قبل از اسلا م کے انسان بغیر سوچے سمجھے
چیز کو اپنا معبود قرار دیتا تھا۔ انہیں سے مدد طلب کرتا تھا اور ان کے آگے
سرنیاز جھکادیتا تھا۔ انسان کا یہ عمل جہل ونادانی کے باعث تھا کیوں کہ وہ
اشیاء کے پیچھے چھپی اصلی غیبی طاقت کو اپنی نا سمجھی کی وجہ سے محسوس نہیں
کرپاتا تھا۔ نبی آخر الزماں جناب رسول اکرم ﷺ نے عالم انسانیت کو بتایا کہ
انسان اشرف المخلوقات اور فطرت کا شاہکار ہے لہٰذا اسے وہ اپنے سے کم تر
مخلوق کے آگے سر نہ جھکائے اس کا سر اگر جھک سکتا ہے تو اسی ایک ہستی کے
آگے جس کے دست قدرت میں ساری کائنات کی باگ ڈور ہے۔ ہم اسی خالق کی مخلوق
اسی معبود کے عبد اور اسی حاکم کے محکوم ہیں۔ ہمیں صرف اور صرف اسی کی
عبادت کرنی چاہئے ۔ اسی سے تمام حاجات ومرادات وبھیک مانگنی چاہئے کیوں کہ
صرف اس کی ذات غنی ہے اور ہم فقیر ہیں لا الہ اﷲ کامفہوم بھی یہیی ہے۔ قرآن
پاک اس مفہوم کو انسان کی روح کی گہرائیوں میں پیوست کرنا چاہتا ہے کیوں کہ
جب تک روح میں یہ مفہوم پوری طرح راسخ نہ ہوجائے انسان کفر وشرک کے بندھنوں
سے آزادنہیں ہوسکتا اور جب یہ عقیدہ قلب انسان میں راسخ ہوجاتا ہے۔ تو
انسان کے دل کی دنیا ہی بدل جاتی ہے۔ اس کا ضعف قوت میں اس کی ذلت عزت میں
اس کا فقر غنا میں، اس کا کفر بندگی میں، اس کا جہل حکمت میں اور اس کے
گناہ تقویٰ میں بدل جاتے ہیں۔ پوری کائنات میں وہ کسی سے ڈرتا نہیں سوائے
اپنے وحدہ لا شریک کے۔ وہ اپنی ہر امید وناامیدی کی نسبت غیراﷲ سے منقطع
کرکے اپنی ہرآس ایک اﷲ سے منسوب کر لینا ہے۔
اسلام سے قبل کہ انسان اکی ذلت وجہالت کے ازالہ کے لئے جب محسن کائنات کو
مبعوث کیا گیا تو اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا۔
وہ اﷲ ہی ہے جس نے عرب کے ناخواندہ لوگوں میں ان ہی قوم میں سے ایک پیغمبر
بھیجا جو ان کو اﷲ کی آیتیں پڑھ کر سناتے ہیں اور ان کا تزکیہ کرتے ہیں اور
انہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتے ہیں۔
تزکیہ پاک کرنے کو کہتے تزکیہ سے مراد اصل یہ ہے کہ عقائد باطلہ، شرک، کفر
نفاق اور ریا سے دل کو پاک کیا جائے اور اخلاق ذمیمہ کو دور کرکے اخلاق
فاضلہ کا اہم ترین مقصود یہی ہے کہ انسان جسے اﷲ تعالیٰ نے صفات حسنہ
وذمیمہ کا مجموعہ بنایا ہے۔اپنی یہی صفات پر غلبہ حاصل کرے اور ملکوتی صفات
اور اخلاق عالیہ کا جامع بنے۔ یہ کام وہی انجام دسے سکتے ہیں جنہیں اﷲ
تبارک وتعالیٰ کی توفیق ومدد حاصل ہو۔ قرآن کریم نے اس سعادت کے حصول کے
لئے پانچ چیز لازمی قرار دیں اوّل عبادت، دوم استعانت، سوم توکل، چہارم صبر،
پنجم شکر، نبی کریم ﷺ نے اپنی سنت مطہرہ اور حدیث میں یہی فرمایا ہے کہ ایک
بندہ خدا کے لئے اس کا اﷲ ہی کافی ہے خود قرآن بھی انسانوں کو یہی سبق
پڑھاتا ہے کیا اﷲ تعالیٰ اپنے بندے کے لئے کافی نہیں ہے اسی مقام پر عبد
ومعبود کے ما بین صحیح تعلق قائم ہوتا ہے اور انسان ہر طرف سے منھ موڑ کر
اعلان کردیتا ہے کہ میں نے اپنا رخ ہر طرف سے موڑ کر صرف اﷲ کی طرف کرلیا
ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں اس
حقیقت کو سمجھتے ہی اس کی بصارت وبصیرت سے غفلت کے پردے اٹھ جاتے ہیں اور
اسے اس بات کا یقین ہوجاتا ہے کہ
’’کوئی غیراﷲ سے استعانت کی نسبت کاٹ کر بندے کو صرف ایک در کا بھکاری اور
محض داتا کا منگتا بناتا ہے مجھے جو کچھ ملے گا اس کے در سے ملے گا کیوں کہ
وہ عطائے محض ہے‘‘۔
اﷲ کی رحمت سے نہ امید نہ ہو۔ نبی کریم ﷺ کے محبوب نبی اور کائنات کے رہبر
ہیں انہیں بھی دنیا میں بے شمار آزمائشوں اور مشکل مراحل سے گذرنا پڑا۔
پیغام حق دینے کی پاداش میں شعیب ابی طالب میں کئی مہینے محصور رہنا پڑا۔
کفار کی ڈشتام طرازی سہنا پڑی، طائف والوں کے مظالم برداشت کئے۔ یہ سب کچھ
ہوا پھر اس کے نتیجہ میں اﷲ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو دنیا کا امام پیشوا و
رہنما بناکر پوری دنیا میں پیغام حق کو عام کردیا لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے
کہ سیرت محمدی کو ہم دنیا کے منظر نامہ پر پیش کرکے اخروی نجات حاصل کریں
اور اس پرآشوب دور میں بھی ہم ببانگ دھل یہ ڈنکے کی چوٹ پر کہیں۔
باطل سے دبنے والے ائے آسماں نہیں ہم
سو بار کرچکا ہے تو امتحاں ہمارا |