خدا کیوں چپ ہے۔؟
(Nadia Khalid Chohdury, )
’’دہشت گرد نعرۂ تکبیر کی آوازیں لگارہے
تھے جب وہ دیوار پھلانگ کر یونیورسٹی میں داخل ہوئے‘‘ یہ وہ اطلاع تھی جو
ایک نجی چینل کی رپورٹ دے رہے تھی۔ آگے اس نے کیاکہا یہ سننے کی ہمت نہ تھی
۔ یہ ایسے الفاظ ہیں جو ہر حملے کی رپورٹنگ کے دوران سننے کو ملتے ہیں۔
اوردکھ کی شدت میں اضافہ ہو جاتا ہے کہ ہمارا ہی خون بہے اور ہمارے ہی دین
کو استعمال کیا جائے۔ وہدین جو نام ہی امن کا ہے۔ محبت کا ہے۔ بھائی چارے
کاہے۔ وہ اس قدر درندگی کی کی اجازت کیسے دے سکتا ہے؟ وہ دین جس میں دشمن
کے ساتھ بھی حسن سلوک کی تلقین آئی ہو وہ اپنے ہی پیروکاروں کا خون بہانے
کی اجازت دے؟اس دین کو بدنام کرنے والے کچھ تو سوچیں۔ اگر ایک بارود کے بیگ
کو باندھ کر سیکڑوں سہاگنوں کو بیوہ کرکے، بچوں کو یتیم کرکے، بوڑھے والدین
کو بے آسرا کرکے جنت ملتی ہے تو وہ کم ازکم وہ جنت نہیں ہے جو میرے اﷲ نے
بنائی ہے۔ تم تو وہ درندے ہو جن سے دوزخ بھی پناہ مانگتی ہوگی۔
پچھلا زخم کم نہیں ہوتا کہ ا س ملک کے باسیوں کو نیا زخم دیتے ہیں یہ دہشت
گرد۔۔۔۔۔۔ اس دشمن نے مارکیٹوں، مسجدوں، عید گاہوں، پولیس چوکیوں، فوجی
اڈوں پر حملے کیے۔ یہاں تک کہ جناز گاہوں تک کو نہ چھوڑا۔ ۔۔۔۔اور اب آ گئے
ہیں اس چمن کے پھولوں کیطرف۔۔۔۔۔پہلے اے پی سی پشاور میں 150 سے زائد معصوم
پھولوں کو مسلا۔ علم کی روشنی دینے والی شمعوں کو کچلا اوراب چار سدہ یو
نیورسٹی میں علم کے چراغ بجھائے اور لاکھوں لوگوں کی آہیں سمیٹیں میرا یہ
وطن جہاں سہنی کا ڈیرہ تھا ۔ مسکراہٹیں تھیں خوشیاں اور شادمانیاں تھیں
وہاں آج آنسو ہیں آہیں ہیں۔ سسکیاں ہیں۔۔۔۔ لوگ اپنے گھروں میں خوف وہراس
کی لپیٹ میں ہیں۔ سکولوں میں بچے محفوظ نہیں۔
آخر کب تک میرے ملک کے مکینوں کا خون بہایا جائے گا؟ کب تک یہاں خون کی
ہولی کھیلی جاتی رہے گی؟؟ دشمن نے ایسی کاری ضربیں لگائی ہیں کہ سانحہ
پشاور کی صورت میں کہ یہ دکھ یہ غم کبھی ہلکا نہیں ہوتا اہم دنوں میں ایسے
واقعات کا ہونا صاف ظاہر کرتا ہے کہ اس سب کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے۔ پہلے
ہمارے ملک میں دہشت پھیلا کر مسئلۂ کشمیر کی طرف سے ہماری توجہ ہٹائی
پھر16دسمبر کو پشاور جیسا سانحہ کروایا تاکہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کو
ہم بھول ہی جائیں اور ہوا بھی ایسا اس سال 16 دسمبر کو چینلز نے صرف سانحہ
پشاور پر ہی خصوصی ٹرانسمشنز رکھیں یعنی دشمن کامیاب ہو گیا۔ سانحہ پشاور
کے بعد ساری سیاسی اور عسکری قیادت ایک ہوئی اور ملٹری کورٹس کا قیام اور
نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیاگیا اور آپریشن ضرب عضب بھی شروع ہوا۔ یہ بھی
سنا کہ دشمن اس ملک میں اب آخری سانسیں لے رہا ہے۔ لیکن خاتمے کے قریب بھی
کوئی ایسا کاری وار کرسکتا ہے؟؟؟
مطلب صاف ہے کہ دشمن کی جڑیں ابھی مضبوط ہیں اور اب اس نے گہری چوٹیں لگانا
کی ہیں۔ علم کے چراغوں کو بجھا کر وہ پاکستان کے مستقبل کواندھیر کررہا ہے۔
اس سب میں قابل افسوس اس قوم کا جذباتی پن ہے۔ ایک اچھی بات اس قوم میں ہے
وہ یہ کہ ہر حادثے اورسانحے میں یکجا ہو جاتی ہے۔ لیکن جذباتی بھی بے حد
ہے۔ سانحہ پشاور پر ISPR دو نغمات ریلیز کئے ’’بڑا دشمن بنا پھرتا ہے جو
بچوں سے لڑتا ہے ‘‘اور’’مجھے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے‘‘ ان نغمات نے بچے
بچے کو ہمارے واقف کرادیا۔ ان نغمات پر میں نے بے شمار تنقید بھی دیکھی۔
تنقید کرنے والوں سے میرا سوال ہے کہ کیا آپ ویسے اس قوم کے پھولوں کو اس
خطرناک دشمن سے آگاہ کر سکتے تھے؟ ان دو نغمات نے جہاں پوری قوم کے جذبات
کی ترجمانی کی وہیں چھوٹے سے چھوٹے بچے میں ان کے خلاف لڑنے اور مقابلہ
کرنے کی جرأت اورحوصلہ پیدا کیا ہے۔ آج ملک کا بچہ بچہ اس دشمن کے خلاف
لڑنے کو تیار ہے۔ یہ اسکی بھول ہے کہ اس نے اس ملک کو کمزور کر دیا ہے۔
اب ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ عوام اپنے ارد گرد چھپے ان دہشت گردوں کو
پہچانے۔ یہ ہمارے درمیان ہی ہیں کیونکہ اتنے منظم حملے وہ بغیر سہولت کاروں
کے نہیں کر سکتے۔ عسکری اور سیاسی قیادت نیشنل ایکشن پلان پر عمل در آمد
کروائے۔ ذاتی جھگڑوں کو بھول کر۔ چھوٹی لڑائیوں میں وقت ضائع کرنے کی بجائے
اس دشمن کا قلع قمع کرنے کا بندوبست کیا جائے جو صرف بیانات تک محدود نہ ہو
بلکہ عمل بھی ہو۔
اور اس مذہب کے نام پہ وحشت پھیلانے والے جان لیں کہ اﷲ کی لاٹھی بے آواز
ہے۔ اگرڈھیل دی گئی ہے تو اس کے عذاب سے ڈرو۔کل بروز قیامت لوگوں کی جانوں
کے ضیاع کا حساب دو گے یہ امن وآشتی کا پیغام جو دین اس کی آڑ میں ظلم
وبربریت اور خون کیہ ہولی کھیلنے کا حساب دو گے؟؟؟
آخر میں یہی کہوں گی ۔۔۔۔
صاحب مہر ووفا
ہم پہ تو وقت کے پہرے ہیں، خدا کیوں چپ ہے؟؟؟ |
|