سائنس اوراقتصادیات کی ترقی کے
بغیرترقی کاخواب کسی شاعرکی تخلیق کردہ ریاست سے بھی زیادہ خیالی معلوم
ہوتاہے۔موجودہ دورمیں سائنسی ترقی کے ساتھ ساتھ انتہاپسندی نے زورپکڑاہے جس
پر گرفت حاصل کرکے ہی اپنی معیشت کوچارچاندلگائے جاسکتے ہیں۔پاکستان سمیت
دنیااسوقت جس مرحلے سے گزررہی ہے اس حقیقت کے آئینے میں دیکھنے کی ضرورت ہے
۔پاکستان کوایسے حالات میں اندرونی حالات کوبہترکرنے کے ساتھ ساتھ اپنی
خارجہ پالیسی میں ہنگامی اصلاح اوربین الاقوامی فورم پراپناایجنڈا‘مسائل
اوراپنی تگ ودوپیش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اقوام ِ عالم حقیقی حالات سے
آشناہوں اورامن کی جانب پاکستان کے بڑھتے ہوئے قدموں کی حوصلہ افزائی کریں
تاکہ یہاں سرمایہ کاری کے مواقع بڑھیں اورجدیددنیاکی ٹیکنالوجی سے بہرہ
ورہونے کا موقع ملے۔
وزیراعظم پاکستان اپنے طے شدہ دورے پریورپی ایٹمی ادارے سرن پہنچے جہاں سرن
کی ڈائریکٹرجنرل نے ان کااستقبال کیا۔ورلڈ ویب کی تخلیق سرن کی سب سے بڑی
کاوش ہے جس سے گرڈکی راہ میں موجودبیرئیرز کاخاتمہ ہواہے۔ ۔اس موقع پرانہوں
نے پاکستان کے سائنسدانوں اورانجینئرز کوسراہاجن کی کاوشوں کی بدولت
31جولائی 2015کوپاکستان اس ادارے کاپہلاغیریورپی ایسوسی ایٹ ممبربنا۔سرن کی
ممبرشپ کی بدولت پاکستانی سائنسدان اس ادارے کے رکن بن سکیں گے نیزسرن کی
ٹریننگ ‘کیرئیرڈویلپمنٹ پروگرام اورسرن کونسل میں بھی شرکت کرسکیں
گے۔وزیراعظم نے سرن کے مختلف سیکشن کادورہ بھی کیااوراسکی ستائیس
کلومیٹرلمبی سرنگ بھی دیکھی۔پاکستان 2003سے ایکوپمنٹ فراہم کرکے سرن
پروگرام کی سپورٹ کررہاہے جبکہ سرن سے پاکستان کاتعلق 1994سے شروع
ہوا۔پاکستان کاہیوی مکینیکل کمپلیکس 2006میں سرن کابیسٹ انڈیسٹریل
پارٹنرکاایوارڈبھی جیت چکاہے۔یورپی ایٹمی ادارے سرن کی ڈائریکڑجنرل نے
کہاکہ پاکستان کی ایلیمنڑی پارٹیکل فزکس میں جستجووتحقیق کی بڑی لمبی تاریخ
ہے۔پاکستان نے اس شعبہ میں ڈاکٹر عبدالسلام اورمعروف سائنسدان پیداکیئے۔
سرن کایہ دورہ کسی بھی بڑی پاکستانی شخصیت کاپہلادورہ ہے۔وزیراعظم کایہ
دورہ ان کی سائنس وطبیعات میں دلچسپی اورترقی کے عزم کوظاہرکرتاہے۔اس دورے
میں وہ یو۔ایس کے وائس پریزیڈنٹ جوبائڈن ‘سیکرٹری سٹیٹ جان کیری‘ورلڈبینک
کے صدراورمختلف بڑی شخصیات سے ملے اورپاکستان کے مفادات‘تحفظات اور پاکستان
میں قیام امن سمیت ملکی مفاد کے بہت سے مسائل زیربحث لائے ۔اس دوران
وزیراعظم نے سرن میں دنیاکے سب سے بڑے پارٹیکل کولائیڈرسی ایم ایس کادورہ
کیا۔اس دورے میں وزیراعظم نے کفایت شعاری کامظاہرہ کیااورچھوٹے جہاز پر
سفرکیا۔وفد کے ارکان کی تعدادبھی کسی حدتک محدودتھی۔جب کہ اسی دورے کے
دوران وہ دواسلامی ممالک میں گرم ہوتی ہوئی سرد جنگ کی آگ کوٹھنڈاکرنے
کانیک فریضہ بھی انجام دیتے رہے ۔عرب وعجم کی جنگ درحقیقت اسلام کی قوت کو
پاش پاش کرنے کی منظم سازش ہے جس میں ہماری حماقتوں کا دخل بھی ہے اوران
ممالک کے توسیع پسندانہ عزائم کانتیجہ بھی۔سعودیہ عرب اورایران کی جنگ جہاں
پاکستان کے اندرفقہی لہرلاسکتی ہے وہیں پاکستان کے سٹیٹجک اورمعاشی معاملات
کوبھی زک پہنچاسکتی ہے‘اس تصفیے کے ساتھ ساتھ پاکستان کو ہردوممالک کے
پاکستانی عوام پراثراندازہونے والے عوامل کوزیرغورلاناہوگااوراس اثرکوکسی
حدتک زائل کرنے کی سعی بھی کرناہوگی۔
۔جینیواروانگی سے قبل میڈیاسے گفتگوکرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ پاکستان کو
قائداعظم کے خوابوں کی تعبیربنارہے ہیں ۔یوتھ لون سکیم میںٖ عورتوں کیلئے
پچاس فیصدمختص کیئے۔سوئزرلینڈمیں موجود سرن کی ڈائریکٹرجنرل فیبی اولاگنوتی
نے جناب میاں محمد نواز شریف کو سائنس اورطبیعات کے شعبے میں یورپی ادارے
سرن کی خدمات کے بارے آگاہ کیا۔وزیراعظم نے کہاکہ پاکستان کی اس ایسوسی ایٹ
رکنیت نے باہمی تعاون کی مزید راہیں ہموارکی ہیں اور اس کے نتیجے میں سرن
اورپاکستان سائنٹیفک کمیونٹی کے مابین طویل المدتی شراکت داری قائم ہوگی۔
ورلڈاکنامک فورم ایک ایسامقام ہے جہاں 2500سے زائداکنامک ‘مذہبی‘آرٹ ‘سول
سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے افرادشرکت کرتے ہیں۔یہ فورم اپنے موسم سرما میں
ہونے والے سالانہ اجلاس کے تئیں مشہورومعروف ہے جوکہ ہرسال باقاعدگی سے
پانچ دن جاری رہتاہے۔اس اجلاس کی مدت انیس سے تیئس جنوری تک تھی جس میں
دوسوپچاس کے قریب نشستیں ہوناتھیں۔ڈیوس میں ہونے والے اس 46اجلاس کااصل
ایجنڈا’’چوتھاصنعتی انقلاب ‘‘تھا۔ورلڈاکنامک فورم کے بانی
اورایگزیکٹوچیئرمین پروفیسرکلاؤس شوآب کہتے ہیں کہ اس وقت دنیامیں بہت سے
مسائل کاسامنا ہے مگرجو اصل چیلنج ہے وہ چوتھے صنعتی انقلاب کی آمدکاراستہ
ہموارکرناہے۔یہ فورم دنیاکوایک ایسی سوچ فراہم کرتاہے جس سے دنیامیں اشتراک
کے ساتھ چلنے کی سوچ جنم لیتی ہے اورانفرادیت کے بجائے اجتماعیت کی جانب
راغب کرنا اس کے قیام کاسبب بتایاجاتاہے۔موجودہ دورمیں جب نفسانفسی کے اس
عالم میں ریاستیں اپنے مفادات کی جنگ لڑرہی ہیں ‘تیسری دنیاکے سیاستدان
جدیدنظریات اورقابلِ عمل ودیرپااصلاحات کے بجائے وقتی فوائد کے ہاتھوں
مجبورہوکرایسے اقدامات کررہے ہیں جس سے اقوام عالم کوخطرات لاحق ہے توایسے
میں کسی نیوٹرل‘غیرریاستی وغیرجانب دار ادارے کی موجودگی فائدہ مند ہوسکتی
ہے۔
وزیراعظم پاکستان نے ورلڈاکنامک فورم سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان
اسوقت دہشت گردی سے پاک ملک بن چکاہے ۔اکادکاواقعات کایہ مطلب نہیں کہ
پاکستان کو دہشت گردی نے یرغمال بنایاہوا ہے یا انتہاپسندی فروغ پارہی
ہے۔دنیابھرسے آئے ہوئے اقتصادی ماہرین کے سامنے وزیراعظم نے ضرب عضب کے
مثبت نتائج کاموئثرانداز میں ذکرکیا۔وزیراعظم نے اس بات کااعتراف کیاکہ کسی
بھی ملک میں تعمیروترقی کیلئے امن وامان بنیادی ضرورت ہے ۔ورلڈ اکنامک فارم
نامی یہ تنظیم کسی ملک‘لابی کے زیراثرنہیں ‘یہاں سرمایہ کاری کے مواقع
‘اقتصادی حالات اوراس سے جڑے دیگرامور بین الاقوامی ماہرین کے زیربحث آتے
ہیں۔
وزیراعظم پاکستان نے بین الاقوامی اورسوئس سرمایہ کاروں کوپاکستان کے ٹیلی
کام‘اربن ڈویلپمنٹ‘زرعی انڈسٹری‘ٹیکسٹائل اورانفراسٹریکچرمیں سرمایہ کاری
کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ ان تمام شعبوں میں بہترین وپرکشش مواقع موجود
ہیں۔سرمایہ کاری کرنے والوں سے تجارتی مرحلوں پرحکومت مکمل تعاون
کریگی۔وزیراعظم نے عالمی ماہرین کو پاک چین اقتصادی راہداری سے متعلق آگاہ
کیااوران کے اعتماد میں اضافہ کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان وچین کایہ منصوبہ
خطہ میں گیم چینجرثابت ہوگا۔اس منصوبے سے شاہراہوں کی
تعمیر‘ٹرانسپوٹیشن‘اورتوانائی کے شعبوں میں ترقی ہوگی جس سے نہ صرف یہ
دوہمسایہ ممالک بلکہ وسط ایشیاسے لے کرمشرقی وسطی بلکہ افریقہ تک کے ممالک
کیلئے یہ منصوبہ سودمندثابت ہوگا۔انہوں نے کہاکہ ڈاکٹرشوآب نے پاکستانی
ترقی کی تعریف کی جب کسی اورکے منہ سے بندہ تعریف سنتاہے توزیادہ اچھا
لگتاہے۔
ورلڈاکنامک فورم یعنی wef))نے اپنی حالیہ برس کی رپورٹ میں سب سے زیادہ
تشویش وپریشانی کاسبب تیزی سے بدلتی ہوئی موسمیاتی صورتحال کوقراردیاہے۔اس
خطہ ء زمین اوراس پرموجود تخلیقات کوتباہ کرنے والے ہتھیاروں اورجبری ہجرت
کوعالمی امن کیلئے خطرہ قراردیتے ہوئے اس پرقدغن کے بارے سوچ بچارکی گئی
ہے۔اس دوران ٹیکنالوجی کی رفتاراوراس سے سیاست کی مطابقت ‘بے روزگاری ‘عدم
اعتماداورسائبرسپیس پرسیرحاصل بحث کوضروری قراردیاگیا۔
ڈیوس 2016میں افغان صدراشرف غنی‘جرمن صدرجوشم گاؤک ‘برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ
کیمرون‘ترک صدراحمد اوگلو‘سری لنکن وزیراعظم رانیل وکرم سنگھے‘جنوبی
افریقاکے صدرجیکب زوما‘اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو‘کینیڈین وزیراعظم جسٹن
ٹروڈو‘جرمن صدرجوشم گاؤک‘امریکہ کے وزیرخارجہ جان کیری‘نائب
صدرجوبائیڈن‘وزیردفاع ایشن کارٹر‘وزیراعظم پاکستان اوروزیرخزانہ اسحق ڈارکے
علاوہ سینکڑوں بزنس مین ‘اعلی حکام اورسربراہان مملکت شریک ہوئے۔
سائیڈ سٹوری:
سرن کوانگریزی زبان میں یوریپیئن آرگنائزیشن فورنیوکلیئرریسرچ
کہاجاتاہے۔جبکہ فرانسیسی زبان میں Organisation européenne pour la
recherche nucléaireکہاجاتاہے۔آج سے 61برس قبل1954میں بارہ بانی ممالک نے
اس کے قیام میں حصہ لیا۔اسکی سرکاری زبانیں انگریزی اورفرانسیسی
ہیں۔دنیامیں ’’ذراتی طبیعات‘‘کی یہ سب سے بڑی تجربہ گاہ جینیواکے شمال
مغربی مضافاتی علاقے میں فرانس وسوئس باڈرکے قریب واقع ہے۔اس وقت اس کے رکن
ممالک کی تعداد 21ہے جن میں اسرائیل مکمل رکنیت والاواحد غیریورپی ملک ہے
جبکہ پاکستان اورترکی معاون رکن کی حیثیت رکھتے ہیں۔ترکی نے بارہ مئی
2014اورپاکستان نے 19دسمبر2014کوایسوسی ایٹ ممبرکے معاہدے پردستخط کیئے۔اس
کے بانی ارکان میں بیلجیئم
‘ڈنمارک‘فرانس‘جرمنی‘یونان‘اطالیہ‘نیدرلینڈ‘ناروے‘سویڈن‘سوئزرلینڈ‘مملکت
متحدہ اوریوگوسلاویہ شامل ہیں جنھوں نے 29ستمبر1954کواسکی بنیادرکھی۔جبکہ
اسکے منظوراراکین میں آسڑیا(1959)ہسپانیہ )1983(۔پرتگال(1986)فن
لینڈوپولینڈ انیس سواکیانوے‘مجارستان 1992‘چیک جمہوریہ
وسلواکیہ1993‘بلغاریہ 1999اوراسرائیل 2014میں مکمل رکن بنا۔
سرن کی اصطلاح عمومی طورپرایک ایسی تجربہ گاہ کیلئے استعمال کی جاتی ہے
جہاں2013تک 608جامعات وتحقیقاتی اداروں کا‘دوہزارپانچ سوتیرہ افرادپرمشتمل
عملہ‘12,313معاونین عملہ‘شاگرد‘مہمان‘سائنسدان اورانجینئرشریک ہوچکے
تھے(وکی پیڈیا)۔
سائیڈ سٹوری:
ورلڈاکنامک فارم کی بنیاد جرمن نثزاد پروفیسرکلاؤس شوآب نے آج سے 45برس قبل
1971میں جینیواکے مقام colongyمیں رکھی۔اس کاپہلانام ’’یورپین مینجمنٹ
فورم‘‘تھاجسے 1987میں تبدیل کرکے ڈبلیو۔ای ۔ایف کردیاگیااوراسکے ساتھ ہی
اسکے ویثرن میں دنیامیں موجودتمام تنازعات کومشترک اندازسے حل کرنے کاعندیہ
دیاگیا۔یہ ایک غیرمنافع بخش وغیرسرکاری تنظیم ہے۔جسے اس کی ممبرایک
ہزارکمپنیاں فنڈفراہم کرتی ہیں۔
یہ تنظیم ’’ڈیوس‘‘میں ہونے والی سالانہ میٹنگ سے معروف ہے جوکہ پانچ دنوں
پرمشتمل ہوتی ہے ۔جبکہ یہ 6 ریجنل میٹنگز لاطینی امریکہ اورایسٹ ایشیامیں
بھی بلاتی ہے اورمزید دوسالانہ میٹنگزچائنہ اورعرب امارات میں ہوتی ہیں۔اسی
ادارے کے تحت 2001میں گلوبل انفارمیشن ٹیکنالوجی ریسرچ رپورٹ ٖشائع
ہوئی‘گلوبل جینڈرگیپ رپورٹ جس میں دنیامیں مرد وعورت کے درمیان نابرابری
پرتحقیق تھی‘گلوبل رسک رپورٹ 2006جس میں دنیاکو درپیش خطرات کاجائزہ
لیاگیا‘اور2007میں اسی ادارے کے تحت گلوبل ٹریول اورٹواررزم رپورٹ پیش کی
گئی ۔ |