
بیٹی ، مکار محبوبہ ، کچھ بھی ہو سکتی ہے لیکن وہ ماں کی صورت میں آخر
انسان نواز ضرور رہتی ہے۔ہماری ناقص دانش کے مطابق عورت میں ستر حصے ماں کے
اور باقی ، باقی کرداروں کے لئے ہوتے ہیں ۔ اگر عورت کو ماں بننے سے روک
دیا جائے تو شاید اس سے بڑا ظلم اس پر اور کوئی نہیں کیا جا سکتا۔
گائنی سپیشلسٹ ڈاکٹرریحانہ کے میٹرنٹی ہاسپٹل کے سامنے ایک شخص، ایک عورت
کو ، جو ابھی جوانی کی سیڑھیاں چڑھ رہی تھی اپنی نئی موٹر سائیکل سے اتار
کر ، اسے سخت لہجے میں احکا مات سناتا اور دھمکیاں دیتا ہوا چلا گیا۔
دیکھنے والوں کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ آخر مسئلہ کیا ہے۔وہ لڑکی بوجھل
قدموں پر چلتی ہوئی کلینک کے دروازے کو دھیان سے بند کرتے ہوئے، نظریں
جھکائے ، آنکھوں میں پانی کی مشکیزے بھرے، مریضوں کے بنچ پر بیٹھ کر کبھی
ڈاکٹر کی طرف اور کبھی باہر کے گیٹ کی طرف دیکھنے لگی۔ اس کی نظروں اور
انداز سے اس پر شک کا گمان بڑی جلدی یقین میں ڈھلنے لگتا۔ ایسا لگتا وہ
کوئی ناجائز کام کروانے آئی ہے۔ وہ اکیلی بھی شاید اسی لئے ہے کہ کوئی اس
کے پیٹ کے راز سے ہمراز نہ ہو جائے۔ اس کی آنکھوں کے آنسو ساون کے بادلوں
کی طرح برس جانے کو بے قرار تھے۔ لیکن لگتا تھا اسے رونا منع کیا گیا تھا۔
کہ وہ بہتے ہوئے آ نسوؤں کو چھٹ سے صاف کر دیتی۔وہ کسی گاؤں سے آئی تھی۔ اس
کی صحت مندی اور چال ڈھال سے گاؤں کی بودو باش نمایاں ہو رہی تھی۔ وہ کسی
اچھے گھرانے کی پروردہ دِکھ رہی تھی۔ اس کے انداز میں عزتِ نفس کا ایک
مضبوط قلعہ دیکھا جا سکتا تھا۔ لیکن اسے پریشانی کیا تھی۔ وہ اتنی بے بس
اور لا چار کیوں محسوس ہو رہی تھی؟
کوثر کی شادی اس لحاظ سے بہت خوش قسمت تھی کہ اس پر محبت اور فیملی دونوں
کا اتفاق تھا۔ اسے جس لڑکے سے محبت ہوئی، وہ خود اس کی محبت بھی تھی۔ ذات
،برادری اور معاشی عدم توازن کی بھی کوئی پرابلم پیش نہ آئی تھی۔وہ ان خوش
نصیب محبت بازوں میں سے تھی جو محبت وصول بھی کرتے ہیں، ورنہ محبت اکثر کو
راس نہیں آتی ۔یہ بھی بہت دفعہ ہوتا ہے کہ خوش قسمتی اچانک غائب ہو جاتی ہے
اور پھر بد قسمتی تا دیر پیچھا کرتی ہے۔ اس کا شوہر، خالد، ایک اچھا نوجوان
تھا۔ لیکن شادی کے بعد اس میں تبدیلیوں کا ایک لا متناہی سلسلہ شروع ہو
گیا۔ وہ پہلے جیسا تو رہا ہی نہ تھا۔ اس کے رویئے میں روز بروز سختی اور
درشتی در آتی گئی۔ اور کوثر اسے لمحاتی اور سطحی مسئلہ سمجھ کر ٹالتی اور
اپنے آپ کو تسلی دیتی رہی۔ لیکن اس کے علم میں نہیں تھا کہ اس کے شعور کی
سرحدوں سے بہت دور اس کے لئے کیسی خاردار رکاوٹین کھڑی کی جا رہی ہیں جنہیں
وہ یا تو کبھی عبور نہ کر سکے گی یااگر کرے گی بھی تو بہت کچھ کھو کر۔
وہ دو ماہ سے حاملہ تھی۔ یہ اس کا پہلا حمل تھا ۔ وہ زندگی کی بہت سی
بہاروں سے لطف اندوز ہوکر اب ماں بننے کی خوشی سے اپنے دل کا گلشن آباد
کرنا چاہتی تھی۔وہ بیٹی، بہن اور بیوی کا کردار ادا کر چکی تھی اور کر بھی
رہی تھی ۔ اب قدرت اسے ماں کا بہت ہی مقدس کردار عطا کرنے جارہی تھی۔ لیکن
اس کا ماں بننا کسی ایک شخص کو پسند نہ تھا۔ وہ شخص کوئی اور نہیں بلکہ اس
کا شوہر ہی تھا۔ اس نے خود بھی تو باپ بننا تھا۔ لیکن اس کے کانوں پر کسی
آواز کا طلسم حا وی تھا ،اور اس کا دل کسی کی مٹھی میں تھا کہ اسے اپنے
مستقبل اور اپنی اولاد سے بھی پیارا کوئی اور انسان ہو چکا تھا۔ یہ بات بہت
ساری عورتوں کے کیسوں میں سامنے آ چکی ہے کہ اگر عورتیں اس طرح جان بوجھ کر
ابارشن کروائیں تو ان کے ہاں یا تو ساری عمراولاد نہیں ہوتی یا بہت دیر بعد
قدرت ان کی اس غلطی کی معافی دے کر انہیں اولاد سے نوازتی ہے۔ خالد کو ہوش
کے ناخن لینے چاہیئں۔ وہ اس بات پر بضد کیوں ہے کہ اس نے ابارشن ہی کروانا
ہے۔؟
یہاں یکدم کئی ایک سوالات سر اٹھاتے ہیں : کیا اسے اس بچے کی جائز حیثیت پر
کوئی شبہ ہے، کیا اسے کوثر کے کردار میں کوئی قابلِ اعتراض عمل کی جھلک نظر
آئی ہے، کیا وہ ابھی بچہ نہیں لینا چاہتا ، کیا وہ زندگی بچوں کی موجودگی
کے بغیر ہی گزارنا چاہتا ہے؟ آخر کوئی تو وجہ ہے کہ ایک باشعور شخص اپنی
بیوی کو زبر دستی ابارشن کروانے کے لئے مجبور کرے جبکہ وہ اپنے آپ کو ماں
بنانے کے خواب ، خیالوں کی ڈوری میں پرو کر اپنے تصور کے گلے کا ہار بنا کر
پہن بھی چکی ہو۔اس بیوی کے لئے زمین کتنی تنگ ہو گی جس کا شوہر اسے حکم دے
کہ اگر ابارشن نہ کروایا تو میرے گھر میں قدم نہ رکھنا، ورنہ زندہ نہیں
چھوڑوں گا۔ اور یہ بات اور بھی کتنے ستم کی ہے کہ دوسروں کے سمجھانے سے بھی
وہ ٹس سے مس نہ ہو اور اپنی ضد پر ڈٹا رہے کہ اس بچاری کی ساری امیدیں خاک
میں مل جائیں۔
کوثر کا بھائی اور بھاوج بھی خالد کو سمجھانے آئے تھے کہ وہ اپنی ضد
چھوڑدے،اور اگر اسے بچے کی صورت میں کسی مالی بوجھ کا مسئلہ ہے تو وہ لوگ
سارا خرچہ بھی کریں گے اور بچے اور اس کی ماں کو چند ماہ تک اپنے گھر میں
بھی رکھ لیں گے۔ کسی بھی صورت میں وہ بس اپنی بیوی کو بچہ اپنے پیٹ میں
رکھنے اور اسے جنم دینے کی اجازت دے دے۔ انہوں نے رو رو کر بھی خالد کی منت
کی تھی ، لیکن خالد بس ایک ہی اصرار کئے جا رہا تھا کہ اس نے بچہ نہیں
لینا۔ اور ضرور ابارشن ہی کروانا ہے۔ کوثر کے آس پاس بیٹھی عورتوں نے اس کی
اتنی شدید پریشانی دیکھ کر اس کی بپتا جاننے کے لئے اس سے سوال کر ہی دیا ،
کہ آخر بات ہے کیا۔ ان عورتوں کے اصرار پر کوثر نے ڈرتے ڈ رتے زبان پر لگے
تالے کو مایوسی کی کلید سے کھولا۔
خواتین میں پائی جانے والی یہ بات اکثر اچھی نگاہ سے نہیں دیکھی جاتی کہ وہ
کوئی بات ہضم نہیں کر پاتیں اور جلد ہی کسی نہ کسی کے کانوں میں ڈال کر ہی
دم لیتی ہیں۔ اسے پیٹ کا ہلکا ہونا بھی کہا جاتا ہے۔لیکن یہ عادت نفسیاتی
سطح پر ایسے مفید ہے جیسے زہر کے لئے تریاق ۔اس نادانی یا’بے فضول‘ عادت سے
وہ بہت سی ذہنی اور نفسیاتی الجھنوں سے محفوظ رہتی ہیں۔ اظہار نہ کرنا
،اندر سے نقسان پہنچاتا ہے اگر چہ اظہار کرنا باہر سے بھی نقصان دہ ہو سکتا
ہے۔ کوثر نے ایک بار لیڈی ڈاکٹر ریحانہ کی طرف، ایک بار باہر کے گیٹ کی طرف
اور ایک بار اپنی ساتھ والی عورتوں کی طرف دیکھ کر روتے، روتے بتایا کہ اس
کا شوہر اسے مجبور کر رہا ہے کہ وہ اپنے باپ کی زمین سے اپنا حصہ لے کے آئے
ورنہ وہ کسی طورا سے ماں بننے کی اجازت نہیں دے گا اور ہر بار اس کے ایسے
ہی ابار شن کرواتا رہے گا۔ اب وہ اپنے ماں باپ کو کیسے مجبور کرے کہ وہ اس
کا حصہ اسے دے دیں۔ خود خالد کی بہن کی شادی کے بعد انہوں نے اسے کوئی حصہ
نہیں دیا اور کوثر سے وہ زبر دستی حصہ لینے کی بات پوری ڈھٹائی سے کئے جا
رہے تھے۔ یہ الٹ پٹی خالد کو اس کی بڑی بھابھی پڑھا رہی ہے۔ خالد کی ماں اس
کے بچپن میں ہی ٖفوت ہو چکی تھی۔ اس کی بھاوج اس شادی کی شروع ہی سے مخالف
تھی لیکن اب خالد اس کی باتوں میں آگیا تھا۔ وہ کوثر کو خا لد سے طلاق دلوا
کر اپنی چھوٹی بہن اس کے گھرمیں لانا چاہتی تھی۔ اب خالد اس کے طلسم میں
اپنی سمجھ سے محروم ہو چکا تھا۔عورت کو طلاق ہو جائے، وہ برداشت کر لیتی
ہے، کوئی گھر سے نکال دے اسے برداشت ہو جاتاہے، چاہے اپنی اولاد ہی دشمن ہو
جائے وہ یہ بھی برداشت کر سکتی ہے۔ لیکن اسے یہ برداشت نہیں ہوتا کہ کوئی
اسے ماں بننے کی اجازت نہ دے یا اسے ماں بننے کے لئے کسی کی اجازت کی صلیب
پر لٹکا دیا جائے۔ کچھ باتیں قدرتی ہیں اور کچھ سماجی۔ ماں بننا عورت کی
قدرتی خواہش ہے۔ لیکن کس طرح بننا ہے یہ سماجی بات ہے ، جس میں مذاہب،
اخلاق اور اطوار کو بہت زیادہ عمل دخل حاصل ہے۔اصل بات تو قدرتی خواہش کی
ہے جو کہ انسان کا سوفٹ ویئر ہے۔ طوائف بھی ماں بنتی ہے اور اپنے بچوں کو
پالتی ہے، چاہے ان بچوں کا باپ نا معلوم ہی کیوں نہ ہو۔ بغیر شادی کے بھی
اولاد لی جاتی ہے جیسا کہ یورپ میں آج کل رواج ہے۔ لیکن عورت کو ماں بننے
کی خواہش سے محروم کرنا دنیا کے بد ترین گناہوں اور جرائم سے بھی برا ہے۔
تھوڑی دیر بعد کوثر کی باری آگئی۔ ڈاکٹر نے اسے اپنے کیبن میں بلا لیا جہاں
وہ ایک مریض ہی کو بلاتی تھی ، کیوں کہ لوگوں کے راز ہوتے ہیں:
ڈاکٹر: جی آپ کا نام؟
کوثر: جی میرا نام کوثر پروین ہے۔
ڈاکٹر : عمر کتنی ہے؟
کوثر: بائیس سال
ڈاکٹر: کیا مسئلہ ہے؟
کوثر: ( گھبرا کر ) وہ، ڈاکٹر صاحبہ ، وہ ناں۔۔ ابارشن کروانا ہے۔
ڈاکٹر:( مشکوک نظروں سے کوثر کو دیکھتے ہوئے) کیوں بیٹی کیا وجہ ہے، کوئی
خرابی ہے اس میں، کتنے ماہ کا حمل ہے؟
کوثر( پریشانی سے آنکھوں سے زاروقطار آنسو بہتے ہوئے) نہیں ڈاکٹر صاحبہ
خرابی تو کوئی نہیں، بس میرا شوہر ابھی بچہ لینا نہیں چاہتا۔
ڈاکٹر: تو تم نے میڈیسن لے لینی تھی، وہ کیوں نہیں لینا چاہتا۔ اسے کیا
پرابلم ہے؟ کہاں رہتی ہو؟
کوثر: ڈاکٹر صاحبہ گاؤں میں، پتہ نہیں اسے کیا بات ہے، بس وہ مجھے مجبور کر
رہا ہے کہ میں پیٹ کی صفائی کروا ؤں ورنہ وہ مجھے مارے گا اور گھر سے بھی
نکال دے گا۔ پہلے بھی اس نے ایک دو بار مجھے مارا ہے۔
ڈاکٹر:( پریشانی سے) تمھارے ماں ، باپ نہیں اسے کچھ کہتے؟ باقی جو آپ کہتی
ہو میں کر دیتی ہوں۔
کوثر: جی ڈاکٹر صاحبہ آپ کر دیں(بے بسی کی تصویر بنے ہوئے) وہ کچھ نہیں کر
سکتے۔
ڈاکٹر نے اسے کچھ دوائی دی ، کچھ انجکشن لگائے اور کچھ وقت ایک بستر پر لیٹ
جانے کو کہا اور اسے بتایا کی اس عمل میں تکلیف بھی ہوگی اور پریشانی بھی۔
کوثر منہ سے کچھ نہ بول سکی اور صرف آنکھوں اور چہرے کے اشارے سے اس نے
ڈاکٹر کو بتایا کہ جو ہو گا وہ برداشت کرے گی۔ جسم سے زیادہ تو اسے دل کا
درد تھا جسے اس کے سواکوئی محسوس کرنے والا بھی نہ تھا۔ اس کے بہن بھائی
بھی اس کام میں بے بس ہو چکے تھے۔
وہ اپنے آپ کو ایک عورت کی گھٹیا ترین شکل یعنی طوائف سے بھی کمتر سمجھ رہی
تھی، جو چاہے جیسی بھی ہو ، اسے اپنے پیٹ میں بچہ رکھنے کی اجازت ہوتی ہے۔
وہ اس معاملے میں خود مختار ہوتی ہے چاہے کل کو اس کا بچہ اس کے پیشے کے
لحاظ سے منحوس ہی ثابت ہو، لیکن اسے بچہ رکھنے سے روک کوئی نہیں سکتا۔ چاہے
اس بچے کو ساری عمر باپ کی پہچان نہ ہو سکے ، پھر بھی وہ اپنے پیٹ میں اپنی
مرضی سے کسی کا بھی بچہ رکھ سکتی ہے ، لیکن کوثر بچاری ایک شادی شدہ بیوی
ہوتے ہوئے بھی اس نعمت سے اس قدر محروم تھی کہ خود اس کی اپنی جان کے علاوہ
اس کے خاندان کی عزت و آبرو بھی خطرے میں تھی۔ وہ ہر لحاظ سے لاچار اور بے
بس تھی۔ وہ اپنے آپ کو ایک بِچ(bitch) سے بھی کمتر سمجھ رہی تھی جو ایک وقت
میں اپنے پیٹ میں بغیر کسی انسان کے سہارے ،اور ٹھکانے کے متعدد بچے رکھ
سکتی ہے، انہیں جنم بھی دیتی ہے، ان کی نگہداشت اور پرورش بھی کرتی ہے، اور
ان کی ماں بن کے ساری دنیا کو ماں کے احساسات کا احساس دلاتی ہے۔ وہ اپنی
پرواہ کیئے بغیر اپنی اولاد کو جس کی اس نے کمائی نہیں کھانی ہوتی، ایک
انسانی ماں کے سے انداز میں پالتی پوستی ہے۔ اسے دیکھ کر فطرت کی کرشمہ
سازی اور دانائی کی داد دینے کو خود بخود دل کرتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو ایک
کیڑے مکوڑے سے بھی حقیر سمجھ رہی تھی جسے کہ اپنی اولاد کا پورا پورا حق
حاصل ہوتا ہے۔ عورت سے چاہے کچھ بھی چھین لیا جائے ، بس اس سے ماں بننے کا
حق نہ چھینا جائے۔
ابارشن کے تکلیف دہ پروسس سے گزرتے ہوئے کوثر کی آنکھوں کے آنسوؤں کی روانی
میں کچھ کمی آ گئی لیکن اس کے دل کی بد دعاؤں کی گونج فضا میں بکھرتی گئی۔
اس کی سب کی سب بد دعائیں صرف اور صرف اپنے اور اپنی جان کے لئے تھیں۔ اسے
اپنے پیٹ کی اس چیز کے ساتھ اتنا لگاؤ ہو گیا تھا کہ اس کی خواہش تھی کہ اس
کے پیٹ سے نکلنے کے ساتھ ہی وہ خود بھی اس دنیا سے نکل جائے۔ وہ دل ہی دل
میں یہ دعا کئی بار مانگ چکی تھی کہ اس کی روح اس کے اس مجبور بدن سے فرار
ہو کر فضاؤں میں کہیں پناہ گزیں ہو جائے۔ لیکن اس کے منہ پر منوں وزنی تالے
لگے تھے۔ وہ صرف سسکیوں اور آہوں کے سہارے اپنے اظہار کو متعین کرنے کی
کوشش کر رہی تھی۔اسے کسی سے کوئی شکوہ نہ تھا۔ وہ بس زندگی سے ناخوش تھی۔
وہ یہبات سمجھنے سے قاصر تھی کہ آخر یہ سب کچھ کیوں ہوتا ہے؟ لیکن اسے جواب
دینے کے لئے اس کے دل مین جھانکنے والا کوئی نہ تھا۔ وہ ایک مجبورِ محض
بیوی تھی جسے ماں بننے کی اجازت نہ تھی۔
عورت کی بے بسی کے خاتمے کا دور دور تک کوئی امکان نظر نہیں آتا۔فطرت کے
خلاف کوئی قانون کامیاب نہیں ہو سکتا۔ انسانیت اسی بات کا نام ہے کہ ہر کسی
کو فطرت کے مطابق اس کا حق دیا جائے۔ لیکن انسان یہ انسانیت صرف دوسروں کو
سکھانے کے لئے استعمال کرتا ہے، اس پر خود عمل کرنا اس کا کام نہیں ہے۔عورت
کی کمزوری اس کی سب سے بڑی برائی بن جاتی ہے اور ہر معاشرے میں فطرت کی اس
پیاری تخلیق پر ظلم وستم کی مثالیں قائم کی گئیں ہیں۔
عورت کی تخلیق کے وقت کاتبِ تقدیر نے اپنی مشاورت کے لئے پھولوں کا انتخاب
کیا۔ پھولوں کا اپنا مقدر بھی یہی ہے: کسی کے پاؤں تلے روندے جانا، کسی کے
سر کی نذر کر دیئے جانا، کسی کے گلے کا ہار بن جانا، پھر اتار کر رکھ دیئے
جانا، پھر مرجھانے پر کوڑے میں پھینک دیئے جانا۔اس پھول نما انسان سے بھی،
صدیوں سے، انسانوں نے یہی سلوک روارکھا ہوا ہے۔
ابارشن کے تکلیف دہ پروسیس کے بعد کوثر جب باہر آئی تو اس سے چلنا ایسے
دشوار تھا جیسے وہ کسی دلدل میں قدم رکھ رہی ہو، جیسے وہ صدیوں سے یونہی
چلے جا رہی ہو، جیسے وہ کئی سال اپنی زندگی کے برباد کر چکی ہو، جیسے وہ
کسی پہاڑ پر چڑھ رہی ہو اور بس ابھی گری کہ ابھی گری۔ وہ زندگی سے اس قدر
بے زار ہو چکی تھی اور اپنے آپ کو یوں کوس رہی تھی: کاش وہ پیدا ہی نہ ہوئی
ہوتی، کاش وہ بچپن ہی میں اس سنگ دل دنیا سے جا چکی ہوتی، کاش اس نے کبھی
خالد کو دیکھا ہی نہ ہوتا، کاش وہ کبھی شادی ہی نہ کرتی۔ اس کے اندر بغاوت
کے وہ سارے جذبات پیدا ہو چکے تھے جو مجبور لوگوں کی آخری طاقت یا کمزوری
ہو تی ہے، آخر وہ وپنی آئی پے آہی جاتے ہیں۔ کوثر بھی اپنی آئی پے آ جانا
چاہتی تھی: وہ اپنے ہاتھوں سے اپنی زندگی کی آخری سانس کو الوداع کہنا
چاہتی تھی، وہ کسی دربار پر بیٹھے ملنگوں، بے کسوں اور بے سہاروں کا ایک
رکن بن کر اپنی زندگی اس مہذب دنیا کے جھوٹے معیاروں کو چھوڑ کر گزارنا
چاہتی تھی، وہ کسی نا معلوم جگہ بھاگ جانا چاہتی تھی جہاں اس کو اس کا ماضی
کبھی ملنے نہ آ سکے، وہ اپنے کسی جاننے والے خاص طور پر خالد کا تو منہ تک
نہیں دیکھنا چاہتی تھی، اگر اس کے بس میں ہوتا تو وہ بہت کچھ کر لیتی لیکن
وہ کیا کر سکتی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔کچھ بھی نہیں۔۔۔۔۔۔۔کیوں کہ وہ ایک عورت
تھی۔۔۔۔۔عورت ہی نہیں ایک بیوی تھی۔۔۔۔۔۔۔بیوی ہی نہیں بلکہ ایک مجبور بیوی
تھی۔۔۔۔۔۔۔جسے نہ آسماں سے کوئی شکوہ تھا نہ زمیں سے کوئی شکایت تھی۔ وہ
آسماں سے صرف یہ دعا مانگ رہی تھی کہ وہ اس کی قضا بھیج دے اور زمیں سے اس
کا مطالبہ صرف دو گز جگہ کا تھا جس میں وہ اپنے پاؤں پسار کر سو
سکے!!!!!!!!!!
کچھ قدم چلنے کے بعد اس کی نظر خالد پر پڑی جو ویٹنگ روم میں بیٹھا اس کا
انتظار کر رہا تھا۔ وہ اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھ رہا تھا کہ مطلوبہ
کام کروا آ ئی ہو یا نہیں ۔ اس کا چہرہ کسی قسم کی ہمدردی سے محروم تھا۔
خالد: کام ہو گیا؟
کوثر:( کمزور سی آواز میں) ہو گیا ۔
خالد : کوئی میڈیسن دی ڈاکٹر نے؟
کوثر:( ڈاکٹر کا لکھا نسخہ اس کی طرف کرتے ہوئے) اس میں دیکھ لیں۔
خالد : ( کچھ غصے کے ساتھ) ڈاکٹر نے زبانی کچھ نہیں بتایا
کوثر: (آنکھوں کے پپوٹوں کو ایک دوسرے پر رکھ کر دباتے ہوئے)نہیں!
کچھ لمحوں بعد ایک بار پھر کوثر موٹر سائیکل کی پچھلی سیٹ پر ایک زندہ لاش
کی طرح بیٹھی تھی اور اس کا مجازی خدا اسے صدیوں پرانے غاروں کی طرف گھسیٹے
جا رہا تھا۔ نظر نہ آنے والی رسی اس کے گلے میں پڑی تھی کیوں کہ وہ ایک
عورت تھی ،وہ ایک مجبور بیوی تھی ۔۔۔۔! |
|