نزول گاہِ وحی کی مہمانی میں!
ادھر میرے اور کعبہ شریف کے بیچ فاصلہ قدم قدم اٹھنے کے ساتھ سمٹ رہاتھا،ا
دھرشوق کے پنچھی نے ابرہہ کا قصہ جاری رکھتے ہوئے مجھ سے کہا اب ذرا چشم ِتصور
میں وہ منظر لایئے جب مکہ معظمہ کے دروازے پر آکر ابر ہہ نے اپنی چھاپہ مار
کارروائی سے مکہ والوں کو ایک عجیب وغریب جنگ کی دستک دی۔ اس نامراد کی
یلغارکسی شاہی فوج سے نہ تھی ، نہ کسی ملک کے والی یا کسی قوم کے سپہ سالار
سے مقابلہ تھا، یہ بیت اللہ کی چار دیواری اور اس کے تقدس پر اس کے غرور
وتکبر کا حملہ تھا، یہ اس حسن ِعقیدت کے خلاف براہ ِ راست اس کی ٹکر تھی جس
نے ہزاروں برس دنیائے عرب کے طوافوں ، عبادتوں ، دعاوںاور قربانیوں کو اس
خانہ خدا کے گرد مجتمع کیاتھا۔ یہ اللہ تعالی کی کبریائی پر اس کی
بداعتمادی کا مظاہرہ تھا، یہ مذہبی منافرت اور تعصب کا روگ تھا جو اس کے
جسم وروح میں سرطان کی مانند پھیلاتھا، یہ عدم رواداری کا غلغلہ تھا جواسے
بہ حیثیت رومی وائسرائے ورثے میں ملاتھا۔ ایک طرف ابرہہ کی پیادہ فوج تھی،
اس کے قوی الجثہ ہاتھی تھے، اس کے مکروہ عزائم کی تکمیل کے لئے بھاری سامان
ِ حرب وضرب تھا ، اس کی فاسد نیتوں کی پہرہ داری کے لئے تیرو ترکش اور
تلواریں تھیں ، یعنی ابرہہ سرتا پا مادی وسائل سے لیس تھا، اس کا رعب و
دبدبہ سکہ رائج الوقت تھا۔۔۔ اور دوسری طرف غلاف میں لپٹا تنہا کعبہ شریف۔
اف مولا! یہ کیسی جنگ تھی؟ ہر معنی میں ایک انوکھا محاربہ! کیا ابرہہ نے یہ
ناٹو جتنی کثیر فوج اہل ِمکہ کے نفسیاتی دباو کے لئے اپنے ہمراہ لائی تھی ؟
اس کو عربوں سے سخت مقابلہ آرائی کا خدشہ تھا؟ یا اللہ نے محض اپنی چال چلی
تا کہ اس خبیث روح کو اپنے سارے سامان ِ غرور اور سلطنت کی پونجی سمیت نیست
ونابود کر نے کے لئے اس جانب دھکیلاکہ خدا وند قدوس کو خس صاف جہاں پاک کا
معجزہ دکھانا مطلوب تھا؟ فرعون کو بھی اللہ نے اسی طرح حضرت موسی کے تعاقب
میں لگاتے ہوئے اپنی فوج اور تمام اعیانِ حکومت سمیت جمع کر کے ایک ہی جست
میں غرقآب کر ڈالا۔
تاریخ کا ایک اور مرقع دیکھئے ۔ اسی مکہ مکر مہ میں سن رمضان المبارک ہجری(
بمطابق جنوری عیسوی) محمد رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیر قیادت دس
ہزار صحابہ کرام رضی ا للہ تعالی عنہ پر مشتمل فوج ظفر موج پورے سازوسامان
سے لیس ہوکر آتی ہے مگر یہ خون خرابہ کرکے اہل ِمکہ کو شکست دینے کے لئے
نہیں بلکہ جنگ نہ کرکے ان کا دل جیتنے کی نیت سے واردِ مکہ ہوتی ہے تاکہ
بیت اللہ کی پاسبانی ہو، اس کی حرمت وعظمت کا ڈنکا بجے ، اللہ کے شعائر کی
مزید پامالیا نہ ہوں ، مقدس کعبے سے سینکڑوں بتوں کو توڑ پھوڑ سے ایمان
باللہ کی بنیاد پر انسان کا رشتہ اللہ سے از سر نو جوڑا جائے، جاہلیت کا
قلع قمع کیا جائے،حق وانصاف اور امن وآشتی کا بولا بالا ہو ۔ اور جب آپ صلی
ا للہ علیہ وسلم کابغیر کسی جنگ وجدل کے مکہ معظمہ میں نزول اجلال ہوتا ہے
تو اونٹنی ( قصوی) پر آپ کا سرمبارک بلد الامین یعنی امن والے شہر میں عجز
وانکساری کی شان سے اتنا جھکاہوا ہوتاہے کہ تاریخ کی آنکھ اس ایک لا مثال
وبے زوال جھلک کو دیکھ کر تاقیام ِ قیامت عش عش کرتی رہے گی۔ فاتحِ مکہ کا
یہ صلح پسندانہ سر اپا کا کوئی ثانی دنیا کی تاریخ میں ملتا ہے ؟ نہیں
قطعانہیں ۔ صلحِ حدیبیہ کے موقع پر بھی آپ نے مکہ معظمہ کی حرمت کی پاسداری
کا خاص خیال رکھ کر خون خرابے پر ناجنگ معاہدے کودی اور فتحِ مکہ کے دن
لاتثریب الیوم( آج کے دن مجرموں کی پکڑ نہیں)کا مژدہ بھی اسی امن پسندی اور
حرمت ِ کعبہ کا شاخسانہ ہے۔ دو لشکروں کے درمیان یہ بنیادی فرق سمجھ کر
ہمیں اصحاب الفیل کی داستان کا سر ا ہاتھ آسکتاہے ۔
بہرحال ابرہہ کے اعلانِ جنگ سے مکہ مکرمہ کی فضائیں مغموم و دل ملول ہورہی
تھیں۔ قابل غور نقطہ ہے کہ جسورو غیوراہل ِ مکہ کے دل میں بھی اللہ نے
ابرہہ کی مرعوبیت القاکر دی ، شایدا س لئے کہ یہ جنگ چونکہ اللہ کے گھر سے
تھی، اس لئے گھر والا خود اس جنگ کا فیصلہ تاابد لکھ دینا چاہتا تھا تاکہ
عالم ِانسانیت کے سا منے عبرت پذیری کا سامان رہے۔
دنیا میں کسی بھی زمانے کاجو بھی بادشاہ ، والی ریاست یا فرماں روا نظم ِمملکت
کو جبر کے حصار اور سلطنت کا دبدبہ ظلم کی تلوارسے چلانے کا خوگر ہو، وہ جب
کسی ملک وقوم پر ہلہ بولتا ہے تو چونکہ اس کے دل ودماغ میں پہلے سے ہی
خباثتوں اور حماقتوں کا ملبہ وافر مقدار میں جمع ہوتا ہے ،اس لئے اس کی چشم
ِ بصیرت ہمیشہ کے لئے بند رہتی ہے اور اس کے جوش ِ غضب کی حالت وہی ہوتی ہے
جس کا اشارہ سور ہ نمل آیت میں ان الفاظ میں موجود ہے: اور( ملکہ سبا) نے
کہا کہ بادشاہ ( ملک گیری اور طلب ِ جاہ کی غرض سے) کسی بستی میں داخل ہوتے
ہیں تو اسے تباہ و برباد کر دیتے ہیں اور وہاں کے باعزت لوگوں کوذلیل ورسوا
کرڈالتے ہیں ۔
زیادہ دور کیوں جائے ،دورجد ید کے ابرہے نا ئین الیون کے بعد کمزور قوموں
سے علی الاعلان کہتے ہیں کہ یا توتم ہمارے ساتھ ہو یا ہمارے خلاف، غیر جانب
داری کا کوئی تیسرا راستہ تمہارے لئے بچتانہیںاور اگر تم ہمار ے خلاف ہو تو
ہم تمہیں پتھر کے زمانے میں پہنچا دیں گے ۔ابر ہہ بھی اپنے زمانے میںا سی
قبیل وقماش کا ظالم و جابر بادشاہ تھا، وہ جہالت ،بے خبری اور بے بصری کے
عالم میں سمجھ رہاتھا کہ کعبہ العیاذ باللہ محض ایک عمارت کانام ہے، جو
اینٹ گارے سے بنی ہے،انسانی ہاتھوں کی تراشیدہ ہے ، اسے ڈھانے میں کوئی غیر
مرئی طاقت آڑے نہیں آسکتی۔ بالفاظ دیگر وہ اپنے اندھے پن کی وجہ سے وہ یہ
گرہ کشائی کرنے سے قاصر تھا کہ اللہ کے دو بر گزیدہ پیغمبروںحضرت ابراہیم
اور حضرت اسمعیل علیہماالسلام جو اس گھرکے معمار ہیں، نے آخر کس کے اذن سے
روئے زمین پریہ پہلاخانہ خدا تعمیر کیااور مناسک حج کا آغاز کیا ۔ یہ کم
بخت ا پنے جنون و دیوانگی کے ہاتھوں یرغمال ہوکر جوش ِانتقام ٹھنڈا کر نے
یمن سے مکہ معظمہ پہنچا۔ مکہ کے قریب المغمس میں فروکش ہوکر اس نے اہالیان
ِ مکہ کو اپنے ایلچی حناطہ الحمیری کے ذریعے اپنے نامبارک کام کو پایہ
تکمیل تک پہنچانے کی اطلاع دی ۔ حناطہ کو یہ پیغام لوگوں تک پہنچانے کے
علاوہ یہ ذمہ داری بھی سونپ دی کہ تم مکہ جاکر شہر کے سردار اور بلند رتبہ
شخصیت کا پتہ لگا کر اس سے کہنا کہ بادشاہ کہتاہے کہ میں تم سے لڑنے بھڑنے
کے لئے نہیں آیا ہوں بلکہ صرف خانہ خدا کو نعوذباللہ ڈھانا مطلوب ہے ۔ ساتھ
ہی یہ دھمکی بھی سنانا کہ اگرتم لوگوںنے کعبہ کی حفاظت میں کوئی جنبش وحرکت
نہ کی تو تم کو دیکھ لوں گا، ورنہ مجھے تمہارا خون بہانے کا کوئی شوق نہیں
۔ ابرہہ نے ایلچی سے یہ بھی کہہ رکھاتھا کہ اگر سردار جنگ نہ کرنا چاہے تو
اسے میرے دربادر میں حاضر کرنا ۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے
داداجان جناب عبدالمطلب بن ہاشم جومکہ کے سردار تھے، نے ایلچی کا پیغام سنا
تو اس سے کہا کہ خدا کی قسم ہم ابر ہہ سے لڑنے کا ارداہ نہیں رکھتے اور ہم
میں مزاحمت کی سکت بھی نہیںہے۔ یہ بیت اللہ ہے اور اللہ کے خلیل ابراہیم کا
عظمت والا گھر ہے ۔ا گر اللہ تعالی اس گھر کا ابر ہہ سے بچاو کرے تو وہ اس
کا گھر ہے ، اگر توا س نے بیت اللہ اور ابرہہ کے درمیان راستہ صاف کیا یعنی
بیچ میں کوئی آڑ نہ ڈالی تو بخدا ہمارے پا س کعبہ کو بچانے کی کوئی تدبیر
وطاقت نہیں۔ حناطہ نے یہ گفتگو سن کر تاڑ لیا کہ اہل ِ مکہ ابر ہہ کی راہ
میں مزاحم ہونے والے نہیں تو اس نے عبدالمطلب کو اپنے بادشاہ کی لشکر گاہ
میں لایا۔ کہتے ہیں ان کے ہمراہ ان کے بعض بیٹے اور بنی بکر کے سردار یعمر
بن نفاثہ اور بنی ہذیل کے سردار خویلد بن واثلہ بھی تھے ۔ یہاں عبدالمطلب
کی ملاقات ذونضر سے ہوگئی جو ان کا ودست تھا۔ آپ نے ذونضر سے کہا یہ ہم پر
کیا آفت نازل ہوئی؟ کیا اس سے نجات پانے کی کوئی تدبیر تمہارے پاس ہے؟
ذونضر نے کہا ایک شخص کے پاس کیا تدبیر ہوسکتی ہے جو ایک ظالم بادشاہ کی
گرفت وقید میں ہو اور تذبذب میں ہو کہ اسے صبح پھانسی چڑھایا جائے یا شام
قتل کیا جائے ۔ البتہ میں اتنا کر سکتا ہوں کہ بادشاہ کا فیل بان انیس میرا
دوست ہے ، میں اس کی وساطت سے آپ کو ابرہہ کے دربار میں با ر یابی دلا سکتا
ہوں ۔ پھر آپ جو مناسب سمجھیں، اس سے بات چیت کریں ۔ ذونضر نے انیس سے
عبدالمطلب کے بارے میںتعارفا کہا یہ مکہ کے سردار ہیں بلکہ مکہ والوں کی
آنکھ کی پتلی ہیں ، اہل شہر کو کھانا کھلاتے ہیں اور بیرون ِ شہر پہاڑوں کی
چوٹیوں پر اجنبیوں کی ضیافت کر تے ہیں۔ تم انہیں دربار شاہی تک رسائی دلاو
۔ انیس نے کہا جو کچھ مجھ سے بن پائے ضرورکروں گا۔ اس نے ابرہہ سے
عبدالمطلب کا تعارف کرایا اور درخواست کی انہیں باریابی کا موقع دیجئے ۔
ابرہہ نے اجازت دی۔ عبدالمطلب کی وجاہت، وقارو جلال کا مجسمہ تھے، اوپر سے
طاقت لسانی اور خطابت ِشریں میںاپنی مثال آپ ۔ ابر ہہ انہیں دیکھ کر بہت
متاثرہوا۔ سردار ِ مکہ نے براہ راست موضوع پر آکر ابر ہہ سے اپنے دوسو
اونٹوں کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ ابرہہ نے اس مطالبے کو عبدالمطلب کے شایان
ِ شان نہ سمجھ کر کہا میں تو آپ کو بہت ہی بالغ نظراورعاقل ومدبر سمجھتاتھا
لیکن حیران ہوں کہ میں کعبہ کو ( خاکم بدہن ) ڈھانے آیا ہوں اور آپ کو اپنے
اونٹوں کی واپسی کی پڑی ہے ۔ کعبہ کے بارے میں ایک بات بھی نہیں کرتے جس کی
عظمت وتقدس کے آپ لوگ دعوے دار ہو اور آپ کو اونٹوں کی واپسی کی فکر لگی ہے۔
عبدالمطلب نے اس چوٹ کا یہ ایمان افروز جواب دیا: بادشاہ ! چونکہ یہ اونٹ
میری ملکیت ہیں،اس لئے میں نے ان کے لئے درخواست پیش کی ، اب رہا کعبہ وہ
میرا گھر نہیں، خدا کا مقدس گھر ہے، وہ خود اس کا محافظ ہے، میں کون ہوں جو
اس کے لئے کوئی سفارش کروں؟ ابر ہہ سے اس کا جواب نہ بن پایا تو کہا اب
کعبہ کو مجھ سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ عبدالمطلب نے جواباکہا: آپ جانیں اور
رب ِ کعبہ جانے۔ بات چیت اسی پر ختم ہوئی تو ابرہہ نے ان کے اونٹ واپس کرکے
اپنی لاج رکھی۔
ایک دوسری روایت کے مطابق عبدالمطلب نے ابر ہہ کو اس بدبختانہ کام سے باز
رہنے کی ترغیب دلائی اور یہ پیش کش بھی کی ہم تہامہ کا ایک تہائی مال بطور
باج میںتمہیں دیں گے مگر وہ طاقت کے نشے میں چور تھا،اس لئے نہ مانا۔ ابن
عبا س کی روایت میں عبدالمطلب کی زبانی اونٹوں کی واپسی کا کوئی ذکر نہیں
ہوابلکہ ابن عباس بشمول کئی دوسرے راویان کے فرماتے ہیں کہ جب ابرہہ عرفات
اور طائف کے درمیان الصفاح کے مقام (جو حدودِ حرم کے قریب واقعہ ہے) پہنچا
تو عبدالمطلب خود اس کے پاس جاکرشریفانہ اندازمیں دریافت کر نے لگے کہ آپ
کویہاں تک آنے کی کیا ضرورت تھی؟ اگر کوئی چیز آپ کو چاہیے تھی تو ہمیں
کہلا بھیجا ہوتا، ہم خود حاضر ہوتے۔ ابر ہہ نے پورے تکبرو ہم ہستی کے ساتھ
کہا مابدولت نے سنا ہے کہ یہ امن کا گھر ہے ، میں اس کا امن ختم کر نے آیا
ہوں۔ عبدالمطلب نے یہ سنا تو پورے اعتماد کے ساتھ کہا یہ اللہ کا گھر ہے،
آج تک اس نے کسی کو اِس پر کسی کو مسلط نہ ہونے دیا ہے۔ ابرہہ نے جواب دیا
کہ میں اسے مہندم کئے بغیر نہیں پلٹوں گا۔ عبدالمطلب نے فہمائش کے انداز
میں کہا کہ آپ جو کچھ چاہیں ہم سے لیں اور واپس چلے جائیں مگر ابرہہ نے
انہیں پیچھے چھوڑ کر لشکر کو آگے بڑھنے کا حکم دیا۔
روایات میں آیا ہے کہ سردارِ مکہ ابر ہہ سے گفتگو کے بعد واپس بستی میں
لوٹے تو قریش اور دوسرے قبائل کو جمع کر کے سار اماجرا بتایا۔ لوگوں کو
مشورہ دیا چوں کہ ہم یہ ناقابل برداشت واذیت ناک منظر اپنی آنکھوں سے نہ
دیکھ سکیں گے ، اس لئے سب قریب کی کسی پہاڑی میں پناہ گزیں ہوجاو۔ لوگ بادل
نخواستہ ٹوٹے قدموں سے کعبتہ اللہ اور اپنے گھر بار چھوڑ کر پہاڑوں میں جا
چھپنے کے لئے امڈ آئے۔ اس موقع پریہ سب شکستہ دل لے کر اور گریہ وزاری کر
تے ہوئے اپنے سردارِ مکہ عبدالمطلب کی رہنمائی میںدرِ کعبہ پر پہہنچے جنہوں
نے اس کی زنجیر پکڑ کر یہ دعاکی: خدایا ہم اس بارے میں غمگین نہیں ہیں کہ
جب ہم اپنی متاع کی حفاظت کر سکتے ہیں، تو اپنی متاع( کعبہ ) کی تجھ کو بھی
ضرور حفاظت کر نی ہے ۔ اور تیری تدبیر سے نہ صلیب( مراد عیسائیت ) کی طاقت
غالب آسکتی ہے اور نہ اہل ِصلیب( مراد عیسائی ) کی کوئی تدبیر ہاں اگر تو
ہی چاہتا ہے کہ ان کو اپنے مقدس گھر کو خراب کرنے دے تو پھر ہم کون؟ تیرا
جو جی چاہے سو کر اس موقع پر عبدالمطلب نے بر جستہ یہ درد بھرے اشعار کہے
یاللہ! بندہ اپنی سواری کی حفاظت کر تاہے، تو بھی اپنے حرم پاک کے مال
ومتاع کی حفاظت فرما۔
ان کی صلیب اور ان کی قوتیں کل صبح تیری قوتوں پر غالب نہ ہوجائیں۔
اگر تو ان کو اور ہمارے قبلے کو اپنے حال پر چھوڑ دینا چاہتاہے تو جو چاہے
کر۔
اس واقعے کے بین ا لسطور یہ بھی قابل غور امر ہے کہ تاریخ میں کہیں یہ درج
نہیں کہ اس نازک گھڑی پر کسی نے کعبہ میں اندر اور باہر موجود کسی بت کو
امداد و دستگیری کے لئے پکارایا کسی دیوتا سے منت مانی بلکہ راست طور اللہ
سے ہر کس وناکس نے اپنا دامن ِ امید جوڑا بلکہ کہتے ہیں کہ سالہاسال تک اہل
ِمکہ خدائے یکتا کے بندے بن کر ہے ۔ بہر حال مکہ والے اپنے سردار سمیت نا
گفتہ بہ حا لات کے سامنے ہتھیار ڈال کر یکسرمنظر نامے سے ہٹ گئے۔ اب ابرہہ
کے لئے بظاہرمیدان خالی تھا۔ کوئی مقابلہ آرائی نہیں ، کوئی مزاحمت کار
نہیں ، کوئی داد ِ شجاعت دینے والے مردِ میدان نظر ہی نہیں آتا تھا مگر
مالک الملک اللہ یہ سب دیکھ رہاتھا۔ |