کردیا تونے دامانِ ہستی تار تار!!!
(Rameez Ahmad Taquee, Delhi)
چھہ دسمبر کی تاریخ ہندوستان کی مسلمانی
تاریخ میں خاصہ اہمیت کی حامل ہے، اس تاریخ کو اجودھیا میں مسلمانوں کی ایک
مسجد کو جس بے دردی اور بے جگری سے شہید کیا گیا، اس کا افسوس نہ صرف
مسلمانوں کو ہے، بلکہ مذہب کی صحیح اور معتدل فکر رکھنے والے ہمارے برادرانِ
وطن بھی، اس تاریخ کو ایک ناقابلِ فراموش تاریخ سے یاد کرتے ہیں اور اپنے
قول و فعل سے اس کا برملہ اظہار بھی کرتے ہیں۔ یہ ایک الگ موضوع ہے کہ مسجد
کو کیوں شہید کیا گیا ، اس کے پسِ پردہ کون سی طاقت کارفرماں تھی؟ ان چیزوں
پر گفتگو کرنا، سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہوگا۔ اس لیے کہ ہر
ہندوستانی یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ مسجد کی شہادت کے پیچھے ا سلام اور
مسلمان دشمنوں کی ایک بہت بڑی سازش کا ہاتھ ہے،گو ہم اس چال اور سازش کو نہ
سمجھ سکیں، لیکن مسلمانوں کے تیئیں ملک کی موجودہ صورتِ حال ہمیں یہ اشارہ
کرتی ہے کہ شہادتِ بابری مسجد اور دیگر مسجدوں کی شہادت کبھی بھی ہندؤوں کا
ا صل ایجنڈا رہا ہی نہیں اور ایسا بھی نہیں ہے، کہ گنگا جمنی تہذیب کی
روایت کو تارتار کرنے والوں نے اب تک کی پوری تار یخ میں صرف بابری مسجد ہی
کو شہید کیا ہے، اگر ہم نے یہ خیال کرلیا ہے، تو یہ تاریخ سے بغاوت اور
ہماری جہالت ہے۔ تار یخ کثرت سے اس دن کو ہمارے سامنے دہراتی ہے جب اس
سرزمین پر سیکڑوں مسجدوں کو ویران اور ان پر قبضہ کرلیا گیا ۔ اور مسجد
بحیثیتِ مسجد تین مسجد؛ خانہ کعبہ، مسجدِ نبویﷺ اور مسجدِ اقصیٰ کے علاوہ
دنیا کی تمام مساجد عزت واحترام میں یکساں اور برابر ہیں، تاریخ اور مقام
کی جزئی حیثیت کے علاوہ کسی بھی مسجد کی کوئی خصوصیت نہیں ہے؛ اس لیے ہمیں
ہر اس دن یومِ سیاہ اور کالا د ن منانا چاہیے، جب جب ہندوستانی تاریخ میں
مساجدپر قبضہ ا وران کوویران کیا گیا۔اور صرف مسجد کی ہی شہادت پر کیوں؛
گجرات،بھا گلپور، میرٹھ اور مظفر نگر کے دلدوز اورنظر فریب واقعات ، جن میں
ہزاروں انسانوں کو جانوروں کی طرح کاٹا اور لکڑیوں کی طرح جلایاگیا ، عورتو
ں کی عزت وناموس کو لٹا گیا اور بچوں کو نیزوں کی انیوں پر رکھ کر
اچھالاگیا، کیا یہ دن یوم سیاہ منانے کے قابل نہیں ہیں ؟ حالانکہ ایک
مسلمان کی حرمت ان مسجدوں سے بھی فزوں تر ہے ، بلکہ ایک مسلمان کی عزت
وحرمت خانہ کعبہ کی حرمت سے بھی عظیم تر ہے اور پھر خانہ کعبہ کے سامنے
دیگر مساجد کی کیا حیثیت ؟ اگر ایک مسلمان حرمت میں خانہ کعبہ سے بھی عظیم
ہے،تو پھر جن حادثات میں ہزاروں مسلمانوں کی حرمت وعزت کو تار تار کیا گیا،
تو گویا حرمتِ کعبہ کی بھی دھجیاں اڑائی گئیں اور جب کعبہ کی عزت لٹ رہی ہو
تو کیا وہ دن مسلمانوں کے لیے کالا دن نہیں ہے؟ اگر ہم تاریخ کے دریچوں میں
جھاکیں،تومغلیہ دورکے بعد سے لے کرآج تک مسلمانوں کے دین، عزت اور آبرو
کوجس طرح بدنام اور برباد کیا گیا ہے، کہ اگر ان تمام تواریخ کو محفوظ اور
یادگار کے طور پر منایاجانے لگے،تو ہندوستان میں سال کے تین سو پینسٹھ دنوں
میں سے ہر دن یومِ سیاہ اور کالا دن ہوجائے! باطلوں کی بھی یہی چاہت ہے کہ
مسلمان انہی چھوٹے چھوٹے مسائل میں الجھ کر اپنے ہدف اور مقصد سے ہٹ جائیں،
کچھ تو ہماری ناعاقبت اندیشی اور آپسی فکری اور علاقائی اختلافات سے ان
لوگوں نے فائدہ اٹھایا ، تو کچھ ہماری جہالت اور معاملہ فہمی سے انہوں نے
اپنے لیے راستے ہموار کیے۔مساجد کی شہادت دراصل بہت اندر کی زہریلی سوچ
کاایک معمولی نمونہ ہے، چونکہ مسجدومندر اور گرجہ گھر ،یہ تمام انسانوں کے
اپنے اپنے رب اور اصل مالک سے ملنے اور مانگنے کا گھر اور معبد ہے، جہاں
جاکرایک انسان اپنے قلب کو سکون اور تازگی اور اپنی آتما کو شانتی بخشتا ہے،
اس کی وجہ سے ایک انسان اس خانۂ خدا کو اپنے گھر سے زیادہ اہمیت دیتا ہے
اور اس معنی ٰ کر اس کے تئیں دل میں محبت والفت گھر کرجانا فطری عمل ہے، اب
اگر کوئی بدذات اور ناپاک وجود اس گھر کو گرادیتا ہے، یا قبضہ کرلیتاہے،
تواس پر غم وغصہ کا اظہار بھی فطری تقاضہ ہے۔ چنانچہ ۶دسمبر کو کچھ اسی
احساس کا نظارہ ہمیں ہندوستان کے بعض شہروں میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ مگر
سوال یہ ہے کہ کیا صرف نعرہ بازی سے ہماری شہید بابری مسجد ہمیں مل جائیگی
؟ نہیں ہرگزنہیں...مسجد کی حصول یابی تو دور کی بات، شاید کبھی اس میں اذان
دینا بھی نصیب نہ ہو، مساجد کی شہادت یا مدارس کو دہشت گردی کا اڈہ بتانا،
یہ تو ان کی اندرونی سازش ہے، ان کا اصل ایجنڈا تو مسلمانوں کی سوچ اور ان
کے افکاروخیالات کو بدلنا ہے، جس کے لیے وہ کبھی کبھی مسلمانوں کے جذبات کے
ساتھ کھلواڑ کرتے ہیں اور ہم جذبات کی رو میں بہ کر کبھی تو اپنا وجود ہی
گنوا بیٹھتے ہیں اور اگر کبھی جسم میں روح باقی ہوتی ہے،تو ہم سے ہمارے
جذبات چھین لیے جاتے ہیں اور ہم صرف بے روح افسردہ جان بن کر رہ جاتے ہیں۔
اس وقت ہمیں جذبات میں کھونے کے بجائے ہوش سے کام لینا چاہیے اور وہی طریقہ
اپنانا چاہیے جو جاپان نے اپنایا تھا، کہ جب امریکہ نے جاپان کی نسل کشی
کردی، تو جاپانیوں نے کوے کو نہیں دیکھا ، بلکہ اپنے کان پر نظر جمائے
رکھااور مسلسل اپنے ہوش وہواس کو قبضے میں رکھا، نتیجہ یہ ہوا کہ آج پھر وہ
ایٹمی طاقت والے ممالک کی سرِ فہرست میں ہے؛ بلکہ دنیا میں روزمرہ کے
استعمال ہونے والی چیزوں میں سب سے زیادہ پروڈکٹس جاپانی کمپنیوں کی ہیں۔
آج وہی روڈ ماڈل ہم مسلمانوں کو بھی اپناناچاہیے، اس لیے کہ اسلام اور مسلم
دشمنوں کو جو کرنا ہے ، وہ تو کرکے رہیں گے ، کیوں کہ ان کے پاس حکومت اور
طاقت ہے اور ہمارا روڈ میپ یہ ہو کہ اس مشکل گھڑی میں ہم بالکل ثبات قدمی
کا مظاہرہ کرتے ہوئے مستقبل کی طرف اپنے قدم بڑھاتے رہیں ،اس امید کے ساتھ
کہ اس راہ کی ساری روکاوٹیں ان شاء اللہ از خود ایک دن ختم ہوجائیں گی۔ اور
ایسے بھی شعائرِ اسلام کی حفاظت کی ذمہ داری خود مالکِ کون ومکاں نے لی ہے
، جس کی گرفت سے کوئی بھی طاقت باہر نہیں ہے۔ ہمیں تو سلام کرنا چاہیے
پیارے آقا ﷺ کے داد امحترم عبدالمطلب کو جنہوں نے اس امت کو ایک عظیم پیغام
دیا ہے، کہ جب شاہِ حبشہ ابرہ نے خانہ کعبہ کو منہدم کرنے کا ارادہ لے کر
جنگیوں ہاتھیوں سمیت بے شمار لاؤولشکر کے مکہ کا محاصرہ کرلیا اور قریش کے
جوچرواہے بکریاں چرارہے تھے، ان سے ان کی بکریاں چھین لی،اتفاق سے ان میں
خواجہ عبدالمطلب کی بھی بکریاں تھیں، جب ان کو اس واقعہ کا علم ہوا تو وہ
ابرہ کے پاس تشریف لے گئے اور اس سے اپنی بکریوں کا سوال کیا، ابرہ یہ
جانتا تھا یہ تمام قبیلۂ قریش کے سردادر ہیں ، اس لیے اس نے ان کا احترام
کیا، مگر اس وقت اس نے ان سے بڑی حیرانی سے یہ سوال کیا کہ بڑے میاں! آپ تو
صرف اپنی بکریوں کے سوال کررہے ہیں اور آپ کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ
میں آپ کے اس محترم گھر کو منہدم کرنے آیا ہوں؟ کیا آپ اس کی حفاظت کا مجھ
سے سوال نہیں کریں گے ؟ اس وقت خواجہ عبدالمطلب نے ایک تاریخی جملہ ارشاد
فرمایا تھاکہ میںیہ بکریاں تم سے اس لیے طلب کررہاہوں کیوں کہ یہ میری ہیں
، رہی بات کعبہ کی تو وہ اللہ کا گھر ہے، وہ خود ہی اس کی حفاظ کر لے
گا۔اور ایساہوا بھی کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس بابرکت گھر کی اس شان سے
حفاظت کی اور ابرہ کو اس کے لشکر کے ساتھ بھوسہ بنا دیا۔ سورہ فیل میں اللہ
پاک نے اس کا تذکرہ کیا ہے ۔باطل تو ہمیشہ سے مسلمانوں کی جان ، مال اور
عزت آبرو کے علاوہ ان کے ایمان اورشعائر پر بھی حملہ آور ہوئے ہیں اور ہوتے
رہیں گے ، اس میں ہم مسلمانوں کا کردار یہ ہوکہ وقت اور حالت کے اعتبار سے،
صبروتحمل اور امانت ودیانت داری کے ساتھ ہمیشہ مستقبل کو پیشِ نظر رکھیں او
راسی طرح سے کوشش کرتے رہیں ، جیسا کہ جاپانیوں نے کی تھی۔ بابری مسجد کے
قضیہ کے ساتھ ساتھ ، ہمیں ان تمام محرکات پر غور کرنا ہوگا، جن کی وجہ سے
ہم یہاں تک پہنچے ہیں ، ان مسائل میں سب سے بڑا مسئلہ تعلیم کا مسئلہ ہے ،جس
کے باوصف ہم مستقل اندھیروں ہی کی طرف بڑھتے جارہے ہیں اور اس میں سب سے
بڑا دخل ہمارے نظامِ تعلیم کا ہے؛ خواہ وہ مدارس کا نظامِ تعلیم ہو، یا
اسکول اور کالجوں کا نظام تعلیم ، ان دونوں تعلیمی نظاموں میں اس قدر بگاڑ
اور دونوں کے طالبِ علموں میں اس قدر دوری پیدا ہوگئی ہے، کہ شاید اس بگاڑ
اور دوری کو پاٹنے ہی میں صدیاں بیت جائے اور وہ بھی ناکافی ہو؛اگر ایک
عالم کسی ڈاکٹر اور انجینیئر سے ملتا ہے ، تو انجیبیئر صاحب اپنے آپ کو
وزیرِ اعظم سمجھ بیٹھتے ہیں اور اس جانب سے بھی کوئی اخلاقی رویہ پیش نہیں
کیا جاتا ہے؛ بلکہ مفادِ عامہ سے ہٹ کر ایک دوسرے کوحقیر وفقیر سمجھنا آج
ہمارا پیشہ بن گیا ہے۔ بجائے اس کے ہم سب مل کر اس خلیج کو پاٹنے کی کوشش
کرتے،ہم ایک دوسرے پر لعن وطعن کرنے میں مصروف ہیں ۔ ان تمام برائیوں کی
اصلہ جڑ اور بنیاد بھی ہماراموجودہ تعلیمی نظام ہے۔ مدارس میں طلبہ کو
تعلیم تو دے دی جاتی ہے ، لیکن انہیں دنیاوی زندگی کے نشیب وفراز اوراس کے
اصول وضوابط نہیں بتلائے جاتے، یہ نہیں بتلایا جاتا کہ وہ اپنی بعد کی
زندگی کیسے گذاریں، اگر اپنی محنت اور لگن سے اس کاشعور ہو بھی جاتا ہے، تو
ماحول اور کوئی سند ان کے پاس نہیں ہوتی، کہ وہ ما بعد کی زندگی کو خوشگوار
بناسکیں، صرف پریس شدہ سفید ڈریس لگاناہی ایک انسان کی خوش بخش زندگی نہیں
ہے؛ بلکہ اس کے آگے بھی جہاں اوربھی ہے۔اور یہی حالت بلکہ اس سے بھی بدترین
حالت ہمارے اسکولی طلبا کی ہے، کہ ان کو سند اور ماحول تو فراہم کردیا جاتا
ہے ؛ لیکن وہ اسلام،شعائرِ اسلام اور مذہبی طورطریقوں کے تمام شعبہ ہائے
اخلاق سے بالکل بھی پیدل ہوتے ہیں، اگر کسی کے گھر کا ماحول درست ہوتا ہے ،تو
ان میں کسی قدر تہذیب آبھی جاتی ہے، تاہم اکثریت بے روح افسردہ اور پڑھے
لکھے جاہلوں کی ہوتی ہے،چنانچہ اس نظامِ تعلیم کے عروج وزوال دونوں کی ذمہ
داری امت کے ہر ذمہ دار شخص پرعائد ہوتی ہے اور کل قیامت میں ہر ایک سے اس
کے بارے میں سوال بھی کیا جائے گا۔ چنانچہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم
میں سے ہر شخص ذمہ دار ہے اور تم سے اپنی رعایہ کے بارے میں سوال کیا جائے
گا(بخاری ومسلم)قابلِ افسوس امر یہ ہے کہ ایک طرف اگر اربابِ مدارس نے کان
میں روئی ڈال کر اپنی ذمہ داریوں کو ہلکہ کرلیا ہے، تو دوسری طرف ہمارے
قائدین بھی کوئی نمایا کردار ادا نہیں کررہے ہیں ، اکثر کے دل میں عزت نفس
اور عہدہ کی لالچ ہے ، کوئی بھی امت کے حوالے سے مخلص نہیں ہے، ہمارے یہ
قائدین اور ذمہ دارانِ مدارس اگر اخلاص و مروت کے ساتھ کام کرتے ،تو اس نئی
نسل کو آج کسی بھی قسم کی پریشانیوں کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ، ہمارے ان
بڑوں نے تو لوگوں کو بانٹنے کا کام کیا ہے ، نظریاتی اختلاف کو مذہب اور
ایماں کی بنیادی اختلاف بنادی ہے، بجائے اس کے کہ اس حوالے سے نرم پہلو
اختیار کیا جاتا، اس سلسلے میں اس قدر تشدداور نفرت کووجود بخشا گیا ہے، کہ
ہم مسلمان آپس ہی میں ایک دوسرے کے ساتھ باہم دست وگریباں نظر آتے ہیں۔
حالانکہ دین میں ’’بشروا ولاتنفروا‘‘کو بنیاد بنایا گیا ہے ، ہم تو اپنے
قول وعمل سے’’ تنفرواولاتبشروا‘‘ کا کردار ادا کرتے نظر آرہے ہیں اور ظاہر
ہے کہ جب ہمارے درمیان اس قدر دوری ہو گی، تو ہم کیسے پھول اور پھل سکتے
ہیں ، ذلت خواری، پستی اور تنزلی کو تو ہمارا مقدر بننا ہی ہے۔ آج بھی
جبرئیل کی فوج نازل ہوسکتی ہے شرط یہ ہے کہ ہم صحابۂ کرامؓ جیسی زندگی گذار
کر دکھائیں، صحابۂ کرام کی ترقی کا راج بھی یہی تھا کہ نظریاتی اختلاف کے
باوجود وہ ایک دوسرے کے معاملات ومسائل میں انتہائی مخلص تھے اور آج ہم ایک
دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں انتہائی مخلص ہیں۔ ہم چھوٹے چھوٹے مسائل میں
الجھ کر مقصدِ اصلی سے گم گشتہ ہو چکے ہیں، اگر کوئی ہماری ایک چراغ بے نور
کررہا تو ہم اس فکرمیں سرگرداں ہیں کہ یہ شمع کیوں بجھ رہی ہے، کس کی مجال
کہ ہمارے چراغ کی طرف پھونکے ، اس ایک چراغ کو بچانے کی تگ ودو میں ہم
ہزاروں چراغ بے نور کرد یتے ہیں ، حالانکہ جتنا وقت اس ایک چراغ کو روشن
کرنے میں صرف کیا ہے، اب تک ہم ہزاروں چراغ روشن کرچکے ہوتے!!!
|
|