عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ دستورِہند دنیا کا طویل ترین آئین
ہے،چنانچہ ابتدا میں جب دستور تیار ہوا، تواس وقت یہ آٹھ جدول،بائیس حصے
اور 395 دفعات،جو تقریباً اسی ہزار الفاظ کو شامل ہیں، پر مشتمل تھا۔اب کسی
کے ذہن میں یہ بات کھٹک سکتی ہے کہ اس قدر طویل ترین قانون کس نے اور کتنے
دنوں میں ترتیب دیا؟ تو گواس کا تمام تر سہرا ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کو ہی
جاتا ہے، جو ڈرافٹنگ کمیٹی کے صدر تھے، تاہم حقیقت میں ہر مذہب اورہر مکتبِ
فکر کے ماہرین نے اپنے خونِ جگر سے ہندوستانی آئین کی تشکیل میں حصہ لیا ہے۔
در حقیقت قانون سازی کاآغاز تومسٹر ریمزی میک ڈونالڈ کے وقت ہی ہو چکا
تھا،جب وہ 1929میں برطانیہ کے وزیر اعظم بنے تھے، چنانچہ انہوں نے سائمن
سرجن( Serjon Symon )کی سفارش پربرطانوی نژاد ہندکے آئین پر بات کرنے کے
لئے ہندوستانی سیاستدانوں کو مدعو کرنے کا فیصلہ کیا، چونکہ ہندوستانی عوام
تقریباً برطانوی حکومت کے ظلم وبربریت والے قانون سے تنگ آگئی تھی، حتی کہ
ان کے بعض لوگوں نے بھی اُس قانون کو فطرت مخالف اور غیرانسانی تصور کیاتھا،
جس کے نتیجہ میں سن 1930 میں برطانیہ میں گول میز کانفرنس منعقد ہوئی، مگر
صد افسوس کہ یہ سنہرا موقع سیاست کی بھینٹ چڑھ گیا، مسلم لیگ اور کانگریس
کے درمیان بحث ومباحثہ کا لامتناہی سلسلہ چل پڑا اورہندوستانی سیاست کا رنگ
پھیکا پڑنے لگا،تاہم 8 اگست 1940 کو وائسرائے ہند لارڈلن لتھگو (Linlithgow
Lord) نے جنرل گورنر ایگزیکٹیو کونسل اور ایڈوائزری کونسل کی توسیع و قیام
کے بارے میں ایک قرارداد پیش کی،جس کو ’’اگست پیشکش‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے
، جس میں اقلیتوں کو مکمل حقِ رائے دہندگی اور انہیں خود کا آئینی مسودہ
تیار کرنے کی اجازت ملی ، پھر 1946 کی کابینہ مشن پلان کے تحت9 دسمبر 1946
کو آئین ہال (موجودہ پارلیمنٹ ہاؤس کا مرکزی ہال) میں قانون ساز اسمبلی کی
پہلی میٹنگ منعقد ہوئی ۔1946 کے اواخر اور 1947 کے ابتدائی زمانے میں مسلم
لیگ کے ارکان نے قانون ساز مجلس میں شرکت کی، لیکن 1947 میں بر صغیر
ہندوپاک کی تقسیم کے بعد مسلم لیگ کے بے شمار ممبران پاکستان ہجرت کرگئے
اور آج وہی پاکستانی آئین کے بانی بھی ہیں، جبکہ اس کے 28 ممبران اور مختلف
ریاستوں اور مختلف مذہب وملت سے چنندہ سیکڑوں ممبران نے مل کر26 نومبر 1949
کوآئینِ ہند کا مسودہ تیار کیاجو 26جنوری 1950 کو نافذ کیا گیااور پھر ہر
سال ہم اسی دن کو یوم جمہوریہ کے طور پر مناتے ہیں۔
یہاں کچھ سوالات آپ کے ذہنوں میں پیدا ہوسکتے ہیں کہ تقسیم کے بعد قانون
ساز مجلس میں کتنے مسلم ممبران باقی رہ گئے تھے ،نیز ان کے حیات و کارناموں
کی تاریخ کہاں ہیں؟ کیونکہ اس حوالے سے ہمارا آج کل کا مطالعہ صرف چند ہی
مسلم ناموں کے ارد گرد گھومتا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ قانون ساز مجلس میں
28 لوگ تو صرف مسلم لیگ کے ارکان تھے، جبکہ کئی مسلمانوں نے مختلف صوبوں سے
قانون سازمجلس میں شرکت کی اور انہوں نے صرف شرکت ہی نہیں کی؛ بلکہ اپنی
زبردست علمی مہارت،بے لاگ اور منصفانہ تجزیوں اور دلائل وبراہین سے دستورِ
ہند کو سجایا اور سنوارا ہے؛ چنانچہ 1949 کے اسمائے ارکان دستور ساز مجلس
کی فہرست کے مطابق 12 فیصد مسلم ارکان قانون ساز مجلس کے ممبر تھے، یعنی
302 اراکین میں سے 35 مسلم ممبران تھے اوریہ اعدادوشمار تو ان مسلم ممبران
کے ہیں، جن کے تذکرے مختلف کتابوں اور مضامین میں بکھرے پڑے ہیں ،جبکہ کوئی
نہیں جانتا کہ مزیدکتنے مسلم ممبران تھے،جو مذہبی،نسلی اور قبائلی تعصب کے
شکارہوئے ؟
یہ ایک لاریب حقیقت ہے کہ گو انسان مفاد پرستی کی غرض سے تاریخی واقعات میں
خرد برد کرنے کی ہزارہا سعی کرتاہے، مگر پھربھی تاریخ کے مشمولات اپنے
طالبِ علموں پر تمام گوشوں کو اجاگر کردیتے ہیں؛القصہ جب میں نے ابتدائی
قانون ساز اسمبلی کے ارکان کے حوالے سے کتابوں اور مضامین کو کھنگالنا شروع
کیا ، تو ایک لمحہ کے لیے حیران وششدر رہ گیا کہ حادثات نے جن چہروں
پرفراموش کاری کی سیاہی پوتنے کی کوشش کی ہے ، وہ نہایت ہی پر نور اور
زیورِ علم سے آراستہ تھے، ان کا فکروفن، علم وتدبر اور آگہی مثلِ آفتاب
تابندہ ودرخشندہ تھی، مگر ہماری حرماں نصیبی کہ ہم نے ان کے حیات
اورکارناموں کے ساتھ انصاف نہیں کیا،ان کے کارنامے تو درکنار ہم نے ان کے
ناموں کو بھی جاننے کی زحمت نہیں کی۔ اب اس طویل مدت کے بعدان سب کے اسما
کو بالتفصیل بتانا تو ممکن بھی نہیں، کیونکہ کہیں بعض کے صرف اسماملتے ہیں،
تو کہیں ان کامعمولی تذکرہ، البتہ میں نے اپنی تلاش وتتبع کے بعد اس مختصر
مقالے میں 35؍ مسلم ارکانِ قانون ساز مجلس کے اسمائے گرامی کوذکر کرنے کا
التزام کیاہے:
(1) مولانا ابوالکلام آزاد (11 نومبر 1888۔ 22 فروری 1958) ہندوستان کے
پہلے وزیر تعلیم
(2) عبدالقادر محمد شیخ
(3) ابوالقاسم خان (5 اپریل 1905 ۔ 31 مارچ 1991) جو A.K خان سے زیادہ
مشہورتھے، آپ بنگالی وکیل، صنعت کار اور سیاستدان تھے۔
(4) عبدالحمید
(5) عبدالحلیم غزنوی (1876۔1953)آپ ایک سیاستداں، تعلیمی اور ثقافتی امور
کے سرپرست اور زمینداربھی تھے۔
(6) سید عبدالرؤف
(7) چوہدری عابد حسین
(8) شیخ محمد عبداللہ (دسمبر 1905 ۔8 ستمبر1982)
(9) سید امجد علی (1907 ۔ 5 مارچ1997 )
(10) آصف علی ( 11مئی 1888 ۔ 1 اپریل1953 )آپ پیشے سے ایک وکیل تھے، آپ
پہلی بار ہندوستان کی طرف سے امریکہ کے سفیر مقرر ہوئے اورکئی سال تک
اڑیسہ(اوڈیشہ) کے گورنر بھی رہے۔
(11) بشیر حسین زیدی (1898 ۔ 29 مارچ 1992) عام لوگوں میں آپB.H. زیدی سے
زیادہ معروف تھے۔
(12) بی پوکر) (B.Pocker صاحب بہادر (1890۔1965) آپ وکیل اور سیاستداں تھے۔
(13) بیگم عزیز رسول (1908۔2001) سیاستداں اور قانون ساز اسمبلی میں واحد
مسلم خاتون۔
(14) حیدر حسین
(15) مولاناحسرت موہانی(معروف شاعر،مجاہدِ آزادی،اردوے معلی کے بانی مدیر)
(16)حسین امام
(17) جسیم الدین احمد
(18) کے ٹی ایم احمد ابراہیم
(19) قاضی سید کریم الدین۔ ایم اے، ایل ایل بی (19 جولائی 1899 ۔14 نومبر
1977)
(20) کے اے محمد
(21) لطیف الرحمن
(22) محمد اسماعیل صاحب (1896۔1972) انڈین یونین مسلم لیگ سے تعلق رکھنے
والے ایک ہندوستانی سیاستداں تھے، راجیہ سبھا اور لوک سبھا دونوں کے رکن
تھے ،کیرل ان کا آبائی وطن تھا جہاںآپ کو’’قائدِ ملت‘‘ کے لقب سے جانا جاتا
تھا۔
(23) محبوب علی بیگ صاحب بہادر (ہندوستانی قانون ساز اسمبلی کے ممتاز رکن
،جنہوں نے اقلیتوں کے مسائل کی نمائندگی میں ایک اہم کردار ادا کیا، خاص
طور پرآزادیِ مذہب کے حوالے سے آپ نے کئی ترمیمات اور اضافے کیے)۔
(24) محمد اسماعیل خان
(25) محمد حفظ الرحمن
(26) محمد طاہر
(27) شیخ محمد عبداللہ ) 5 دسمبر 8-1905ستمبر (1982 سیاستداں اورصوبۂ جموں
و کشمیر سے آئین ساز اسمبلی کے ممتاز رکن تھے۔
(28) مرزا محمد افضل بیگ
(29) مولانا محمد سعید مسعودی
(30)نذیر الدین احمد
(31) رفیع احمد قدوائی ( 18فروری 1894۔ 24 اکتوبر 1954)معروف
مجاہدِآزادی،کانگریسی لیڈراورآزادہندوستان کے پہلے وزیرمواصلات)
(32) راغب احسن
(33) سید جعفر امام
(34) سر سید محمدسعد اللہ ( 21 مئی 1885 ۔ 8 جنوری 1955) آسام کے پہلے وزیر
اعلی ۔
(35)تجمل حسین
قانون ساز اسمبلی میں مولانا ابوالکلام آزادؒ کی شراکت اور آئین کا مسودہ
تیار کرنے میں ان کے کارنامے کو کبھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، ان کی
نگرانی میں ایک بڑی تعدادمیں آئین کی تصحیح وتخریج کا کام کیا گیا، انہوں
نے مختلف مذاہب،قبائل اورکثیرلسانی وتہذیبی ملک ہندوستان کے لوگوں کے لیے
قانون کو متوازن اور معتدل بنانے میں ایک اہم کردار ادا کیا، تعلیمی نظام
کو بہتراورخوب تربنانے کے لیے آپ نے بہت ساری ترمیمات اور اضافے کیے ، یہی
وجہ تھی کہ انہیں ہندوستان کا پہلا وزیرِ تعلیم نام زد کیا گیا اور بحیثیتِ
وزیرِ تعلیم انہوں نے بے شمار تعلیمی ، تعمیری اور اصلاحی کام انجام دیے
،انھوں نے اپنی وزارت کے دوران سائنس،آرٹس اورادب کوفروغ دینے کے لیے
متعددادارے قائم کیے،جواب بھی نہ صرف موجودہیں؛بلکہ قابلِ قدرخدمات انجام
دے رہے ہیں۔ ان کے انہی کارناموں کو زندہ وتابندہ رکھنے کے لیے ان کے یومِ
پیدائش کے موقع پر ہرسال پورے ملک میں ’’قومی تعلیمی دن‘‘ منایا جاتا ہے۔
لفظِ’ ’ اقلیت ‘‘ قدیم زمانے سے ہی ہمارے خوش حال ہندوستان کے لیے منحوس
ثابت ہواہے،چنانچہ یہ جناب تجمل حسین ہی تھے جنہوں نے قانون ساز مجلس میں
بہ آوازِ بلند اس لفظ کی مخالفت کی اور کہا:’’اقلیت کی اصطلاح برطانوی
تخلیق ہے اور جب وہ چلے گئے، تو اس لفظ کو بھی چلا جانا چاہیے ، برائے
مہربانی اس لفظ کو اپنی لغت سے غائب کردیجیے ، ہندوستان میں کوئی اقلیت میں
نہیں ہے ، بلکہ تنوع میں وحدت ہی ہماری پہچان ہے ‘‘۔
بیگم عزیز رسول، متحدہ صوبہ جات کی طرف سے آئین ساز اسمبلی میں اکلوتی مسلم
خاتون تھیں،جنہوں نے کئی اہم مسائل کی طرف ارکان کی توجہ مبذول کرائی ،
وزرا کے لیے آفس اور وقت کی تعیین ،جس میں وہ وہ تندہی اور یکسوئی کے ساتھ
لوگوں کے مسائل حل کرسکیں یہ انہی کاعظیم کارنامہ ہے،تقسیم کے وقت جب
اقلیتوں نے ہندوستان میں اپنے مستقبل کو غیر محفوظ خیال کیا ، تو یہ وہی
دلیر خاتون تھیں جنہوں نے قانون ساز اسمبلی میںیہ کہا تھا:’’میرے گمان کے
مطابق ریزرویشن خودایک تباہ کن ہتھیار ہے، جو ہمیشہ کے لیے اقلیت کو اکثریت
سے جدا کردے گا، پھر اقلیتوں کے لیے کوئی موقع نہ ہوگا کہ اکثریت کی
اچھائیوں کو سمجھ سکیں اور یہی علیحدگی پسند اور فرقہ واریت کو جنم دیتا ہے
، جسے ہمیشہ ہمیش کے لیے معاشرہ سے دور کردینا چاہیے۔‘‘
دستور سازی کے وقت صرف اقلیتوں ہی کے مسائل نہیں تھے،مسلم ممبران نے بے
شمار جگہوں پر ارکانِ مجلس کی توجہات کو متعدد ترامیم اور نظر ثانی کی طرف
مبذول کرایا ، انہوں نے آئین کو مؤثر اور قابل عمل بنانے کے لئے بے لاگ
اورمنصفانہ تجزیے کیے ، یہ وہ مسلمان تھے جو صرف قانون داں ہی نہیں تھے،
بلکہ ان میں سے کئی تو دوسرے ممالک کے قوانین کے حفاظ ، وکلا اور بیرسٹر
تھے،مگر صد افسوس کہ ان نابغۂ روزگار شخصیات کے حیات وکارناموں پر آج تک
ایک کتاب بھی تصنیف نہیں کی گئی اور نہ کسی مقالہ نگارنے ان کے کارناموں کو
یکجا کرنے کی زحمت کی؛تاکہ وہ ذہنوں میں زندہ رہتے ، آزادی کے بعدکے کچھ
تنگ ذہن مصنفین نے توان کی کارگزاریوں پرخطِ نسخ پھیراہی،مگران کے ساتھ ہم
نے بھی شعوری یا غیر شعوری طورپر ان کو اور ان کے کارناموں کو فراموش
کردیا، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ آئینِ ہند؛ بلکہ تاریخِ ہند خواہ کوئی بھی
لکھے،مسلمانوں کے بغیر کبھی مکمل ہو ہی نہیں سکتی ، اگرہم اپنے ان محسنوں
کے تئیں دیانت داری سے کام لیتے اور کسی بھی قسم کے تعصب کو روا نہیں
رکھتے، توہم کب کے چاند پر پہنچ چکے ہوتے اور یہ ملک وہاں نہیں ہوتا جہاں
آج ہے!!! |