تعارف بانی دعوت اسلامی اور ان کی خدمات حصہ دوم

عشقِ رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم
حضرت سیدنا انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ حضورِ پاک، صاحبِ لولاک، سیّاحِ افلاک صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: “تم میں کوئی اس وقت تک (کامل) مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے والد، اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔“ (صحیح البخاری، کتاب الایمان، باب حب الرسول من الایمان، الحدیث14، ج1، ص17)

سرکارِ ابد قرار صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم سے بھرپور محبت کا نتیجہ ہے کہ امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کی زندگی سنّتِ مصطفٰے صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے سانچے میں ڈھلی ہوئی نظر آتی ہے۔ آپ دامت برکاتہم العالیہ کا عاشقِ رسول ہونا ہر خاص و عام پر اتنا ظاہر و باہر ہے کہ آپ کو عاشقِ مدینہ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ آپ دامت برکاتہم العالیہ کو بارہا یادِ مصطفٰے صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم اور فراقِ طیبہ میں آنسو بہاتے دیکھا گیا ہے۔ اجتماعِ ذکر و نعت میں تو آپ کی رقّت کا بیان کرنے سے قلم قاصر ہے۔ کبھی کبھی آپ یادِ مصطفٰے صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم میں اس قدر دیوانہ وار تڑپتے اور روتے ہیں کہ دیکھنے والوں کو رحم آنے لگتا ہے اور وہ بھی رونے لگتے ہیں۔

سرکار کے قدموں کے نشاں ڈھونڈ رہا ہے
جو اشک مری آنکھ کی پُتلی دے گِرا ہے

شادی کا سب سے پہلا دعوت نامہ
امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ نے اپنی شادی کا سب سے پہلا دعوت نامہ ایک ساکنِ مدینہ اسلامی بھائی کے ذریعے بارگاہِ رسالت صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم میں بھجوایا۔ جنہوں نے اسے سُنہری جالیوں کے رُوبرو پیارے آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کی۔ (آپ کچھ یوں فرماتے ہیں کہ) وقتِ نکاح یہ سوچ مجھ پر عجیب کیف طاری کئے دے رہی تھی کہ میں نے بارگاہِ رسالت صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم میں دعوت عرض کی ہے، دیکھئے اب آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کب کرم فرماتے ہیں اور تشریف لاتے ہیں۔ اس مُنفرد اندازِ فکر کی برکت سے شادی کی تقریب (جو انسان کو عموماً غفلت میں مبتلا کر دیتی ہے) پُرسوز انداز میں گزارنے کی سعادت حاصل ہوئی۔

پہلا سفرِ حج
مدّتِ دراز تک فراقِ مدینہ میں تڑپتے رہنے کے بعد بالآخر 1400ھ میں پہلی بار امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کی میٹھے مدینے کی پُرکیف حاضری کا پروانہ ملا۔

صبا ! اس خوشی سے کہیں مر نہ جاؤں
دیارِ مدینہ سے بُلاوا ملا ہے

بس اب کیا تھا دل میں پہلے ہی سے سلگنے والی عشقِ مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی آگ اب مزید بھڑک اٹھی۔ اشک ہیں کہ تھمنے کا نام نہیں لیتے، عشق کے انداز بھی نرالے ہوتے ہیں۔ ہجر و فراق میں بھی اشکباری، حاضری کی اجازت پرت بھی گریہ وزاری ۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ دامت برکاتہم العالیہ کی منفرد اور پُرسوز کیفیات کی عکاسی ان اشعار سے ہوتی ہے:۔

مجھ کو درپیش ہے پھر مبارک سفر
قافلہ پھر مدینے کا تیار ہے
نیکیوں کا نہیں کوئہ توشہ فقط
میری جھولی میں اشکوں کا اک ہار ہے
کوئی سجدوں کی سوغات ہے نہ کوئی
زہُد و تقوٰی میرے پاس سرکار ہے
چل پڑا ہوں مدینے کی جانب مگر
ہائے سر پر گناہوں کا انبار ہے
جُرم عصیاں پہ اپنے لجاتا ہوا
اور اشکِ ندامت بہاتا ہوا
تیری رحمت پہ نظریں جماتا ہوا
در پہ حاضر یہ تیرا گنہگار ہے
تیرا ثانی کہاں ! شاہِ کون و مکاں
مجھ سا عاصی بھی اُمّت میں ہوگا کہاں !
تیرے عَفو و کرم کا شہِ دوجہاں !
کیا کوئی مجھ سے بڑھ کر بھی حقدار ہے

(مغیلانِ مدینہ از امیر اہلسنّت مدظلہ العالی)

نرالی روانگی
جب مدینہ پاک کی طرف روانگی کی مبارک گھڑی آئی تو اس وقت جو آپ دامت برکاتہم العالیہ کی کیفیت تھی اس کو کما حصہ صفحہ قرطاس پر لانا ممکن نہیں۔ ائیر پورٹ پر عاشقانِ رسول کا ایک جمِ غفیر آپ کو الوداع کہنے کے لئے موجود تھا۔ مدینے کے دیوانوں نے آپ کو جھرمٹ میں لے کر نعتیں پڑھنا شروع کر دیں۔
سوز وگداز میں ڈوبی ہوئی نعتوں نے عشاق کی آتشِ عشق کو مزید بھڑکا دیا۔ غمِ مدینہ میں اٹھنے والی آہوں اور سسکیوں سے فضا سوگوار ہوئی جا رہی تھی۔ شاید ہی کوئی آنکھ ایسی ہوگی جو فراقِ طیبہ میں نم نہ ہو، خود عاشقِ مدینہ امیر اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کی کیفیت بڑی عجیب تھی۔ آپ کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگی ہوئی تھی۔ اور آپ دامت برکاتہم العالیہ اپنے ان اشعار کے مصداق نظر آ رہے تھے،۔۔۔۔۔۔

آنسوؤں کی لڑی بن رہی ہو
اور آہوں سے پھٹتا ہو سینہ
وردِ لب ہو مدینہ مدینہ
جب چلے سوئے طیبہ سفینہ

عشق و اُلفت کا یہ نرالا انداز ہر ایک کی سمجھ میں تو آ نہیں سکتا۔ کیونکہ حاضری طیبہ کے لئے جانے والے تو عموماً ہنستے ہوئے، مبارکبادیاں وُصول کرتے ہوئے جاتے ہیں۔ ایسے زائرینِ مدینہ کا آپ دامت برکاتہم العالیہ نے اپنے کلام میں اس طرح سے مدنی ذہن بنانے کی کوشش کی ہے:۔

اے زائرِ مدینہ ! تو خوشی سے ہنس رہا ہے
دلِ غمزدہ جو پاتا تو کچھ اور بات ہوتی

بالآخر اسی محویت کے عالم میں امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کو بمشکل ائیر پورٹ کے گیٹ میں داخل کیا گیا۔ آپ دامت برکاتہم العالیہ کی حالت دیکھ کو ائیر پورٹ کے عملے کے بھی کچھ لوگ آپ سے متاثر ہو چکے تھے، لٰہذا انہوں نے وہاں کی ضروری کاروائی کرا کے آپ کو نہایت ہی احترام کے ساتھ ہوائی جہاز میں سُوار کرا دیا۔

جوتے اُتار لئے
جُوں جُوں منزل قریب قریب آتی رہی، آپ دامت برکاتہم العالیہ کے عشق کی شدّت بھی بڑھتی رہی۔ اس پاک سر زمین پر پہنچتے ہی آپ نے جوتے اتار لئے۔ اللہ اللہ !! مزاجِ عشقِ رسول سے اس قدر آشنا کہ خود ہی کلام میں فرماتے ہیں۔

پاؤں میں جوتا ارے محبوب کا کوچہ ہے یہ
ہوش کر تو ہوش کر غافل مدینہ آ گیا

تعظیمِ مکہ مکرمہ
حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما فرماتے ہیں کہ سرکار مدینہ، سرور قلب و سینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے مکہ معظّمہ سے فرمایا:۔ “تو کیسا پاکیزہ شہر ہے اور تو مجھے کیسا پیارا ہے، اگر میری قوم مجھے نہ نکالتی تو میں تیرے سوا کسی اور بستی میں نہ رہتا۔“ (جامع الترمذی، کتاب المناقب، باب فی فضل مکۃ، الحدیث 39، ج5، ص487، دارالفکر بیروت)

کعبۃ اللہ شریف کو پیٹھ نہ ہونے دی
امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ سفرِ حج کے دوران جب تک مکہ مکرمہ میں رہے حتی الامکان کعبۃ اللہ شریف کو پیٹھ نہ ہونے دی اور برہنہ پا رہے۔ طوافِ کعبہ کے دوران بھی آپ کا عجیب والہانہ انداز ہوتا ہے۔ آپ دامت برکاتہم العالیہ کو دیکھا گیا ہے کہ جسم سمیٹے، سر جھکائے اس طرح طوافِ کعبہ میں مصروف ہوتے ہیں کہ آپ کہ آنکھوں سے اشکوں کی برسات جاری رہتی ہے۔ الغرض ایسا کیف آور منظر ہوتا ہے کہ دیکھنے والے بھی عاشقِ رسول کے اس وقت انگیز انداز کو دیکھ کر آبدیدہ ہو جاتے ہیں۔

محبتِ مدینہء منورہ
حضرت سیدنا انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ جب نبی کریم، رؤف رحیم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم جب سفر سے آتے اور مدینہ پاک کی دیواروں کو دیکھتے تو اپنی سواری کو تیز فرما دیتے، اگر کسی اور جانور پر ہوتے تو مدینے (جلد پہنچتے) کی چاہت کے سبب سے ایڑ لگاتے۔ (صحیح البخاری، کتاب فضائل المدینہ، الحدیث 1886، ج1، ص629 دارالکتب العلمیۃ بیروت)

ناک نہ سُنکی
1406ھ کے سفرِ حج میں امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کی طبیعت ناساز تھی۔ سخت نزلہ ہو گیا، ناک سے شدّت کے ساتھ پانی بہہ رہا تھا۔ اس کے باوجود آپ نے کبھی بھی مدینہ پاک کی سر زمین پر ناک نہیں سنکی بلکہ آپ کی ہر ادا سے ادب کا ظہور ہوتا۔ جب تک مدینہ منّورہ میں رہے حتی الامکان گنبدِ خضراء کو پیٹھ نہ ہونے دی۔

مدینہ اس لئے عطّار جان و دل سے پیارا ہے
کہ رہتے ہیں میرے آقا میرے دلبر مدینے میں
صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم

دربارِ رسالت میں حاضری
جب مزارات اولیاء و بزرگان دین پر حاضری کا صحیح طریقہ یہی ہے کہ قدموں کی جانب سے حاضر ہو اور سرِ مبارک کی جانب سے حاضری مناسب نہیں تو پھر تمام اولیاء کے آقا بلکہ سیدالانبیاء علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دربار میں اس طریقے سے ہٹ کر حاضری دینا کسی عاشق کو کیسے گوارا ہو سکتا ہے۔ چنانچہ امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ باب جبرئیل جو کہ سرکارِ دو عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے قدمین شریفین میں واقع ہے، وہاں سے داخل ہوتے حالانکہ آپ کو بہت مشکل کا سامنا کرنا پڑتا کیونکہ مروجہ نظام کے تحت خصوصاً ایّام حج میں باب الاسلام سے داخلہ کا انتظام ہوتا ہے اور باب جبرئیل سے خروج کا۔

جاروب کشی
1406ھ کی حاضری کے دوران مسجدِ نبوی شریف میں جاروب کشی کی آرزو نے بے تاب کیا چنانچہ امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ نے خادمینِ حرم شریف سے اپنی خواہش کا اظہار کیا۔ ان کی اجازت پر آپ نے چند لمحوں کیلئے جاروب کشی کی سعادت حاصل کرکے مسجد نبوی کے جاروب کشوں کی فہرست میں اپنا نام درج کرایا۔

جارو کشوں میں چہرے لکھے ہیں ملوک کے
وہ بھی کہاں نصیب فقط نام بھر کی ہے (حدائق بخشش)

کبھی کبھی میٹھے مدینے کی گلیوں سے گزرتے ہوئے وہاں کے جاروب کشوں کے ہاتھ سے جھاڑو لے کر آپ نے مدینے کی گلیوں میں جاروب کشی کی سعادت بھی حاصل کی ہے۔ اس کی تمنّا کرتے ہوئے ولی کامل، عاشقِ صادق حضور مفتی اعظم ہند مصطفٰی رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں۔

خدا خیر سے لائے وہ دن بھی نوری
مدینے کی گلیاں بہارا کروں میں (سامانِ بخشش)

جدائی کی گھڑیاں
جب مدینہ منّورہ سے جدائی کی گھڑیاں قریب آتی ہیں تو امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کی اضطراب بہت بڑھ جاتا ہے۔ آپ جدائی کے غم میں بے چین ہو جاتے ہیں۔ مدینے شریف سے جدائی کا منظر کما حقہ لفظوں میں بیان کرنا بے حد مشکل ہے۔ آپ نے 1400ھ کی حاضری میں رخصت کے وقت اشکبار آنکھوں سے سُنہری جالیوں کے رُوبرو عین مواجہہ شریف میں اپنی الوداعی کیفیت کا جو نقشہ اپنے اشعار میں کھینچا ہے اس کے چند اشعار ہدیہ قارئین ہیں۔

آہ ! اب وقت رخصت ہے آیا الوداع تاجدارِ مدینہ
کوئے جاناں کی رنگیں فضاؤ ! اے معطر معنبر ہواؤ
صدمہء ہجر کیسے سہوں گا الوداع تاجدارِ مدینہ
لو سلام آخری اب ہمارا الوداع تاجدارِ مدینہ
کچھ نہ حُسن عمل کر سکا ہوں، نذر چند اشک میں کر رہا ہوں
بس یہی ہے مرا کل اثاثہ الوداع تاجدارِ مدینہ
آنکھ سے اب ہوا خون جاری، روح پر بھی ہوا رنج طاری
جلد عطار کو پھر بلانا الوداع تاجدارِ مدینہ

اس الوداعی کلام میں اس قدر سوز ہے کہ آج بھی کوئی عاشقِ رسول اسے پڑھتا ہے تو اس کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔ یہ تو وہ کلام ہے جسے بارگاہِ رسالت صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم سے مقبولیت کی سند حاصل ہے۔ چُنانچہ حیدرآباد (باب الاسلام سندھ) کے مبلغ دعوتِ اسلامی عبدالقادر عطاری علیہ رحمۃ اللہ الباری نے ایک بار خواب میں سرکارِ مدینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی۔ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے لب ہائے مبارکہ جو جنبش ہوئی اور رحمت کے پھول جھڑنے لگے اور الفاظ کچھ یوں ترتیب پائے:۔ الیاس قادری کو میرا سلام کہنا اور کہنا کہ جو تم نے الوداع تاجدارِ مدینہ والا قصیدہ لکھا ہے وہ ہمیں بہت پسند آیا ہے اور کہنا کہ اب کی بار جب مدینے آؤ تو کوئی نئی الوداع لکھنا اور ممکن نہ ہو تو وہی الوداع سنا دینا۔ (آپ کے سوز وگداز سے لبریز کلام کا مجموعہ ارمغانِ مدینہ اور مغیانِ مدینہ مکتبۃ المدینہ کی کسی بھی شاخ سے ھدیۃ طلب کیا جا سکتا ہے۔)

اتباع سنّت
رحمت عالم، نور مجسم، شاہ بنی آدم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:۔ “جس نے میری سنّت کو زندہ کیا اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ میرے ساتھ جنت میں ہوگا۔“ (جامع الترمذی، کتاب العلم، باب ماجاء فی الاخذ۔۔۔۔ الخ، الحدیث 2687، ج4، ص309، دارالفکر بیروت)

امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کا دل اتباع سنّت کے جذبہ سے معمور و سرشار ہے۔ آپ دامت برکاتہم العالیہ نہ صرف خود سنّتوں پر عمل کرتے ہیں بلکہ دیگر مسلمانوں کو بھی زیور سنّت سے آراستہ کرنے میں ہمہ تن مصروف عمل ہیں۔ آپ دامت برکاتہم العالیہ بسا اوقات ایسی ایسی سنّتوں پر عمل کر لیتے ہیں کہ دیکھنے والے حیران رہ جاتے ہیں اور کیوں نہ ہو جس کو واقعی سنّتوں کا درد ہوتا ہے اس کو اللہ تبارک و تعالٰی مدنی سوچ عطا فرما دیتا ہے۔

چٹائی کا بچھونا
آپ دامت برکاتہم العالیہ اتباع سنّت کی نیّت سے کبھی فرش پر لیٹتے ہیں تو کبھی چٹائی پر۔ آپ نے اپنے سونے کے لئے نہ تو اپنے گھر میں کوئی گدیلا رکھا ہے نہ ہی پلنگ، البتہ جب کسی کے گھر تشریف لے جاتے ہیں اور وہاں اگر سونے کی نوبت آتی ہے تو میزبان جس قسم کا بچھونا پیش کرتا ہے اسی پر آرام فرما لیتے ہیں۔ اس میں بھی اتباع سنّت ہی کی جلوہ نمائی ہے کیونکہ حدیث پاک میں آتا ہے کہ سرکارِ مدینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے کبھی بچھونے میں عیب نہیں نکالا۔ (وسائل الوصول الی شمائل الرسول صلی اللہ علیہ وسلم، ص123، دارالمنہاج بیروت)

مسواک کے لئے الگ جیب
امیر اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کے کُرتے میں سینے کی طرف دو جیبیں ہوتی ہیں۔ مسواک شریف رکھنے کیلئے آپ سینے کی الٹی جانب والی جیب کے برابر ایک چھوٹی سی جیب بنواتے ہیں۔ اس کی وجہ آپ دامت برکاتہم العالیہ نے یہ ارشاد فرمائی:۔ میں چاہتا ہوں کہ یہ آلہء ادائے سنّت میرے دل سے قریب رہے۔

حُسن اخلاق
حضرت سیدنا ابو درداء رضی اللہ تعالٰی عنہ روایت کرتے ہیں کہ نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سرور، دو جہاں کے تاجور، سلطان بحر و بر صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا، “میزانِ عمل میں حُسن اخلاق سے وزنی کوئی اور عمل نہیں۔“ (الادب المفرد، باب حسن الخلق، الحدیث 273، ص91، مدینۃ الاولیاء ملتان)

اللہ تعالٰی نے امیر اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کو اخلاقِ حسنہ کی نعمت سے مالا مال کیا ہے، آپ دامت برکاتہم العالیہ چھوٹے بڑے سبھی سے نہایت خندہ پیشانی اور پُر تپاک طریقے پر ملتے ہیں اور ایسے مواقع جہاں اکثر لوگ غصے سے بے قابو ہو جاتے ہیں وہاں آپ دامت برکاتہم العالیہ مسکراتے رہتے ہیں۔

کمالِ ضبط کا مظاہرہ
یہ ان دنوں کی بات ہے جب دعوتِ اسلامی کا ہفتہ وار سنّتوں بھرا اجتماع دعوتِ اسلامی کے اوّلین مدنی مرکز “گلزارِ حبیب مسجد“ گلستانِ شفیع اوکاڑوی (سولجر بازار) باب المدینہ کراچی میں ہوتا تھا۔ قبلہ امیر اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ اجتماع میں شرکت کے لئے اسلامی بھائیوں کے ساتھ جب سینما گھر کے قریب سے گزرے تو ایک نوجوان جو فلم کا ٹکٹ لینے کی غرض سے قطار میں کھڑا تھا اس نے (معاذاللہ عزوجل) بلند آواز سے امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کو مخاطب کر کے کہا: “مولانا بڑی اچھی فلم لگی ہے آکر دیکھ لو۔“ اس سے پہلے کہ آپ کے ہمراہ اسلامی بھائی جذبات میں آکر کچھ کرتے امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ نے بلند آواز سے سلام کیا اور قریب پہنچ کر بڑی ہی نرمی کے ساتھ انفرادی کوشش کرتے ہوئے ارشاد فرمایا، کہ بیٹا میں فلمیں نہیں دیکھتا البتہ آپ نے مجھے دعوت پیش کی تو میں نے سوچا کہ آپ کو بھی دعوت پیش کروں، ابھی انشاءاللہ عزوجل گلزارِ حبیب مسجد میں سنّتوں بھرا اجتماع ہوگا، آپ سے شرکت کی درخواست ہے، اگر آپ ابھی نہیں آ سکتے تو پھر کبھی ضرور تشریف لائیے گا۔ پھر آپ دامت برکاتہم العالیہ نے اسے ایک عطر کی شیشی تحفہ میں پیش کی۔

چند سالوں بعد امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کی بارگاہ میں سنّتوں کے عامل ایک اسلامی بھائی سبز عمامہ سجائے حاضر ہوئے اور کچھ اس طرح سے عرض کی، حضور چند سال قبل ایک نوجوان نے آپ کو (معاذاللہ عزوجل) فلم دیکھنے کی دعوت دی تھی اور آپ نے کمالِ ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے ناراض ہونے کے بجائے اجتماع میں شرکت کی دعوت پیش کی تھی وہ نوجوان میں ہی ہوں۔ میں آپ کے عظیم حسنِ اخلاق سے بے حد متاثر ہوا اور ایک دن اجتماع میں آ گیا، پھر آپ کی نظرِکرم ہو گئی اور الحمدللہ عزوجل ! میں گناہوں سے توبہ کرکے مدنی ماحول سے وابستہ ہوگیا۔

عفوو درگزر
حضرت سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ میں رحمتِ عالم، نورِ مجسم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو حضور سرور کونین صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا، “جو تم سے تعلق توڑے تم اس سے جوڑو، جو تمہیں محروم کرے اُس کو عطا کرو اور جو تم پر ظلم کرے تم اُسے معاف کرو۔“ (المسند للامام احمد بن حنبل، حدیث عقبہ بن عامر، الحدیث 17457، ج6 ص148، دارالفکر بیروت)

ناراض پڑوسی
امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ آپ اپنی ذات کے لئے کسی سے انتقام لینے کی بجائے اسے معاف کر دیتے ہیں۔ جب امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ موسٰی لین باب المدینہ (کراچی) میں ایک فلیٹ میں رہا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ پڑوس میں رہنے والی خاتون کی آپ کے گھر والوں سے کچھ بدمزگی ہو گئی۔ اس خاتون نے اسی وقت گھر میں موجود اپنے بچوں کے ابو (یعنی شوہر) کو سارا قصہ اپنے انداز میں جا سنایا۔ وہ اس کی بات سن کر بھڑک اٹھا اور خطرناک تیور لئے آپ کے دروازے پر پہنچا اور آپ سے ملنے کا تقاضا کیا لیکن آپ اس وقت راہِ خدا عزوجل میں سفر کرنے والے مدنی قافلے میں سفر اختیار کئے ہوئے تھے۔ یہاں سے ناکام ہونے کے بعد وہ اس مسجد میں جا پہنچا جہاں آپ امامت فرماتے تھے اور آپ کی غیر موجودگی میں آپ کے خلاف واویلا مچانا شروع کر دیا اور مختلف قسم کی دھمکیاں دے ڈالیں۔
جب آپ مدنی قافلے سے واپسی پر مسجد میں پہنچے تو آپ کو اس کے بارے میں بتایا گیا۔ آپ نے تحمل مزاجی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کوئی انتقامی کاروائی نہ کی بلکہ اس کو منانے کی فکر میں لگ گئے۔ چند دن بعد مسجد سے گھر کی طرف جاتے ہوئے وہی شخص اپنے گھر کے باہر کچھ لوگوں کے ساتھ کھڑا ہوا مل گیا۔ آپ اسے دیکھتے ہی اس کی طرف بڑھ گئے اور سلام کیا۔ آپ کو دیکھ کر اس کے چہرے پر شدید غصے کے آثار نمودار ہوئے لیکن آپ نے اس کے غصے کی پرواہ نہ کرتے ہوئے نہایت نرمی اور شفقت سے کہا، “بھائی ! آپ تو ناراض دکھائی دیتے ہیں۔“ آپ کا پیار بھرا انداز دیکھ کر اس کا دل پسیج گیا اور اس کی ناراضگی دور ہو گئی۔ یہاں تک کہ وہ باصرار آپ کو اپنے گھر لے گیا اور ٹھنڈے مشروب سے آپ کی خاطرداری کی۔

ناراض ہونے والے کو سینے سے لگا لیا
دعوتِ اسلامی کے اوائل میں امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کو ایک اسلامی بھائی کے بارے میں پتا چلا کہ وہ آپ کو بُرا بھلا کہتا ہے اور اس نے آپ کی امامت میں نماز پڑھنا بھی چھوڑ دی ہے۔ ایک دن وہ آپ کو اپنے دوست کے ساتھ سرِ راہ مل گیا۔ آپ نے اسے سلام کیا تو اس نے منہ دوسری طرف پھیر لیا۔ لیکن آپ نے اس کی بے رخی کا کوئی اثر نہ لیا اور اس کے سامنے ہوکر مسکراتے ہوئے کہا “بہت ناراض ہو بھائی۔۔۔۔۔۔ ؟“ اور اسے اپنے سینے سے لگا لیا اور گرم جوشی سے مصافحہ کیا۔ اس کے دوست کا کہنا ہے کہ وہ آپ کے جانے کے بعد کہنے لگا، “عجیب آدمی ہے، میرے منہ پھیر لینے کے باوجود اس نے مجھے گلے لگا لیا، جب اس نے مجھے گلے لگایا تو یوں محسوس ہوا کہ دل کی ساری نفرت محبت میں بدل گئی، لٰہذا میں مُرید بنوں گا تو انہی کا بنوں گا۔“ پھر وہ اسلامی بھائی اپنے کہنے کے مطابق آپ کے مُرید بھی بنے اور داڑھی شریف بھی چہرے پر سجا لی۔

حقوق کی معافی
امیر اہلسنّّت دامت برکاتہم العالیہ کے جذبہء عفوو درگزر کے قربان کہ خود آگے بڑھ کر اپنے حقوق سب کو معاف کر رہے ہیں۔ چنانچہ مدنی وصیت نامہ ص10 اور نماز کے احکام ص463 پر وصیّت نمبر 38 تا 40 ملاحظہ ہوں:۔

وصیت (نمبر 38) :۔ مجھے جو کوئی گالی دے، بُرا بھلا کہے، زخمی کر دے یا کسی طرح بھی دل آزاری کا سبب بنے میں اسے اللہ عزوجل کے لئے پیشگی معاف کر چکا ہوں۔
وصیت (نمبر39) :۔ مجھے ستانے والوں سے کوئی انتقام نہ لے۔
وصیت (نمبر 40) :۔ قتلِ مسلم میں تین طرح کے حقوق ہیں۔ (1) حق اللہ (2) حق مقتول اور (3) حق ورثاء۔ بالفرض کوئی مجھے شہید کر دے تو حق اللہ معاف کرنے کا مجھے اختیار نہیں البتہ میری طرف سے اُسے حق مقتول یعنی میرے حقوق معاف ہیں۔ ورثاء سے بھی درخواست ہے کہ اسے اپنا حق معاف کر دیں۔ اگر سرکارِ مدینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت کے صدقے محشر میں مجھ پر خصوصی کرم ہوگیا تو انشاءاللہ عزوجل اپنے قاتل یعنی مجھے شہادت کا جام پلانے والے کو بھی جنت میں لیتا جاؤں گا بشرطیکہ اس کا خاتمہ ایمان پر ہوا ہو۔
( اس سلسلے میں مزید معلومات کیلئے مدنی وصیّت نامہ مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کا مطالعہ فرمائیں۔)

جانوروں پر بھی شفقت
حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم، رؤف رحیم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:۔ “ایک فاحشہ عورت کی صرف اس لئے مغفرت فرما دی گئی کہ اس کا گزر اک ایسے کتے کے پاس سے ہوا جو ایک کنوئیں کی منڈیر کے پاس پڑا مارے پیاس کے ہانپ رہا تھا، قریب تھا کہ وہ پیاس سے مر جاتا۔ اس عورت نے اپنا موزہ اتار کر دوپٹے سے باندھا اور پانی نکال کر اسے پلایا تو یہی اس کی بخشش کا سبب ہو گیا۔“ (صحیح البخاری، کتاب بدءالخلق، باب اذواقع الذباب فی شراب، الخ الحدیث 3321، ج2، ص409)

بے تاب چیونٹی
امیر اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ انسان تو انسان بلاوجہ جانوروں بلکہ چیونٹی تک کو بھی تکلیف دینا گوارا نہیں کرتے حالانکہ عوام الناس کی نظر میں اس کی کوئی وقعت نہیں۔ ایک مرتبہ آپ دامت برکاتہم العالیہ کی خدمت میں پیش کئے گئے کیلوں کے ساتھ اتفاقاً ایک چھلکا بھی آگیا جس پر ایک چیونٹی بڑی بے تابی سے پھر رہی تھی۔ آپ فوراً معاملہ سمجھ گئے لٰہذا فرمایا کہ دیکھو یہ چیونٹی اپنے قبیلے سے بچھڑ گئی ہے۔ کیونکہ چیونٹی ہمیشہ اپنے قبیلے کے ساتھ رہتی ہے اس لئے بے تاب ہے۔ برائے مہربانی کوئی اسلامی بھائی اس چھلکے کو چیونٹی سمیت لے جائیں اور واپس وہیں جاکر رکھ آئیں جہاں سے اٹھایا گیا ہے، یوں وہ چھلکا چیونٹی سمیت اپنی جگہ پہنچا دیا گیا۔

چیونٹیوں کے ہٹنے کا انتظار
اسی طرح ایک بار آپ دامت برکاتہم العالیہ واش بیسن پرہاتھ دھونے کیلئے پہنچے مگر رک گئے، پھر ارشاد فرمایا کہ واش بیسن میں موجود چند چیونٹیاں رینگ رہی ہیں، اگر میں نے ہاتھ دھوئے تو یہ بہہ کر مر جائیں گی، لٰہذا کچھ دیر انتظار فرمانے کے بعد جب چیونٹیاں آگے پیچھے ہو گئیں تو پھر آپ دامت برکاتہم العالیہ نے ہاتھ دھوئے۔

شہد کی مکھی کا ڈنک
عرب امارت کے قیام کے دوران غالباً 4 ربیع الغوث 1418ھ کو قیام گاہ پر علی الصبح اندھیرے میں شیخ طریقت، امیر اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کا پاؤں ایک شہد کی مکھی پر پڑ گیا۔ اس نے آپ کے پاؤں کے تلوے پر ڈنک مار دیا، جس پر آپ نے بے تاب ہوکر قدم اٹھا لیا اور وہ شہد کی مکھی رینگنے لگی۔ ایک اسلامی بھائی اس مکھی کو مارنے کیلئے دوا کا اسپرے (Flying insect Kille) اٹھا لائے لیکن آپ نے فوراً اس کا ہاتھ روک دیا اور فرمایا، “اس بے چاری کا قصور نہیں، قصور میرا ہی ہے کہ میں نے بغیر دیکھے غریب پر پاؤں رکھ دیا، اب وہ اپنی جان بچانے کے لئے ڈنک نہ مارتی تو اور کیا کرتی ؟“ پھر فرمایا، “شہد کی مکھی کے ڈنک میں عذابِ قبر و جہنم کی تذکیر یعنی یاد ہے، یہ تو مقامِ شکر ہے کہ مجھے شہد کی مکھی نے کاٹا، اگر اس کی جگہ کوئی بچھو ہوتا تو کیا کرتا ؟“

ڈنک مچھر کا بھی مجھ سے تو سہا جاتا نہیں
قبر میں بچھو کے ڈنک کیسے سہوں گی یارب (ارمغان مدینہ)

زخمی گدھا
امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ نے ایک بار اپنے سنّتوں بھرے بیان “جانوروں کو ستانا حرام ہے“ میں ضمناً فرمایا کہ میں ایک دن اپنے گھر سے نماز ظہر کیلئے نکلا تو دیکھا کہ اپنی گلی کے تھوڑے فاصلے پر ایک بیمار گدھا پڑا ہے۔ اس میں اٹھنے کی سکّت نہ تھی، بے چارے کی گردن پر خارش کے باعث زخم ہو گیا تھا۔ جس کے سبب اس نے گردن کو زمین سے اوپر اٹھا رکھا تھا، گردن میں تکلیف بڑھنے پر جیسے ہی گردن زمین پر رکھنا چاہتا تو تکلیف کے باعث دوبارہ گردن اٹھا لیتا، وہ انتہائی تکلیف اور بے بسی کے عالم میں مبتلا تھا۔ میں نے جب اُس کی یہ حالت دیکھی تو مجھے اُس پر بہت رحم آیا کہ یہ (بے زبان) جانور ہے کس سے فریاد کرے۔ بہرحال میں نے اپنے گھر سے ایک پُرانی گدڑی منگوالی اور اس کی گردن کے نیچے رکھ دی (تاکہ زمین کی سختی کی تکلیف سے اس کو نجات ملے) ایسا کرنے سے اسے فی الواقع تسکین ہوئی، اور اس نے اپنی گردن سے گدڑی پر ٹیک لگالی، آپ مانیں نہ مانیں، وہ مجھے سر اٹھا کر شکریہ بھری نظروں سے دیکھنے لگا۔

صبر
امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ کے محلے میں رہنے والے ایک اسلامی بھائی نے جو آپ کو بچپن سے جانتے ہیں، حلفیہ بتایا کہ امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ بچپن میں بھی نہایت ہی سادہ طبیعت کے مالک تھے۔ اگر آپ کو کوئی ڈانٹ دیتا یا مارتا تو انتقامی کاروائی کرنے کی بجائے خاموشی اختیار فرماتے اور صبر کرے، ہم نے انہیں بچپن میں بھی کبھی کسی کو بُرا بھلا کہتے یا کسی کے ساتھ جھگڑا کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔

عاجزی و انکساری
سرور کونین، نانائے حسنین صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:۔ “جو کوئی اللہ تعالٰی کے لئے عاجزی اختیار کرتا ہے اللہ تعالٰی اس کا درجہ بلند فرماتا ہے۔“ (صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ، باب استحباب
العفو والتواضع، الحدیث 2588، ص 1397)

عظیم مذہبی رہنما ہونے کے باوجود امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ کی تواضع و انکساری کا یہ عالم ہے کہ اپنے محبین و متعلقین کے درمیان بھی اپنے لئے کسی امتیاز کو پسند نہیں فرماتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ احیائے سنّت کے لئے سفر پر روانہ ہونے والے مدنی قافلے میں شریک ہوتے تو متعدد بار دیکھا گیا کہ پہلے نشستوں پر اپنے اسلامی بھائیوں کو بٹھاتے اور جگہ نہ ملنے کی صورت میں کبھی کبھی آپ نشست سے نیچے ہی بیٹھ جاتے۔ آپ کی اس قدر عاجزی دیکھ کر بعض اوقات لوگوں کی آنکھوں سے اشک جاری ہو جاتے۔

مطبوعہ مکتوب، غیبت کی تباہ کاریاں کے صفحہ نمبر 44 پر امیرِ اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ نے اپنے حقوق معاف کرنے کے ساتھ ساتھ پرسوز انداز میں عاجزی فرماتے ہوئے معافی طلب کی ہے۔ اس سے آپ دامت برکاتہم العالیہ کی انکساری کا اندازہ ہوتا ہے چنانچہ آپ فرماتے ہیں:۔

“کاش ! مجھے بھی ہر مسلمان اپنے تمام حقوق معاف کرکے مجھ پر احسانِ عظیم کرے اور اجرِ عظیم کا حقدار بنے، جو بھی یہ مکتوب پڑھے یا سنے، اے کاش ! وہ دل کی گہرائی کے ساتھ کہہ دے میں نے اللہ عزوجل کیلئے اپنے اگلے پچھلے تمام حقوق محمد الیاس عطار قادری کو معاف کئے۔“

تقوٰی و پرہیزگاری
الحمدللہ عزوجل ! امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ تقوٰی و پرہیزگاری کے انوار سے بھی منّور ہیں۔ 1423ھ میں صفرِ “چل مدینہ“ کے دوران امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کو دیکھا گیا کہ گرم پانی کے کپ میں***** Tea bag ڈال کر چائے کی پتی حل فرمائی پھر دودھ اور چینی ڈالنے سے پہلے Tea bag کو اچھی طرح نچوڑ کر نکالا (جب کہ عموماً لوگ بغیر نچوڑے پھینک دیتے ہیں) اس کے بعد دودھ اور چینی ڈالی اور چائے نوش فرمائی۔ آپ کی خدمت میں عرض کی گئی “حضور ! اس میں کیا حکمت ہے ؟“ ارشاد فرمایا:۔ “میں نے محسوس کیا کہ دودھ اور چینی کے کچھ اجزاء Tea bag میں رہ جائیں گے، اس لئے میں نے اسے احتیاطاً گرم پانی ہی میں نچوڑ لیا، تاکہ کوئی کارآمد چیز ضائع نہ ہونے پائے۔“

تجھے واسطہ سارے نبیوں کا مولا عزوجل
مجھے متقی تو بنا یاالٰہی عزوجل

سنگِ بنیاد
جب شیخِ طریقت امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کی خدمت میں صحرائے مدینہ (باب المدینہ کراچی) میں فیضانِ مدینہ کا سنگِ بنیاد رکھنے کے لئے عرض کی گئی تو آپ نے فرمایا کہ “سنگِ بنیاد“ میں عموماً کھودے ہوئے گڑھے میں کسی شخصیت کے ہاتھوں سے سیمنٹ کا گارا ڈلوادیا جاتا ہے، بعض جگہ ساتھ میں اینٹ بھی رکھوالی جاتی ہے لیکن یہ سب رسمی ہوتا ہے، بعد میں وہ سیمنٹ وغیرہ کام نہیں آتی۔ مجھے تو یہ اسراف نظر آتا ہے اور اگر مسجد کے نام پر کئے ہوئے چندے کی رقم سے اس طرح کا اسراف کی جائے تو توبہ کے ساتھ ساتھ تاوان یعنی جو کچھ مالی نقصان ہوا وہ بھی ادا کرنا پڑیگا۔“ عرض کی گئی، “ایک یادگاری تختی بنوا لیتے ہیں، آپ اس کی پردہ کشائی فرما دیجئے گا۔“ تو فرمایا ! “پردہ کشائی کرنے اور سنگ بنیاد رکھنے میں فرق ہے۔ پھر چونکہ ابھی میدان ہی ہے اس لئے شاید وہ تختی بھی ضائع ہو جائے گی۔“
بالآخر امیرِ اہلسنّت مدظلہ العالی نے فرمایا کہ “جہاں واقعی ستون بنانا ہے اس جگہ پر ہتھوڑے مار کر کھودنے کی رسم ادا کر لی جائے اور اس کو “سنگِ بنیاد رکھنا“ کہنے کے بجائے “تعمیر کا آغاز“ کہا جائے۔“ چنانچہ 22 ربیع النور شریف 1426ھ یکم مئی 2005ء بروزِ اتوار، آپ کی ساداتِ کرام سے محبت میں ڈوبی ہوئی خواہش کے مطابق 25 سیّد مدنی منّوں نے اپنے ہاتھوں سے مخصوص جگہ پر ہتھوڑے چلائے، آپ خود بھی اس میں شریک ہوئے اور اس نرالی شان سے فیضان مدینہ (صحرائے مدینہ، ٹول پلازہ، سپر ہائی وے باب المدینہ کراچی) کے تعمیری کام کا آغاز ہوا۔

سنّت کی بہار آئی صحرائے مدینہ میں
رحمت کی گھٹا چھائی صحرائے مدینہ میں

ایثار و سخاوت
ایک مرتبہ امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ سے ان کے ایک عزیز نے (بطور برکت) ان کے استعمال کا عصا مانگا تو آپ نے فرمایا:۔ “ایک کی بجائے دو لے لیجئے۔“ جواباً انہوں سے واقعی دونوں عصا لے لئے۔ ان صاحب کے بیٹے نے آپ سے پوچھا کہ آپ کے استعمال کا عصا کون سا ہے ؟ (تاکہ ایک عصا واپس کیا جا سکے) لیکن آپ نے فرمایا کہ میں دونوں عصا لے لینے کی اجازت دے چکا ہوں نیز میں اپنی پسندیدہ شے راہِ خدا عزوجل میں خرچ کرنے کا ثواب کمانا چاہتا ہوں، قرآن پاک میں ہے، لن تنالوا البر حتی تنفقوا مما تحبون۔ ترجمہء کنزالایمان:۔ “تم ہرگز بھلائی کو نہ پہنچو گے جب تک راہِ خدا عزوجل میں اپنی پیاری چیز نہ خرچ کرو۔“ (پ4، ال عمران: 92)

عبادت و ریاضت
الحمدللہ عزوجل ! شیخِ طریقت امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کو آنکھ کھولتے ہی گھر میں پنجگانہ نمازوں کی ادائیگی اور ماہِ رمضان کے روزے پابندی سے رکھنے کا مدنی ماحول ملا۔ جیسے ہی داڑھی نکلی، رکھ لی حالانکہ اس دور میں شاذ و نادر ہی کوئی نوجوان داڑھی والا نظر آتا تھا۔ اس کے علاوہ آپ نے زلفیں رکھنے کی سنّت پر بھی عمل کیا۔

نمازِ باجماعت کی پابندی
رب عزوجل کے کرم سے شروع سے ہی امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کا باجماعت نماز پڑھنے کا ذہن تھا، جماعت ترک کر دینا آپ کی لغت میں تھا ہی نہیں۔ یہاں تک کہ جب آپ دامت برکاتہم العالیہ کی والدہ محترمہ کا انتقال ہوا تو اس وقت گھر میں دوسرا کوئی مرد نہ تھا، آپ اکیلے تھے مگر الحمدللہ عزوجل ماں کی میّت چھوڑ کر مسجد میں نماز پڑھانے کی سعادت پائی۔ آپ دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں:۔ “ماں کے غم میں میرے آنسو ضرور بہہ رہے تھے، مگر اس صورت میں بھی الحمدللہ عزوجل جماعت نہ چھوڑی۔“

نمازوں میں مجھے سستی نہ ہو کبھی آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم
پڑھوں پانچوں نمازیں باجماعت یارسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم

امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ ڈاکٹروں کے مشورے پر آپریشن کیلئے حیدرآباد تشریف لائے تو آپ ہی کے مطالبے پر نمازِ عشاء کے بعد کا وقت طے کیا گیا تاکہ آپ کی کوئی نماز قضاء نہ ہونے پائے Operation سے قبل دونوں ہاتھ آپریشن ٹیبل کی Sides میں باندھ دئیے گئے تھے جوں ہی کھولے گئے آپ نے فوراً قیامِ نماز کی طرح باندھ لئے۔ ابھی نیم بے ہوشی طاری تھی، درد سے کراہنے، چلانے کے بجائے زبان پر ذکر و درود اور مناجات کا سلسلہ جاری ہوگیا۔ یکایک آپ نے پوچھا، “کیا نمازِ فجر کا وقت ہو گیا ؟ اگر ہو گیا ہے تو انشاءاللہ عزوجل میں فجر کی نماز پڑھوں گا۔“ تو آپ کو بتایا گیا کہ “فجر میں ابھی کافی دیر ہے۔“

مال کی محبت سے پرہیز
امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کو دیکھا گیا کہ جب کبھی ضرورتاً جیب میں رقم رکھنی پڑے تو سینے کی سیدھی جانب والی جیب میں رکھتے ہیں۔ اس کی حکمت دریافت کرنے پر فرمایا، “میں الٹے ہاتھ والی جیب میں رقم اس لئے نہیں رکھتا کہ دنیوی دولت دل سے لگی رہے گی اور یہ مجھے گوارا نہیں، لٰہذا میں ضرورت پڑنے پر رقم سیدھی جانب والی جیب میں ہی رکھتا ہوں۔“

ایک مرتبہ امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ نے اسلامی بھائیوں کو ترغیب دلانے کے لئے ارشاد فرمایا کہ الحمدللہ عزوجل ! سنہری جالیوں کے رُوبرو حاضر ہوکر مجھے یاد نہیں رہتا کہ کبھی میں نے سرکارِ نامدار صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے دربار سے دنیا کی ذلیل دولت کا مطالبہ کیا ہو، بلکہ میں نے تو یہی عرض کیا ہے:۔ “یارسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ! مجھے اپنی یاد میں تڑپنے والا دل عطا کر دیجئے۔۔۔۔۔۔ آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم مجھے اپنے غم میں رونے والی آنکھ دے دیجئے۔۔۔۔۔۔ اور اس سے پہلے کہ آتشِ عشق سرد پڑ جائے، آپ کی محبت میں آنسو ختم ہو جائیں مجھے ایمان و عافیت پر مدینہ شریف میں موت نصیب ہو جائے۔“

رات دن عشق میں تیرے تڑپا کروں
یانبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ! ایسا سوزِ جگر چاہئیے
ذوق بڑھتا رہے اشک بہتے رہیں
مضطرب قلب اور چشم تر چاہئیے
گر وہ فرمائیں عطار کیا چاہئیے
میں کہوں گا مدینے کا غم چاہئیے

سادگی
امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ عموماً سادہ اور سفید لباس بغیر استری کے استعمال کرنا پسند فرماتے ہیں جبکہ سر پر چھوٹے سائز کا سادہ سبز عمامہ باندھتے ہیں۔ اس کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرمایا:۔ “میں عُمدہ لباس پہننا پسند نہیں کرتا حالانکہ میں اللہ عزوجل کے کرم سے بہترین لباس پہن سکتا ہوں۔ مجھے تحفے میں بھی لوگ نہایت قیمتی اور چمکدار قسم کے کپڑے دے جاتے ہیں لیکن میں خود پہننے کی بجائے کسی اور کو دے دیتا ہوں کیونکہ ایک تو میرے مزاج میں اللہ تعالٰی نے سادگی عطا فرمائی ہے، دوسرا میرے پیچھے لاکھوں لوگ ہیں اگر میں مہنگے ترین لباس پہنوں گا تو یہ بھی میری پیروی کرنے کی کوشش کریں گے۔ مالدار اسلامی بھائی تو شاید پیروی کرنے میں کامیاب ہو بھی جائیں لیکن میرے غریب اسلامی بھائی کہاں جائیں گے اس لئے میں اپنے غریب اسلامی بھائیوں کی محبت میں عمدہ لباس پہننے سے کتراتا ہوں۔
Muhammad owais Aslam
About the Author: Muhammad owais Aslam Read More Articles by Muhammad owais Aslam: 97 Articles with 687704 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.