اس صدی کا سب سے بڑا لکھاری
(Muhammad Jabran, Lahore)
جسے لوگ قلم کا نواب کہتے تھے،اس کے قلم سے
جو لفظ تحریر ہواوہ امر ہوگیا۔دیوتاجیسے عظیم اور شہرہ آفاق ناول کا تخلیق
کار اردو ادب کی تاریخ کا سب سے بڑا لکھاری محی الدین نواب ہم سے
جداہوگیا۔آج صرف وہ ہمیں چھوڑ کر نہیں گیابلکہ پورا اردو ادب یتیم ہوگیا۔آج
میرادل پارہ پارہ ہے ،ہاتھ کانپ رہے ہیں اور آنکھوں سے موتی رواں ہیں۔پوری
قوم کی چھ عشروں تک تعمیرکرنے والااب ہم سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے روٹھ گیا۔بے
شک اس میں میرے رب کی حکمت اور رضاہے کیونکہ وہی جانتاہے کہ انسان سے اس کی
ملاقات کا کون ساوقت بہترین ہے ۔ان کے بارے کچھ لکھناکچھ کہنابہت مشکل ہے
کیونکہ وہ ایک سمندر تھے جو اپنے دامن میں دنیابھر کے نایاب ہیرے اور موتی
رکھے ہوئے تھے۔
ان کے بارے میں ایک مصنف نے لکھا تھاکہ اگر لکھاریوں کی فہرست مرتب کی جائے
تو بلاشبہ محی الدین نواب ان کے امام ٹھہرے گے۔کوئی نہیں جانتاتھاکہ 4ستمبر
1930کو بنگال میں پیدا ہونے والا ایک عام سالڑکاجو بقول خود کے ہمیشہ
دوسروں کی شراتوں کا نشانہ بنتاتھا،آگے چل کر ڈائجسٹ کی دنیا کا بے تاج
بادشاہ بنے گااور بادشاہ بھی ایساکے اس کے قریب قریب بھی کوئی چیلنج کرنے
والا نہیں ہوگا۔بے شک یہ معراج کسی کسی کو نصیب ہوتی ہے خدانے اسے صرف
لکھنے کی ہی صلاحیت سے نہیں نوازہ تھابلکہ وہ فنِ مصوری میں بھی کمال مہارت
رکھتاتھا۔
ان سے ایک بار پوچھا گیاکہ آپ نے قلم کیوں سنبھالاتو انہوں نے کہاکہ قلم
سنبھالنے کی بنیادی وجہ بنگالی میراث تھی ۔ان کے بقول بنگالی فن سے عشق
کرنے والے اور آرٹ کی قدر کرنے والے لوگ ہیں۔نواب صاحب نے زیادہ تر معاشرتی
موضوعات کو اپنے قلم کی زینت بنایا اور ہر ماہ مختلف ڈائجسٹوں میں ان کی
تحریریں شائع ہواکرتی تھیں۔انہی تحریوں میں کئی مقبولِ عام ہوئیں جیسے
ایمان کاسفر،پتھر ،آدھاچہرہ،کچراگھر،دل پارہ پارہ،پل صراط،ایک رات کی
ملکہ،بندمٹھی ،گندی گلی ،عذابِ آگہی،واپسی،اجل نامہ،ہندسے یونان
تک،ادھوراادھوری وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔
آپ نے عمران سیرز پر ایک ناول" عمران بٹا عمران "بھی لکھاجوخاصہ مقبول
ہوا۔مگر انہوں نے پھر اس سے زیادہ اس پر کوئی طبع آزمائی نہ کی ۔ان تمام
تحریوں کے باوجود ان کی اصل وجہ شہرت دیوتابناجس کامرکزی کردارو فریاد علی
تیمور تھا۔ٹیلی پیتھی کی خداد صلاحیتوں مزین ایک ایسے شخص کی داستان جو نہ
صرف اردو ادب کا بلکہ دنیاکے ہر ادب کاسب سے طویل ترین ناول ہے۔اس ناول کے
الفاظ فرانس کے مصنف جیولزرومنز کے ناول "مین آف گڈوِل" سے زیادہ اور اس
ناول کے کردارمارسل پروسٹ کے ناول" اِن سرچ آف لاسٹ ٹائم" کے کرداروں سے
بھی زیادہ کردار شامل تھے ۔جو اپنے آپ میں ایک بہت بڑا کارنامہ ہے۔مگر
چونکہ دیوتاامریکی اور یہودی مفادات کے خلاف لکھاگیاناول ہے اس لئے اسے
کوئی بین لاقوامی ایوارڈ تاحال نہیں ملا۔جو بذات خود مغرب کے دوغلے چہرے کی
چغلی کھاتاہے۔
میرے روحانی استادوں کی فہرست میں ان کا نمبر ہمیشہ پہلارہاکیونکہ مجھے آج
تک کسی مصنف نے اس قدر متاثر نہیں کیا جتنانواب صاحب کے قلم نے کیا۔میرے
نزدیک نواب صاحب اس صدی کے سب سے بڑے لکھاری تھے جنہوں نے ہمیشہ اپنے
قارئین کے دلوں میں راج ۔لکھاری تو سب ہی عظیم ہوتے ہیں لیکن ان جیسے
کارنامے بہت کم ہی انجام دے پاتے جوبلاشبہ آنے والے لکھاریوں کے لئے ہمیشہ
استادوں کی حیثیت رکھیں گے ۔ان جیسے لکھاری صدیوں میں پیداہوتے ہیں اور اب
ان کے جانے سے اردو ادب میں جو خلاء پیداہوا ہے جانے وہ اب کون پر کرے گے
۔میری رب سے دعاہے کہ اللہ ان کے درجات بلند کرے اور ان کی تحریوں کو ہمیشہ
نوجوان نسل کے لئے مشعل راہ بنائے رکھے ۔آمین |
|