کھانے کا ضیاع!

 خود سعودی نشریاتی ادارے کی رپورٹ ہے، یہ کسی خفیہ ادارے کی رپورٹ نہیں، نہ ہی کسی ادارے کی سروے رپورٹ۔ کہا گیا ہے کہ صرف سعودی شہر مکہ میں تقاریب میں ضائع ہونے والے کھانے سے اٹھارہ ترقی پذیر ممالک کے سترہ فیصد بچوں کو خوراک مہیا کی جاسکتی ہے۔ اس ضائع شدہ کھانے سے خوراک کی قلت کا شکار 48لاکھ بچوں کو کھانا فراہم کیا جاسکتا ہے۔ یہ اندازہ تو صرف مکہ مکرمہ کی بابت لگایا گیا ہے، ابھی وہاں مدینہ منورہ بھی ہے اور ریاض اور جدہ بھی۔ ان تمام شہروں کا حساب کتاب کہاں تک پہنچے گا، یہاں کی بڑی تقاریب میں سے بچنے والا کھانا کتنا ہوگا، اور کتنے لاکھ (بلکہ کتنے کروڑ) بچوں کی ضرورت پوری کرسکتا ہے۔ دھن کی ریل پیل نے حالات کس قدر تبدیل کردیئے ہیں کہ ہر قسم کی روایات دم توڑتی جارہی ہیں۔ کوئی زمانہ تھا جب انسان خوراک کے حصول کے لیے بہت محنت کرتا تھا، تب جاکر وہ پیٹ کی آگ بجھانے کا بندوبست کر پاتا تھا۔ ترقی ہوتی گئی اور وسائل بڑھتے گئے، یوں خوراک کی ضرورتیں پوری ہوتی گئیں۔ مگر یہ سب کچھ ہر ملک میں اور ہر جگہ نہیں ہوا، ابھی دنیا میں بہت سے ملک خوراک کی کمی کا شکار ہیں۔

دنیا میں صرف سعودی عرب ہی نہیں جس کے شہروں میں ہونے والی تقریبات میں کھانا ضائع ہوجاتا ہے، بلکہ اکثر ممالک کا یہی عالم ہے۔ پاکستان کے شہر بھی اس معاملہ میں کسی سے پیچھے نہیں۔ بڑے ہوٹلوں میں جانے والے لوگ حساب کتاب کے قائل بھی نہیں ہوتے، کیونکہ ان کی جیب میں اس قدر روپے ہوتے ہیں، کہ جتنے بھی خرچ ہوجائیں، انہیں پرواہ نہیں ہوتی، نہ ہی فکر مندی دامن گیر ہوتی ہے کہ پیسے کم ہوجائیں گے، یا دیگر ضرورتیں پوری نہ ہوسکیں گی۔ یہی وجہ ہے کہ ہزاروں روپے فی کس کے حساب سے بھی کھانا کھایا جاتا ہے۔ کھانے کے ضیاع کی سب سے زیادہ امکان اس وقت ہوتا ہے، جب ہوٹلوں میں ’بوفے‘ کا بندوبست ہوتا ہے۔ کھانے کی قیمت تو مقرر کردی جاتی ہے، مگر کس نے کتنا کھانا ہے اور کوئی کتنا کھا سکتا ہے ، اس کا کوئی حساب نہیں ہوتا، بعض لوگ تو قیمت نکالنے کی پوری کوشش کرتے ہیں، اور بیسیوں ڈشوں میں سے کوئی ڈش بھی بغیر چکھے نہیں چھوڑتے، مگر بعض صاحبان ایسے بھی ہوتے ہیں جو پرہیزی کھانا کھاتے ہیں، یہاں وہ چند لقمے لیتے اور بھاری قیمت دیتے ہیں۔ بوفے میں یہ اصول کارفرما ہوتا ہے کہ کسی ڈش کی کمی نہیں ہونے دی جاتی، یوں جب کھانے کا وقت ختم ہوتا ہے تو تمام چیزوں کا بچنا فطری بات ہے۔ یہ بھی طے شدہ حقیقت ہے کہ جو چیز ایک دفعہ کھانے میں تیار ہوگئی تو دوسرے کھانے میں ہر چیز تازہ ہی ہونی چاہیے، یوں پچھلے کھانے والی تمام چیزیں ضائع ہی تصور ہوتی ہیں۔

اگر قحط زدہ دنیا پر نگاہ ڈالی جائے تو غریب اور مستحق لوگوں کی بھی کمی نہیں، کہیں قلت ہے، کہیں زلزلہ زدگان ہیں، کہیں سیلاب زدگان، کہیں جنگی حالات سے مہاجرین جمع ہیں تو کہیں حالات کی تباہ کاریوں نے لوگوں کو بھیک مانگنے پر مجبور کردیا ہے۔ یوں دنیا میں خوراک کی کمی والے بے شمار لوگ موجود ہیں اور دوسری طرف ضائع کرنے والے بھی کم نہیں۔ اگر کھانے سے قبل ہی یہ خیال کرلیا جائے کہ اتنا کھانا تیار کروایا جائے یا اسی کا آرڈر دیا جائے جتنا آسانی سے کھایا جاسکے، یا جتنا ضرورت ہو، تو یقینا خوراک بھی بچ سکتی ہے اور جیب پر بھی زیادہ بوجھ نہیں پڑتا۔ اور جن لوگوں کے پاس پیسہ حد اور ضرورت سے زیادہ ہے، وہ یہی شوق مستحق لوگوں کی مدد کے ذریعے پورا کر سکتے ہیں۔ اگرچہ اب ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو ضرورت مندوں کی ضرورتیں پورا کرنے کے لئے بہت زیادہ پیسے خرچ کرتے ہیں، فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔

مکہ مکرمہ کی اس قسم کی خبر سے لمحہ فکریہ بھی جنم لیتا ہے، یہ وہی سرزمین ہے جہاں معلمِ کائنات نے آنکھ کھولی، آپﷺ نے دنیا کو جہاں تہذیب کے تمام اسلوب سمجھائے اور زندگی گزارنے کے سلیقہ سکھایا وہاں کھانے کے بھر پور آداب سے بھی آگاہ کیا، بتایا گیا کہ اس وقت کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا جائے جب کچھ بھوک ابھی باقی ہو، اس ضمن میں سائنس اب حرف حرف کی تائید کرتی ہے۔ پلیٹ کو صاف کرنے کو لوگ اب بھی سنت پر عمل کرنے کا نام دیتے ہیں، حتیٰ کہ اگر کھانے کا کوئی ٹکڑا نیچے گر جائے اسے بھی اٹھا کر کھانے کا حکم ہے، مگر افسوس یہ کہ بہت زیادہ کھانے کے ضائع ہونے کی خبر بھی مکہ مکرمہ سے بھی آئی۔ خوراک بچانا اسلام کا تقاضا بھی ہے، حالات کا بھی اور اخلاق کا بھی۔ خاص طور پر ایسے وقت میں جب دنیا میں لاکھوں بچے غذائی قلت کا شکار ہوں۔
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 472481 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.