اَذان کی توقیر اور مؤذن کا اکرام
(Nadeem Rehman Malik, Muzzafar Garh)
یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ
گونجنے والی آواز اَذان ہے،اور یہ ہر لمحہ ہر سکینڈ دنیا بھر میں سنی اور
کہی جاتی ہے،اَذان کے معنی اطلاع دینا یا اعلان کرنا ہے،یہ آواز پانچ وقت
ہر روز پوری دنیا میں باآواز بُلند کر کے مسلمان کو دی جاتی ہے کہ نماز کا
وقت ہو چکا ہے،اﷲ سبحان و تعالیٰ کے آگے سر جھکانا اور اﷲ تعالیٰ کی
کبریائی وحدانیت اور حضور اکرم ﷺ کی رسالت کی گواہی دینے اور دنیا اور آخرت
میں بھلائی اور کامیابی کا وقت ہوچکا ہے۔ مسجد میں پانچ وقت کی باجماعت
نماز ادا کرنے کیلئے اذان دینا سنت مؤکدہ ہے ،اس کے علاویہ میدان جنگ میں
اﷲ تعالیٰ کی نصرت کیلئے اذان دی جاتی ہے۔اگر کسی علاقے میں وبائی مرض پھوٹ
پڑئے،اگر کوئی جنگل میں راستہ بھول جائے،مسلمان بچہ جب پیدا ہو تو بھی اذان
دی جاتی ہے تاکہ اﷲ سبحان و تعالیٰ کی رحمت اور برکات سے جملہ مسائل حل
ہوجاہیں۔مرگی والے کے کان میں اَذان دینے سے مرض دور ہو جاتا ہے،آتشزدگی کے
وقت اَذان دینے سے آگ پر باآسانی قابو پایا جا سکتا ہے،اسی طرح کسی بدمزاج
کے کان میں اَذان دینے سے وہ نیک مزاج بن سکتا ہے۔(درمختار)
حضور کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن مؤذنوں ( اذان دینے والے ) کی
گردنیں اونچی ہوں گی اور سب سے نمایاں ہوں گی اور مؤذن جب اذان دیتا ہے تو
جہاں تک اسکی آواز جاتی ہے اس علاقے کے تمام درخت پہاڑ اور پتھر وغیرہ اس
مؤذن کے ایمان کی گواہی دیتے ہیں اور اسکی مغفرت کرتی ہیں۔ ایک موقعہ پر آپ
ﷺ نے فرمایا کہ مؤذن جب اذان کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو اﷲ تبارک و تعالیٰ کا
دستِ قدرت اس کے سر پر ہوتا ہے اور مؤذن جب تک اذان پڑھتا رہتا ہے اﷲ
تعالیٰ کی رحمت اور انوار اس پر برستی رہتی ہیں۔حضور کریم ﷺ نے فرمایاکہ
میں جنت میں گیا اس میں موتی کے گنبد دیکھے اسکی خاک مشک ہے،فرمایا اے
جبرئیل علیہ السلام یہ کس کے لیے ہے،عرض کی یہ حضور ﷺ کی اُمت کے مؤذنوں
اور اماموں کے لیے ہے۔(مسند ابو یعلی )
حدیث مبارکہ ہے کہ ایک شخص نے حضور کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی
کہ اسے کوئی ایسا آسان عمل بتایا جائے کہ وہ جنت میں ہمیشہ کے لیے داخل ہو
جائے، آپ ﷺ نے فرمایا تم اپنی قوم کے مؤذن ہوجاؤ تاکہ وہ تمہاری وجہ سے وقت
پر اپنی نمازاداکرسکیں،اس نے کہا اگر مجھ سے یہ نہ ہو سکے تو کیا کروں،آپ ﷺ
نے فرمایا کہ اپنی قوم کے امام بن جاؤ کہ تمہاری وجہ سے وہ اپنی
نمازباجماعت ادا کر سکیں، عرض کہ کہ یا رسول اﷲ اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو
کیا کروں؟ارشاد ہوا کہ پہلی صف میں شامل ہو کر نماز پڑھنا اپنے اوپر لازم
کر لو۔
ایک موقع پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ میدان جنگ میں جب کوئی مسلمان خون میں لت پت
ہو جائے اور شہادت کے رتبے پر فائز ہونے لگے تو آسمان سے اﷲ کے حکم سے
فرشتے اسکی زیارت کے لیے زمین پر اُترتے ہیں اسی طرح مؤذن جب اذان کے لیے
کھڑا ہوتا ہے تو اﷲ تعالیٰ کے حکم سے فرشتے اس مؤذن کے دیدار کے لیے آتے
ہیں ۔ اس کے علاویہ مؤذن کا ایک یہ بھی اکرام ہے کہ اسکے جسم کو قبر کی مٹی
خراب نہیں کرتی، قیامت کے دن مؤذنوں کی سواریاں سب سے آگے ہوں گی اور ان کے
سردار حضرت بلال حبشی رضی اﷲ عنہ ہوں گے ، تب اﷲ تعالیٰ ہر مؤذن کو جنت کے
دروازئے پر کھڑا کرے گا اور جس کی وہ مؤذن سفارش کرئے گا اﷲ تعالیٰ اُسے
جنت میں داخل کرئے فرماہیں گے۔
اذان کے الفاظ کا اردو ترجمہ یوں ہے ۔
اﷲ سب سے بڑا ہے،اﷲ سب سے بڑا ہے،اﷲ سب سے بڑا ہے،اﷲ سب سے بڑا ہے، میں
گواہی دیتا ہوں کہ اﷲ کے علاوہ کوئی سچا عبادت کے لائق نہیں،میں گواہی دیتا
ہوں کہ اﷲ کے علاوہ کوئی سچا عبادت کے لائق نہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ
محمد صلی اﷲ علیہ وسلم اﷲ کے آخری رسول ہیں،میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی
اﷲ علیہ وسلم اﷲ کے آخری رسول ہیں، آؤ نماز کی طرف،آؤ نماز کی طرف،آؤ
کامیابی کی طرف،آؤ کامیابی کی طرف،اﷲ سب سے بڑا ہے،اﷲ سب سے بڑا ہے، اﷲ کے
علاوہ کوئی سچا عبادت کے لائق نہیں۔ البتہ فجر کی نماز میں حی علی الفلاح
الصلاۃ خیر من النوم ( نماز سونے سے بہتر ہے ) دو بار کہا جاتا ہے۔
مندرجہ بالا کلمات یا الفاظ اﷲ تعالیٰ کی کبریائی وحدانیت اور حضور اکرم ﷺ
کی رسالت کی گواہی پر مشتمل ہے اور دنیا اور آخرت میں بھلائی اور کامیابی
کی دعوت دی گئی ہے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ محمد مصطفےٰ ﷺ نے فرمایا
جو شخص اَذان سننے کے بعد یہ شہادت دے کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور
اسکا کوئی شریک نہیں،محمد اس کا بندہ اور رسول ہے۔میں اﷲ کے رب،محمدکے رسول
اور اسلام کے دین ہونے پر خوش ہوں،اس کے گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔ ( مسلم
)
پیارے رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ مؤذن کی شان یہ ہے کہ مؤذن سات سال اﷲ کی
رضا کے لیے اذان دے اس پر جنت واجب ہو جاتی ہے جبکہ ایک اور حدیث مبارکہ
میں ہے کہ جس شخص نے مسلسل پانچ اذانیں دیں اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر
دیئے جاتے ہیں۔
ایک بات کا خیال رہے کہ مؤذن نیک سیرت،مستقل اور خوش الحان ہو جسے سن کر
طبعیت میں نماز سے محبت خوشی اور فرحت پیدا ہو،اذان میں راگ کی طرز،کریہہ
اور بد آواز کی گنجائش نہیں، بہتر ہے کہ اَذان کے الفاظ اور اسکی صحیح
ادائیگی پہلے کسی اچھے ادارے یا کسی خوش الحان عالم یا مؤذن سے سیکھا جائے
کیونکہ اﷲ کی پکار اور اسکی ندا یعنی اَذان تو ہمیشہ خوش الحانی اور محبت
کی متقاضی ہے۔ کیونکہ چاروں اطراف سے آنے والی اذانیں اﷲ جل شانہ کے عذاب
کو روک لیتی ہیں۔
یہ اذان ہی کی توقیر ہے کہ سننے والا اگر تلاوت میں مصروف ہے تو اسے تلاوت
مؤخر کر کے اذان کا جواب دینا چاہیے،اَذان کے جواب میں مؤذن کے الفاظ
دھرانا چاہیے، یعنی جو کچھ اَذان کے الفاظ ہیں وہی ساتھ ساتھ آہستگی سے پڑھ
لیں لیکن حَیی علَیَ الصلوۃ اور حَیِ عَلیٰ الفَلاح کے جواب میں لَاحَوُلَ
وَلَاقُوۃَ اِلا بِاﷲ ِ کہنا چاہیے۔حدیث پاک میں لکھا ہے کہ اَذان کا جواب
دینے والے کو ہر حرف پر ایک ہزار نیکیاں ملتی ہیں۔یاد رہے کہ اگر بیک وقت
بہت سی اَذانیں آرہی ہوں تو صرف ایک اَذان کا جواب دینا کافی ہے۔ جواب کے
بعد وہ دعا پڑھے،حضرت جابر رضی اﷲ عنہ رسول اکرم ﷺ کا ارشاد بیان کرتے ہیں
جو شخص اَذان سُنے وہ یہ دعا کرے ۔ اے اﷲ ! اس کامل دعوتِ دین کے رب اس
اعلان کے بدلے قائم ہونے والی نماز کے مالک تو محمد ﷺ کووسیلہ اور فضلیت
عطا کر اور انہیں مقامِ محمود تک فائز فرما جس کا تونے ان کے ساتھ وعدہ کر
رکھا ہے ایسے شخص کے لیے قیامت کے دن میری سفارش لازم ہوجائے گی(بخاری )
اذان کی توقیر اور اسکا احترام کرنے والا نہایت خوش نصیب اور وہ مومن قرار
دیا جائے گا جسکی مغفرت میں کوئی شک نہیں، اس حوالے سے ایک مشہور واقعہ
ملکہ زبیدہ کا ہے جو خلیفہ ہارون رشید کی زوجہ اور جسے نہر زبیدہ بنانے کا
اعزاز حاصل تھا،اسکی وفات کے بعد کسی نے خواب میں دیکھا تو پوچھا کہ اﷲ کے
ہاں تیرا کیا بنا ؟ ۔۔ تو اس نے جواب دیا کہ اﷲ تعالیٰ نے کمالِ مہربانی سے
اسکی مغفرت فرما دی ہے تب خواب دیکھنے والے نے کہا کہ آپ نے جو ایک عظیم
نہر بنوا کے عوام کو تحفہ دیا ہے اس پر مغفرت تو آپکی بنتی ہی تھی، تو
زبیدہ خاتون نے جواب دیا کہ وہاں نہر والا عمل میری مغفرت کا سبب نہیں بنا
کہ وہ تو بیت المال سے بنوائی تھی۔۔میرا جو عمل مغفرت کا باعث بنا وہ یہ کہ
میں ایک دن کھانا کھا رہی تھی لقمہ میرے ہاتھ میں تھا اتنے میں اذان کی
آواز میرے کان میں پڑی تو میں نے وہ لقمہ رکھ دیا اور اذان کے احترام میں
سر پر ڈوپٹہ اوڑھ لیا بس اسی عمل پر میری بخشش اور مغفرت ہوگئی۔سبحان اﷲ !!
اذان کے حوالے سے ایک ایمان افروز واقعہ بھی سن لیں کہ 13 جولائی1931 کو
کشمیر سری نگر سینٹرل جیل کے سامنے ہزاروں افراد کا مجمع اکٹھا ہوا جو کہ
ایک کشمیری نوجوان عبدالقدیر کے لیے اظہار یکجہتی کی خاطر جمع ہوئے تھے ،
جو کہ ڈوگرہ راج نے بغاوت کے الزام میں قید کیا ہوا تھا۔ نعرے لگ رہے تھے
اور ہجوم میں جوش و خروش بڑھتا چلا جا رہا تھا کہ نماز کا وقت ہوگیا تو
ہجوم میں سے ایک مسلمان کشمیری نوجوان اُٹھا اور باآواز بلند اذان دینے لگا
، ڈوگرہ سپاہیوں نے ایک فائر داغ دیا اور وہ نوجوان خون میں لت پت ہو کے گر
پڑا ، اسی دوران ایک اور نڈر کشمیری جوان آگے بڑھا اور اذان کے باقی الفاظ
پڑھنے لگا اسے بھی گولی لگی اور وہ بھی موقعہ پر شہید ہوگیا اب تیسرا دلیر
مسلمان کشمیری نوجوان آگے کو لپکا اور ٹوٹے سلسلے کو جوڑتے ہوئے اذان کے
اگلے الفاظ پڑھنے لگا اسے بھی شہادت کا رتبہ ملا ، حتیٰ کہ 22 اﷲ کے سپاہی
کشمیری نوجوان آگے بڑھتے رہے اذان مکمل کرتے رہے اور شہادت پاتے رہے، دنیا
اسلام کی تاریخ کی یہ واحد اذان ہے جس کو 22 شہادتوں کا فخر حاصل ہوا۔اﷲ
تعالیٰ ہمیں اَذان کی عظمت اسکی شان اور اسکے توقیر اور وقارکو بلند کرنے
اوراسکے مؤذن کا اکرام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔ |
|