محبت

 محبت کے رنگ شرم و حیاء کے آنچن کے پیچھے سے جھانکے تواوربھی خوبصورت لگنے لگتے ہیں،محبت فطرت ہے،محبت ایسا جذبہ ہے جورنگ ونسل،مذہب وفرقہ،عمر،وقت سمیت کسی سرحد کی قید قبول نہیں کرتا۔محبت انسان کی زندگی کاایساجزہے جس کے بغیرزندگی باقی نہیں رہتی،اپنے اردگردکے ماحول پرغورکریں آپ کومحبت ہی محبت نظرآئے گی ،اس سے بڑی مثال کیا ہوسکتی ہے کہ جسم و روح کے درمیان محبت کارشتہ ٹوٹتے ہی زندگی دم توڑدیتی ہے ۔گوکہ آج محبت کے تمام رشتوں پرنفرتوں کی گردجم چکی پھربھی دل تسلیم نہیں کرتا۔بہت ہوچکیں تنقید،اختلافات کی باتیں،بدامنی،دہشتگردی ،کرپشن ،ناانصافی ،مہنگائی جیسی کئی دیگربیماریوں کوموضوع بنے عمر بیت چلی ،آج مزاج یارکچھ الگ چاہتاہے ۔چلیں چھیڑتے ہیں باتیں محبت کے کچھ خوبصورت رنگوں کی،حقیقتوں سے دورکسی افسانوی دنیا کی سیرپہ چلتے ہیں،کچھ وقت خونخوارجنگلوں سے نکل کرنظارے دیکھتے ہیں محبتوں کے شہرکے گلی کوچوں میں گلاب رنگ وخوشبوجیسے رشتوں کے۔پیش خدمت ایک ادھوراساافسانہ ۔

رضیہ مذہبی خاندان میں پیداہوکر گاؤں کے ماحول میں پلی ،نیک سیرت اور بہت خوبصورت لڑکی تھی ،اُس نے پرائمری کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد گاؤں ہی کے مدرسے میں قرآن کریم کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے داخلہ لے کر قرآن کریم ابھی حفظ کیا ہی تھا کہ اُس کے والد نے اُس کا رشتہ اپنے بھائی کے بیٹے فیصل کے ساتھ طے کردیاجو حال ہی میں مغرب کے ترقی یافتہ شہر سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے وطن لوٹا تھا۔رضیہ اورفیصل بہت خوش تھے کیونکہ وہ دونوں ایک دوسرے کو بچپن سے ہی بہت پسند کرتے تھے۔فیصل مغرب میں وقت گزارنے کے باوجود نیک سیرت اور باحیاء لڑکاتھا۔ 2مہینے بعد اُن کی شادی ہوگئی سارا خاندان شادی میں خوشی خوشی شامل ہوا اور سارادن ہنسی خوشی شادی کی تقریب چلتی رہی ،رات گئے تک دلہن کے کمرے میں بہن بھائیوں کا رش رہا ،ہنسی مذاق میں وقت اس طرح گزرا کہ وقت گزرنے کااحساس تک نہ ہوا،آخر میں وہی ہوا جو ہونا تھا سب اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے اوررضیہ جو زندگی میں پہلی مرتبہ خوب سج سنور کر دلہن بنی اور بھی زیادہ خوبصور ت لگ رہی تھی فیصل کے ساتھ کمرے میں اکیلی رہ گئی ۔ صحن میں رات کی رانی کی مسحور کن مہک نے بھنورے کودیوانہ بنا رکھاتھا۔بھنوراسوچ رہا تھا کہ رات کی رانی کو بھی اُ س کے ساتھ شدید محبت ہے اور اُس نے بھنورے کی موجودگی بھانپ کر اپنی مہک میں شدت پیدا کردی ہے ۔دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ ابھی رات کی رانی آگے بڑھ کراُسے اپنی آغوش میں لے لے گی، اور وہ رات کی رانی کے پھولوں کا خوب رس چوس کراپنی محبت کی پیاس بجھائے گا ۔رات کی رانی بھی دل میں یہ تمنا لیے اپنی مہک کو لگاتار تیز کرتی جارہی تھی کہ بھنوراآگے بڑھ کر اظہار محبت کرے اور اپنی بانہوں میں لے کر محبت کے سادہ جذبوں میں اپنی بربت کے رنگ بھرے پر بھنورہ دیوانے پن میں یہ بات بھول گیا کہ رات کی رانی اپنی جگہ پرہی رہے گی اُسے خود ہی آگے بڑھ کر اپنی دیوانگی کا اظہار کرنا پڑے گا۔بچپن میں رضیہ اور فیصل دونوں ایک دوسرے کے ساتھ ہی رہاکرتے اور خوب چھیڑ چھاڑ کیا کرتے تھے شادی سے پہلے دونوں نے اپنے ذہنوں میں سوچ رکھا تھا کہ خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو،پر بہن بھائیوں کے کمرے سے جانے کے بعدد یر تک کمرے میں ایسی خاموشی رہی جیسے کوئی موجود ہی نہ ہو،جیسے دو اجنبی مسافر ٹرین کے ڈبے میں سفر کررہے ہوں ،ایک دوسرے سے نظریں چرانے کے لیے خاموشی سے باہر کے منظر سے نظریں نہ ہٹائیں۔رضیہ مشرقی تہذیب کے مطابق اس انتظار میں تھی کہ فیصل بات کرنے میں پہل کرے اور فیصل مغربی تہذیب میں وقت گزار کر یہ محسوس کرچکا تھا کہ عورت بھی مرد کی طرف محبت کا ہاتھ بڑھا سکتی ہے اور رضیہ تو پھر اب اُس کی بیوی بن چکی تھی ،ایک سچ یہ بھی تھا کہ فیصل کی رگوں میں بھی مشرقی خون دوڑ رہا تھا اور وہ بھی کچھ شرما ساگیاتھا کہ اب کہاں سے بات شروع کرے ۔فیصل نے کھڑکی سے صحن میں جھانکنے لگا۔ چاند کی مدھم چاندنی میں بھنورا رات کی رانی کے گردد یوانہ وار گھوم رہاتھا کبھی دور چلا جاتا اور کبھی انتہائی قریب چلا آتا۔بھنورے کی بے تابی صاف ظاہرکررہی تھی کہ وہ رات کی رانی کے دامن میں سمٹ جانا چاہتا تھا اور رات کی رانی بھی بھنورے کو اپنی آغوش میں لینے کیلئے بے تاب سی لگ رہی تھی رات آہستہ آہستہ بیت رہی تھی ،فیصل دیر تک بھنورے کو رات کی رانی کے گرد گھومتے دیکھتا رہا اور سوچتا رہا وہی رضیہ جو بچپن میں اُس کے ساتھ انتہائی بے تکلف تھی آج وہی کوئی بات نہیں کررہی اور وہ خود بھی ابھی تک کوئی بات نہیں کر پایا ،فیصل نے کافی دیر کے بعد دیکھا تو بھنورا رات کی رانی کے آس پاس نظر نہیں آرہا تھا اور رات بالکل خاموش ہوچکی تھی اُس نے حوصلہ کیا اوررضیہ سے بات کرنے کا ارادہ کرتے ہوئے رضیہ کی طرف بڑھاپر وہ تو انتظار کرتے کرتے نیند کی آغوش میں جاچکی تھی۔فیصل دیر تک رضیہ کے چہرے کو دیکھ کر سوچتا رہا کہ کتنا فرق ہے مشرقی اور مغربی تہذیب میں ۔مشرقی تہذیب میں پرورش پانے والے مرد و عور ت میاں بیوی ہونے کے باوجود شرم وحیاء کے دائرے میں قید رہتے ہیں اور مغرب میں نامحرم مرد وعورت ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح چپکے پھرتے ہیں جیسے عزت وآبروکی کوئی قیمت ہی نہ ہو،یہاں تک کہ2/4 بچوں کی پیدائش کے بعد یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ انہیں شادی کرنی چاہیے یا نہیں ۔فیصل اپنی سوچوں میں گم تھا کہ موذن نے آذان دی ۔اُس نے فجر کی نماز ادا کی اور اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ اُسے خوبصور ت،با حیاء اور نیک سیرت شریک حیات ملی ۔
Imtiaz Ali Shakir
About the Author: Imtiaz Ali Shakir Read More Articles by Imtiaz Ali Shakir: 630 Articles with 564490 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.