بٹوارہ
(Muhammad Nawaz, Kamalia)
بٹوارہ رشتوں،سوچوں ،احساسات اور محبتوں میں ہونے لگے تو انسان اندر سے ٹوٹ جاتا ہے |
|
”دنیا ایک سے د و اور دو سے چار کے
اصول پر تقسیم در تقسیم ہوتی جاتی ہے ۔ اگر یہ اصول دنیا میں کار فرما نہ
ہوتا تو نہ خاندان بنتا نہ خاندان سے قبیلہ اور نہ قبیلوں سے ملک بنتے ۔
بٹوارہ بشر اول حضرت آدم اور ہوا ؑ کی اولاد سے شروع ہوا اور تا قیامت آخری
بشر تک جاری رہے گا ۔بٹوارہ صرف انسانوں میں ہی نہیں بلکہ دنیا میں پائی
جانے والی ہر چیز میں موجود ہے جو خدا نے پیدا کی ہے ۔ جانداروں میں
کلاسیفیکیشن ، شجر و ہجر کی تقسیم زمین و آسمان کی بناوٹ، جنت و دوزخ کا
فرق سب اسی اصول کا ہی آئنہ دار ہے “ ”اتنی بڑی تقریر کا کیا مقصد ہے
تمھارا “ میں نے اپنی بیگم کی بٹوارہ کے موضوع پرتقریرکاٹتے ہوئے کہا ۔ ”
یہ بات مجھے میری ماں نے اس وقت بتائی تھی جب وہ اپنے سسرال سے الگ ہوئی
تھیں اور آج میں آپ کو بتا رہی ہوں کیوں کہ اب میں اپنے سسرال سے الگ ہونے
جا رہی ہوں ، ہم مزید جوائنٹ فیملی کا حصہ بن کے نہیں رہ سکتے ،جوائنٹ
فیملی کے سو مسائل ہیں“ ایک سوایک فوائد بھی تو ہیں “ میں نے پھر بیگم کی
بات کاٹ دی ،مگر اس نے میری بات کا جواب نہ دیا اور اپنی ہی دھن میں بولتی
چلی گئی ” ہماری گلی میں جو ملک صاحب رہتے ہیں ان کا بیٹا بھی الگ سے مکان
میں رہنے لگا ہے ، رانا صاحب کی بیٹی بھی اپنے شوہر کے ساتھ الگ مکان میں
رہتی ہے اور تو اور آپ کے کزن نصیر بھائی بھی بیوی اور بچوں کو لے کر الگ
ہو گئے ہیں ۔۔۔۔۔ ایک ہیں کے آپ ہی اپنے گھر والوں کا دامن چھوڑنے کو تیار
نہیں “ بیگم نے جب ذرا سا توقف کیا تومیں بولا ” بیگم میں تمھارے اس فلسفہ
سے 100%نہیں بلکہ ایک سو ایک فیصد اتفاق کرتا ہوں دنیا میں واقعی دو سے چار
کا اصول لاگو ہے اگر کوئی اپنی فیملی سے الگ ہوتا ہے تو اس کے اپنے مسائل
ہوتے ہیں اور مذکورہ فیملیوں کے اپنے مسائل ہیں کسی کا مکان چھوٹا ہے تو
کسی کی انکم کم، جبکہ ہمارے ساتھ خدا کا شکر ہے ایسا کوئی معاملہ نہیں ماشا
ءاللہ انکم بھی ٹھیک ہے اور مکان بھی کشادہ ہے “ ” آپ کا کیا خیال ہے
خاندان میں بٹوارہ صرف انہی دو مسائل کی بنا پرہوتا ہے ۔۔۔۔۔ جی نہیں ، جس
طرح اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا اسی طرح اور بھی مسائل ہیں
خاندانوں میں مکان اور انکم کے سوا “ میں بیگم کی دیدہ دلیری اور حاضر
جوابی پر اس کا منہ تکنے لگا۔ مکالمہ نگاری میں میری بیگم کا جواب نہ تھا
بلکہ یوں کہا جا سکتا ہے کہ اس کو مکالمہ نگاری میں ملکہ حاصل تھا تو غلط
نہ ہو گا اور یہ ملکہ ا س نے میری زوجہ بننے سے پہلے ہی حاصل کر لیا تھا
موصوفہ نے سکول کے ایک مقابلہ میں اول پوزیشن حاصل کر رکھی تھی ۔ چنانچہ اب
وہ اس ہنر کو خوب اچھی طرح برو ئے کار لا رہی تھی۔ مگر آج میں نے ٹھان لی
تھی کہ پانی پت کا میدان بیگم کو باتوں کے ذریعے نہیں جیتنے دوں گا ۔ ”اگر
تم مجھے اپنے دلائل سے قائل کر لو تو میں الگ سے گھر لینے تو تیار ہوں اور
اگر تم ایسانہ کر سکی تو تمہیں ساری عمر جوائنٹ فیملی میں ہی رہنا ہو گا “
میں نے مکالمہ کا آغاز کرتے ہوئے کہا ، بیگم نے حامی بھری لی ۔
” میری اس با ت کو تو آپ مان چکے ہیں کہ دنیا ایک سے دو کے اصول کے تحت
تقسیم ہو رہی ہے “ ” ہاں میں مانتا ہوں“ میں نے زبان کے ساتھ سر کے اشارے
سے بھی اس کی تصدیق کر دی ۔ ” اگر آپ میری اس با ت سے اتفاق کرتے ہیں تو آپ
کو ماننا پڑے گا کہ جوںجوں فیملی بڑی ہوتی جاتی ہے توں تو ں اس کے مسائل
بھی سر اٹھانے لگتے ہیں جن کا علم گھر میں رہنے والی خاتون خانہ کو ہوتا ہے
مرد حضرات چونکہ گھر سے باہر ہوتے ہیں لہذا ان کو پتا ہی نہیں ہوتا، ان کے
خیال میں گھر ایک خود کار گاڑی ہے جو اپنے مقررہ راستے پر خود ہی چلتی جا
رہی ہے ۔ جبکہ ایسا ہر گز نہیں ،گھر وہ گاڑی ہے جسے عورت کو خود دھکیلنا
پڑتا ہے ۔ او ر جب گاڑی میں مسافروں کی تعداد حد سے تجاوز کر جاتی ہے تو
ایک عورت سے بھاری بھر کم گاڑی دھکیلنا مشکل ہو جاتا ہے “ ” میں تمھاری بات
کا مطلب سمجھ گیا ہوں بیگم تم یہ کہنا چاہتی ہو کہ گھر بھر کا بوجھ تم
اکیلی سے اٹھایا نہیں جاتا “
” ہاں ۔۔۔ یوں ہی سمجھ لیں “ ”اگر گھر کو دھکیلنے والی گاڑی سمجھ لیا جائے
تو پھر بھی تمھاری یہ سوچ ٹھیک نہیں کہ تم اکیلی اس گاڑی کو دھکیل رہی ہو ۔
اس گاڑی کو دھکیلنے میں سب برابر کے حصے دار ہیں ، جب تم اس گھر میں نہیں
تھی تب بھی یہ گاڑی چل رہی تھی اب تم نے یہ کیسے سمجھ لیا کہ تم اس کو
دھکیل رہی ہو ؟ یہ تو وہ بات ہوئی خانہ بدوشوں کی گدھا گاڑی کے سائے میں
بھاگنے والا کتا یہ سمجھتا ہے کہ گدھا گاڑی کو وہ کھینچے جا رہا ہے حلانکہ
گدھا گاڑی تو گدھا کھینچ رہا ہوتا ہے“ الغرض بیگم نے میرے سامنے بیسیوں
چھوٹے بڑے مسائل رکھے جن میں نند بھاوج کی لڑائی، ساس بہو کی نوک جھونک ،
دیور ،دیورانی کی ان بن، سسر کی بے جا مداخلت ، بچوں کی آپس کی لڑائی ،
جوائنٹ فیملی میں میاں بیوی کی پراﺅیسی، جیسے مسائل شامل تھے جنہیں میں ایک
ایک کرکے رد کرتا گیا ۔ بیگم اپنے مﺅقف پر قائم تھی اور میں اپنے پر ۔ وہ
ہر صورت الگ ہونے کا کہہ رہی تھی اور میں ہر صورت میں جوائنٹ فیملی میں
رہنا چاہتا تھا ۔اس کے خیال میں جتنے جوائنٹ فیملی کے نقصان تھے میری نظر
میںاتنے ہی اس کے فوائد تھے۔ جوائنٹ فیملی میں بندہ کبھی خود کو تنہا محسوس
نہیں کرتا ، انسان کو بحثیت معاشرتی جانور کے مل جل کر ہ رہتا اچھا لگتا ہے
۔ ہر فرد ،ہر خاندان ، ہر قبیلے ساتھ دکھ سکھ جڑے ہیں ، انسان کبھی تنہا
زندگی نہیں گزار سکتا ،اسے اپنی ضروریات کی تکمیل کیلئے دوسروں کا محتاج
ہونا پڑتا ہے آج اگر آپ کسی کے دکھ کا مداوا کرو گے تو کل کوئی آپ کے زخموں
پر مرہم رکھے گا ، بہن ،بھائی ،ماں،باپ سے بڑھ کر آپ کا حامی اور مددگار
بھلا اور کون ہو سکتا ہے ؟مگر بیگم کو میرے ان مقد س خیالات سے ایسے اختلاف
تھا جیسے گاندھی کو قائد اعظم کے دو قومی نظریہ سے ، بیگم اپنے الگ نظریہ
حیات کی مالک تھی بیگم کے مطابق اگر اللہ نے جوائنٹ فیملی کے تحت نظام
کائنات چلانا ہوتا تو قبیلے اور گروہ نہ بناتا۔
آخر بیگم نے تاش کا آخری پتہ کھیلا جس سے مجھے پانی پت کا میدان چھوڑ کر
بھاگنا پڑا ۔میں نے اپنا سامان حرب ونہی چھوڑا اور بیوی بچوں کو لے کر
تعلیم کی غرض سے لاہور چلا آیا ۔بچوں نے اپنی تعلیم مکمل کی اور غم روز گار
میں لگ گئے ۔تعلیم حاصل کرنا اگر آج کے دور میں جہاد ہے تو روز گار کا مل
جانا گویا ظالم حکمران کے سامنے کلمہ حق کہہ کر افضل جہاد کرنا ہے ۔
آخر خدا خدا کر کے دونوں بچوں کر اچھی ملازمت مل گئی ۔ہم میاں بیوی نے خدا
کا شکر ادا کیا ۔” تابع اور فرمابردار اولاد اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے
ایک نعمت ہے جس کا بندہ جتنا شکر ادا کرے کم ہے ۔ بچوں نے زندگی کی سیڑھی
کا ایک زینہ کامیابی چڑھا کہ ان کی ماں کو فکر لاحق ہونے لگی کہ جلدی سے وہ
دوسرے زینے پر بھی پاﺅں رکھ دیں ۔وہ مرحلہ ان کی شادیاں تھا ۔اس معاملے میں
میں نے بیگم کی رائے سے اتفاق کیا اور بچوں سے ان کی مرضی معلوم کرنے کیلئے
ایک شام بیٹھک سجا لی ۔اولاد سعادت مند تھی انہوں نے ہمارے رائے کو مقدم
جانا اور سر خم تسلیم کر دیا۔میں نے رشتے دیکھنے اور پرکھنے کا کام بیگم کے
ذمہ لگایا کیوں کہ بیگمات ہی اس نازک کام کو خوب اچھی طرح سے نبھاتی ہیں
۔بیگم لگی چراغ لے کر شہر بھر میں رشتے ڈھونڈنے۔ اس کام میں بیگم نے کئی
ایک رشتے کرانے والی ماسیوں کی بھی مدد لے رکھی تھی۔ آخر چند آفتاب چندے
ماہتاب بیگم کو مل ہی گئے اور اس نے دنوں بیٹوں کی ایک ساتھ شادیاں طے کر
دیں ۔شادیاں خیر و آفیت سے انجام پائیں ،تو ہم نے خدا کا شکر ادا کیا ۔
ابھی شادیوں کو ایک ماہ ہی گزرا تھا کہ ساس بہو کا رشتہ کھل کر سامنے آنے
لگا ۔ساس بہوﺅں کے کاموں میں دخل اندازی کرنے لگی اور بہوئیں ساس کی بے جا
مداخلت سے تنگ و عاری نظر آنے لگیں” خدا جانے آج کی نسل کو کیاہو گیا ہے “
بیگم نے میرے پہلو میں بیٹھتے ہوئے کہا ” کیا ہوا بیگم ؟ ‘ ‘ میں نے اخبار
سے نظریں ہتاتے ہوئے کہا ” ہونا کیا ہے جی سارا دن کمروں میں گھسی رہتی ہیں
،نہ کام نہ کاج ،سارا کام ان کو خود کر کے دو پھر بھی ماہ رانیوں کی آنکھیں
ماتھوں پر ہیں ۔دونوں کی دونوں حرام خور اور ہڈ حرام ہین ان کے جیسے گھٹنوں
میں پانی پڑا ہو ا ہے۔میں بڈھی جان کہاں تک سارا گھر سنبھالوں گی ۔۔۔۔۔۔۔۔
اور میری اولاد ۔وہ بھی جورو کی غلام “ میں معاملے کی نزاکت کو سمجھ گیا
تھا لہذا میں نے چپ میں آفیت سمجھی اور نماز پڑھنے مسجد چلا گیا ۔
اگلی صبح دونوں بیٹے ہمار ے پاس آئے اور کہنے لگے ” ابا جی ،ہم نہیں چاہتے
کہ گھر کا ماحول بگڑے۔آپ ہمیں خوشی خوشی الگ ہونے کی اجازت دے دیں ۔ہم ہر
ماہ آپ کی ضرورت کی اشیا ءاور خرچ بھیج دیا کریں گے “ میں ابھی خاموش تھا
کہ بیگم بولی ” میں اپنے بیٹوں کو اپنے سے الگ نہیں کروں گی ۔تم دونوں نے
یہ گھر چھوڑ کے جانا ہے تو خوشی سے چلی جاﺅ“ ” یہ دنیا ایک سے دو اور دو سے
چار کے اصول پر چل رہی ہے ،ماں جی کل آپ اپنے سسرال سے اسی فارمولے کے تحت
الگ ہوئی تھیں اور آج ہم اسی فارمولے کے تحت آپ سے الگ ہو رہے ہیں “ بہوﺅں
کا سا س کیلئے جواب تھا ۔
”میں نے اپنی اولاد کو جنم دیا ۔پالا پوسا،تعلیم و تربیت دی۔ان کیلئے کیا
کیا صعوبتیں برداشت کیں ۔خود نہ کھایا کہ میرے بیٹے بھوکے نہ رہیں ۔جب
ہمارے بیٹھ کر کھانے کے دن آئے تو وہ چڑیا کے بچوں کی طرح گھونسلے سے پھر
سے اڑ گئے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسا کیوں ہوتا ہے ؟ بیگم مجھ سے سوال کرتی ہے۔میرے پاس
اس کا صرف ایک ہی جواب ہے کہ انسان عمر کے جس حصے میں ہوتا ہے وہ اپنی مرضی
سے دوسروں کو چلانا چاہتا ہے ،حلانکہ ایسا ممکن نہیں۔
بیٹے ،بہوئیں کھبی کبھار آتے ہیں ۔چند لمحے مل کر بیٹھتے ہیں ،چائے پیتے
ہیں اور پھر آنے کا کہہ کر چلے جاتے ہیں ۔میں بیگم سے اس کے وہی الفاظ
دہراتا ہوں جو اس نے سسرال سے الگ ہوتے ہوئے کہے تھے ۔وہ اپنے الفاظ پر
مجھے ،محسوس ہوتا ہے نادم ہے پر کھل کر اس کا اظہار نہیں کرتی ۔ میں بیگم
سے کہتا ہوں ” بیگم بٹوارہ زمین جائیداد روپے پیسے میں ہو تو انسان برداشت
کر لیتا ہے ،جب بٹوارہ رشتوں،سوچوں ،احساسات اور محبتوں میں ہونے لگے تو
انسان اندر سے ٹوٹ جاتا ہے ۔بیگم اند رسے ٹوٹ گئی تھی۔لبوں پر شکوے شکایت
کے علاوہ یہ الفاظ بھی سننے کو ملتے ہیں ” جہاں یہ دنیا ایک سے دو اور دو
سے چار کے اصول پر بٹ رہی ہے وہاں یہ مقافات عمل بھی ہے۔آج جو بوﺅں گے کل
کاٹو گے ۔جیسا سلوک آج کرو گے ویسا ہی کل پیش آئے گا “ - |
|