شام تنہائی .قسط :31

........................تین سال بعد ........................ وقت کھبی رکتا نہیں ....نہ ہی کوئی گزرا ہوا پل واپس پلٹ سکتا ہے ...زندگی ایک امتحان ہے ...آگے جانئے اس تین سال کے عرصہ میں کیا جگن کے اس دنیا سے جانے کے بعد کسی کو فرق پڑا کیا اغوا کی گئی فرح یوں ہی گناہ کی دلدل میں پھنسی رہے گی کیا... اس کی سسکتی ,تڑپتی ,بے جان زندگی میں خوشی کا کوئی پھول کھل پاے گا ... کیا سلمان کو اس کی کھوئی ہویی محبت مل جائے گی . کیا پارس کی شدید محبت ..شاہ زر جسے پتھر دل ....میں کوئی احساس جگا پاے گی کیا شاہ زر پارس سے شادی کر لے گا
 دیکھو آج پھر سے شب ہجراں ہے
اور تم ٹوٹ کے یاد آے ہو ..

اب میں ترپوں گا رات بھر تنہا ..
کیوں کرنے مجھ کو برباد آے ہو ..

زندگی کے سنگین لمحے ہیں ..
اور تم آرزو کی بن کے فریاد آے ہو .

خواب ٹوٹنے میں اب نہیں دوں گا
دل کی بستی تم کرنے آباد آے ہو .

کیا سمجھوں میری دہلیز پہ تیرا قدم
مجھے تنہایوں سے تم کرنے آزاد آے ہو

بھلا دیتا تمھاری سبھی کوتاہیوں کو
مگر تم بہت دیر کے بعد آے ہو


صفحہ نمبر ٦
میں کانوں میں گولڈن جھمکے ڈالتے ہویے ...بہت خوش دکھائی دے رہی تھی ....اس نے آئینے میں اپنا عکس دیکھا ...تو اس کی نظر اپنے پیچھے کچھ فاصلے پہ صوفے پہ بیٹھے رضا پہ پڑی ....
تو اس نے شرما کر اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپا لیا ....
ایسے کیا دیکھ رہے ہو رضا ...''
وہ مسکراتے ہویے ....پیچے مڑ کر بولی ...
اور آہستہ آھستہ چلتے ہویے رضا کے پاس ...اس کے پیروں میں ریڈ کارپٹ پہ بیٹھ گئی ...
دیکھ رہا ہوں ...''یہ جھمکے اتنے قیمتی تو نہیں ...''مگر تمہارے خوبصورت چہرے نے جتنا
انھیں خوبصورت بنا دیا ہے ...''ویسے ہی جسے تمہارے ساتھ نے میری زندگی کو حسین بنا دیا ہے ...'
'
ایسی باتیں نہ کرو رضا ....''
رنگ تو تم نے میری اس بے رنگ ...بے جان ...''اور سونی زندگی میں بھر دیے ہیں ....'
'اس روشنیوں اور رنگوں سے سجے محل میں میری آنکھیں تھک جاتی تھیں ....''
تم ہی نے مجھے روشنیوں کے پیچھے چھپے اندھیرے میں ....''اس کا چمکتا ہوا جگنو میرے ہاتھ میں تھمایا ہے ....''میں نے تو اب جانا ...'' کہ
اصل میں روشنی کسے کہتے ہیں ...''
زندگی کسے کہتے ہیں ....''
رضا تم مجھے چھوڑ کر تو نہیں جاؤ گے ...''
رضا خاموشی سے اس حسین چہرے کو دیکھ رہا تھا ....
بولو رضا...'' پلیز تم مجھے یہاں سے کہیں دور لے جاؤ ...''بہت دور ...''
رضا چپ کیوں ہو ...''کچھ تو بولو ...''
مجھے کبھی کبھی تمھاری یہ خاموشی خوف میں مبتلا کر دیتی ہے ....''اس نے اپنے ہاتھوں کو رضا کے ہاتھوں پہ رکھتے ہی پوچھا ....
رضا اپنے ہاتھ چھڑا کر باہر کی طرف بڑھا ...

.......... .........................

پارس آفس کے دروازے پہ پہنچی ....تو اس کی آنکھوں کی نمی بھڑنے لگی ....اس نے بمشکل خود پہ کنٹرول کیا ....اور آفس کا دروازہ دھکیل کر اندر داخل ہوئی ....مگر سامنے کا منظر دیکھ کر اس کا حلق کڑوا ہو گیا ....سامنے شاہ زر کے سامنے فائل کھلی پڑی تھی ...وہ اردگرد سے بے نیاز ...فائل میں مگن تھا .....اس کے پاس ہی چیئر پہ نعمان بیٹھا ہوا تھا ....
وہ آج شاہ زر سے دو ٹوک بات کرنا چاہتی تھی ....
مگر وہ صرف نعمان کی وجہ سے اس سے بات نہیں کر سکتی تھی ....اسے نعمان پہ بہت غصہ آیا .....
اب تو شاہ زر کا رویہ بھی اس کے ساتھ بہت روڈ رہتا تھا ....اور پارس کو لگتا تھا ....کہ اس کے روئیے میں تبدیلی نعمان کی وجہ سے تھی ....اب نعمان زیادہ تر شاہ زر کے آفس میں ہی پایا جاتا تھا ...
یہ شخص نجانے کیوں میرے ہر معاملے میں دخل دیتا ہے ....''اس نے دل میں سوچا ....اب وہ واپس اپنے روم کی طرف جا رہی تھی ....اس کے اندر تشنگی بھڑھتی جا رہی تھی ....
اب وہ اس اذیت سے نجات چاہتی تھی ...آخر کب تک یوں تنہا وہ عشق کی آگ میں جلتی رہتی ....
پارس کی محبت دن بہ دن بھڑھتی چلی جا رہی تھی ....اب وہ اس کرب ...''اس جدائی ...''اور شاہ زر کی بے حسی سے تنگ آ چکی تھی ....
آج سے تین سال پہلے شاہ زر نے اس کے پاپا سے کہا تھا کہ وہ ابھی شادی نہیں کرنا چاہتا ...اس کے بعد ان دونوں میں کوئی بات نہ ہوئی ...
پارس اس کے انتظار میں تھی ....کہ کب وہ اسے کہے کہ ...
پارس میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں ....تمھیں پانا چاہتا ہوں ...''
مگر آج تک اس نے ایسی کوئی بات نہ کی تھی ...جسے سننے کو پارس کی سماعت ترس گئی تھی ...
ساری رات سوچنے کے بعد اس نے
ارادہ کر لیا تھا ...کہ وہ صبح شاہ زر سے بات ضرور کرے گی ....تا کہ وہ اس درد تنہائی سے نجات پا سکے ...مگر آفس میں شاہ زر کے ساتھ بیٹھے نعمان کی وجہ سے وہ بات نہ کر پائی ...
اسے تو ویسے بھی نعمان بہت برا لگتا تھا ....
اس کی نفرت میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا تھا ...

...................................

ایک ماہر رقاصہ کی طرح اس کا پورا وجود حرکت میں تھا ...,تیز میوزک کے ساتھ ساتھ اس کے ہاتھ پاؤں چل رہے تھے ...
وہ سفر جس کا آغاز اس نے ...یا اس کی قسمت نے کانٹوں سے کیا تھا ...اب اس سفر کی وہ عادی ہو چکی تھی ...اب اس سفر میں اس کی رفتار بہت تیز ..تھی جبکہ یہ سفر کانٹوں اور گہرے اندھیروں کا سفر تھا ....جس میں وہ تنہا تھی ...
نجانے اس سفر کی کوئی منزل تھی یا نہیں ...
یا اس سفر میں اور بھی کٹھن راستے تھے ...
وہ ہر بات سے بے خبر تھی ...
اب وہ اور دوسری لڑکیوں کو سکھاتی تھی ...حسنہ اب اس سے بہت خوش تھی ...
اب وہ تیرہ سال نہیں ...
بلکہ سولہ سال کی بے حد خوبصورت لڑکی تھی ....
اب وہ پہلے سے زیادہ حسین اور پر کشش ہو گئی تھی ....پہلے سے بہت بدل گئی تھی ....
اب اس کا نام فرح نہیں تھا.
وہ آرزو تھی ...
وہ آرزو جس کی اپنی آرزوئیں مر چکی تھیں ....
حسنہ ان لڑکیوں کو ٹریننگ دے کر ....آگے بڑے کوٹھے
پہ بیچ دیتی تھی ....اور اس طرح وہ بے پناہ پیسہ کماتی تھی ....
تین سال کی ٹریننگ کے بعد آرزو بھی آگے بھیجے جانے
کے لئے تیار تھی ....
پھل پک چکا تھا ....اب اسے بڑی مارکٹ میں بیچنا تھا ...اب وہ کہاں جانے والی تھی ....اس بات سے وہ بے خبر تھی ....

...........................................

اس نے ڈائری کا صفحہ پلٹا ...
صفحہ نمبر ٧
رضا جب سے گیا تھا واپس نہیں پلٹا تھا
اس کی نگاہیں دیے کی روشنی پہ ٹکی ہوئیں تھیں ...
بہت مایوس اور اداس سی تنہا اندھیرے کمرے میں بیٹھی تھی ....
بہت سے آے ...بہت سے گئے شاید وہ بھی ان میں سے ایک تھا ....
اس نے دیے کو بجھانے کے لئے اس پہ ہاتھ رکھنا چاہا ....
مگر
آہٹ پہ اس کا ہاتھ رک گیا

جاری ہے ......
hira
About the Author: hira Read More Articles by hira: 53 Articles with 64024 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.