غریب کا بچہ کب پڑھے گا

تعلیم کے بغیر ترقی اور انسان میں شعور کی بیدار ی ناممکن ہے جس طرح جہالیت انسان کو جانور بنا دیتی ہے اس طرح تعلیم انسان کو سوچنے ،سمجھنے ،رشتوں کی پہچان کرنے اور محنت کا شعور دیتی ہے جس کے بل بوتے غریب کے گھر پیدا ہونے والا بچہ بھی ترقی کے آسمانوں کو چھو سکتا ہے اور دنیا میں وہ مقام حاصل کر سکتا ہے جس کی صر ف جا ہلیت میں تمنا کی جا سکتی ہے ۔پاکستان میں تعلیم کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے ایک حصہ غریب آدمی کے لیے اور دوسرا امیروں ،بڑے افسروں اور نوابوں کی اولاد کے لیے ہے۔غریب آدمی اپنے بچے کو گورنمنٹ سکول میں تعلیم دلوا سکتا ہے وہ بھی صرف مڈل تک اس سے آگے تعلیم حاصل کرنے کے لیے گورنمنٹ سکولز میں تعلیمی سہولیات کا فقدان ہی فقدان ملتا ہے ۔گورنمنٹ سکولز میں فرنیچر کی کمی ،اساتذہ نایاب ،بڑی کلا سز کے لیے سائنس اور انگلش ٹیچر نہ ہونے کے برابر اور اگر کسی سکول میں مذکورہ مل بھی جائیں تو سائنس لیبارٹرز اور دیگر سہولیات نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں گورئمنٹ سکولز میں پڑھنے والے بچوں کے لیے ،،ٹیوشن،،لازمی ،،ہوتی ہے ۔تب جا کر طلبا اور طالبات پاس مارکس لینے میں کامیاب ہوتے ہیں زیادہ تر تو ،،چار چار پیپر ،،میں فیل ہو جانا سرکاری سکولزکا اعزاز سمجھا جاتا ہے۔ایسے حالات زیادہ تر دیہی علاقوں اور چھوٹے شہروں میں پائے جاتے ہیں۔دوسری طرف اے کلاس کی عوام کے لیے بڑے بڑے نامور ناموں والے پرائیویٹ سکولز کھل چکے ہیں جن میں طلباء و طالبات کے لیے ،کھلونوں،سے لیکر ہر سہولت مہیاء ہوتی ہے۔چھوٹا شہر ہو یا بڑا شہر ہو تعلیم کے حوالے سے ہر ممکن سہولت اور مواقع پیدا کیے جاتے ہیں۔تا کہ بچہ امتحانات میں اچھے سے اچھے مارکس لے سکے یہی وجہ ہے کہ گورنمنٹ سکولز کی بدحالی اور تباہی نہ ختم ہونے والی شروع ہو چکی ہے بچہ سکول آئے یہ ناآئے ٹیچروں کوکوئی فرق نہیں پڑتا وہ صرف تنخواہیں سیدھی کرنے جاتے ہیں اور چند گھنٹے گزار کر گھروں کو لوٹ جاتے ہیں حکومت نے کئی سالوں سے عوام سے وعدے تو کر رکھے ہیں کہ جب تک ہر گھر کا بچہ سکول نہیں پہنچے گا تب تک چین سے نہیں بیٹھیں گے ۔معلوم نہیں خادم اعلیٰ پنجاب نے "چین "کا کیا نام رکھ چھوڑا ہے کیونکہ باوجود کئی اقدامات کرنے کے کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوپا رہا ہے اور نہ ہی کوئی تبدیلی دیکھی گئی ہے ۔کروڑوں اور اربوں کی تشہری مہم کرنے سے ایک فائدہ ضرور پڑا ہے کہ جو طلباء طالبات استاد سے خوف کھایا کرتے تھے اب وہ خوف کھانے کے بجائے اساتذہ کی تذلیل کرنے میں وقت ضائع کرتے ہیں کیونکہ "مار نہیں پیار" سے ہی تو یہی رزلٹ سامنے آ سکتے تھے جو آ رہے ہیں۔اگر حکومت تشہری مہم پر کروڑوں اربوں ضائع کرنے اور اپنے پوز بنوا کر تصویر میں شائع کروانے کی بجائے پاکستان کا مستقبل مضبوط کرتے ہوئے "کڑوا "گھونٹ پی کر اس رقم سے دیہاتی علاقوں اور چھوٹے شہروں کے ہا ئی سکولز و کالجز میں تعلیمی نصاب کے مطابق اساتذہ ،پروفیسر ز حضرات کی تعیناتیاں کرے اور ان کو وہ سہولیات دیں جو ایک پرائیویٹ سکول میں اساتذہ اور طلباء و طالبات کومیسر ہیں اس کے ساتھ ہی،وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف اور خادم اعلی پنجاب،میاں شہباز شریف قانون میں تبدیلی لاکر ایسا قانون بنائیں ،،جسمیں ایم این ایز،ایم پی ایز،چھوٹے بڑے سرکاری ملازمین،ججزز حضرات سمیت سب کے بچوں کی گورئمنٹ سکولز میں تعلیم حاحل کرنا لازمی ہو اور ملازمت دیتے وقت یہ شک بھی رکھی جائے،،اس سے فائدہ یہ ہو گا کہ جب کسی ایم این اے،ایم پی اے،چیف جسٹس، سیشن جج،آئی جی پولیس،ڈی آئی جی پولیس،سیکرئٹری ایجوکیشن،ای ڈی او ایجوکیشن،غرضیکہ ،سکول ٹیچر کا بچہ بھی سرکاری سکول میں داخل ہو گا اور تعلیم حاحل کرے گا تو کوئی وجہ نہیں کہ گورئمنٹ سکولزکو وہ سہولیات نہ مل سکیں جو آج ایک پرائیویٹ سکول کو میسر ہیں تب جا کر امیر ،غریب کا فرق ختم ہو گا اور پھر یکساں تعلیم بھی دینے کا خواب پورا ہو سکے گا کیونکہ جو نصاب وزیر اعظم اور وزیر اعلی کے بیٹے کو پڑھایا جائے گا۔وہی نصاب،،گامے چھولیاں والے،،ماجے نائی،،فتو پاولی،،کے بچے کو پڑھایا جائے گا تب نوجوان نسل میں بھی احساس کمتری کم ہو گی اور پھر میرٹ ،بلا امتیاز انصاف،کے نہ صرف نعرے بلکہ وعدے بھی پورے ہو سکتے ہیں۔،،تب جا کر ہی تو کسی غریب کے گھر کا بچہ ،،آئی جی،،کے عہدے پر پہنچ پائے گا ،، تب ہی غریب ماں کی گود میں پلنے والا بچہ بھی،،اے سی،،ڈی سی،،لگ سکے گا اور اپنی قابلیت ،صلاحتیوں،کے بل بوتے پر دنیا میں نام روشن کرنے کا موقع حاصل کر پائے گا۔اور پھر وہی بچہ کسی منصب پر بیٹھ کر اساتذہ کی عزت و احترام کرنے میں نہ صرف فخر محسوس کرے گا بلکہ جن سکولز سے تعلیم حاصل کی ہو گی انکی بہتری اور ترقی کے لیے خدمات بھی دے گا۔
،،مگر یہ پورے نہ ہونے دیں گے،،
،،،اس ملک کے وڈیرے،،جاگیر دار،،سیاستدان،مفاد پرست اور حاکمیت کی سوچ رکھنے والے تنگ نظر لوگ،،
خادم اعلی یونہی ،،پونگی،،بجاتے رہیں گے کیونکہ اس ملک میں جب تک ،،کچن کابینہ،،کے گامے،،ساجے،،فیصلے کرتے رہیں گے تب تک نہ کسی غریب کا بچہ اچھی تعلیم حاحل کر سکے گا اور نہ ہی کسی اہم منصب پر بیٹھ سکے گا۔
،،مجھ سمیت کئی والدین اپنی آنکھوں میں اولاد کو تعلیم یافتہ دیکھنے کے خواب سجائے ،،دفنائے،،جاتے رہیں گے،،
اگر یہی حال رہا اور فیصلے عوام کے بنیادی مسائل کو حل کرنے،اور تعلیم کو عام کرنے کے سلسلہ میں ہنگامی بنیادوں پر نہ کیے گئے تو دیہاتوں میں یونہی سکولزویران رہیں گے۔
،،سکولوں میں بچوں کی جگہ سرداروں ،وڈیروں،،کے مال مویشی ہی نظر آئیں گے ،،
،،اگر یہی حال رہا تو سکولوں میں تعلیم کی بجائے ،،گاؤں کے چوہدری،،کا ڈیرہ اور رہائشیوں ،،میں رعایا سمیت اناج دکھائی دے گا،،
،،اگر یہی حال رہا تو دیہاتی علاقوں اور چھوٹے شہروں سے تعلیم حاصل کرنے کی بجائے ،نوجوان تباہی و بربادی کی طرف بڑھتے رہیں گے۔اور جیبوں میں قلم کی بجائے ہاتھوں میں اسلحہ دکھائی دے گا،،
،،ملک پاکستان کے گونگے،بہرے،اور مفاد پرست حکمرانوں،،

ابھی کچھ بگڑا نہیں ہے سنبھالیں تو سنبھل سکتا ہے ثابت ہو سکتا ہے کہ ،،گاؤں کا نوجوان بھی اپنی قابلیت پر بڑا مقام حاحل کر سکتا ہے۔مگر اس کے لیے حکومت کو چھوٹے شہروں اور دیہاتوں،،میں بھی مکمل سٹاف اور پوری سہولیات دینا ہو نگی۔

یا پھر سنتے رہیں گے تعلیم کے لیے بجٹ میں اضافہ کیا جارہا ہے وہ اضافہ حکمرانوں اور افسروں کی عیاشیوں کے لیے ہو گا یا پرائیویٹ سکولز جیسی سہولیات فراہم کرنے کے لیے ہوگا۔دیکھتے ہیں کیا ہو گا؟
ایک قلمی مزدور کی سچائی کو ،،باں،،باں،،کا نام دیا جائے گا یا عملی طور پر کچھ کر دکھایا جائے گا۔
Rana Zafar Iqbal
About the Author: Rana Zafar Iqbal Read More Articles by Rana Zafar Iqbal: 43 Articles with 34920 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.