تحقیق ضروری ہے
(Malik Muhammad Shahbaz, Kasoor)
کچھ لوگ سنی سنائی بات پر عمل کرتے ہوئے
اپنا نقصان کر بیٹھتے ہیں یا بہت ہی پیارا دوست ، رشتہ دار کھو بیٹھتے ہیں
جس کا زندگی بھر افسوس رہتا ہے مگر وہ تعلق دوبارہ سے اس سطح پر نہیں پہنچ
پاتا اور زندگی بھر پچھتاوے اور شرمندگی کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ایک
عام فہم محاورہ ہے کہ ’’جلدی کا کام شیطان کا‘‘ یعنی جلدی میں کیا ہوا کوئی
بھی فیصلہ کبھی درست نہیں ہوتا ۔لہذا کوئی بھی بات سن کر اس پر عمل کرنے سے
پہلے تحقیق ضروری ہے خواہ وہ کام شرعی ہو یا غیر شرعی۔اگر اسلامی اعتبار سے
دیکھا جائے تو آج کل بہت سازشیں ہو رہی ہیں کہ کہیں نعوذ باﷲ قرآن پاک کا
ترجمہ غلط کر کے پیش کیا جا رہا ہے تو کہیں احادیث کو تبدیل کر کے پیش کیا
جا رہا ہے یا کسی معروف عالم کے بیان و تحریر کو اضافہ کر کے پیش کیا جارہا
ہے ۔ یہ تمام کفار کی طرف سے سازشیں کی جارہی ہیں کہ کم علم مسلمان نیکی
سمجھ کر ان کے جال میں پھنسے جا رہے ہیں ۔ اس تمام تر صورت حال سے نمٹنے کے
لیے تحقیق ضروری ہے۔لہذا معاملہ دینی ہو یا دنیاوی ، کسی بھی طرح کے نقصان
اور غلطی سے بچنے کے لیے ہر معاملے میں تحقیق ضروری ہے۔ نقصان اٹھانے والے
دو دوستوں بشیر اور تاجدین کا واقعہ بھی تحقیق نہ کرنے کی وجہ سے ہی پیش
آیا اور وہ اپنی دوستی بھی گنوا بیٹھے اور ساتھ ہی معمول کے مطابق امتحانات
میں نمایاں کارکرگی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ بشیر اور
تاجدین ایک ہی گاؤں میں رہتے تھے اور ایک ہی جماعت میں پڑھتے تھے۔ چونکہ
ایک ہی محلے کے رہائشی تھے اور سکول بھی اکٹھے ہی آتے جاتے تھے اسی وجہ سے
ان دونوں کے درمیان گہری دوستی بھی تھی۔ان کا آنا جانا ، پڑھائی کرنا ،
دوپہر کا کھانا وغیرہ سب اکٹھا ہی ہوا کرتا تھا اور وہ دونوں ہر جماعت میں
ہمیشہ نمایاں پوزیشن حاصل کرتے تھے ۔ ان کی دوستی اور پڑھائی میں کاکردگی
کسی سے ڈھکی چھپی نہ تھی ۔پہلی جماعت سے ہی وہ اکٹھے تھے اوردسویں جماعت
میں ہو چکے تھے اور خوب لگن و محنت کے ساتھ معمول کے مطابق دسویں جماعت کی
تیاری میں مصروف تھے ۔مجید بھی ان کی چالیس طلباء کی جماعت میں سے ایک تھا
جو کہ پڑھائی کی طرف توجہ نہ دینے کی وجہ سے نالائق شمار ہوتا تھا اور
ہمیشہ ہی بشیر اور تاجدین کے درمیان لڑائی کروانے اور ان کی تعلیمی کاکردگی
کو متاثر کرنے کی کوشش میں لگا رہتا تھا ۔امتحانات کے دن بالکل قریب آچکے
تھے کہ مجید نے ایک سازش رچائی۔ بشیر اور تاجد ین دوپہر کا کھانا کھانے کے
لیے کیفے ٹیریا گئے ہوئے تھے کہ مجید نے بشیر کے بستے سے ریاضی کی کتاب ،
نوٹس، اور کاپی چوری کر لی یوں سمجھیں کہ ریاضی کا سارا ریکارڈ غائب کر دیا
اور الزام تاجدین پر لگا دیا ۔ بشیر نے جب اپنے بستے میں سے چیزیں غائب
سمجھیں تو اسے بہت غصہ آیااور اس نے تاجدین کی سنے بنا ہی لڑائی شروع کر دی
۔ تاجدین کے بتانے کے باوجود ایک نہ مانی اور اس سے ناراض ہو کر چلا
گیا۔چونکہ مجید نے تاجدین کے خلاف باتیں بشیر کے ذہن میں بھری ہوئی تھیں اس
وجہ سے بشیر پر تاجدین کی کسی بات کا کوئی اثر نہیں ہوا اور اس نے تاجدین
سے دوستی ختم کر لی اور اس سے بول چال مکمل ختم کردی۔بشیر غصے کی وجہ سے
امتحانات کی ٹھیک سے تیاری بھی نہ کر سکا اور تاجدین پریشانی اور جھوٹے
الزام کی وجہ سے صحیح تیاری نہ کر سکا اور دونوں ہی امتحان میں نمایاں
کارکردگی اور پوزیشنوں کے حصول کی بجائے معمولی نمبروں سے بمشکل پاس ہوئے ۔پوری
جماعت اور سکول میں بنی ہوئی عزت بھی گنوا بیٹھے اور بچپن کی دوستی سے بھی
ہاتھ دھو بیٹھے۔مجید اس ساری صورت حال کو لے کر بہت خوش تھا کہ آخر اس نے
اپنے شیطانی دماغ سے ان کو ناکام کر ہی دیا تھا ۔مجید نے اپنی خوشی کی
انتہا نہ رہنے کی وجہ سے ساری کہانی اپنی جماعت کے ایک لڑکے کو سنائی کہ کس
طرح بشیر اور تاجدین کی دوستی ختم کر دی اور ساتھ ساتھ ان کو نمایاں
پوزیشنوں سے بھی محروم کروا دیا ۔ بشیر کو جب اس ساری صورت حال کا علم ہوا
تو اس کے پاس پریشانی اور پچھتاوے کے علاوہ کچھ بھی نہ بچا تھااور بشیر
رونے لگا اور اپنا سر پیٹنے لگا کہ تاجدین کو بہت دکھ پہنچایا جبکہ اس کی
کوئی غلطی بھی نہ تھی۔بشیر کی ایک ہی غلطی تھی کہ اس نے سنی سنائی باتوں پر
عمل کیا لیکن تحقیق نہ کی۔ اور تحقیق نہ کرنے کی وجہ سے امتحان میں نمایاں
پوزیشن کے حصول میں ناکامی کے ساتھ ساتھ اپنا بچپن کا دوست بھی کھو بیٹھا
تھا ۔ اس واقعے سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ تحقیق ضروری ہے ، خواہ زندگی کا
کوئی بھی شعبہ کیوں نہ ہو۔ چاہے کوئی ہمیں کوئی جیسے مرضی کسی کے خلاف
بھڑکائے مگر ہمیں تحقیق کو اپنا شعار بنانا ہوگا۔زندگی کے ہر شعبے میں
تحقیق کو اپنا شعار بنالینے کے بعد ہمیں کبھی بھی کسی پریشانی اور پچھتاوے
کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔خدانخواستہ اگر کوئی نقصان ہو جائے تو کسی پر
الزام لگانے کی بجائے اس کی تحقیق کی جائے اور ہر طرح کی تفصیل معلوم کی
جائے۔اور پھر اس تفصیل ، گواہوں ،اوراثبات کو مد نظر رکھتے ہوئے فیصلہ کرنا
چاہیے۔تحقیق کے بغیر کسی پر کوئی الزام نہ لگایا جائے اور نہ ہی کسی کو
کوئی سزا دی جائے تاکہ حقیقت کے واضح ہونے کے بعد کسی پریشانی اور پچھتاوے
کا سامنا نہ کرنا پڑے۔لہذا ہر قسم کی پریشانی اور پچھتاوے سے بچنے کے لیے
ہر معاملے میں تحقیق ضروی ہے۔ |
|