محبتِ رمضان
حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی
اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:۔ “یہ مہینہ تمہارے قریب آ گیا، خدا
عزوجل کی قسم ! مسلمانوں پر کوئی مہینہ ایسا نہیں گزرا جو ان کے لئے اس
مہینہ سے بہتر ہو اور منافقین پر کوئی ایسا مہینہ نہیں گزرا جو ان کے لئے
اس مہینے سے بدتر ہو۔ (صحیح ابن خزیمہ، کتاب الصیام، باب فی فضل شہر رمضان،
الحدیث 1884، ج3، ص188، المکتب الاسلامی بیروت)
استقبالِ رمضان
جب رمضان شریف کا پُر بہار مہینہ تشریف لاتا ہے تو امیرِ اہلسنت دامت
برکاتہم العالیہ کی خوشی کا عالم دیدنی ہوتا ہے۔ آپ کے جذبات کی عکاسی ان
اشعار سے ہوتی ہے۔
مرحبا صد مرحبا پھر آمدِ رمضان ہے
کھل اٹھے مرجھائے دل تازہ ہوا ایمان ہے
ہم گنہگاروں پہ یہ کتنا بڑا احسان ہے
یا خدا عزوجل تونے عطا پھر کردیا رمضان ہے
ہر گھڑی رحمت بھری ہے ہر طرف ہیں برکتیں
ماہِ رمضاں رحمتوں اور برکتوں کی کان ہے
یا الٰہی عزوجل! تو مدینے میں کبھی رمضاں دکھا
مدتوں سے دل میں یہ عطار کے ارمان ہے
الوداع رمضان
1403ھ کا واقعہ ہے کہ امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کثیر اسلامی
بھائیوں کے ساتھ معتکف تھے۔ انتیسواں روزہ افطار کرنے کے بعد نمازِ مغرب سے
فارغ ہوکر سر جھکائے بیٹھے تھے اتنے میں کسی نے آکر آپ دامت برکاتہم
العالیہ سے عرض کیا:۔ “مبارک ہو عیدالفطر کا چاند نظر آگیا“ یہ سنتے ہی آپ
کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور بے اخیار آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے، پھر روتے
ہوئے ارشاد فرمایا کہ افسوس رحمتوں اور برکتوں کا مبارک مہینہ ہم سے جدا
ہوگیا لیکن ہم رمضان المبارک کی قدر نہ کر سکے، پھر روتے ہوئے اپنی پُرسوز
آواز میں ماہِ رمضان المبارک کے متعلق الوداعیہ اشعار پڑھے، سینکڑوں لوگ جو
امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کی زیارت و ملاقات کے لئے حاضر تھے وہ
بھی اشکبار ہو گئے کافی دیر تک آپ دامت برکاتہم العالیہ گریہ و زاری فرماتے
رہے۔
آخری روزے ہیں دل غمناک مضطر جان ہے
حسرتا او حسرتا اب چل دیا رمضان ہے
عاشقانِ ماہِ رمضاں رو رہے ہیں پھوٹ کر
دل بڑا بے چین ہے افسردہ روح و جان ہے
الفراق و الفراق اے رب عزوجل کے مہماں الفراق
الوداع الوداع تجھ کو مہِ رمضان ہے
داستانِ غم سنائیں کس کو جاکر آہ ! ہم
یارسول اللہ ! دیکھو چل دیا رمضان ہے
سب مسلماں الوداع کہتے ہیں رو رو کر تجھے
آہ ! چند گھڑیوں کا اب تو رہ گیا مہمان ہے
کاش ! آتے سال ہو عطار کو رمضان نصیب
یانبی ! میٹھے مدینے میں بڑا ارمان ہے
حفاظتِ ایمان
حضورِ پاک، صاحبِ لولاک، سیّاحِ افلاک صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے
ارشاد فرمایا:۔
“انما الاعمال بالخواتیم“ یعنی اعمال کا دارو مدار خاتمے پر ہے۔“ (صحیح
الخاری، کتاب القدر، الحدیث 6607، ج4، ص274، دارالکتب العلمیۃ بیروت)
امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ حفاظتِ ایمان کے بارے میں بہت حساس
واقع ہوئے ہیں۔ صفر المظفر 1424ھ میں امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ
کی طرف سے مرکزی مجلسِ شورٰی اور دیر مجالس کے اراکین وغیرہ کے نام لکھے
گئے ایک کھلے خط کی ابتدا میں ایمان کی حفاظت سے متعلق کی جانے والی
“فکرمدینہ“ کا پُر تاثیر انداز ملاحظہ ہو،۔۔۔۔۔۔۔۔
“(بعدِ سلام تحریر فرمایا) یہ الفاظ لکھتے وقت آہ ! میں مدینہ منورہ سے بہت
دور پڑا ہوں۔ مدینہ منورہ میں رات کے تقریباً تین بج کر 21 منٹ اور پاکستان
میں پانچ بج کر 21 منٹ ہوئے ہیں، میں اپنی قیام گاہ کے مکتب میں مغموم و
ملول قلم سنبھالے آپ حضرات کی بارگاہوں میں تحریراً دستک دے رہا ہوں۔ آج کل
یہاں طوفانی ہوائیں چل رہی ہیں کہ جوکہ دلوں کو خوفزدہ کر دیتی ہیں۔ ہائے
ہائے ! بڑھاپا آنکھیں پھاڑے پیچھا کئے چلا آ رہا اور موت کا پیغام سنا رہا
ہے۔ مگر نفس امارہ ہے کہ سرکشی میں بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ کہیں ہوا کا
کوئی تیزو تند جھونکا میری زندگی کے چراغ کو گل نہ کر دے ! اے مولٰی عزوجل
زندگی کا چراغ تو یقیناً بجھ کر رہے گا، میرے ایمان کی شمع سدا روشن رہے۔
یااللہ ! مجھے گناہوں کے دلدل سے نکال دے۔ کرم ۔۔۔ کرم۔۔۔۔ کرم ! (غیبت کی
تباہ کاریاں، ص2، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)
مسلماں ہیں عطار تیری عطا سے
ہو ایمان پر خاتمہ یا الٰہی عزوجل
آپ دامت برکاتہم العالیہ نے کفریہ کلمات کی نشاندہی کے لئے ایک مختصر اور
جامع رسالہ “28 کلماتِ کفر“ بھی تالیف فرمایا ہے، جو اپنے موضوع کے اعتبار
سے منفرد اہمیت کا حامل ہے۔ جس کا ہر مسلمان کو مطالعہ کرنا چاہئیے۔
امیرِ اہلسنّت اور علماء کرام
امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ علمائے اہلسنّت دامت فیوضہم سے بے حد
عقیدت و محبّت رکھتے ہیں اور نہ صرف خود ان کی تعظیم کرتے ہیں بلکہ اگر
کوئی آپ دامت برکاتہم العالیہ کے سامنے عُلمائے اہلسنّت دامت فیوضہم کے
بارے میں کوئی نازیبا کلمہ کہہ دے تو اس پر سخت ناراض ہوتے ہیں۔
امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ ایک جگہ تحریر فرماتے ہیں کہ “اسلام
میں علماء حق کی بہت زیادہ اہمیت ہے اور وہ علم دین کے باعث عوام سے افضل
ہوتے ہیں۔ غیر عالم کے مقابلے میں ان کو عبادت کا ثواب بھی زیادہ ملتا ہے۔“
چنانچہ حضرت محمد بن علی رضی اللہ تعالٰی عنہما سے مروی ہے:۔ “عالم کی دو
رکعت غیرِ عالم کی ستّر رکعت سے افضل ہے۔“ (کنزالعمال، کتاب العلم، الباب
لاول، ج10م ص67، دارالکتب العلمیۃ بیروت)
لٰہذا دعوتِ اسلامی کے تمام وابستگان بلکہ ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ
علمائے اہلسنّت سے ہرگز نہ ٹکرائیں، ان کے ادب و احترام میں کوتاہی نہ
کریں، عُلمائے اہلسنّت کی تحقیر سے قطعاً ریز کریں، بلا اجازت شرعی ان کے
کردار اور عمل پر تنقید کرکے غیبت کا گناہِ کبیرہ، حرام اور جہنم میں لے
جانے والا کام نہ کریں، حضرت سیدنا ابو الحفص الکبیر علیہ رحمۃ القدیر
فرماتے ہیں:۔ “جس نے کسی عالم کی غیبت کی تو قیامت کے روز اُس کے چہرے پر
لکھا ہوگا، یہ اللہ کی رحمت سے مایوس ہے۔“ (مکاشفۃ القلوب، ص71، دارالکتب
العلمیۃ بیروت)
ایک مکتوب میں لکھتے ہیں:۔ “علماء کو ہماری نہیں، ہمیں علماء اُمت دامت
فیوضہم کی ضرورت ہے، یہ مدنی پھول ہر دعوتِ اسلامی والے کی نس نس میں رچ بس
جائے۔“ ایک مرتبہ فرمایا:۔ “علماء کے قدموں سے ہٹے تو بھٹک جاؤ گے۔“
مجھ کو اے عطار سنی عالموں سے پیار ہے
ان شاءاللہ عزجل دو جہاں میں اپنا بیڑا پار ہے
علماء کرام دامت فیوضہم کی آپ مدظلہ العالی سے محبّت
الحمدللہ عزوجل ! علمائے اہلسنّت دامت فیوضہم بھی آپ کی مدنی خدمات کو قدر
کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اس کا اظہار بھی فرماتے رہتے ہیں
مثلاً شارح بخاری، فقیہ اعظم ہند حضرت علامہ مولانا مفتی شریف الحق امجدی
علیہ رحمۃ اللہ الھادی لکھتے ہیں:۔ “مولانا محمد الیاس صاحب اس زمانے میں
فی سبیل اللہ بغیر مشاہدے اور نذرانے کی طرف طمع کے خالص اللہ عزوجل کے لئے
اور اس کے حبیب صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی رضا جوئی کے لئے اتنا
عظیم الشان کام عالمگیر پیمانے پر کر رہے ہیں۔ جس کے نتیجہ میں بد عقیدہ
صحیح العقیدہ سنّی ہو گئے اور لاکھوں شریعت سے بیزار افراد شریعت کے پابند
ہوگئے۔ بڑے بڑے لکھ پتّی، کروڑ پتّی گریجویٹ نے داڑھیاں رکھیں، عمامہ
باندھنے لگے، پانچوں وقت باجماعت نماز ادا کرنے لگے اور دینی باتوں میں
دلچسپی لینے لگے۔ کیا یہ کارنامہ اس لائق نہیں کہ اللہ عزوجل کی بارگاہ میں
قبول ہو۔ حضورِ اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:۔ “من تمسک
بسنتی عند فساد امتی فلہ اجر مائۃ شھید۔“ (مشکوٰۃ ص30) (یعنی) میری اُمت کے
بگڑنے کے وقت جو میری سنّت کا پابند ہوگا اس کو 100 شہیدوں کا ثواب ملے گا۔
جب اُمت کے بگڑنے کے وقت سنّت کی پابندی کرنے والے کیلئے 100 شہیدوں کا
ثواب ہے تو جو بندہء خدا سنّت کا پابند ہوتے ہوئے کروڑوں انسانوں کو ایک
نہیں اکثر سنّتوں کا پابند بنا دے اس کا اجر کتنا ہوگا۔“
اسی طرح استاذ العلماء و الفقہاء حضرت مولانا مفتی عبدالقیوم ہزاروی علیہ
رحمۃ اللہ الہادی فرماتے ہیں:۔ “فقیر نے خود ان سے ملاقات کی ہے انہیں بے
حد متواضع، باعمل، عوام کا درد رکھنے والا، عُلمائے کرام کی عظیم کرنے والا
اور مذہبِ اسلام کی تعمیر و ترقی کے سلسلے میں بے حد مخلص پایا۔ آپ کی
تحریک سے وابستہ نوجوانوں کا سنّتِ رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم
میں ڈھلا ہوا سانچہ خود پکار پکار کر مولانا (الیاس قادری) کے اخلاص و
استقامت و محنت جدوجہد مسلسل کی خبر دے رہا ہے۔ بلا مبالغہ آپ اہلسنّت و
جماعت کیلئے ایک قیمتی سرمایہ ہیں۔“
رئیس القلم، ادیبِ شہیر حضرت علامہ ارشد القادری علیہ رحمۃ اللہ الہادی
فرماتے ہیں:۔ “یہ حقیقت ہے ایک مولانا محمد الیاس قادری (دامت برکاتہم
العالیہ ) نے پوری دنیا میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔“
باب المدینہ (کراچی) میں اہلسنت کے قدیم اور معروف ترین جامعہ دارالعلوم
امجدیہ عالمگیر روڈ کراچی کے مدرس، معمر ترین بزرگ، عالم باعمل حضرت علامہ
مولانا حلیم احمد اشرفی قدس سرہ امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کے
بارے میں لکھتے ہیں:۔ “سنجیدگی سے دیکھا جائے تو مسلمانوں کی اصلاحِ احوال
کے لئے بہت سی صورتیں اختیار کی گئیں اور اب بھی اپنے مذاق کے اعتبار سے
کدوکاوش کی جا رہی ہے اور محمد الیاس قادری صاحب نے ایک نیا طریقہ اور نیا
پروگرام شروع کیا اور اپنے مقصد میں بڑی عظیم کامیابی حاصل کی۔“
مزید فرماتے ہیں، “جس ماحول میں نوجوان لڑکے اپنے آپ کو فیشن زدہ دکھانے کی
کوشش میں لگے ہوئے ہیں یہ دعوتِ اسلامی کا جوان، زمانہ و حال کے خیالات سے
بے نیاز ہو کر بڑے جذبے کے ساتھ اپنی صورت، اپنی شکل، اپنا لباس سچے مسلمان
جیسا بنانے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔ یہ دیکھ کر میرے دل میں خیال آیا کہ اس
تحریک کا سربراہ یقیناً کوئی ایسا شخص ہے جو اپنے ارادے اور نیّت میں مخلص
ہے۔ تصنع (یعنی بناوٹ) سے پاک ہے۔ اور اس کا خلوص عنداللہ بھی مقبول ہے۔ اس
کی حُسنِ نیّت کا یہ ثمر ہے کہ یہ تحریک بڑی تیزی کے ساتھ ہر حلقہ اور طبقہ
اور ملک کے ہر حصّہ میں پھیلتی جا رہی ہے۔ خاص کر نوجوان طبقہ اس کی طرف
بھاگا چلا آ رہا ہے۔“
حضرت علامہ مولانا مفتی محمد اعظم رضوی مدظلہ العالی (دارالعلوم مظہر
الاسلام بریلی شریف) اپنے ایک طویل مکتوب میں لکھتے ہیں:۔ “جب کوئی شخص یا
جماعت کسی اچھے کام کے لئے پوری کوشش کرتا ہے پروردگارِ عالم عزوجل کا وعدہ
ہے کہ وہ اس کو کامیابی کی منزل اور مطلوب تک ضرور پہنچاتا ہے، قال اللہ
تعالٰی “والذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا ط وان اللہ لمع المحسنین“ (پ21،
العنکبوت) (ترجمہء کنزالایمان:۔ “اور جنہوں نے ہماری راہ میں کوشش کی ضرور
ہم انہیں اپنے راستے دکھا دیں گے اور بیشک اللہ نیکوں کے ساتھ ہے۔)
امیرِ دعوت اسلامی مولانا محمد الیاس صاحب اعلٰی حضرت رضی اللہ تعالٰی عنہ
کے خلیفہء خاص حضرت مولانا ضیاء الدین صاحب مدنی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے
مُرید اور ان کے شہزادے حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کے خلیفہ ہیں۔ اعلٰی
حضرت رضی اللہ تعالٰی عنہ کے شیدائی و فدائی مسلکِ اعلٰیحضرت رضی اللہ
تعالٰی عنہ کے متصلب مبلغ اہلسنت ہیں۔ دعوت اسلامی کے تبلیغی اجتماعات میں
اعلٰی حضرت رضی اللہ تعالٰی عنہ کا ترجمہء قرآن کنزالایمان اور ان کے سلام
یا کلام کا ذکر لازماً ہوتا رہتا ہے اور امیرِ دعوتِ اسلامی کی مصنفات یا
مؤلفات تو اعلٰی حضرت رضی اللہ تعالٰی عنہ کے فتاوٰی رضویہ وغیرھا سے ماخوذ
بھی ہیں۔
تعظیمِ ساداتِ عظام
قبلہ شیخِ طریقت، امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ عشقِ نبی صلی اللہ
تعالٰی علیہ وآلہ وسلم میں فنا ہیں اور یہ ایک فطری امر ہے کہ جس سے عشق
ہوتا ہے اس سے نسبت رکھنے والی ہر چیز سے بھی عشق ہو جاتا ہے۔ محبوب کے گھر
سے، اس کے در و دیوار سے، محبوب کے گلی کوچوں تک سے تعلقِ عقیدت قائم ہو
جاتا ہے۔ پھر بھلا جو عشق نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم میں گم ہو وہ
آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی آل اور اہل بیت سے محبت کیوں نہ رکھے
گا۔ لٰہذا جہاں آپ دامت برکاتہم العالیہ کو مدینہ پاک کے ذرہ ذرہ سے بے
پناہ محبت ہے وہیں آپ دامت برکاتہم العالیہ حضراتِ ساداتِ کرام کی تعظیم و
توقیر بجا لانے میں بھی پیش پیش رہتے ہیں۔ ملاقات کے وقت اگر امیرِ اہلسنّت
دامت برکاتہم العالیہ کو بتا دیا جائے کہ یہ سیّد صاحب ہیں تو بارہا دیکھا
گیا ہے کہ آپ دامت برکاتہم العالیہ نہایت ہی عاجزی سے سیّدزادے کا ہاتھ چوم
لیا کرتے ہیں۔ ساداتِ کرام کے بچّوں سے انتہائی محبّت اور شفقت کرنا یہ آپ
دامت برکاتہم العالیہ ہی کا طرہ امتیاز ہے۔ کبھی کبھی کسی سیّد زادہ کو
دیکھ کر امام اہلسنّت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا یہ شعر جھوم جھوم کر پڑھنے
لگتے ہیں۔
تیری نسلِ پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا
تو ہے عینِ نور تیرا سب گھرانہ نور کا
عقیدتِ اعلٰی حضرت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ
امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ اپنے رسالے سیّدی قطبِ مدینہ رحمۃ اللہ
تعالٰی علیہ میں تحریر فرماتے ہیں:۔ “الحمدللہ عزوجل ! میں بچپن ہی سے امام
اہلسنت، عظیم البرکت، پروانہء شمع رسالت، مجدد دین و ملّت مولیٰنا شاہ احمد
رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن سے متعارف ہو چکا تھا۔ پھر جوں جوں شعور آتا گیا
اعلٰی حضرت علیہ رحمۃ الرحمٰن کی محبت دل میں گھر کرتی چلی گئی۔ میں بلا
خوفِ تردید، کہتا ہوں کہ رب العلٰی کی پہچان، میٹھے میٹھے مصطفٰی صلی اللہ
تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے ہوئی۔ تو مجھے میٹھے میٹھے مصطفٰی صلی اللہ
تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی پہچان امام احمد رضا علیہ رحمۃ الرحمٰن کے سبب
نصیب ہوئی۔“
اعلٰی حضرت رضی اللہ عنہ سے ہمیں تو پیار ہے
انشاءاللہ عزوجل اپنا بیڑہ پار ہے
پہلا رسالہ
اسی عقیدت کا صدقہ ہے کہ آپ دامت برکاتہم العالیہ نے اپنی زندگی کا پہلا
مدنی رسالہ بھی اعلٰی حضرت علیہ رحمۃ الرحمٰن سے متعلق لکھا جس کا نام
“تذکرہ امام احمد رضا رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ“ ہے۔ آپ دامت برکاتہم العالیہ
ہی کا شعر ہے:۔
تو نے باطل کو مٹایا اے امام احمد رضا رضی اللہ عنہ
دین کا ڈنکا بجایا اے امام احمد رضا رضی اللہ عنہ
بریلی شریف کی پہلی بار حاضری
جب امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ پہلی بار مدینۃ المُرشد بریلی شریف
پہنچے تو جب تک قیام رہا آپ ادباً برہنہ پا رہے اور جب امام اہلسنّت اعلٰی
حضرت علیہ رحمۃ الرحمٰن کے مزارِ مبارک پر حاضری کا وقت آیا تو دیکھنے
والوں کی آنکھیں اشک بار ہو گئیں کہ آپ زمین پو لوٹتے ہوئے مزارِ مبارک پر
حاضر ہوئے۔ دورانِ حاضری ایک ضعیف العمر بزرگ نے اعلٰی حضرت علیہ رحمۃ
الرحمٰن کی زیارت کرنے والے کی نہ صرف آنکھوں کو بوسہ دیا بلکہ قدموں کو
بھی چوم لیا۔ ایک بار آپ دامت برکاتہم العالیہ نے فرمایا کہ اعلٰی حضرت
علیہ رحمۃ الرحمٰن کے اقول (یعنی فرمان) پر ہماری عقول (یعنی عقلیں) قربان۔
اعلٰی حضرت کا اقول ہمیں قبول۔
اسی تعلقِ عقیدت کی بنا پر امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ اپنے بیانات
اور تالیفات میں قرآن پاک کا ترجمہ اعلٰی حضرت علیہ رحمۃ الرحمٰن کے ترجمہء
کنزالایمان سے لیتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب ارشاد فرماتے ہیں۔
مسلمانوں کی خیر خواہی
سرکارِ مدینۃ المنورہ، سلطانِ مکۃ المکرمہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم
کا فرمان ذیشان ہے:۔ “دین خیر خواہی (کا نام) ہے۔“ صحابہ کرام علیہم
الرضوان نے عرض کی، “یارسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ! کس کے
لئے ؟“ ارشاد فرمایا، “اللہ کیلئے اس کی کتاب کیلئے، اس کے رسول کیلئے،
مسلمانوں کے اماموں کے لئے اور ان کی عوام کیلئے۔“ (مسلم کتاب الایمان، باب
بیان الدین النصیحۃ، الحدیث55، ص47)
ہمارا حسنِ ظن ہے کہ مسلمانوں کی خیر خواہی ہمہ وقت امیرِ اہلسنّت دامت
برکاتہم العالیہ کے پیشِ نظر رہتی ہے۔ اس ضمن میں کئی واقعات ہیں، جس میں
سے ایک پیشِ خدمت ہے۔
سیڑھیوں پر ہی بیٹھ گئے
الحمدللہ عزوجل ! جشن ولادت سرکار صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے سلسلے
میں ربیع النور شریف کی 12ویں شب، دعوت اسلامی کی طرف سے باب المدینہ
(کراچی) میں بہت بڑے اجتماعِ ذکر و نعت ہوتا ہے۔ ربیع النور شریف 1418ھ کی
12ویں رات 12 بجے جب بانیء دعوتِ اسلامی امیرِ اہلسنّت مدظلہ العالی اجتماع
میں بیان کرنے کیلئے پہنچے تو تلاوت شروع ہو چکی تھی۔ لٰہذا آپ منچ (اسٹیج)
پر جلوہ ہوکر حاضرین کے سامنے آنے کی بجائے منچ کی سیڑھیوں پر ہی بیٹھ کر
تلاوت سننے میں مشغول ہو گئے۔ تلاوت ختم ہونے کے بعد جب کسی نے عرض کی کہ
“آپ براہِ راست منچ پر تشریف لانے کے بجائے اس کی سیڑھی پر بیٹھ گئے، اس
میں کیا حکمت تھی ؟“ تو ارشاد فرمایا:۔ “قرآن پاک میں ہے کہ “واذا قری
القرآن فاستمعوا لہ وانصتوا لعلکم ترحمون۔“ ترجمہء کنزالایمان:۔ اور جب
قرآن پڑھا جائے تو اسے کان لگا کر سنو اور خاموش رہو کہ تم پر رحم ہو۔“
(پ9، الاعراف:۔ 204) اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ “فتاوٰی رضویہ“ (ج23، ص353) میں ہے، “جب
بلند آواز سے قرآن پاک پڑھا جائے تو حاضرین پر سننا فرض ہے جبکہ وہ مجمع
سننے کی غرض سے حاضر ہو، ورنہ ایک کا سننا کافی ہے اگرچہ دوسرے لوگ کام میں
ہوں۔“
پھر فرمایا:۔ ““جب میں حاضر ہوا تو تلاوت جاری تھی، اب اگر میں سیدھا منچ
پر چلا جاتا تو خدشہ تھا کہ کوئی اسلامی بھائی استقبالی نعرہ لگا دیتا اور
دورانِ تلاوت ایسا ہرگز نہیں ہونا چائیے، لٰہذا میں نے لوگوں کی نظر سے
اوجھل رہ کر منچ کی سیڑھیوں پر بیٹھ جانے ہی میں عافیت جانی۔“
فکرِ آخرت
ایک مرتبہ رات بھر مدنی مشورے کے باعث امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ
سو نہ سکے۔ بعد فجر ایک اسلامی بھائی نے عرض کی:۔ “ابھی آپ آرام فرما لیں،
10:00 بجے دوبارہ اٹھنا ہے، لٰہذا اٹھ کر اشراق و چاشت ادا فرما لیجئے گا۔“
آپ نے جواب دیا کہ “زندگی کا کیا بھروسا، سو کر اٹھنا نصیب ہو یا نہیں۔۔
یا۔۔۔ کیا معلوم آج زندگی کے آخری نفل ادا ہو رہے ہوں ؟“ یہ فرمانے کے بعد
اشراق و چاشت کے نفل ادا فرمائے پھر آرام فرمایا۔
مدنی کام کی لگن
1991ء میں راہِ خداعزوجل میں سفر کرتے ہوئے جب امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم
العالیہ ہند کے شہر دہلی میں پہنچے تو وہاں جامع مسجد نور النبی میں قیام
کیا۔ طویل سفر کی تھکن کی وجہ سے اکثر شرکائے قافلہ عشاء کے بعد بہت جلد
نیند کی آغوش میں پہنچ گئے لیکن آپ شدید تھکاوٹ کے باوجود آدھی رات تک وہاں
پر ملاقات کی غرض سے آنے والے اسلامی بھائیوں پر انفرادی کوشش فرماتے رہے۔
نفس کی قربانی
امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ 1424ھ میں عیدالاضحٰی کے موقع پر ملک
سے باہر تھے۔ بعض ذمہ دارانِ دعوتِ اسلامی کے بیحد اصرار پر آپ نے
عیدالاضحٰی پاکستان میں منانے کی حامی بھرلی لیکن عید سے صرف چند روز پہلے
ای میل کے ذریعے یہ پیغام بھجوایا:۔ “شبِ جمعہ (8 ذوالحجۃ الحرام 1424ھ) کو
پرواز تھی، بدھ کو دل میں ہلچل پیدا ہو گئی۔ میں نے بہت غور کیا اور اس
نتیجے پر پہنچا کہ میں عید باب المدینہ میں آکر دھوم دھام سے خوب رونق بھرے
ماحول میں بچوں، گھر والوں اور کثیر اسلامی بھائیوں کے ساتھ مناؤں۔ باب
المدینہ آنے میں نفس کی پیروی ہے اور امارت میں رہ کر تحریری کام کرنے میں
آخرت کی بہتری، باب المدینہ میں عوام کی بھیڑ میں گناہوں کی کثرت اور امارت
میں تنہائی کے باعث معاصی سے کافی بچت، عوام کی گہماگہمی میں زبان و آنکھ
کی حفاظت نہایت ہی مشکل جبکہ امارت میں اپنے گھر پر زبان اور آنکھوں کا
قفلِ مدینہ الحمدللہ عزجل ! کافی حد تک حاصل۔ سوچا فی الحال باب المدینہ
میں جاکر سوائے نفس کو خوش کرنے کے کسی دین کے اہم کام کو سر انجام دینے کی
بظاہر کوئی صورت سامنے نہیں ہے، قربانی کے دن ہیں، اور ظاہر ہے قربانی وہی
ہے جو نفس کو گراں گزرے، لٰہذا ! نفس کی قربانی دینا ہی مناسب ہے، لٰہذا !
آخرت کی بہتری پر نظر رکھتے ہوئے میں نے باب المدینہ آنے کا ارادہ ملتوی کر
دیا ہے۔
وقت کم کام بہت زیادہ
دسمبر 2002ء میں راجپوتانہ اسپتال (حیدر آباد، باب الاسلام سندھ) میں امیرِ
اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کا آپریشن تھا۔ آپ نے آپریشن تھیڑ میں جانے
کیلئے لباس پہن لیا، مگر پھر اطلاع ملی کہ ابھی ایک گھنٹہ مذید تاخیر ہوگی۔
آپ سے عرض کی گئی کہ کچھ دیر آرام فرما لیجئے، مگر آپ نے ارشاد فرمایا:۔
“وقت کم ہے اور کام بہت زیادہ ہے۔“ یہ فرما کر آپ تحریری کام میں مصروف
ہوگئے۔
شاعری
اعلٰی حضرت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی طرح امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم
العالیہ کا سرمایہ شاعری بھی صرف نعت و منقبت اور مناجات وغیرہ پر مشتمل
ہے۔ جو اسلامی بھائی امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کی شب و روز کی
مصروفیات سے واقف ہیں وہ حیرت زدہ ہیں کہ آپ دامت برکاتہم العالیہ کو شعر
کہنے کا موقع کیسے مل جاتا ہے ؟ پھر آپ دامت برکاتہم العالیہ دیگر ارباب
سخن کی طرح ہر وقت شاعری کیلئے مصروف بھی نہیں رہتے ہیں۔ بلکہ جب پیارے
پیارے آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی یاد تڑپاتی اور سوزِ عشق آپ
کو بیتاب کرتا ہے تو آپ نعتیہ اشعار و مناجات لکھتے ہیں۔ شیخِ طریقت دامت
برکاتہم العالیہ نے حمد و نعت کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیھم
اجمعین اور بزرگان دین رحمھم اللہ کی شان میں متعدد منقبتیں اور مدحیہ
قصائد بھی قلم بند فرمائے ہیں، تادم تحریر آپ دامت برکاتہم العالیہ کے 226
کلام شمار میں آئے ہیں۔ امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کی شاعری میں
ایک انفرادی خصوصیت یہ بھی ہے کہ آپ کی شاعری میں نیکی کی دعوت کی تڑپ اور
مسلمانوں کی خیرخواہی کا جذبہ نمایاں طور پر پایا جاتا ہے۔ چنانہ آپ دامت
برکاتہم العالیہ لکھتے ہیں:۔
شہا ! ایسا جذبہ پاؤں کہ میں خوب سیکھ جاؤں
تیری سنّتیں سکھانا مدنی مدنیے والے صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم
ملے سنّتوں کا جذبہ مرے بھائی چھوڑیں مولٰی
سبھی داڑھیاں منڈانا مدنی مدینے والے صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم
مری جس قدر ہیں بہنیں سبھی کاش برقع پہنیں
ہو کرم شہِ زمانہ مدنی مدینے والے صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم
نیکی کی دعوت کا جذبہ
امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ اصلاح کرنے کے معاملے میں بے حد متحرک
ہیں۔ آپ دامت برکاتہم العالیہ کسی بھی خلافِ شرع یا خلافِ سنّت کام کو دیکھ
کر خاموش نہیں رہ سکتے بلکہ فوراً احسن طریقے سے سامنے والے کی اصلاح فرما
دیتے ہیں۔
کلمہء کفر سے توبہ کروائی
بہت عرصہ قبل سولجر بازار کے رہائشی اسلامی بھائی امیرِ اہلسنّت دامت
برکاتہم العالیہ سے ملاقات کی غرض سے حاضر ہوئے تو کسی وجہ سے ملاقات نہ ہو
سکی۔ انتہائی مایوسی کے عالم میں ان کے منہ سے کچھ نازیبا کلمات ادا ہو
گئے۔ جب آپ دامت برکاتہم العالیہ کو ان کلمات کے بارے میں بتایا گیا تو آپ
نے (کچھ اس طرح) ارشاد فرمایا “یہ تو کلمہء کفر ہے۔“ اس کے بعد اس اسلامی
بھائی کی شدومد سے تلاش شروع کردی گئی۔ تقریباً دو گھنٹے کی تلاش کے بعد
بالآخر امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ اس اسلامی بھائی کے گھر جا
پہنچے اور انفرادی کوشش کرتے ہوئے اسے کلمہء کفر کے بارے میں بتایا اور
توبہ کی ترغیب دلائی۔ الحمدللہ عزجل ! اس اسلامی بھائی نے آپ کی انفرادی
کوشش کی برکت سے توبہ کرکے تجدید ایمان کرلی۔
نمازی کی اصلاح
ایک مرتبہ امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کے درِ دولت میں ایک اسلامی
بھائی نماز پڑھ رہے تھے۔ وہ سجدے کی حالت میں تھے کہ اچانک آپ دامت برکاتہم
العالیہ نے دیکھا کہ ان کے پاؤں کی انگلیاں ٹھیک سے زمین پر نہیں لگی
ہوئیں۔ نماز کے بعد آپ نے ان پرانفرادی کوشش کرتے ہوئے عملی طور پراشارہ
کرکے بتایا کہ سجدے میں پاؤں کی انگلیوں کا پیٹ زمین پر اس طرح لگنا
چاہئیے۔
کسی کا نام بگاڑنے والے کی اصلاح
ایک مرتبہ کسی نے امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کے سامنے کسی شخص کا
نام بُرے لقب کے ساتھ لے ڈالا تو آپ نے فوری طور پر انفرادی کوشش کرتے ہوئے
فرمایا:۔ “ایسا نہ بولیں کہ کسی مسلمان کا نام بگاڑنے والے کو قرآنِ عظیم
میں “فاسق“ کہا گیا ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے، “ولا تنابزوا بالالقاب ط بئس
الاسم الفسوق بعد الایمان ج ومن لم یتب فاولئک ھم الظلمون 0 ترجمہء
کنزالایمان:۔ “اور ایک دوسرے کے بُرے نام نہ رکھو، کیا ہی بُرا نام ہے
مسلمان ہو کر فاسق کہلانا اور جو توبہ نہ کریں تو وہی ظالم ہیں۔“ (پ26،
سورۃ الحجرات: 11)
حقوق العباد کا خوف
امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ جہاں حقوق اللہ عزوجل کے معاملے میں
حددرجہ محتاط ہیں وہاں حقوق العباد کے معاملے میں بھی بے حد احتیاط ملحوظ
رکھتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں:۔ “حقوق اللہ عزوجل تو اللہ تعالٰی چاہے تو اپنی
رحمت سے معاف فرما دے گا۔ مگر حقوق العباد کا معاملہ سخت تر ہے کہ جب تک وہ
بندہ جس کا حق تلف کیا گیا ہے، معاف نہیں کریگا اللہ عزوجل بھی معاف نہیں
فرمائے گا اگرچہ یہ بات اللہ عزوجل پر واجب نہیں مگر اس کی مرضی یہی ہے کہ
جس کا حق تلف کیا گیا ہے اس مظلوم سے معافی مانگ کر راضی کیا جائے۔“
بچپن ہی میں حقوق العباد کا خیال
ایک مرتبہ دورانِ گفتگو امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ نے متعلقین کی
ترغیب کیلئے ارشاد فرمایا:۔ “اللہ و رسول عزوجل و صلی اللہ تعالٰی علیہ
وآلہ وسلم کے فضل و کرم سے حقوق العباد کی ادائیگی کا خوف بچپن ہی سے میرے
دل میں بیٹھا ہوا ہے۔ جب میں چھوٹا اور تقریباً ناسمجھ تھا، یتیمی اور غربت
کا دور تھا۔ حُصولِ معاش کیلئے بھنے ہوئے چنے اور مونگ پھلیاں چھیلنے کیلئے
گھر میں لائی جاتی تھیں۔ ایک سیر چنے چھیلنے پر چار آنے، ایک سیر مونگ
پھلیاں چھیلنے پر ایک آنہ مزدوری ملتی۔ ہم سب گھر والے مل کر اسے چھیلتے۔
میں چھوٹا ہونے کی وجہ سے کبھی کبھار چند دانے منہ میں ڈال لیتا لیکن پھر
پریشان ہوکر والدہ محترمہ سے عرض کرتا:۔ “ماں ! مونگ پھلی والے سے معاف
کرالینا۔“ چنانچہ والدہ محترمہ سیٹھ سے کہتیں کہ “بچے دو دانے منہ میں ڈال
لیتے ہیں۔“ جواباً وہ کہہ دیتا:۔ “کوئی بات نہیں۔“ یہ سن کر میں سوچتا کہ
میں نے تو دو دانے سے زیادہ کھائے ہیں مگر ماں نے تو صرف دو دانے معاف
کروائے ہیں ؟ بعد میں جب شُعور آیا تو پتا چلا کہ “دو دانے“ مُحاورہ ہے اور
اس سے مُراد تھوڑے دانے ہی ہیں اور میں کبھی تھوڑے دانے کھا لیتا تھا۔“
ذرا سا کاغذ پھٹنے پر معذرت
دورہء حدیث (جامعۃ المدینہ باب المدینہ کراچی) کے ایک طالب علم کی فتاوٰی
رضویہ شریف کی ایک جلد چند دن امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کے زیرِ
مطالعہ رہی۔ آپ نے فتاوٰی رضویہ شریف کی جلد مع رُقعہ جب واپس فرمائی تو
طالب علم رقعہ پڑھ کر ششدر رہ گئے اور جذبات تاثر سے ان کی پلکیں بھیگ
گئیں۔ (مضمون کچھ یوں تھا)
میرے میٹھے میٹھے مدنی بیٹے زید مجدہ کی خدمت میں شکریہ بھرا سلام، آپ کی
فتاوٰی رضویہ شریف سے مطلوبہ عبارات کے علاوہ بھی استفادہ کیا، خاص خاص
کلمات و فقرات کو خط کشیدہ کرنے کی عادت ہے مگر مجاز (یعنی با اخیار) نہ
ہونے کے باعث مجتنب (یعنی رکا) رہا مگر بے احتیاطی کے سبب ایک صفحہ کے اوپر
کی جانب معمولی سا کاغذ پھٹ گیا، بصد ندامت معذرت خواہ ہوں، امید ہے معافی
کی خیرات سے محروم نہیں فرمائیں گے۔ کاغذ اتنا کم شق ہوا ہے کہ غالباً
ڈھونڈنے پر بھی نہ مل سکے۔ علاوہ ازیں بھی جو حقوق تلف ہوئے ہیں معاف فرما
دیجئے۔ دین ہو تو وصول کر لیجئے (یعنی میری طرف آپ کی کوئی رقم وغیرہ بنتی
ہو تو لے لیجئے۔) دعائے مغفرت سے نوازتے رہئیے۔ والسلام مع الاکرام
دورانِ بیان معافی طلب کرنا
کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ خوفِ خدا عزوجل کے سرمایہ سرمدی کی بنا پر امیرِ
اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ نے حقوق العباد میں حد درجہ محتاط ہونے کے
باوجود دورانِ بیان بھی لوگوں سے ان کے حقوق کے بارے میں معذرت طلب کی۔
چنانچہ باب الاسلام سندھ سطح پر 2،3،4، محرم الحرام 1425ھ کو ہونے والے
سنّتوں بھرے اجتماع میں ہونے والے بیان کے دوران آپ دامت برکاتہم العالیہ
نے توبہ کی شرائط کی وضاحت کرتے ہوئے وہاں موجود لاکھوں اسلامی بھائیوں اور
ٹیلی فون وغیرہ کے ذریعے سننے والی اسلامی بہنوں سے ارشاد فرمایا:۔ “توبہ
کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ جس کی حق تلفی کی ہو یا اذیت پہنچائی ہو اس سے
معافی مانگی جائے، جس کے تعلقات جتنے زیادہ ہوتے ہیں اتنا ہی دوسروں کی دل
آزاری ہو جانے کا احتمال زیادہ ہوتا ہے، اور میرے تعلقات یقیناً آپ سب سے
زیادہ ہیں، لٰہذا میری درخواست ہے کہ میری طرف سے اگر آپ کو کوئی تکلیف
پہنچی ہو، کوئی حق تلف ہو گیا ہو، کبھی ڈانٹ دیا ہو، ملاقات نہ کرنے پر آپ
ناراض ہو گئے ہوں، تو ہاتھ جوڑ کر درخواست ہے مجھے معاف کر دیجئے، مجھے آپ
سے نہیں اپنے رب تعالٰی سے ڈر لگتا ہے، کہہ دیجئے:۔ “جا معاف کیا۔ |