تھر پارکر۔۔۔۔۔۔۔۔المیہ اور حل
(Tanveer Awan, Islamabad)
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
صحرائے تھر پاکستان کی جنوب مشرقی اور بھارت کی شمال مغربی سرحدی پر واقع
ہے،پاکستان میں واقع ضلع تھر پارکر کا کل رقبہ 19638کلو میٹر ہے، تحصیل
اسلام کوٹ، ڈیپلو،چھاچھرو، مٹھی اور ننگر پارکر پر مشتمل ضلع تھرپارکر اپنی
صحرائی وسعتوں میں قدرتی حسن بھی لیے ہوئے ہے، جس کا اظہار موسم برسات میں
ہوتا ہے ،جب مور اپنے خوبصورت پنکھ پھیلائے محو رقص ہوتے ہیں اور تلور،تیتر
اور اچھلتے کودتے ہرن تھر کی خوبصورتی میں اضافہ کر رہے ہوتے ہیں۔یہاں کی
خشک زمیں بارشیں ہوتے ہی انتہائی زرخیز ہو جاتی ہے ،یہی وجہ ہے اس وقت یہ
ایک حسین وادی کا نظارہ پیش کررہی ہوتی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی زمانے
میں تھر اور چولستان کے درمیان کبھی دریائے ہاکڑا بہاکرتاتھا جو ستلج کی
ایک شاخ تھی،اسی وجہ سے سکندر اعظم نے اس وادی کو دنیا خوبصورت چراگاہیں
قرار دیا تھا۔1873میں برٹش گورنمنٹ نے جنڈ،نا بھہاور پٹیالہ کے لیے ستلج سے
سرہند کینال نکالی تو ہاکڑا میں پانی آنا بند ہو گیا،اور یوں یہ چراگاہیں
ویران اورقدیم تہذیبیں قصہ پارینہ بن گئیں۔
چار موسم سمیت دریاؤں ،آبشاروں ،ندی نالوں ، قدرتی وسائل سے مالا مال ،وسیع
ذرعی زمین رکھنے والی مملکت خداد پاکستان ، جہاں ترقی کے سفر میں نئی راہوں
کو تلاش کیا جارہا ہے ،میٹرو بس ،اورنج لائن اور گرین لائن جیسے کثیر لاگت
منصوبوں پر کام تیزی سے جاری ہے ،جہاں توانائی ،نئی شاہراہیں ، پل اورجدید
ٹیکنالوجی کے حصول کی کوششیں خوش آئند ہیں ، وہیں تھر جیسے وسیع علاقے کے
باسیوں کاپینے کے صاف پانی،تعلیم ،بجلی اور صحت کی بنیادی سہولتوں سے محروم
رہنا سب سے بڑاالمیہ ہے۔
گزشتہ چند سالوں سے ضلع تھر پارکر حکومتی عدم توجہی کے باعث قحط، بھوک،
افلاس اور موت کی علامت بن چکا ہے، موت کا عفریت معصوم جانوں کو نگلتا جا
رہاہے،2015میں 376بچوں سمیت تقریباً ایک ہزار افراد غذائی قلت سے لقمہ اجل
بن گئے ہیں،رواں ماہ میں 101معصوم کلیاں مرجھا چکی ہیں ،جب کہ ضلع کے مختلف
ہسپتالوں میں 100سے زائد بچے موت وحیات کی کشمکش میں ہیں،گزشتہ روز اسلام
کوٹ ہسپتال میں گاؤں سینگارو میں آپریشن کی سہولت نہ ہونے کے باعث ایک ماں
اپنے بچے سمیت جاں بحق ہو گئی۔گزشتہ برس کی طرح اس سال بھی غذائی قلت اور
صحت کی سہولیات کا فقدان ہے جس کی وجہ سے ہلاکتیں بھڑنے کا اندیشہ ہے ،جب
کہ تھر کے باسی 400فلٹریشن پلانٹس کے حکومتی دعوؤں کے باوجود کڑوا اور
زہریلہ پانی پینے پر مجبور ہیں۔مقامی انتظامیہ کی عدم توجہی کی وجہ سے عوام
میٹھے پانی کی سہولیات سے محروم ہے اورپانی کے حصول کے لیے روزانہ گاؤں کی
خواتین کوتین سے چار کلومیٹر کا سفر کرنا پڑتا ہے۔
صوبائی حکومت ان رپورٹس کو اپنے خلاف سازش قرار دیتے ہوئے اس معاملے کو
قابل توجہ ہی نہیں سمجھتی،گزشتہ برس جب تک تھر کا معاملہ میڈیا میں زیر بحث
رہا تو حکومتی عہدہداران کی" آنیاں جانیاں"بھی لگی رہیں ، کچھ فوٹو سیشن
ہوئے اور پھر اسی طرح قحط زدہ علاقے اور بیماری ،بھوک اور افلاس سے تڑپتے
بچے ،ماؤں کی اجڑتی گودیں اور حسرت بھری نگاہیں ۔
یہ ایک المیہ ہے کہ حکومت کی جانب سے سندھ فیسٹیول جیسے سطحی پروگراموں پر
کروڑوں اڑا دیئے جاتے ہیں ،لیکن غیر معمولی توجہ کے حامل اتنے بڑے انسانی
المیے کے حل کی طرف کوئی توجہ نہیں کی جاتی ہے۔ ہسپتالوں میں سہولیات کے
فقدان،بھوک و پیاس اور بیماریوں سے تڑپتے اورمرتے تھری باشندے،پینے کے
میٹھے پانی کے مؤثر اور جامع حکمت عملی کا فقدان ،معصوم اور قیمتی جانوں کے
بچاؤ کے لیے اقدامات تو کجا سنجیدگی بھی کہیں نظر نہیں آتی۔ہسپتال تو موجود
ہیں مگر مطلوبہ عملہ اور سہولیات نہیں ہیں ،فلٹریشن پلانٹس تو ہیں لیکن
کارآمد نہیں ہے،خوراک تو ہے مگر گوداموں میں ذخیرہ ،یہ ایک طرف حکومتی
نااہلی کی آئنیہ دار ہے وہاں یہ بات بھی کھل کر سامنے آرہی ہے کہ تھر کے یہ
معصوم بچے مقامی انتظامیہ کی عدم توجہ اور بدانتظامی سے مر رہے ہیں۔وسائل
ہونے کے باوجود وہ عوام کے استفادہ سے کیونکر دور ہیں ؟ہسپتال ،فلٹریشن
پلانٹس اور اشیاء خورو نوش کی موجودگی میں تھر کے عوام بھوک ،پیاس اور
بیماریوں سے کیو ں مر رہے ہیں؟ گوڈگورننس کے دعوے دار وں کو تھر کی بے بس
ماں کیوں نظر نہیں آتی جس کے دامن کا پھول مرجھا گیا؟ ۔۔۔۔۔آٹھ سال سے
حکومتی ایوانوں کی زندگی سے لطف اندوز ہونے والوں کے پاس اس وقت کیا جواب
ہوگا جب میدان حشر میں یہ معصوم بچے ان کے خلاف دعویٰ کر رہے ہوں گے
۔۔۔۔۔اگر بھٹو زندہ ہے تو اپنے کردارمیں زندہ ہے،مگر آج سندھ کی بیٹی بھٹو
کے نام لیواؤں سے بنیادی انسانی حقوق کی بھیک مانگ رہی ہے اوراپنے آنگن میں
کھلے پھول کی زندگی مانگ رہی ہے۔
آخر کب تک ہم ہر المیے اور سانحے کے وقتی حل اور درعمل کے پیش نظر کچھ
اقدامات کرکے مطمئن ہوتے رہیں گے؟تھر پارکر کا المیہ مستقل منصوبہ بندی کا
متقٰضی ہے، ہمیں ان عناصر اور عوامل کو تلاش کرنا ہو گا جن کی وجہ سے یہ
ناگہانی صورت حال اور قومی المیے جنم لیتے ہیں،گوڈ گورننس ہمیشہ منصوبہ
بندی اور عوام کو ان کے حقوق ان کی دہلیز پر دینے سے ہی وجود میں آتی ہے۔
|
|