اِجتہاد کی ضرورت و ناگزیریت
ہر دین کے دو پہلو ہوتے ہیں۔ ایک اُس کا بنیادی ڈھانچہ ہوتا ہے، اس کے
بنیادی اُصول ہوتے ہیں۔ اِسلام کے بنیادی اُصول قرآن و سنت ہیں،جو نہ کبھی
بدلے ہیں نہ بدلیں گے۔ جو قرآن و حدیث میں آ گیا وہ قیامت تک کے لئے ابدی
ہدایت ہے۔ آسمانی ہدایت چونکہ اِنسان کا بنایا ہوا قانون نہیں ہوتا اِس لئے
وہ کبھی پرانا نہیں ہوتا۔ جب کہ اِنسان کے بنائے گئے قوانین وقت گزرنے کے
ساتھ ساتھ پرانے ہو جاتے ہیں۔ اِنسان کی بصیرت اِس بات سے آگاہ نہیں ہوتی
کہ ایک سو سال بعد اِنسانی معاشرے کی ضروریات اور مؤثراتِ حیات کیا ہوں گی۔
وہ اُنہیں جاننے سے قاصر ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جوں جوں معاشرے میں
تبدیلیاں آتی ہیں، اِنسان کے بنائے ہوئے قوانین میں تبدیلیاں آتی چلی جاتی
ہیں، تاکہ اُسے بقاء مل سکے اور وہ زمانے کے تبدیل شدہ تقاضوں پر پورا اُتر
سکے۔ خدا کا بنایا ہوا قانون اگر اپنی اصل حالت میں محفوظ ہو اور اُس میں
تحریف نہ کر دی جائے۔۔۔ جیسے قرآن مجید اور حدیث نبوی کا ٹیکسٹ آج تک محفوظ
ہے۔۔۔ تو چونکہ وہ خالقِ کائنات کی وحی پر مبنی ہوتا ہے اِس لئے وہ جب
ہدایت دیتا ہے تو قیامت تک کی ضروریاتِ اِنسانی کو پہلے ہی جانتا ہے۔ یہی
وجہ ہے کہ اسلام کے بنیادی اُصول کبھی تبدیل نہیں ہوتے۔
دین کا دُوسرا پہلو اُس کا اِنتظامی، تعبیری و تشریحی اور معروضی پہلو ہوتا
ہے۔ یعنی خدا کے قانون کی شرح کرنا، تشریح و تفسیر کرنا اور اُسے بحیثیتِ
نظام زندگی میں لاگو کرنا۔ دُنیا کے مختلف ممالک، مختلف معاشروں اور مختلف
زمانوں میں چونکہ زمان و مکان کے تبدیل ہونے سے حالات بدلتے رہتے ہیں اِس
لئے اِنسانی زندگی مسلسل اِرتقاء میں ہے۔ معاشی، سیاسی، معاشرتی، سماجی،
نفسیاتی اور ثقافتی مؤثراتِ حیات میں مسلسل تبدیلی آتی رہتی ہے۔ جو دین
بدلتے ہوئے حالات کا مقابلہ نہ کر سکے وہ آؤٹ ڈیٹ ہو جاتا ہے، اور اِسلام
آؤٹ ڈیٹ ہونے والا دین نہیں۔ اِسلام جہاں قدیم ہے وہیں جدید سے جدید تر بھی
ہے۔ اِسلام کی تمام تر تعلیمات اُن جدید سے جدید ضرورتوں کو بھی کفالت کرتی
ہیں، جہاں آج اِنسانیت ترقی کرتے کرتے پہنچی ہے۔
اِسلام کے بنیادی اُصولِ فقہ و قانون میں قرآن و سنت کے بعد دو ایسے اُصول
رکھے گئے ہیں، جو اُسے آؤٹ ڈیٹ نہیں ہونے دیتے۔ قرآن و حدیث کے بعد تیسرا
مآخذ اِجتہاد کا ہے۔ پھر اُس اِجتہاد کی ایک اِجتماعی صورت ہے اور ایک
اِنفرادی۔ اگر کسی دور کے باصلاحیت اُصولیین اور مجتہدین کا کسی اِجتہادی
مسئلہ پر اِجتماعی طور پر اِتفاق ہو جائے تو وہ اِجماع کہلاتا ہے۔ اور اگر
وہ کسی اکیلے مجتہد کی اِنفرادی رائے ہو تو وہ قیاس کہلاتا ہے۔ پھر اُس
اِجتہاد کی آگے بہت سی اَقسام ہوتی ہیں، جو اِستصلاح، مصالحِ مرسلہ،
اِستحسان، اِستصواب، عرف و عادہ وغیرہ کہلاتی ہیں۔ قرآن و حدیث کے بعد یہ
دس ایسے گوشے شریعت نے رکھے ہیں جو تبدیل ہونے والے حالات میں تعبیر و
تشریح کو بدلتے چلے جاتے ہیں۔ اِس میں اِرتقاء کی گنجائش ہے، یہی وجہ ہے کہ
اِسلام ایک جامد دین نہیں ہے، بلکہ ایک متحرک زندہ حقیقت ہے۔ بدلتے ہوئے
حالات میں نئی تعبیر و تشریح کی گنجائش باقی ہے، مگر ہر تبدیلی، تعبیر اور
ہر شرح اور ہر نفاذ کا جو نیا ضابطہ بنے گا، اُس کے پیچھے بنیادی ہدایت
قرآن و حدیث کی نص ہو گی۔ اُسے قرآن و حدیث سپورٹ کریں گے۔
یہی وجہ ہے کہ شروع سے ہی اِسلامی شریعت کی چار پانچ بڑی تعبیرات کو وُجود
ملا۔ فقہ، اِسلامک لاء اور اِسلامی اُصول فقہ، جسے اہل السنہ میں حنفی،
مالکی، شافعی اور حنبلی کہتے ہیں اور اہل تشیع میں جعفری کہتے ہیں، ان سب
فقہی مذاہب کی شریعت ایک ہے، ایک ہی قرآن ہے، ایک ہی حدیث ہے، سب کا مآخذ
ایک ہے۔ مگر یہ چار مذاہب اس لئے وُجود میں آئے تاکہ اُمت کے ہر آنے والے
دَور کی کفالت کی جا سکے۔ ان کی مثال ایسے ہو جاتی ہے جیسے پاکستان کا آئین
ہے۔ یہ فیڈرل قانون ہے، جس سے پورا ملک چلایا جاتا ہے۔ اُس فیڈریشن کے نیچے
چار پانچ صوبے ہیں، اور تمام صوبوں کی اپنی قانون ساز اسمبلیاں ہیں اور اُن
صوبوں کی اپنی علاقائی صوابدید کے تحت بھی قانون سازی ہوتی ہے۔ مگر آئین
اور دستور ہمیشہ سب کے اُوپر ایک ہی رہتا ہے۔ تعبیر و تشریح میں ہر صوبہ
اپنے معروضی حالات اور ضروریات کے مطابق قانون سازی کا اِختیار رکھتا ہے،
اور کسی صوبے کا قانون آئین سے متضاد بھی نہیں ہوتا۔ تمام صوبے آئین کی
مطابقت میں چلتے ہیں۔ تعبیر و تشریح اور نفاذ کی گنجائش ہر صوبے کے لئے الگ
ہے۔ اِس لئے اِجتہاد شریعتِ اِسلامیہ میں ایک ایسی ڈِیوائس ہے، جس کی وجہ
سے تعمیرِ نو کی روح برقرار رہتی ہے اور کوئی اِسلامی معاشرہ کیسا ہی زوال
میں کیوں نہ جا پہنچے اُس کے پھر سے زندہ ہو جانے کا اِمکان باقی رہتا ہے۔
یہی وہ مرکزی نکتہ ہے جو اِسلام کو کسی دَور میں بھی پرانا دین نہیں بننے
دیتا اور اِسلام ہمیشہ جدید سے جدید دَور سے آگے کھڑا نظر آتا ہے۔
(برائے مزید معلومات ملاحظہ ہو: انٹرویو شیخ الاسلام، سی ڈی نمبر: 1002) |