لڑکی کے پیچھے (حکایت)

 لڑکیوں کا تعاقب لڑکوں کی پرانی عادت، مشغلہ ، کمزوری یا بیماری رہی ہے۔ ہر عمر اور ذہن کا شخص اس ایک ہی رویئے کو مختلف الفاظ کے حوالے سے یادکرے گا۔ویسے تو کسی بھی پوائنٹ پر انسانی سوچوں کا ارتکازحتمی نہیں ہوتا ، لیکن اس فطری رویئے کے ساتھ کئی ایک نظریئے منسلک ہو کر اسے مکروہ یا پسندیدہ بنا دیتے ہیں۔

احسان کو لڑکپن ہی سے لڑکیوں کا پیچھا کرنے کی عادت تھی۔ وہ اکثر یہ چسکا پورا کرنے کے لئے سڑکوں پر آوارہ گردی کیا کرتا۔ وہ محلے میں بھی اسی حرکت کے باعث بدنام ہو چکا تھا۔ اس کے شریف والدین کو کئی ایک ’ولامے‘ بھی مل چکے تھے کہ ان کا ہونہارلڑکا ، ان کی لڑکی کو چھیڑتا ہے، اسے باز کر لیں ، ورنہ انجام کا وہ خود ذمہ دار ہو گا۔ ماں باپ کے بہتیرا سمجھانے بجھانے کے باوجود وہ باز نہ آیا۔ اسے ایک، دو بار سرِ بازار خفت بھی اٹھانی پڑی تھی اور چند موقعوں پر پٹائی بھی ہوچکی تھی۔ لیکن چسکا کوئی بھی ہو اتنی جلدی جانے کا نہیں ہوتا اور پھر نوجوانی اور ’کڑی بیگانی‘ کا تو چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ہوتا آیا ہے کہ عاشقوں کو خون کے نذرانے پیش کرنے پڑے ہیں۔ اور کہا جاتا ہے کہ سچا عاشق ہوتا ہی وہ ہے جو جوتے کھا کے بھی باز نہ آئے۔

احسان بھی آہستہ ، آہستہ نامور عاشقوں کی لمبی فہرست میں شمار ہونے لگا تھا۔ ذرا بڑا ہوا تو اس نے محلے کا پیچھا چھوڑا اور پورے شہر کو اپنی شکار گاہ جان کر اپنے شکار کا پیچھا کرنا اپنا پیدائشی حق سمجھ لیا ۔

اب وہ شہر کی لڑکیوں کے کالج کا ریگولر آبزرور بن چکا تھا۔ ہر دوپہر کو لڑکیوں کے کالج کے آس پاس منڈلانا اس کا فرضِ منصبی بن چکا تھا۔ زندگی کی سنجیدگی سے ابھی اس کا پالا نہیں پڑا تھا۔ اس کے والدین پریشان بھی تھے اور شرمندہ بھی لیکن وہ ماں باپ کی سنتا کب تھا۔ اسے تو بس لڑکیوں کے پیچھے بھاگنے کے علاوہ کوئی کام ہی نہیں آتا تھا۔ اس کی شدید خواہش تھی کہ کوئی لڑکی اس سے کال ملائے، اسے اپنے گھر کا پتہ بتائے ، اسے وقت دے، اس کے ساتھ کھانا کھائے، اس کے ساتھ وقت گزارے وغیرہ۔یہ اس کے دل کے دیرینہ اور گہرے ارمان تھے جو ابھی تک حسرت ہی تھے کہ کب کوئی مہربان اس کی طرف نظرِ کرم سے دیکھے اور اسے اپنے قریب آنے کا اشارہ کرے۔لیکن ابھی اس کی زندگی کے امتحان باقی تھے۔ ویسے عاشقوں کی زندگی انہی آمائشوں کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے۔

آخر اس نے ایک لڑکی کو تاک لیا کہ وہ نظروں سے اسے کچھ مثبت رسپانس دے رہی ہے۔ اس نے اس کا پیچھا کرنے کا ارادہ کر لیا ۔ایک دوپہر کالج سے چھٹی پر وہ اس لڑکی کے تعاقب کا پکا ارادہ لے کر اس کے پیچھے ، پیچھے چل پڑا۔ لڑکی نے واقعی ایک دو بار پیچھے مڑ کر دیکھا ضرور ، لیکن احسان کو قریب آنے کا اشارہ نہ کیا ۔ کئی ایک گلیوں سے گزرتے ، گزرتے وہ لڑکی اپنے گھر کے قریب پہنچ گئی۔ احسان بھی اس کے پیچھے، پیچھے چند قدم کے فاصلے پر چل رہا تھا ۔ وہ لڑکی آخر ایک اچھے سے بنے ہوئے گھر میں داخل ہو گئی۔ اس کے گھر کی ظاہری شکل و صورت سے اسے اندازہ کرنے میں مشکل پیش نہ آئی کہ وہ لڑکی کسی کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتی ہے۔ احسان کو یہ بھی اندازہ ہوا کہ وہ اس گھرانے کے برابر نہیں ہو سکتا۔ اس لئے اس کی محبت آج یا کل پریشانی کا شکار ہو جائے گی۔ وہ لڑکی کافی خوبصورت اور صحت مند تھی۔ اس کی چال ڈھال سے احسان کا دل بری طرح متاثر ہو چکا تھا ۔ لیکن اس کے دل پر اس کی دولت کا بھی گہرا اثر پڑ ا ۔اس پر اس نے اسے وقتی طور پر پس انداز کیا کہ ابھی کئی اور ممکنہ شکار اس کی نظر میں تھے۔ اس لئے حتمی فیصلہ کرنے سے پہلے وہ باقی امکانات کا جائزہ بھی لے لے تو آخری فیصلہ کرنا آسان رہے گا۔

دوسری بار اس نے جس لڑکی کا تعاقب کیا وہ کسی اور محلے کو جانے والی تھی۔ احسان کو اچھا لگا کہ یہ لڑکی ، اس پہلی لڑکی کے محلے کی نہیں ہے ورنہ لوگ اس پر سوالیہ انداز سے نظریں ڈالتے ہوئے یہ سوچتے کہ اس لڑکے نے’ پھینٹی ‘ کھا کر ہی باز آنا ہے۔ اور یہ بھی ہو سکتا تھا کہ کوئی غیرت مند اس کی پٹائی ، فرض کفایہ سمجھ کر ، ثواب کی نیت سے کر بھی دیتا۔ لیکن کوئی بات نہیں آج ایک نیا محلے وزٹ کیا جا رہا تھا۔ اتنی جلدی شک و شبہ کو تقویت نہیں ملتی۔ ویسے بھی عاشق اس قسم کی چھوٹی موٹی باتوں کی پرواہ کب کرتے ہیں ، ورنہ عشق کرنے سے رہے۔ یہ لڑکی اپنے چال ،ڈھا ل اور کپڑوں سے کسی متوسط گھرانے کی پیداوار لگ رہی تھی۔ احسان کو اچھا لگا کہ وہ بھی متوسط ہے تو شاید بات جلدی بن جائے اور بنی بھی رہے۔ اس لڑکی نے بھی ایک دو بار پیچھے مڑ کر یقین کیا کہ کوئی نوجوان اس کی اداؤں پر مر مٹنے کے لئے میدانِ کارزار میں اپنا سر ہتھیلی پر رکھ کرآگیا ہے ۔ اس لڑکی کی چال خود بخود پر کشش ہونے لگی تھی۔ لیکن احسان کو اس کا ادراک باقی لوگوں سے کہیں زیادہ تھا کیوں کہ وہ پیچھا کرنے اور چال ڈھال کا جائزہ لینے کا ایکسپرٹ ہو چکا تھا۔ وہ لڑکی بھی کبھی سڑک اور کبھی گلیوں سے گزرتی ہوئی اپنے گھر کے پاس پہنچ گئی۔ اس نے گھرکے دروازے سے اندر داخل ہوتے ہوئے ایک بار نظر بھر کر احسان کی طرف دیکھا اور پھر اندر چلی گئی اور دروازہ بند کر لیا ۔ احسان منہ تکتا رہ گیا ۔ کہ کوئی لفٹ ہی نہیں کروائی، تھوڑی سی بات ہی ہو جاتی۔ کم از کم فون نمبر ہی بول جاتی۔ چلیں کوئی بات نہیں پھر کبھی چکر لگا تو شاید اتنی مہربانی ہو ہی جائے۔

تیسری بار وہ ایک ایسی لڑکی کے پیچھے چل رہا تھا جو بہت غریب گھرانے کی لگتی تھی۔دیکھنے میں خوبصورت اور پر کشش تھی لیکن لباس کے لحاظ سے اپنا سماجی اور معاشی حلقہ بھی بتا رہی تھی۔ احسان کو بہت یقین تھا کہ یہ شکار ضرور قابو آئے گا ۔ اس لڑکی کی چال ڈھال بھی اتنی نازنخرے والی نہ تھی۔ اس کا چہرہ ایک کمزور پھول کی طرح مرجھایا ساتھا۔اس کی معصومیت بذاتِ خود ایک مقناطیسی اثر رکھتی تھی۔وہ اس کے پیچھے چلتا گیا ، کافی گلیاں اورسڑکیں پار کرکے وہ ایک پسماندہ نواحی بستی کی جانب جا نکلے جو کہ شہر سے باہرواقع تھی۔ اس بستی کی گلیاں اور مکان اتنے اچھے نہ تھے۔ وہاں کے لوگ بھی پسماندہ اور صحت کے لحاظ سے بھی کمزور نظر آرہے تھے۔ وہ آخر ایک تنگ سی گلی میں داخل ہو گئی۔ جو کہ مین بازار سے نکل رہی تھی لیکن آگے سے بند تھی۔ وہ لڑکی ایک پردے، جو کہ اس کے دروازے پر لٹک رہا تھا ، کے پیچھے جانے لگی تو اس نے بھی مڑ کر دیکھا اور اسے قریب آنے کی دعوت دیئے بغیر ہی اندر چلی گئی۔ احسان کا اس گلی میں دم گھٹتا محسوس ہوا اور وہ مایوسی کے بادلوں میں سے تیزی سے چلتا ہوا پچھلے قدموں پر واپس ہو لیا۔ اسے سمجھ نہ آ رہا تھا کہ اتنے پست معاشی لیول کی لڑکی بھی اگر اسے لفٹ نہیں کروائے گی تو وہ آنے والی زندگی میں کہا کھڑا ہو گا۔ اسے لگا کہ جیسے کالج کی ساری لڑکیاں بس ایسی ہوتی ہیں ، وہ اس کے قابو نہیں آئیں گی۔ اسے اپنے پلان پر نظر ثانی کرنی چاہیئے۔

چوتھی بار وہ جس لڑکی کا تعاقب کر رہا تھا ، وہ بالکل پڑھی لکھی نہ تھی اور نہ ہی وہ کسی سلجھے گھرانے کی لگ رہی تھی۔ وہ لڑکی ایک بھکارن تھی۔ وہ مانگتے، مانگتے احسان کے آگے بھی ہاتھ پھیلا بیٹھی۔ اسے کیا پتہ تھا وہ خود اس سے بڑا بھکاری ہے لیکن اس کے مانگنے کی چیزیں کچھ اور ہیں۔ وہ لڑکی نوجوان دوشیزہ تھی۔ ابھی ابھی جوانی کی تازہ ہواؤں میں سانس لینے لگی تھی۔ مانگنا اس کا آبائی پیشہ تھا۔ کسی کو اس کے مانگنے پر اعتراض نہ تھا بلکہ وہ اعتراض کی دنیا میں رہتی ہی نہ تھی۔ دونوں کی نظریں ملیں اور احسان کا میسج اس کی نظر کے رستے دل میں اترا اور ادھر سے اس کی منظوری کا پیغام احسان کی نظر کے رستے اس کے دل میں اتر گیا ۔ لیکن دنیا کے سامنے تو کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔ وہ چل پڑی اور احسان اس کے سائے کی طرح اس کے پیچھے، پیچھے نا معلوم منزل کی طرف چل نکلا ۔وہ جتنا قریب ، اس لڑکی کے پیچھے چل رہا تھا ، اتنا پہلے کسی لڑکی کے قریب نہ ہوا تھا۔ اس لڑکی کو بھی کوئی پریشانی نہ تھی۔ دونوں جیسے یہ چاہتے تھے کہ جلد ازجلد اپنی منزل پر پہنچ جائیں۔اس بار سفر کی سمت شہر کے مشرق کی جانب تھی۔ دونوں میں تھوڑی بہت بات چیت بھی ہو جاتی جو کہ پہلے کسی لڑکی کے ساتھ نہ ہوئی تھی۔ آج تو جیسے احسان کے کئی سالوں کے سوئے بھاگ جاگ اٹھے تھے۔اس کی مدت کی پیاس بجھنے والی تھی۔وہ لڑکی چلتے چلتے ایک انتہائی خستہ مکان کے دروازے پر آ کر رک گئی۔ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا اور چہرے پر مسکراہٹ لئے احسان کو بھی اندر آنے کا اشارہ کیا ۔ اندر آنے کا اشارہ اس کی زندگی کا دیرینہ خواب تھا جو آج پورا ہو رہا تھا۔ وہ بار بار سوچ رہا تھا کہ یہ خواب ہے کہ واقعی حقیقت میں ایسا ہو رہا تھا۔ کیوں کہ اسے ایسے خواب تو کافی آتے تھے لیکن حقیقت میں ایسا پہلی بار ہو رہا تھا۔

دروازے کے اندر قدم رکھتے ہی اس نے دیکھا کہ وہ لڑکی یکدم غائب ہو گئی۔ وہ پریشان ہو گیا ۔ اس نے گھبرا کے اسی خراب وخستہ دروازے کی طرف دوبارہ نظر اٹھائی تو وہ دروازہ بھی ایک بہت بڑے مضبوط گیٹ کی شکل اختیار کر گیا تھا۔ اور اسے ایک مضبوط تالہ بھی لگا ہوا تھا۔ وہ چونک گیا ۔ دروازے پر دستک دیتا لیکن کوئی آواز ہی نہ آتی۔ اس نے مجبور ہر کر دروازے سے اندر کی طرف نظر دوڑائی تو اس کی حیرت گم ہو گئی۔ اسے ہر طرف زمین سے اٹھے ہوئے چھوٹے چھوٹے ابھار نظر آئے ۔ وہ حیران ہوا کہ یہ ابھار کیا ہیں۔ اور وہ لڑکی کدھر گئی۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے کہاں جائے، کسے پکارے؟ کچھ دیر بعد اسے وہ لڑکی ایک ابھار کے پاس چند قدم کے فاصلے پر کھڑی پھر سے نظر آئی۔ اس کی جان میں جان آئی۔لڑکی نے اسے اپنی طرف آنے کا اشارہ کیا ۔ وہ اپنی تمام پریشانی اور جوانی کے ساتھ اس کی طرف لپک گیا ۔ وہ لڑکی ایک ابھار کے اندر گہری تاریکی میں اترنے لگی اور ساتھ ہی اس نے احسان کو ایسا کرنے کا کہا۔

وہ جیسے ہی اس گہری تاریکی میں اترا ، اسے چاروں طرف سے مٹی کی دیواروں نے گھیر لیا ، اس نے پریشانی میں اوپر دیکھا تو اوپر بھی مٹی کی چھت نظر آئی۔ اس نے باہر نکلنے کا ارادہ کیا تو باہر کی طرف کوئی رستہ نہ تھا۔ ہر طرف اندھیرا اور دیواریں تھیں۔ وہ لڑکی پھر سے غائب ہو چکی تھی۔ اسے آواز آئی کہ یہاں آنے والے کبھی واپس نہیں جاتے۔ اب تم نے یہیں رہنا ہے۔ وہ جگہ اتنی تنگ تھی کہ نہ بیٹھا جا سکتا تھا، نہ کھڑا ہوا جا سکتا تھا، اور نہ ہی آرام سے لیٹا جا سکتا تھا۔

دراصل وہ لڑکیاں انسان کی خواہشات ہیں اور جو انسان کے بچپن، لڑکپن، جوانی اور بڑھاپے میں آتی ہیں اور انسان ان کا پیچھا کیئے جا تا ہے۔ اور آخر وہ خواہشات اس کو قبر میں لے جاتی ہیں جہاں کوئی خواہش اس کا ساتھ نہیں دیتی،لیکن اسے اپنی زندگی کی بے سود خواہشات اور ان کے تعاقب کی بے معنویت کا احساس ہو جاتا ہے لیکن اس وقت یہ احساس کسی کام کا نہیں ہوتا کہ سارا وقت گزر چکا ہوتا۔ ہے۔ اب پچھتائے کیا ہوت، جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔
Niamat Ali
About the Author: Niamat Ali Read More Articles by Niamat Ali: 178 Articles with 313067 views LIKE POETRY, AND GOOD PIECES OF WRITINGS.. View More