ادب سرائے اور ڈاکٹر شہناز مزمل
(Mian Muhammad Ashraf Asmi, Lahore)
ادب سرائے ماڈل ٹاون لاہور کی چیئرپرسن
ڈاکٹر شہناز مزمل گذشتہ تین دہائیوں سے تشنگان علم و ادب کے لیے چراغِ راہ
بنی ہوئی ہیں۔ کسی قسم کے تجارتی ہداف سے ماورا محترمہ ڈاکٹر صاحبہ علم و
آگہی کے موتی بکھیر رہی ہیں کتاب سے اُن کا تعلق ایسا ہی ہے جیساکہ اپنی
اولا د سے ہوتا ہے۔چند برسوں سے سوشل میڈیا کے توسط سے اِن سے رابطہ ہے اور
مجھے ہمیشہ اپنا چھوٹا بھائی کہتی ہیں۔اُن کی خصوصی دعوت پر حذیفہ اشرف اور
مجھے اِس عظیم خاتون سے ملاقات کا شرف ادب سرائے میں ہوا۔زندگی کو جس انداز
میں ڈاکٹر صاحبہ نے سمجھا ہے وہ وہی اسلوب ہے جس طرح کا انداز اﷲ پاک کے
ولیوں کا ہوتا ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ ایک ممتاز شاعرہ، نثر نگار ہیں اُس کے ساتھ
ساتھ فلاحی کاموں میں بھی اپنا کردار ادا کرہی ہیں۔ اِس حوالے سے جب اُن سے
گفتگو ہوئی تو اُنھوں نے اپنے آپ کو فلاحی کاموں میں وقف رکھنے کا سبب جو
بتایا وہ یہ ہی تھا کہ اِس زندگی کا مقصد دکھی انسانیت کے لیے آسانیاں پیدا
کرنا ہے۔ڈاکٹر صاحب گذشتہ تیس سالوں سے ادب سرائے میں مختلف تقریبات منعقد
کر رہی ہیں۔ فیض گھر میں بھی کافی عرصہ اُنھوں نے مختلف ادبی نشستوں کا
انعقاد کیا۔دُنیا کے حرص سے دور اپنے رب کی محبت میں زندگی گزارنے والی
ڈاکٹر شہناز مزمل ایک بہت بہادر خاتون ہیں ۔ اِن کی شاعر میں جابجا اپنے رب
کے شکر کا اظہار ملتا ہے۔ ایسا وہی شخص کر سکتا ہے جس کے اندر طمع نہ
ہو۔مجھے جب بھی ڈاکٹر شہناز مزمل صاحبہ کی شاعری سے استفادہ ہونے کا موقع
ملا تو یہ وہ لمحات ہوتے ہیں جب دل اور نگاہیں وضو کرتی ہیں۔ مجھے ایک
افتخار یہ بھی حاصل ہے کہ محترمہ ڈاکٹر صاحبہ نے مجھے چھوٹے بھائی کا درجہ
عطا فرمایا ہے اور یہ افتخار میرئے لیے بہت بڑی سعادت ہے۔اکثر میں جب بھی
کوئی ٹوٹے پھوٹے الفاظ لکھتا ہوں تو ڈاکٹر صاحبہ کی جانب سے ہمت بندھائی
جاتی ہے۔ڈاکٹر صاحبہ کی شاعری کے حوالے سے میرے جانب سے کچھ ضبطِ تحریر میں
لانا ایسا ہی جیسے کوئی ناخواندہ کسی عالم کی مدحہ سرائی کر رہا ہو۔ لیکن
کیونکہ ڈاکٹر صاحبہ کی الفاظ میں رب پاک، نبی پاکﷺ، اہل بیتؓ وصحابہ اکرامؓ
کی عقیدت کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے اِس لیے مجھ جیسا شاعری کے مدو جزر سے نا
آشنا بھی خود کو فیض یاب پاتا ہے۔اِنسانی جذبات اور رویوں کو الفاظ کے قالب
میں ڈھالنا گویا ڈاکٹر صاحبہ پر رب پاک کا خاص احسان اور عنائت ہے۔ڈاکٹر
صاحبہ کی اپنی زندگی میں جو تنہائی ہے اُس کیفیت نے اِن کو ایسے جذبوں کا
ترجمان بنایا ہے جس کو بیان کرنا ناممکن ہوتا ہے اِیسی کیفیات صرف محسوس ہی
کی جاسکتی ہیں۔ ڈاکٹر صاحبہ نے ادب سرائے کو جس انداز میں رونق بخشی ہے وہ
اُنھی کی ذات کا ہی خاصہ ہے۔بچوں کو کہانی سُنانے کو وہ انداز جو ہم اپنے
بچپن میں اپنی ماں یا دادی سے سنا کرتا تھے اُس روایت کو ڈاکٹر صاحبہ نے
تقویت بخشی ہے۔شہناز مزمل صاحبہ کی شاعری میں بلا کی دوربینی ہے۔ وہ لکھنے
والے ایسے قبیلے سے سے تعلق رکھتی ہیں جہاں مادیت چھو کر بھی نہیں گزری۔
ڈاکٹر صاحبہ کی شاعری میں نوجوان لڑکی کے احساسات کی ترجمانی بھی ملتی ہے
اور ماں کی ممتا بھی اپنا حساس سراپا اپنے گرد لپیٹے ہوئے ہے۔ وطن سے محبت
اور دین کی سرفرازی گویا اُن کی شاعری کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ پاکستانی
معاشرئے میں دہشت گردی غربت نے جو پنجے گاڑ رکھے ہیں اُس پر بھی ڈاکٹر
صاحبہ کو بہت قلق ہے۔عورت کی روایتی سماج میں جو حثیت ہے اُس پر بھی ڈاکٹر
صاحبہ دکھی ہیں۔اگر ڈاکٹر صاحبہ کی شاعری کے سفر کو دیکھا جائے تو ایک بات
روز روش کی طرح عیاں ہے کہ ڈاکٹر صاحبہ علم وعرفان کی ایک ایسی محترم ہستی
ہیں جن کے ہاں الفاظ ہاتھ باندھے کھڑئے ہیں ڈاکٹر صاحبہ کی اپنی زندگی کے
وہ رُخ بھی آپ کی شاعری میں محسوس کیے جاسکتے ہیں جن سے اُن کو گزرنا پڑا
ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ کی شاعری صرف ادب برائے ادب نہیں بلکہ ادب برائے فلاح
انسانیت ہے۔ کاش پاکستان میں رہنے والے احباب دانش ڈاکٹر صاحبہ کی سوچ کو
اپنے لیے رہنمائی کا ایک منبع تسلیم کرتے ہوئے معاشرئے میں امن و سکون
بھائی چارئے خوفِ خدا کے لیے اپنے شبانہ روز کوششوں سے معاشرئے کو معتدل
بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔میں پیشے کے لحاظ سے وکالت سے منسلک ہونے کے
سبب روزانہ انتہائی تکلیف دہ حالات سے دوچار ہوتا ہوں جب معاشرئے میں بے
رحمی کے ایسے ایسے واقعات دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں کہ خدا کی پناہ۔
ڈاکٹر شہناز صاحبہ کی شاعری بھی درحقیت انسانی تمدن کے ہہر دور کے مثبت اور
منفی پہلووں کو اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہے۔ چاند کی چاندنی سے پیار اور
پھولوں کے مسکرانے کی باتیں ڈاکٹر صاحبہ کی شاعری میں موجود ہیں۔ ڈاکٹر
صاحبہ خود کیونکہ ملازمت پیشہ خاتون رہی ہیں اِس لیے ہمارئے معاشرئے میں
عورت کے حالات کا اِن کو گہرا ادراک ہے ڈاکٹر صاحبہ کی شاعری میں جذبات کی
ترجمانی اِس انداز میں ملتی ہے جیسے ڈاکٹر صاحبہ کی واقعی معاشرئے کی نبض
پر ہاتھ ہے۔ایک ایسے روحانی سفر کی طالب ڈاکٹر صاحبہ ہیں جس سے اُن کی
شاعری کو پڑھنے والا قاری بھی متاثر ہوتا ہے اور اُس پر بھی اِس روحانیت کا
رنگ غالب آنے لگتا ہے۔بے شمار کتب اُن کی شائع ہوچکی ہیں اور اب اُن کی
کتاب منتخب مجموعہ کلیاتِ مثال شائع ہونے جارہی ہے جس میں اُن کابہت سا
منتخب کلام شامل ہے۔ اُن کی کتاب عشق دا دیو ا بہت ہی کمال کی ہے جس میں
عورت کے حوالے سے خوبصورت تخلیق شامل ہے شیشے دئے جُسے والی۔ اِس نظم میں
عورت کی زندگی کے شب و روز کے امور کا ذکر ہے جس میں وہ اپنے جذبات اور
احساسات سے اپنے اردگرد کے ماحول کو متاثر کرتی ہے۔ اِس نظم میں میں محترمہ
شہناز صاحبہ نے عورت پر روایتی ظلم کی طرف بھی اشارہ کیا ہے اور عورت کے
عظمت کا اعراف بھی کیا ہے کہ اِس عظیم مخلوق کے شیشے کی مانند جسم پر پتھر
مارئے جاتے ہیں اور پھر بھی یہ عورت ہی ہے جو ہر طرح کے ظلم کو برداشت کرتی
ہے اور محبت اور وفا کا پیکر بنی رہتی ہے۔اِسی نظم میں ڈاکٹر صاحبہ نے عورت
کے حوالے سے یہ بات کہی ہے کہ بہت کم لوگ ہیں جو عورت کو عزت دیتے ہیں۔ جس
انداز میں اور جس طرح کے الفاظ کا چناؤ محترمہ شہناز صاحبہ نے اِس نظم کیا
ہے میری تو آنکھیں بھر آئی ہیں۔جب اِسی نظم میں یہ الفاظ پڑھنے کو ملتے ہیں
کہ وہ ہر کسی کا غم اپنی آنکھوں میں ڈال لیتی ہے اور دوسروں کے زخموں کا
مداوا بھی کرتی ہے اِتنی تلخ حقیقت کو اتنے مناسب اور چُنے ہوئے الفاظ میں
ادا کرنا محترمہ شہناز صاحبہ کا ہی خاصہ ہے۔ اِسی طرح آپ کی نظم تنہائی نے
مجھے سحر زدہ کردیا۔ جس میں گزرئے ہوئے لمحات کا اِس انداز میں ماتم ہے کہ
یہ ماتم ماتم ہوتے ہوئے بھی ماتم نہیں لگتا بلکہ امید کے استعارئے کے طور
دیکھائی دیتا ہے۔گزرئے ہوئے لمحات اور گجرئے کے پھولوں کی مہک کی یادیں دل
میں اِک طوفان بپا کیے ہوئے ہیں لیکن پھر بھی اِس نظم میں یہ ہی سبق دیا
گیا ہے کہ یادیں گزرئے ہوئے ایام کی تو ساتھ ہیں تم اکیلے نہیں ہو۔ مجھے
اندازہ نہیں تھا کہ میں اپنی اِس بڑی بہن کے ادبی کام کو خراج عقید پیش
کرنے کی جو کوشش کر رہا ہوں اُس کا شائد بھرم رکھ سکون یا نہ۔ مجھے اپنی کم
علمی کم مائیگی کا شدت سے احساس ہے لیکن محترمہ شہناز صاحبہ کی بلند پایہ
شخصیت کو خراج عقیدت پیش کرنا میرئے لیے اعزاز ہے۔اﷲ پاک ڈاکٹر صاحبہ ملک و
قوم کے رہنمائی کے لیے عمر خضر عطا فرمائے۔تقریباً چار گھنٹے ادب سرائے میں
محترمہ ڈاکٹر صاحبہ کی خدمت میں مجھے اور میرئے بیٹے حذیفہ کو گزارنے کا
موقع ملا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ ہم کسی ایسی ہستی سے محو گفتگو ہیں جو کہ
ہماری غمگسار بھی ہے اور جو انسانیت کے لیے محبت کے جذبوں کی پیامبر بھی ہے۔
قران مجید کے ترجمہ کے حوالے سے اُنھوں نے بہت عظیم کا سر انجام دیا۔ سچی
بات تو یہ ہے کہ میں تو اپنی عاقبت سنوارنے اپنی بڑی بہن ڈاکٹر شہناز مزمل
صاحبہ کے ادب سرائے میں گیا تھا۔یہ ادب سرائے ہم جیسے دنیا داروں کے لیے
امن و محبت کا ایسا گوشہ ہے کہ جس طرح فقیر کی چوکھٹ درد کی دولت عطا کرتی
ہے۔ کچھ ایسا ہی ہمرائے لیے ادب سرائے ہے۔ اﷲ پاک میری بڑی بہن ڈاکٹر شہناز
مزمل صاحبہ کی عمر دراز کرئے اور ملک وملت کی رہنمائی کے لیے اُن کا سایہ
ہمارئے سروں پر تا ابد قا ئم رکھے آمین۔ |
|