عموماً سادہ لوح مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ
مختلف مسالک کی موجودگی سے فرقہ واریت کو ہوا ملتی ہے، لہٰذا ہمیں تمام
مسالک کی نفی کر کے صرف اِسلام کے لئے کام کرنا چاہیئے۔ ایسا تصور اِسلام
کے بنیادی تصورات کے منافی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسالک کا وُجود اِسلام کی
بنیادی تعلیمات کے منافی نہیں ہے۔ اِسلام میں نہ صرف مسالک کی گنجائش موجود
ہے، بلکہ اُن کے وُجود کی اصل بھی قرآن و سنت سے ثابت ہے۔ مثلاً سورہ فاتحہ
میں ہے:
اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَo صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ
عَلَيْہِمْ
’’ہمیں سیدھا راستہ دکھاo اُن لوگوں کا راستہ جن پر تو نے اِنعام فرمایا۔‘‘
الفاتحه، 1: 5، 6
یہاں اللہ ربّ العزت بندے کو سیدھی راہ مانگنے کی تلقین کرتے ہوئے اِنعام
یافتہ بندوں کا راستہ اِختیار کرنے کا حکم فرما رہا ہے۔ غور طلب بات یہ ہے
کہ جب بلاشک و شبہ اصل سیدھی راہ قرآن و حدیث کی راہ ہے تو سیدھی راہ طلب
کرنے کے جواب میں اللہ اور اُس کے رسول کی راہ پر چلنے کی ہدایت کی جانی
چاہیئے تھی، مگر اللہ تعالیٰ نے یہاں سیدھی راہ کی وضاحت اِنعام یافتہ
بندوں کی راہ کے طور پر کی۔ فرمایا:
صِرَاطَ الَّذِيْنَ أَنْعَمْتَ عَلَيْہِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْہِمْ
وَلَا الضَّآلِّيْنَ
’’اُن لوگوں کا نہیں جن پر غضب کیا گیا ہے اور نہ (ہی) گمراہوں کا‘‘
الفاتحه، 1: 7
سورہ فاتحہ کی ان آیات کی روشنی میں ایک اُصول واضح ہوتا ہے کہ ہر مسلمان
کو اُس سیدھی راہ کا طالب ہونا چاہئے، جو اللہ ربّ العزت نے اُمت کے بعض
اَفراد کے حوالے سے مقرر فرمائی۔ چنانچہ تلاشِ حق کے لئے ایسے برگزیدہ
بندوں کو تلاش کرنا اور اُن کی راہ پر چلنا اَمر الٰہی سے ثابت ہوا اور
اِسی طرح یہ بھی ثابت ہو گیا کہ ایسے لوگوں کو بھی پہچانا جائے، جن پر اللہ
کا غیض و غضب نازِل ہوا تاکہ کہیں غلطی سے آدمی اُن کے پیچھے نہ چل پڑے۔
ہدایت یافتگان کی تلاش اور گمراہ لوگوں کی پہچان نے ہمیں مسلک تک پہنچا
دیا۔ مختلف مسالک کے بانیان ہی دراصل اِنعام یافتہ بندے ہیں۔ اِمام اعظم
ابو حنیفہ، اِمام احمد بن حنبل، اِمام شافعی اور اِمام مالک رحمۃ اللہ
علیہم یہ سب اِنعام یافتہ لوگوں میں سے ہیں، اِسی طرح سیدنا شیخ عبدالقادر
جیلانی، خواجہ معین الدین چشتی، شیخ شہاب الدین سہروردی وغیرہ نے رُوحانی
مسالک کی بنیاد رکھی۔ ہر ایک نے اپنی اپنی فیلڈ میں قرآن و سنت کے پیغام کو
جمع کیا، عام مسلمان کو حکم ہوا کہ تم اِن اِنعام یافتہ بندوں کی راہ پر
چلو۔ یہی مسلک کے جواز کی بنیاد ہوگئی۔
اِسی طرح حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
عَلَيکُم بِسُنَّتِی وَ سُنَّةِ الخُلفاءِ الرَّاشِدِينَ المَهْدِيِّين
’’تم پر میری سنت اور میرے خلفاء راشدین کی سنت پر عمل کرنا لازم ہے۔‘‘
مستدرک حاکم، 1: 174، رقم: 329
اُن خلفاء راشدین اور اَئمہ اَربعہ نے سنتوں کو جمع کیا، ترتیب و تدوین کی،
عام لوگوں نے اُس سے اِکتساب فیض کیا، اُسی کا ٹیکنیکل نام مسلک پڑگیا،
مسلک اس کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں۔
ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
فَاسْأَلُوا أَهلَ الذِّکرِ إِن کُنتُم لَا تَعلَمُون
’’سو تم اہلِ ذکر سے پوچھ لیا کرو اگر تمہیں خود (کچھ) معلوم نہ ہوo‘‘
النحل، 16: 43
اِسی طرح اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَی الرَّسُولِ وَ إِلَی أُولِی الْأَمْرِ مِنهُم
لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنهُم
’’اور اگر وہ (بجائے شہرت دینے کے) اُسے رسول ( صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم )
اور اپنے میں سے صاحبانِ اَمر کی طرف لوٹا دیتے تو ضرور اُن میں سے وہ لوگ
جو (کسی) بات کانتیجہ اَخذ کر سکتے ہیں اُس (خبر کی حقیقت) کو جان لیتے‘‘۔
النساء، 4: 83
قرآنِ مجید میں جا بجا ایسے لوگوں کی طرف رُجوع کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
تاریخ اِسلام میں ایسی کئی بڑی بڑی ہستیاں گزری ہیں، جنہوں نے دین اور
شریعت کے اُصول و فروع کو جمع کیا اور یوں اُس کی مرتب شدہ صورت کو مسلک کا
نام دیا گیا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مختلف مسالک کیوں وُجود میں آئے؟ ایک سادہ سی
قابل فہم بات یہ ہے کہ یہ کوئی لازمی امر تو نہیں کہ ساری اُمت کسی ایک
اِمام یا دو اِماموں سے اِتفاق کر لے۔ یہ بھی ممکن نہیں تھا کہ ایک بات کسی
ایک اِمام سے پوچھ لی جائے اور دُوسری کسی اور سے، یوں تو زندگی میں تضاد
آجاتا اور زندگی میں نظم پیدا نہ ہوتا۔ اس لئے علماء نے ایک نظام وضع کر
دیا کہ جس کو جہاں سے زیادہ اِطمینان نصیب ہو وہ اُسی اِمام سے جملہ اُمور
میں رہنمائی حاصل کرے تاکہ زندگی اِنتشار و اِفتراق سے بچ جائے۔ یہ تمام
مسالک دراصل ایک ہی دریا سے نکلنے والی مختلف نہریں ہیں اور جو اُن مسالک
کے پیروکار تھے وہ دراصل ان نہروں سے سیراب ہونے والے لوگ تھے۔
بعض مسلمانوں کا مختلف مسالک کی موجودگی کو فرقہ واریت کا سبب سمجھنا قرین
اِنصاف نہیں۔ مسلک کے نام پر آج کل جو کچھ ہو رہا ہے وہ کسی سے مخفی نہیں
مگر مسلک نفرتوں اور کدورتوں کو بڑھانے کے لئے وجود میں نہیں آئے تھے۔ ایک
سادہ مثال ملاحظہ ہو کہ اِمام شافعی جب اِمام ابوحنیفہ کے مزار پر حاضری
دیتے اور اُن کی مسجد میں نماز اداکرتے تو رفعِ یدین نہ کرتے۔ شاگردوں میں
سے کسی نے پوچھا کہ حضرت! آپ نے اپنی تحقیق کے خلاف عمل کیوں کیا؟ آپ نے
فرمایا: درست ہے، مجھے اپنی فقہی تحقیق پر اِعتماد اور اِطمینان ہے، مگر
اِتنے بڑے اِمام کی بارگاہ میں آ کر اپنی تحقیق پر عمل کرتے ہوئے مجھے شرم
آتی ہے۔ مسالک کے بانیان کے ہاں تو اِس قدر رواداری پائی جاتی ہے جب کہ اُن
کے نام لیوا آپس میں مناظروں سے کم بات نہیں کرتے۔ اگر تحمل اور برداشت کا
یہ عمل اُمتِ مسلمہ میں جاری رہتا تو آج حالات اِتنے دِگرگوں نہ ہوتے۔
(برائے مزید معلومات ملاحظہ ہو: خطاب شیخ الاسلام ڈاکٹرمحمدطاہرالقادری ،
سی ڈی نمبر: 894) |