عورت کا مقام

چونکہ معاشرے میں ہر طرف برائی و بے حیائی ، بے پردگی و لاشعوری ، نقاب و حجاب کی بحث، ٹیلیفونک دوستیاں،سوشل میڈیا فرینڈشپ ،گھر سے بھاگ کر شادیاں،تنگ لباسی و بناوٹی فیشن کا سلسلہ زورو شور سے جاری و ساری ہے ۔ان حالات میں بہت سے سوالات جنم لیتے ہیں جیسا کہ عورت کیا ہے؟ آج کی عورت کیاسے کیا بن گئی؟اسلام سے پہلے عورت کیسی تھی اوراس کو کیا مشکلات تھیں ؟اسلام نے عورت کو کیا عطا کیا ؟ اسلام کے آنے سے عورت کے حالات نرم ہوئے یا سختی میں اضافہ ہوا؟اسلامی نظام میں پسندیدہ عورت کون سی ہے ؟ اس طرح کے بیش بہا سوالات پیدا ہوتے ہیں جن کا جواب ہر پاکستانی ، ہر مسلمان جاننا چاہتا ہے مگر شاید مصروفیات کی وجہ سے توجہ کم ہے۔بندہ ناچیز نے اس وسیع و عریض عنوان کا انتخاب کیا ہے ۔چودہ سو سال پہلے جب حضور اکرم ﷺ کا دور عظیم تھاکہ صبح صبح کفار نے انصار مدینہ ( صحابہ کرام ؓ ) سے سوال کیا کہ ایسی کیا وجہ تھی کہ گزشتہ رات بھر آپ مسلمانوں کے گھروں میں لالٹینیں ، دیئے اور روشنیاں ساری رات چلتی رہیں ؟ کیونکر روشنیاں معمول کے مطابق بند نہیں کیں؟ ۔صحابی رسول ﷺ کا جواب سونے کے پانی سے لکھنے والا ہے۔ انصار مدینہ فرماتے ہیں کہ اے کفار سنو!۔ ہمارے نبی حضرت محمد رسول اﷲ ﷺ پر اﷲ کی طرف سے ایک حکم نازل ہوا ہے۔نبی آخرالزماں حضرت محمد ﷺ نے ہمیں حکم سنایا ہے اور ہم اور ہماری مسلمان عورتیں رات بھر اس حکم کی پیروی کرنے کے لیے ، حکم بجا لانے کے لیے انتظامات میں مشغول تھے جس کی وجہ سے ہمارے گھروں میں روشنیاں رات بھر چلتی رہیں۔کفار نے پوچھا کہ ایسا کیا حکم نازل ہو گیا کہ جس کی خاطر تمام مسلمان رات بھر سونے کی بجائے کسی بندوبست میں لگے رہے؟ ۔ انصار مدینہ نے جواب دیا کہ اے کفار! نبی پاک ﷺ پر یہ حکم نازل ہوا ہے کہ مسلمان عورتوں کو پردے کی تلقین کریں۔ اور یہ حکم ہمیں اﷲ کے رسول ﷺ نے سنا یا ہے اور ہمارے گھرورں میں اس قدر کپڑا موجود نہیں تھا لہذا ہم اور ہماری عورتیں رات بھر اس حکم پر عمل کرنے کے لیے چھوٹے چھوٹے کپڑے کے ٹکڑوں کو جوڑ جوڑ کر پردے کے لیے چادر کا بندوبست کرتے رہے ہیں تا کہ بغیر کسی حیلے و بہانے کے بر وقت پردے کا اہتمام کیا جا سکے ۔واہ سبحان اﷲ صحابہ کرام و صحابیات مطہرات ؓ کے ایمان کے کیا کہنے ۔یہ تھیں اصل عورتیں جنہوں نے عورت ہونے کا حق اد ا کر دیا۔اور جب کوئی مسلمان عورت پردے کی حالت میں کسی گلی یا محلے سے گزرتی تھی تو واقعی پتہ چلتا تھا کہ یہ کوئی عام عورت نہیں ہے بلکہ اسلامی عورت ہے۔اب اس واقعے کو سامنے کھتے ہوئے میں سوال کرتا ہوں اکیسویں صدی کی عورت سے کہ کیا وہ عورتیں نعوذ باﷲ پاگل تھیں جنہوں نے ساری رات کی نیند کو قربان کر کے پردے کا اہتمام کرنے کے لیے کپڑے کا بندوبست کیا؟کیا وہ ایک دو دن کی رخصت نہیں طلب کر سکتی تھیں؟آج کی عورت کے ہزاروں بہانے ہوتے ہیں۔کبھی اس بات پر بحث ہو تی نظر آتی ہے کہ چہرے کا پردہ واجب ہے یا نہیں؟ اور کبھی کوئی عورت کہتی ہے کہ داڑھی والے مسلمان کو دیکھ کر پتھر کا زمانہ یاد آجاتا ہے۔اورجہاں ایک طرف عورتیں سوشل میڈیا پر سر عام فرینڈشپ کرتی نظر آتی ہیں تو وہاں دوسری طرف گھر سے بھاگ کر شادیاں رچائی جا رہی ہیں۔جہاں بیوٹی پارلر کے چکر لگانا روزانہ کا معمول ہے وہاں تنگ لباسی کا رواج بھی عام ہو چکا ہے۔اسلام نے تو عورت کو عزت بخشی ہے مگر آج کی عورت کیوں اس عزت کو تسلیم نہیں کرتی۔اور گناہوں کی مرتکب ہوتی جا رہی ہے۔کیا آج کی عورت کو اس بات کا احساس نہیں کہ وہاں رات بھر چھوٹے چھوٹے ٹکڑے جوڑ جوڑ کرپردے کے لیے انتظام کیا جاتا رہا اور آج کی عورت کے پاس گرمی و سردی کے الگ الگ لباس ہیں۔سونے کے لیے لباس الگ اور بازار جانے کے لیے لباس الگ ہونے کے باوجود آج کی عورت بے پردہ ہے۔کیا آج کی عورت حضرت فاطمہ ؓ کی سیرت کو بھول چکی ہے؟ کون فاطمہ ؓ ؟؟؟ جو جنت میں عورتوں کی سردارہے۔اس کے باوجود ان کے پردے کی یہ حالت تھی کہ آپ ؓ کی چادر اتنی بڑی تھی کہ جب آپ ؓ زمین پر چلتی تھیں تو آپ کی چادر بڑی ہونے کے سبب آپ ؓ کے پاؤں کے نشان بھی مٹ جاتے تھے۔کسی نے پوچھا کہ آپ کی چادر زمین پر گھسیٹ کر جاتی ہے آپ اس کو تھوڑا چھوٹا کیوں نہیں کر لیتی تو اس کے جواب میں حضرت فاطمہ ؓ نے فرمایا کہ میں نہیں چاہتی کہ کوئی غیر محرم میرے پاؤں کے نشان بھی دیکھے۔یہی تو ہے عورت کا مقام ، یہی تو ہے عورت کا اصل مرتبہ، یہی تو عورت کی میراث ہونی چاہیے۔مگر آج کی مسلمان عورت حضرت فاطمہ ؓ کی سیرت سے کوئی سبق نہیں سیکھتی۔یہاں تو بے ہودگی اور بے پردگی دیکھ کر کسی کا ایمان نہیں جوش مارتا کہ ان کو سمجھایا جائے کہ خدارا چند پیسوں کی خاطر خود کو نیلام نہ کریں۔کیاآج کی عورتوں کو حضرت عائشہ ؓ کی سیرت بھول گئی ہے؟کیا دنیا میں صرف روپے کمانا ہی مقصد رہ گیا ہے؟اور تو اور یہاں ہمارا سارا میڈیا بھی عورت کو بدنام اور نیلام کرنے کی بھر پور کوشش میں ہے۔سوشل میڈیا ، پرنٹ میڈیا سے لیکر ڈیجیٹل میڈیا اس مقصد میں پورے پورے حصہ دار ہیں۔شیمپو ، صابن، منجن، گاڑی، شوز، کریم وغیرہ کی کمرشل کے لیے عورت کا استعمال کیا جاتا ہے۔کیا یہی عورت کا مقام ہے کہ عورت کو نیم برہنہ پیش کیا جائے ؟ ہمارے ضمیر کیوں مردہ ہو چکے ہیں۔ہمارے اندر کا مسلمان کیوں سو گیا ہے؟ یہ سب کچھ ہمارے ایمان کی کمزوری کی وجہ سے ہے۔یہ سب کچھ دین سے دوری کی وجہ سے ہے۔ہمارے ایمان کمزور ہو چکے ہیں۔اور اس قدر ہمارے ضمیر مردہ ہوچکے ہیں کہ ہمیں برائی برائی ہی نہیں لگتی۔جیسا کہ گزشتہ دنوں ملک کے تمام نامور اخبارات کے فرنٹ پیج پر ایک بے ہودہ قسم کا اشتہار لگا تھا جس میں ایک عورت کو بہت بری طرح پیش کیا گیا تھا ۔کیا یہی عورت کا مقام ہے۔؟ نہیں نہیں ہر گز نہیں۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ ان تمام اخبارات کو نوٹس جاری ہونا چاہیے تھا یا ان کو سزا کے طور پر کوئی جرمانہ ہونا چاہیے تھا یا ان تمام اخبارات کا بائیکاٹ کیا جانا چاہیئے تھا۔ اور اگر ان کا لائسنس ہی کینسل کر دیا جاتا تو اور بھی بہتر تھا۔مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ، نہ ہی ان میں سے کسی اخبار والے نے اس چیز کی معذرت کی کہ یہ اشتہار اسلامی ملک میں مناسب نہیں۔عوام میں سے بھی صرف چند ایک نے اتنا کہا ہے کہ یہ اشتہار ٹھیک نہیں اور اس کے بعد مکمل خاموشی۔حقیقت تو یہ ہے کہ ہم سب کے ضمیر مردہ ہو چکے ہیں اور ہمارے ضمیر نے ہمیں جھنجھوڑنا چھوڑ دیا ہے۔ اور آج کی عورت نہ جانے کیوں اپنے اصل مقام کو بھول گئی ہے۔آج کی عورت چند پیسوں کی خاطر کاروباری اشتہار بن کر رہ گئی ہے اور اسے امہات المومنین ؓ کی تعلیمات کاذرا بھی پاس نہیں رہا۔کفار نے آج کی عورت کو آزادی کا نام دے کر کاروباری اشتہار بنا دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عورت مرد کے شانہ بشانہ کھڑی ہونے کے نام پر سب اسلامی روایات بھول چکی ہے۔اور پیسوں کے لالچ نے عورت کو گمراہ کر دیا ہے اور شاید انہی وجوہات کی بناء پر حضور اکرم ﷺ نے چودہ سو سال قبل ہی فرما دیا تھا کہ جہنم میں عورتیں کثرت سے ہوں گی۔میری ان تمام خواتین اسلام سے ہمدردانہ اپیل ہے کہ خدا را اپنے مقام کو سمجھیں اور اسلامی قوانین کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش کریں ۔اور جو روزی خدائے عظیم نے قسمت میں لکھی ہے وہ ضرور مل جائے گی۔جب تک انسان خود کو ٹھیک کرنے کی کوشش نہیں کرتا تب تک گمراہی چھائی رہتی ہے لہذا پیچھے جو ہوگیا سو ہوگیا ۔پچھلے تمام گناہوں اور غلطیوں کی اﷲ تعالیٰ کے حضور معافی مانگیں اور آئندہ ہر قسم کی کوتاہیوں سے باز رہنے کا عہد کریں۔اﷲ پاک میرا اور آپ سب کا حامی و ناصر ہو۔
Malik Muhammad Shahbaz
About the Author: Malik Muhammad Shahbaz Read More Articles by Malik Muhammad Shahbaz: 54 Articles with 44631 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.