پی آئی اے۔۔۔شاندار ماضی سے بْرے حا ل تک کا سفر!!!

قومی اداروں میں پی آئی اے ایک ایسا ادارہ ہے جو دنیا بھر میں ملک کی پہچان ہے۔ دنیا بھر میں سبز ہلالی پرچم کی شناخت کرانے والے قومی ادارے کی نجکاری کسی المیہ سے کم نہیں ہوگی۔قومی مالیاتی اداروں کا تعلق ملکی معیشیت سے ہوتا ہے ۔یہ ترقی کی راہ پر گامزن ہوتے ہوتے اپنے ملک کو اقتصادی طور پر مضبوط زرمبادلہ کا کثیر حصول حاصل کر کے اسے ملک اور عوام کی خوشحالی اور دنیا میں ایک سمبل کے طور پر جانے پہچانے جاتے ہیں۔

1946 میں اوریئنٹ نامی ایئرلائن قائداعظم کی ہدایت پر معرض وجود میں آئی ۔ان کا وژن یہ تھا کہ مغربی اور مشرقی پاکستان کے درمیان فاصلہ کم کرنے کے لیئےایک ایئرلائن کا ہونا ضروری ہوگا۔۔ بعد میں یہ پی آئی اے بن گئی ۔

1955میں پی آئی اے کی پہلی انٹرنیشنل پرواز شروع ہوئی۔ عوام نے اس پر شخت تنقید کی کہ ملک میں انفراسٹرکچر ڈیویلپمنٹ کی زیادہ ضرورت تھی لیکن حکومت نے سارا پیسہ بین الاقوامی پرواز پر لگا دیا۔ بعد میں جاکر اندازہ ہوا کہ پی آئی اے کی بدولت جو پاکستانی بیرون ملک گئے، انہوں نے کثیر زرمبادلہ بھیجا جس سے ہم آج تک اپنے قرضے ادا کرتے آرہے ہیں۔1959 میں ایئرمارشل نور خان پی آئی اے کے چیئرمین بنے اور ان کا دور تاریخ کا سنہری ترین دور تھا۔ پی آئی اے ایشیاء کی پہلی ایئرلائن بنی جس نے جیٹ طیارہ آپریٹ کیا۔1962 میں پی آئی اے نان کمیونسٹ ممالک کی پہلی ایئرلائن بن گئی جس نے چائنہ میں لینڈ کیا۔پی آئی اے نے 6 گھنٹے اور چند منٹ میں لندن سے کراچی کی تیز ترین پرواز کی جو آج تک کسی بھی ایئرلائن کا سپیڈی پرواز کے لحاظ سے ایک ریکارڈہے۔پھر اصغر خان نے چارج سنبھالا۔پہلی پرتبہ خاتون ایئرہوسٹس کو متعارف کروایا گیا۔ ان کا یو نیفارم دنیا کے مشہور برانڈ پیئر کارڈن سےڈیزائن کروایاگیا۔ پی آئی اے دنیا کی سب سے محفوظ ترین ایئرلائن قرار دی گئی۔پی آئی اے دنیا کی ان چند اولین ایئرلائنز میں سی ایک تھی جس نے دوران پرواز انٹرٹینمنٹ پروگرام متعارف کروائے۔ پھر ایک وقت ایسا آیا جب پی آئی اے نے برٹش ایئرویز کو پچھاڑ دیا اور دنیا کی نمبر ون ایئرلائن کا اعزاز حاصل کیا۔فوجی دور میں پی آئی اے نے ترقی کی جو منازل طے کی تھیں وہ سیاسی حکمرانوں نے تباہ کردیں۔

2000 سے قبل پی آئی اے کارکردگی کے حوالے سے تمام قومی اداروں میں سرفہرست رہا۔1999 میں پی آئی اے منافع بخش ادارہ تھا۔ قومی فضائی طیارہ اس وقت پی ایس او، کسٹمز سول ایو ایشن ، سرکاری و دیگر مالیاتی اداروں کا 300 ارب کامقروض ہے۔ مشرف دور حکومت میں پی آئی اے کا خسارہ 38 ارب روپے تھا۔ 2008 میں پیپلزپارٹی برسر اقتدار آئی تو پی آئی اےکا مالی بحران مزید سنگین ہوگیا۔ پیپلزپارٹی دور حکومت میں خسارہ 196 ارب تک جا پہنچا۔2013 میں مسلم لیگ نواز نے اقتدار سنبھالا تو جہازوں کی قلت کے باعث خسارہ 300 ارب تک پہنچ گیا۔بدحالی ، کرپشن ،اقرباپروری اور سہولتوں کے فقدان نے قومی ایئرلائن کو تباہ کردیا۔ آج تک کسی حکومت نے پی آئی اے کا آڈٹ نہیں کروایا کہ پتہ چل سکے کہ آخر بدانتظامی کی وجہ کیا ہے؟پی آئی میں من پسند افراد کوعہدوں پرتعینات کیا گیاجن کی تنخواہوں اور دیگر مراعات پر اخراجات قومی ایئرلائن پر مالی بوجھ بن گیا۔

المیہ دیکھیئے کہ جس پی آئی اے نے متحدہ عرب امارات کی موجودہ نمبر ون ایئر لائنز اتحاد اور ایمیریٹس کو اپنے پیروں پر کھڑے ہونے میں مدد دی آج وہ خود زبوں حالی کاشکار ہے۔

حکومت آئی ایم ایف کو پی آئی اے کی نجکاری کی یقین دہانی کرواچکی ہے۔حبیب بینک ، پی ٹی سی ایل اسی طرح کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کی نیلامی میں پاکستان کے سب سے بڑے بجلی پیدا کرنے والے ادارے کی نجکاری کی بدولت آج پورا کراچی اندھیروں میں ڈوب گیا ہے ۔ صورتحا ل یہ ہے کہ آج کیسکو جتنی چاہے بجلی پیدا کرے یہ سب اس پر منحصر ہے ۔وہ بجلی کی پیداوار کسی لمحے کم کر کے حکومت سے بجلی کے نرخوں میں اضافہ کروالیتی ہے۔اس کے باوجود نجکاری کے نام پر ملکی اثاثوں کی لوٹ سیل کیلیئے حکومت پھر تیار بیٹھی ہے۔

قومی ادارے کی نجکاری کے بجائے اسے خسارے سے نکال کر منافع بخش ادارہ بنایا جاسکتا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ قومی اثاثوں کی فروخت کے بجائے ایسی معاشی پالیسیاں بنائی جائے جن کے ذریعے ہم ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکیں۔
IQRA JAVED
About the Author: IQRA JAVED Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.