بوند بوند تماشا

’’قطرہ قطرہ نل ٹپک رہا ہے‘‘
وہ سجدہ کر رہی ہے اور سجد ے میں ٹپ ٹپ ہو رہی ہے……اب بالٹی بھری کہ تب ……اب پانی بالٹی میں ناک تک آیا کہ آیا……
’’وہ قیام کر رہی ہے‘‘
اب پانی بہے گا……
وہ رکوع میں ہے……پھر سجدہ……
بوا کی آواز آئی کہ آئی……یا ساس کی……
’’نوشی ……نوشی……پانی بہے جارہا ہے……نوشی کہاں ہے تو……غضب خدا کا ایک تو پانی آتا نہیں اُوپر سے یہ ناشکری ……
او نوشی……پانی……‘‘
سارے سجدوں……قیام……رکوع……آیات میں……او نوشی ……اے نوشی……ٹپ ٹپ…… ارے وہ بہا……

سلام پھیرتے ہی دعا مانگے بغیر وہ بالٹی کے پاس آئی جو آدھی بھی نہ ہوئی تھی کو اُٹھا کر ڈرم میں اُلٹا جو نل کے پاس ہی رکھا تھا۔بوا کے کان بالٹی کے پانی کے بہنے کے انتظار میں ہی لگے تھے کہ پانی باہر نکلے اور وہ اپنی آواز سے ہجوم اکٹھا کر ے……اس پانی پر ہنگامہ کرنے کو وہ سب تیار رہتے تھے ویسے اس پانی پر بہت ہنگامے ہو چکے تھے جی ابھی بھی نہ بھر ا تھا۔

واپس جا کر اس نے دعا مانگی‘ دعا کا بھی وہی حساب کتاب رہا جو نماز کا رہا تھا……ٹپ ٹپ……بالٹی……اے لو وہ بہا……اُس کے کان اس کے دشمن تھے یا کان کے مالک کے اند ر کہیں اُس کا چھپا ہوا ضمیر جو اُسے کہتا……ہر عبادت سے بڑھ کر ہے یہ پانی۔اس دنیا کا نہیں صرف اس گھر کا پانی……پانی بھر لے اور کن چکروں میں پڑی ہے تو، خدا کی پڑی ہے تجھے……اچھا پر کیوں…………ٹپ ٹپ……ارے وہ بہا……

وہ اکلوتی بھابی سب کی‘بڑے بھائی کے بعد چار بہنیں تھیں جنہیں بیاہ کر ہی بھائی کو فارغ کیا گیا۔بھائی پینتیس سے کئی اوپر کے ہو چکے تھے اور نوشی بیس سے ذرا نیچے کی……اور بس آگئی دلہن بن کر اس اونچ نیچ میں۔

پہلا کام جو بھابی کو شادی کے اگلے دن ہی کرنا پڑا،وہ غسل خانے میں رکھی بالٹی کو باہر رکھی ٹنکی سے بھرنے کا تھا‘ کرم نے کہا۔

’’سب ہی اپنے اپنے نہانے کے لیے خود ہی بالٹی بھرتے ہیں ۔میرے لیے تم بھر دو۔‘‘

اس نے صحن میں ایک طرف رکھی ٹنکی سے پانی نکال نکال کر بالٹی بھر دی۔یہ تو پہلا دن تھا ذرا ہلکا رہا۔

کھیر پکانے سے پہلے پہلے وہ کئی سو بار بالٹی کو بھر چکی تھی۔نندیں سب جا چکی تھیں۔ساس برآمدے کے تخت پر بیٹھی ہمہ وقت نل کے پانی کے آنے اور جانے کا اعلان کرتی رہتی۔ایک بوڑھی بوا بھی تھی جو ساس کے قریب ہی بیٹھی رہتی۔دونوں کو پانی سے پیار تھا یا پانی کے نام پر اٹھایا کوئی حلف پورا کرنے کو تھیں یہ نسلی کہانی نوشی کی نسل ابھی سمجھ نہیں پا رہی تھی۔تواس اتنے سے وقت میں اتنا ضرور ہوا کہ دلہن کو آتے ہی ایک بات اچھی طرح سے معلوم ہو گئی کہ اس گھر میں پانی بہت قیمتی ہے ۔ سب دل و جان سے اس پانی کی قدر کرتے ہیں۔ دونوں دیور گھر آتے ہی پہلے پانی کا پوچھتے،ڈرم ٹنکی کا ڈ ھکن اُٹھا اُٹھا دیکھتے۔

’’ٹنکی بھری ہے؟‘‘

ٹنکی بھری ہی ہوتی اور کون بھرتا……نوشی……اﷲ ہی جانتا ہے کہ شادی سے پہلے اسے کون بھرتا تھا‘لیکن اب تو چوبیس سوگھنٹے وہ اسی کے پاس ٹکی رہتی……اسی کی دیکھ ریکھ کرتی……اسی کے چاو چونچلے کرتی پھرتی۔ساس اعلان کرتی۔
’’نوشی نل ٹپک رہا ہے ٹنکی بھر لو۔‘‘
نل کے نیچے بڑی بالٹی دھری رہتی‘ اور یہ بالٹی وہاں ایسے ہی دھری ہوتی جیسے آسمان سر پر دھراہے ۔جس رفتار سے پانی آتا تھا‘ بالٹی کو بھرنے میں بہت وقت لگ جاتا پر ساس اعلان کیے ہی جاتی……کیے ہی جاتی کہ اگر ایک قطرہ بھی گر گیا تو غضب ہو جائے گا ،دنیا اس قطرے میں بہہ جائے گی……ڈوب جائے گی……طوفان نوح آجائے گا ……گناہِ عظیم ہو جائے گا وہ سب دوزح میں دھکیل دیئے جائیں گے……انھیں کافر مان لیا جائے گا……جہنم کے دروغہ ان کے پیچھے لپک لپک آئیں گے۔
’’آگ تھا یہ پانی ‘‘
اونچے نیچے نیلے ڈھبوں کا علاقہ تھا‘ زمانوں کے پانی کے پائپ دبے تھے۔چند ایک گھروں کے بہت پرانے ہو گئے تھے پائپ۔کئی تو درمیان میں ہی ٹوٹ کر زیر زمین رستے تھے۔پائپ رہ گئے بہت نیچے اور گھر ٹیلوں پر اونچائی میں ہو گئے۔اب بہت ہی پریشر سے پانی آتا تب ہی نل تک آتا ‘قریب قریب کے گھروں کا بھی یہی حال تھا۔ہزاروں روپے لگاؤ……کھدائی کرواؤ……پائپ کی نئی فٹنگ کرواؤ موٹر لگاؤ اور پانی کھینچ لو……لیکن یہ ہزاروں جو کہ لاکھوں لگتے تھے کوئی پانی پر لگانے کے لیے تیار نہیں تھا……چھی پانی پر ایسی پیسوں کی تباہی کیوں……؟
ساس کے زمانے کا ایک بڑا حمام چار چھوٹی بڑی ٹنکیاں صحن اور برآمدے میں ،اتنے ہی کچن میں چھوٹے بڑے ڈرم۔۔۔اورکچھ چھت پر……کچھ غسل خانے میں……بہت کچھ تھا چھوٹا بڑا بھرنے کے لیے……
ساس کا تو جی چاہتا کہ پانی ذرا رفتار پکڑے تو صندوق ‘ الماریاں بھی پانی سے بھر دیں۔اور تو اور منہ تک سب کو پانی سے بھر کر منہ بند کروا کر دنوں بیٹھائیں رکھیں کہ منہ نہ کھولنا کہ پانی گیا کہ گیا……دم گھٹ جائے پانی نہ جائے……
کوئی ہے جو ایسی وفاداریاں بنھائے پانی سے……
زیادہ پریشر سے پانی منہ اندھیرے آتا‘ جب لوگ تہجد کے وقت اٹھنے کی تیاری کر رہے ہوتے۔اس وقت بقول بوا کے ٹنکی آدھ گھنٹے میں،حمام بیس منٹ میں اور باقی چھوٹے بڑے برتن سب چٹکی بجاتے میں بھر جائے۔اگر کوئی سوتا نہ رہے اور وقت پر اٹھ جائے ۔وقت پر کون اٹھے ……؟؟
سسر یا دیور؟؟وہ سارا دن کے تھکے ہوئے باہر کے ہزار کام کرتے‘گھر کے کام بھی کریں گے تو عورتیں کیا مجرا کریں گی؟‘‘
نوشی نے سنا تھا کہ اس کے آنے سے پہلے سسر یہ کام کرتے تھے۔شادی کے بعد چند مہینے سسر اٹھتے رہے پھر تنگ آ گئے بولے۔
’’ میں اس مشقت سے تنگ آ چکا ہوں۔‘‘
نوشی کو ان پر ترس آیا‘ کرم کو کہا وہ اٹھا کرے۔الٹا اس نے پیاری بھری آواز میں کہا۔
’’تم کیوں نہیں اٹھ جاتی۔‘‘
سسر بیمار ہو گئے پانی کے لیے ہاہا کار مچی ،نوشی بہت پچھتائی۔
’’اگلے دن وہ اٹھی بالٹی بھربھر ٹنکیوں میں انڈیلی‘ پھرحمام بھرا۔سب بھر گیا تو باورچی میں رکھے ڈرموں کی باری آئی،ان بھریوں اور باریوں کے دوران وہ اونگھ اونگھ جاتی رہی۔خیر بوا کے کہے مطابق اس سے نوشی کا ہی فائدہ ہوا نا کہ اسے فجر کے وقت اٹھ کر جلدی جلدی کام نہیں نپٹانے پڑے۔آٹا گوند لیتی……بالٹی انڈیل آتی……کپڑے دھو لیے……بالٹی انڈیل دی……کمرہ جھاڑ لیا……بالٹی انڈیل دی……
کس کا فائدہ ہوا بھلا……نوشی کا……اور کتنا……اس کا حساب ابھی ہونا تھا۔
باری باری سب اٹھتے جاتے بالٹی بھرتے جاتے‘ نہاتے جاتے جب تک سب ناشتا کر کے جا چکے ہوتے کچن کا برتن برتن خالی ہو چکا ہوتا ‘ ٹینکی میں پانی پیندے سے جا لگتا۔اب پھر قطرہ قطرہ پانی ٹپکتا……بس ٹپکتا ہی رہتا……
’’نوشی !بالٹی بھر گئی۔‘‘ساس اور بوا برآمدے میں بیٹھیں پانی کی چاکری کرتیں ذرا نہ چوکتیں
’’جی اچھا !‘‘ کچن کی کھڑکی سے وہ بالٹی کو ہی دیکھ رہی ہوتی، پھر بھی نکل کر دیکھتی
’’ابھی آدھی ہوئی ہے۔‘‘ زرا بلند آواز میں اعلان کر دیتی
’’آدھی ہی انڈیل دے تو اپنے دھیان میں لگی رہی اور پانی بہہ گیا تو۔‘‘ بوا ہنٹر نما ہنکار ا بھر کر کہتیں
لو کر لو بات……جب سے وہ اس گھر میں آئی تھی ‘اور سب بھلے سے کتنے ہی اپنے اپنے دھیان میں لگے ہوتے پانی کا ایک قطرہ نہیں بہنے دیتے۔وہ کچن میں کام کرے‘ کھاناپکائے ‘سبزی بنائے اپنے کمرے کی صفائی کرے،گھر کے دوسرے کام کرے،کرم کے‘ دیوروں کے کپڑے استری کرے،کھانا کھائے حتی کہ اُوپر چھت پر لیٹرین بھی جائے تو ساتھ ساتھ بالٹی ضرور انڈیلتی جاتی تھی۔آآکر انڈیلتی تھی۔مذاق تھا بھلا کوئی پانی تھا پانی۔
سسر کہتے
’’ پانی کی قدر کیا کرو بچوں ایک زمانہ دیکھا لوگوں نے کہ پانی پر جنگ ہوئی……پھر خون بہا خون……‘‘
خون بہہ رہا تھا نا……نوشی کا……اور جنگ بھی جاری تھی۔یہ بالٹی اس کا حق مہر تھی‘گرمی ‘ سردی‘بہار‘خزاں تھی اُس کے۔وہ کسی پل دن میں سو نہیں سکتی تھی۔
دیور آتے ہی ٹنکی کا ڈھکن اٹھا کر دیکھتے کہ کتنا پانی بھرا جا چکا ہے۔
’’نہا لے……نہا لے……‘‘ بوا بچکارتی۔
کارخانے میں کام کرتے تھے دونوں ‘ ان کا حق بنتا تھا نہانا۔ گھر کا صحن بارش کے دنوں میں ہی دھلتا تھا۔صحن میں سر خ ٹائلیں لگی تھیں۔بارش کے دنوں میں ہی سرخ نظر آتیں ورنہ مٹی سے اٹی رہتیں۔۔۔نوشی کو گھبراہٹ ہوتی۔وہ کوشش کرتی کہ جلدی جلدی سب
بھر جائے تو وہ دو بالٹیوں سے صحن کو دھو ڈالے کچھ مٹی چھٹے تو سانس آئے۔مگر ہوتا یوں کہ جیسے ہی سب بھر جاتا جو کہ بہت کم ہوتا۔بوا اٹھتی ۔
’’اچھا ہو،اب میں نہا لیتی ہوں۔‘‘
وہ نکلتی تو ساس چلی جاتی ‘ساتھ ایک دو کپڑے دھو ڈالتی‘بھاڑ میں گیا فرش۔ وہ اونی سویٹر سے بھگو بھگو کر ٹائلیں رگڑتی۔
’’کیوں اتنا پانی ضائع کر رہی ہے نوشی!‘‘
فرش رگڑ رگڑ کر اس کی جان نکلی جا رہی ہوتی اور مصیبت فکر پانی کی لگی ہوتی۔
برسات آئی ،موسلادھار بارش ہو رہی تھی۔وہ بھیگ کر تر بتر ہو گئی پانی بھرنے میں۔غسل خانے کے باہر نلکا لگا تھا پانی کا پریشر اتنا ہوتا ہی نہ تھا کہ پائپ لگا کر ہی سب بھر لے۔کچن میں رکھے ڈرم بھرنے کے لیے اس نے کرم کو کہا کہ وہ مدد کرے‘ پر وہ بار بار یہی کہتا رہا کہ ذرا فارغ ہو کر مجھے حلوہ بنا دو۔
پانی کے ساتھ اس کا رشتہ ایسے جوڑ دیا تھا سب نے جیسے نکاح اسی سے ہوا ہو اور اور سسرال سے منہ دکھائی میں بھی یہی ملا ہو۔
وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔اس کا پیر باورچی خانے کے فرش پر پھسلااور اس کی کلائی کی ہڈی تڑخ گئی۔بالٹی ہاتھ سے چھوٹی۔کلائی سے زیادہ سب کو اسی پانی بھری بالٹی کے گرنے کا غم ہوا اور خوب ہوا……وہ جان ہی گئی۔
نوشی بھاگی اپنے میکے ہفتہ رہ کر آئی۔ اس نے اماں کو اپنے درد کی لمبی لمبی داستانیں سنائیں……درد صرف ایک ’’پانی کا‘‘ دکھ صرف ’’پانی کے نہ ہونے کا‘‘ قصہ صرف اتنا ہی ’’ ٹپ ٹپ‘‘۔اس کی اماں کے گھر پانی کا ایسا مسئلہ نہیں تھا۔اس نے تو زندگی میں کبھی پانی کے اتنے جھمیلے نہیں دیکھے تھے جن میں اب جی رہی تھی خوب روئی اماں کے آگے۔خوب ہاہا کار مچائی کہ بہنیں رو رو پڑئیں کہ کیوں بیاہ دیا اس بے چاری کو ،ایساہی ضروری تھا تو انسانوں میں بیاہ دیتیں ۔اماں رات بھر کروٹیں لیتی رہیں،ابا کی چہل قدمی نہ تھمی۔
اماں نے جیسے تیسے ادھر ادھر سے پیسے پکڑ کر اسے دیے کہ کرم کو دے کر موٹر لگوا لے۔خوشی سے اسے ساری رات نیند نہ آئی۔اب وہ مزے سے دوپہر کو سویا کرے گی۔صبح کو آرام سے اٹھا کرے گی ۔وہ ملتان سے شادی ہو کر بڑے گوا آئی تھی۔شہر بدلا نصیب بھی بدلاکہ اس کا نصیب ہی پانی پانی ہو گیا۔پیسے لے کر خوشی خوشی گھر آئی کمرے میں کرم کو بٹھا کر چپکے سے بتایا۔ اس نے فوراََ سارے پیسے لے لیے۔
’’جاتا ہوں پتا کرتا ہوں کتنا خرچا آتا ہے۔‘‘
وہ ابھی گیا بھی نہ تھا کہ بات سب کے کانوں تک چلی گئی۔ساس نے ہاتھ نچا نچا کر اس سے پوچھا۔
’’جو اتنے گھنٹے موٹر چلے گی اس کا بل کون دے گا؟‘‘
’’یہ جو نل لگا ہے اس کا بل تو نہیں بھرنا پڑتا نا۔‘‘ بوا کی دلیل پر سب عش عش کرنے لگے……واہ……کمال ہو گیا۔
کرم بات جلد ی سمجھ گیا……نوشی کی اماں کے دیے ہوئے پیسے کرم نے جیب میں ڈالے اور پرانی موٹر سائیکل بیچ کر نئی لے لی۔یوں موٹر آ گئی سڑک پر دوڑنے والی……دو پہیوں کی……پانی کی موٹر گئی بھاڑ میں……
٭ ٭ ٭
ایکد ن ایسا ہوا کہ گھر بھر میں پانی ختم ہوگیا……اس دن دوپہر میں نل میں ایک قطرہ پانی نہ آیا تھا۔اس نے جورات کو روٹی کھائی تو نوالہ حلق کو جا کر لگا اور کھانستے کھانستے وہ ادھ موئی ہو گئی لیکن ایک گھونٹ پانی نہ ملا گھر بھر میں۔وہ بھاگی ہمسایوں کے گھر اور جگ بھر پانی پی کر آئی اور پھر صحن میں بیٹھ کر رونے لگی۔سر پر ہاتھ رکھ لیا جیسے کسی کی جان گئی ہو۔جان ہی تو گئی تھی۔
’’وہ روئے جا رہی تھی‘‘
دیور کھانا کھا کر کب کے سونے جا چکے تھے سسر چھت پر ٹہل رہے تھے……اور وہ روئے جا رہی تھی……
’’ دنیا کہاں کی کہاں جا پہنچی……جنگل سے منگل ہو گیا……اندھیرے روشن ہوگئے……چاند ستارے زمین ہو گئے اور اے آدم تو ایک پانی کے لیے آگ لگا رہا ہے……اے عورت تو ابھی بھی رو رہی ہے……ارے اے عورت توتو پانی کے لیے رو رہی ہے……تیرا نصیب بر ا نہیں ہے تیری فطرت بری ہے……تو بزدل رو اور رو……ٹپ ٹپ بہا دے خود کو……تجھ میں ہے کیا کہ تجھے سینت سینت ذخیرہ کیا جائے……تیری اوقات کیا ہے……ہاں بس……یہی رونا……اورُ رو……رو……‘‘
بوا دوپٹا کھول کر خود پر پھیلا کرسونے کے چکر میں تھی……وہ اُسے روتے دیکھ رہیں تھیں اور نہیں بھی۔جیسے نظروں کی ہونہہ میں کہہ رہیں ہوں……نہیں جیسے بلندبانگ کہہ رہیں ہوں۔
کیوں رو رہی ہے،ایسا کیا ہو گیا تیرے ساتھ؟؟؟کیا عذاب نازل ہو گیا تجھ پر……اکیلی ہے کیا جو بھگت رہی ہے……
بول……ہم نے اتنا عرصہ نہیں بھرا ‘ تو نے بھر لیا تو کیا نیا کیا؟ ہمارے وقت میں تو یہ نل بھی نہ تھا۔نجانے کہاں کہاں سے بھر کر لاتے تھے۔کن کن راستوں سے گزرتے تھے،کیسی کیسی نظروں سے پالا پڑا تھا۔ہم نہیں ہوئے کیا پانی پانی……کیا ہمارے لیے آگ نہیں بنا موا یہ پانی۔ہم نے کیا جنتوں میں زندگی گزاری ہے۔تو گھر بیٹھے بھر رہی ہے اور شکر نہیں؟ آج کے زمانے کی عورت بڑی ناشکری ہے اسی لیے لعنتی ہے……لعنت ہے تجھ پر ناشکری عورت……‘‘
’’ہماری تو عمریں گزر گئیں ہم تو نہ روئے ‘ نہ تھکے نہ واویلا کیا۔۔۔اور کرتے بھی کیوں۔‘‘ ساس بھی کچھ یہ کہنا چاہتی تھیں نا۔
کرم کمرے میں لیٹا سستا رہا تھا۔ٹی وی کی آوازگھر بھر میں گونج رہی تھی ۔ایک دیور کی آواز بھی گونجی
’’ اوے کرم……یار آواز تو کم کرنیند نہیں آرہی۔‘‘
آواز کم ہو گئی……وہ بیٹھی روتی رہی……
’’نوشی……!نوشی……!‘‘ برآمدے کے تخت اور چارپائی سے دو آوازیں آگے پیچھے آ رہی تھیں۔رات وہ روتے روتے سو گئی تو آنکھ ہی نہ کھلی
’’پانی آ گیا بھر لے۔‘‘
وہ ڈھیٹ بنی لیٹی رہی ‘بوا اٹھی کہ ساس بالٹی کو دیکھا کہ بھر تو نہیں گئی اور پھر اس کے سر پر آ کر کھڑی ہو گئی۔
’’نوشی اُٹھ……پانی آگیا……‘‘
و ہ نہ اُٹھی کیوں اُٹھے
’’اٹھتی کیوں نہیں؟‘‘ کرم غنودگی میں ہی دھاڑا،نیند سے اُٹھ کر آیا تھا نا۔رات بھر اُس کے رونے سے سو نہ سکا تھا نا۔
وہ چیخ کر اٹھی‘ دو بالٹیاں بھر کر غسل خانے میں گھس گئی خوب جی بھر کر نہائی۔
بوا اور ساس ہل ہل گئیں۔
’’اتنا پانی! ٹنکی تو بھر لیتی پہلے۔‘‘
جب تک وہ باہر نکلی ۔دونوں نے ہی باری باری اٹھ کر بالٹی انڈیلی ۔پانی چلا گیا۔نہ ٹنکی بھری گئی نہ ہی کوئی اور بڑا برتن۔سب بنا نہائے ہی چلے گئے۔دوپہر کے بعد کہیں پانی آیا۔اس وقت وہ دونوں اسے اتنی بار اتنا سنا چکی تھیں کہ وہ باؤلی ہو گئی۔
’’کیا ضرورت تھی اتنا غصہ کرنے کی؟‘‘ وہ واقع باولی ہو ئی خود کو کوسنے لگی۔ پانی آیا تو سارا غصہ بھلا گئی لیکن بوا بھولنے کی نہیں تھی یہ سب۔غسل خانہ نیچے تھا اور لیٹرین اوپرچھت پر۔جو جاتا پانی ساتھ لے جاتا۔پانی بھرتے بھرتے اس کی کمر ٹوٹنے کے قریب تھی۔وہ لیٹرین چلی گئی۔
’’یہ اتنی اتنی دیر اوپر کیا کرتی ہے؟‘‘ بوا کوئی دس بار سر اوپر کی طرف کر کے کہہ چکی تھی۔
’’بالٹی بھر گئی ہے نوشی !آ جاآتے ہی وہ سب نہائیں گے۔‘‘
’’نوشی……نوشی ……! ‘‘ آوازیں گونجیں پر نوشی نہ آئی۔
’’نوشی……!‘‘ ساس برآمدے سے نکل کر صحن میں آ کر چلانے لگی۔اوپر چڑھنے کو تھی کہ وہ جیسے ہڑ بڑاتے ہوئے سیڑھیاں پھلانگتی نیچے آئی۔
’’کب سے پانی بہہ رہا ہے ۔‘‘ آواز میں اتنا غم ایسا کرب تھا جیسے پانی نہیں کسی کا خون بہتا رہا ہو، اس بار تو سچ مچ۔
اب وہ نماز پڑھتی اور پانی کے لیے دعا کرتی ۔نئے ٹیوب ویل کے لیے منتیں مانگتی۔بوا اور ساس کو اس کی گود کی پڑی تھی اسے نل کی۔نل گود سے زیادہ پیارا ہو گیا۔آج کے زمانے کے انداز نرالے ہیں تو دکھ بھی نرالے ہی ہوں گے۔اور ان دکھوں کے علاج بھی نرالے ہی ہوں گے نا……دربار میں پانی نام کا دیا جلا کر آتی……
عورتیں کپڑے گہنے کی باتیں کرتیں‘ خواب دیکھتیں اور اسے پانی سے بھری بالٹی کا خیال للچائے رکھتا۔اس کے خواب میں ایک موٹا سا پائپ اور پانی کی تیز دھار ہوتی اور پودوں پر بوچھاڑ مار رہی ہوتی ۔اس کا جی چاہتا کہ پانی سے بھرا حوض ہو اور وہ اس میں ڈوب مرے۔
اس سے پیاری موت کیا ہو گی…… وہ سمندرمیں ہو اوربڑی مچھلی اُسے کھا رہی ہو……شڑپ شڑپ ……چھل چھل پانی پانی……
کئی دن گزرے پھرنوشی ……نوشی ہوئی۔صحن میں کھڑی دونوں گلا پھاڑ رہی تھیں۔وہ چھجے پر آئی، نیچے جھانکا اور پھر نیچے آئی تو دنگ رہ گئی۔دونوں کی آنکھوں میں غصے کے علاوہ کچھ اور بھی تھا۔ددنوں کی پتلیاں حکمت کے سبھی غلیظ راز اگل دینے کو تھیں بس۔
’’تو اتنی اتنی دیر کیا کرتی ہے اوپر؟‘‘ انہوں نے پوچھ لیا۔اس نے جواب نہ دیا سبزی بنانے لگی‘ بوا نے اپنی بھاوج کو دیر تک تاڑ کر پھرکھنکھارا۔
’’وہ ساتھ والوں کا قمر چھت پہ ہی چڑھا رہتا ہے بھاوج ! اور چالیس کے پیٹے کا رنگین مزاج کنوارہ اسلم بھی اور وہ اُدھر کی چھت والا اور وہ ادھر تین گھر چھوڑ کر ……اور……اور……‘‘بوا اتنا کچھ جان بیٹھی تھیں……بوا اتنا کچھ سمجھ گئی تھیں……کہ ……
’’دوپٹا نیچے ہی کیوں چھوڑ جاتی ہے؟‘‘ ساس نے سب سمجھ کر پوچھا
’’وہاں کہا ں لٹکاؤں؟‘‘ وہ پانی پانی ہو ہو گئی۔دونوں کی آنکھوں میں جو رنگ تھے وہ اُسے زنگ آلود کر رہے تھے۔شڑپ شڑپ اس پر تازیانے بر سا رہے تھے……وہ جل تھل ہو گئی……موئی……اے عورت……
’’سارے زمانے کی نظریں پڑتی ہیں۔‘‘ ساس کو اس کا جواب بہت برا لگا۔نند کی نظریں تاڑ گئی تھیں نا
میکے سے اس کا بھائی اور باپ آئے بہانے سے کہتے رہے کہ پائپ کے لیے کھدائی مل کر لیتے ہیں اور پھرموٹر لگا لیتے ہیں سہولت رہے گی۔سارے بیٹھے ہوں ہاں کرتے رہے۔ان کے جاتے ہی وہ فساد شروع ہوا کہ نوشی کا جی چاہا پانی کی ٹنکی میں منہ پر کپڑا باندھ کر کود جائے اور ڈوب مرئے اور انہیں اگلے دن پانی نصیب نہ ہو۔
لیکن وہ اپنا دم گھوٹ سکی نا ڈوب مری……ہاں ان سب کو اگلے دن بھر بھر پانی دیا۔
ساتھ والوں نے موٹر لگوا لی تھی۔ان کی لڑکی جوہی سے نوشی کی علیک سلیک تھی۔
شام ہوئی تو پائپ لے کر آ گئی۔
’’بھابی ! بھر لو سب کچھ‘بھائی نے کہا ہے ‘ اتنا تیز پانی ہے کہ آدھے گھنٹے میں ہی سب بھر جائے گا کہا اور پائپ ٹنکی میں لگادیا اور ٹنکی فٹافٹ بھر گئی۔اندر باہر کے بھی سب فٹافٹ بھر گئے۔ٹھیک ہی کہا تھا بھائی نے۔
اس نے پائپ سے فرش دھو ڈالا۔فرش جگمگ کرنے لگا۔بنا برسات کے ابر برسا اور خوب برسا۔اس سے خوشی سنبھالی نہ گئی
جوہی سارا وقت بھائی بھائی کرتی رہی۔’’ بھائی نے کہا ایسے کر لیتے ہیں‘ ویسے کر لیتے ہیں۔‘‘
وہ خوشی سے کان لگا کر سنتی رہی۔آخر بھائی کی ہی مہربانی سے آج اس پر مہربانی ہوئی تھی۔بھائی بھائی کرتی جوہی چلی گئی۔بھائی بھائی کی سنتی نوشی لمبی تان کر سو گئی……نل بہتا رہا……ٹپ ٹپ ہوتی رہی……
اب نوشی ‘ جوہی کی راہ تکا کرتی‘وہ آ جاتی تو اچھی طرح بات کرتی‘ نزدیک سے نزدیک ہوتی اس سے دوستی بڑھاتی اس دوران دونوں ہنستی رہتیں……کبھی نوشی پانی کی بوچھاڑاس پر کر دیتی جوہی خوب ہنستی……ہنسی کے دن آگئے تھے……نظر نہ لگے……
’’بھائی نے کہا کہ موٹر کا بل اگر ہم دونوں مل کر دے دیں۔‘‘ جوہی نے بھائی کا ہم خیال ہوتے ہوئے نوشی کو بھی اپنا ہم خیال کرنا چاہا۔بے چاری نیکی کا سوچے بیٹھی تھی۔
’’اے بچی سن۔‘‘ بوا کے کان بڑے تیز تھے دھاڑ کر بولی۔
یہ اپنا بھائی نامہ لے کر یہاں نہ آیا کر۔‘‘ بو ا نے انگلی کھڑی کر کے ایسے کہا جیسے اعلان جنگ کرتی ہو
اس کا منہ کھلا تو کھلا نوشی بوا کو دیکھتی رہ گئی
وہ بھائی نامہ لے کر چلی گئی نقصان نوشی کا کر گئی۔رات میں سب اکٹھے ہوئے تو دیوروں نے اسے خاصی کڑی نظروں سے گھورا۔
’’بھابی ! شرم نہیں آئی تمہیں؟‘‘ انہوں نے کہا نہیں اور کہہ کر جتا بھی دیا، جیسے پہیلی کہے بنا بوجھ لی۔
وہ سمجھ پاتی تو شرم آتی۔
’’وہ قمر تمہیں پانی کا پائپ کیوں بھیجتا ہے؟‘‘ کرم نے رحم نچڑی نظروں کو اس پرسوار کیا۔
’’منہ کالا ہو اس پانی کا……خدا کی مار پڑے ایسے پانی پر۔‘‘ نوشی رات گئے تک سوں سوں کرتی رہی۔وہ دنیا کی پہلی عورت ہو گی ‘جو پانی کی چاہ میں نین مٹکا کرے گی؟ کرم پتا نہیں کیوں برداشت کر گیا۔ورنہ ایسی عورت کو نکال باہر نہ کرتا۔بھلا کون رکھتا ہے ایسی عورتوں کا……ہونہہ……بے غیرت ہی……
’’نند کے یہاں بیٹا ہوا تو ساس اور بوا‘ دونوں وہاں چلی گئیں۔نوشی کے پاس چند سو تھے۔جوہی کو بلوا کر اس کے ہاتھ میں دیے چپکے سے ۔پائپ لگوا کر پانی بھرا اور لمبی تان کر سو گئی۔نل کا بوند بوند پانی بہہ رہا تھا۔اس نے خوب بدلہ لیا پانی سے اسے بہنے دیا۔
اگلے ہی دن صبح دونوں واپس آ چکی تھیں۔اب کرم کے ساتھ اسے جانا تھا۔منہ اندھیرے پانی بھر کر وہ کرم کے ساتھ آ گئی۔نند دوسرے شہر رہتی تھی۔راستے میں وہ اور کرم اونگھتے رہے۔ نند کے گھر گئی،ذرا سب ادھر ادھر ہوئے اور وہ نند کے پلنگ پر بچے کے پاس جگہ بنا کر سو گئی۔نند کو بڑا غصہ آیاجھنجھوڑ کر اسے اٹھایا۔
’’میرے سسرال آئی ہو ‘اپنے گھر نہیں ہو کہ جہاں جی چاہا اونگھ لیا۔‘‘
وہ اٹھ بیٹھی، سارا جہاں ہی اس کا سسرا ل تھا، اس کی قبر بھی اس کا سسرال ہو گا۔
نند کے جیٹھ کا بچہ گلاس بھر بھر پانی گلی میں پھینک رہا تھا ‘ اسے غصہ آیا بچے کو جھڑک دیا……بچہ رونے لگانند کو اور غصہ آیا۔
’’یہ تمہارا گھر نہیں ہے بھابی! کہ جان جائے‘ پانی کی بوند نہ جائے۔‘‘
کیا مار ماری تھی نند نے کہ وہ بلبلائی بھی اور جھنجھلائی بھی ۔
راتوں کو اس کی نیند پوری نہ ہوتی۔اس کا جی چاہتا جلدی سے مر جائے اور جی بھر کر اپنی نیند پوری کر ے۔ ٹانگیں پھیلائے‘ آنکھیں بند کیے بس بے سدھ ہو جائے۔وہ موت کے سپنے دیکھتی……قبر کو خواب میں دیکھ کر خوش ہو جاتی……آہ اب آئے گا مزا……اب کون اٹھائے گا، اب کیا بہے گا……
جوہی کا آنا جانا بالکل ہی بند ہو گیاتھا۔خاص کر اس دن کے بعد سے جب بوا نے لحاظ کیے بنا کہہ دیا کہ بچی یہاں نہ آیا کر اور پھر سرگوشیاں کیں ساس کے کان میں ۔جو نوشی وہ سرگوشیاں سن لیتی تو رات ہی رات میں سر کے بال سفید کر لیتی یا دیدوں کی شرم بیچ کھاتی۔
بھا گ جاتی،جل مرتی اور نہیں تو یہ مان لیتی جان لیتی کہ وہ حضرت انسان نہیں ہے……نہیں ہے وہ……وہ کچھ اور ہے……کیا ہے……معلوم نہیں ……بس وہ انسان نہیں ہے……
مہینوں بعد اماں کے چکر لگا لیتی۔وہی اس کی عید ہوتی۔غسل خانے میں گھسی رہتی۔سوتی رہتی۔اماں پوچھتی‘ اتنی نیندکہاں سے آ گئی؟اتنا سوتی ہو۔وہ کہہ دیتی۔
’’اماں !مہینوں کی نیند ہے، سالوں میں پوری ہو گی۔‘‘
سیدھی سادھی اماں اس کی بات نہ سمجھ پاتی۔
اس دن ایسا ہوا کہ منہ اندھیرے بھی پانی نہ آیا۔چند بالٹیاں ہی بمشکل بھریں۔دوپہر تک صرف برتن ہی دھو سکی وہ۔پھر نل ٹپ ٹپ ٹپکنے لگا۔موڑھے پر بیٹھے بیٹھے اس کی کمر اکڑ گئی۔اپنے بستر پر جا کر آرام کرتی تو یقینا آنکھ لگ جاتی۔پانی آتا اور بہہ جاتا تو فساد ہوتا۔سوتی کو پھر بوا یا اماں اٹھانے آتیں۔نیند بھی جاتی اور غصہ بھی نکلتا۔دیوار سے سر ٹکائے ٹکائے وہ اونگھنے لگی۔بالٹی بھر گئی۔سات نسلوں کو بھی سلا کر اگر وہ دونوں سوئی ہوتیں تو ایسے پانی بہتا دیکھ کر اٹھ جاتیں۔وہی ہوا بوا فوراََ اٹھ بیٹھیں ‘ آواز دی۔وہ اٹھی پانی انڈیل کر موڑھے پر آ کر بیٹھ گئی۔بوا نے پھر آنکھ جھپک لی۔وہ اٹھی ‘ دوپٹہ اچھی طرح سے اوڑھا اور اوپر چلی گئی۔
بالٹی سے پانی باہر نکلنے لگا‘غضب ہو گیا‘بوا چلانے لگی۔اس کا اتا نہ پتا‘دونوں گھٹنے پکڑے اٹھی۔باورچی خانے میں دیکھا،کمرے میں دیکھا‘پچھلے کمرے میں دیکھا‘غسل خانے کا دروازہ کھلا ہی تھا‘اوپر چھت کی طرف منہ کر کہ آوازیں دیں‘مگر کوئی سن گن نہ ملی۔
وہ دونوں تو چھت پر چڑھ ہی نہیں سکتی تھیں۔ان کے لیے غسل خانے میں ایک طرف چھوٹا فلیش لگوایا تھا۔یہاں بھی پانی کا ہی مسئلہ تھا۔ایک‘دو بار استعمال کر لیتے تو بدبو سارے گھر میں پھیل جاتی‘ان دونوں کی تو مجبوری تھی‘باقی سب کو اوپر ہی جانا پڑتا۔
اب وہ کہاں گئی……نوشی……لعنتی عورت……ناشکری……
بوا نے تو عرصہ پہلے ہی ایسے واقعے کی پیش گوئی کر رکھی تھی۔
کیسے واقعے کی؟ نوشی کے چال چلن کی۔اس کے چھت پر اتنا اتنا وقت لگانے کی داستانیں ‘ سرگوشیاں تو پہلے ہی بیان کر دی گئیں تھیں کہ فلاں چھت والا ،فلاں نکڑ والا، فلاں عاشق مزاج، فلاں چال باز۔بھلا کوئی ایسے ہی تو اتنی اتنی دیر چھت پر نہیں گزرتا نا۔پاگل تو نہیں تھے نا وہ سب،سیانے تھے سیانے……ہا ں جی۔
شام کا وقت تھا سسر‘ دیور آگے پیچھے آئے۔بوا صحن میں بیٹھی ہاتھ مل رہی تھیں۔
’’بھاگ گئی……دیکھا بھاوج بھاگ گئی نا……میں تو کب سے کہہ رہی تھی پر کوئی سمجھے بھی……بھاگ گئی……ہائے……‘‘
دیور آپے سے باہر ہونے لگے‘گھر سے باہر لپک لپک جاتے ‘ساس نے بمشکل قابو کیا۔
’’نوشی چلی گئی……بھابی چلی گئی‘‘ کرم کو فون کیا وہ بھاگا آیا۔
’’کیسے بھاگی……؟؟‘‘ کرم نے عجب بکواس کی۔
یہ عورتیں کیوں بھاگ جاتی ہیں ؟کمروں سے چھت پر ……سرنگوں سے کھڑکیوں تک……دیواروں سے روشن دانوں سے نکل جاتی ہیں۔چاند پر نظر رکھے آسمان کی طرف بھاگ بھاگ جاتی ہیں۔کھڑکیوں میں کھڑے ہو کر لمبی لمبی سانسیں کیوں لیتی ہیں؟بستروں سے لگی زمین کے راستے باہر کیوں نکل جانا چاہتی ہیں؟ کبھی کسی نے سوچا کہ عورت کیوں بھاگ جانا چاہتی ہے؟کرم نے یہ کیوں نہ پوچھا کہ کیوں بھاگی؟
کس کے ساتھ بھاگی؟الٹا یہ پوچھا
بوا ‘بھائی کا قصہ ہوا میں چھوڑ رہی تھی۔پوری جوہی بنی تھیں آواز میں وہی جوہی کا انداز تھا نوشی دیکھ لیتی تو دنگ رہ جاتی۔
اتنے رنگ……اتنے ڈھنگ……آہ اے انسان تو کیا ہے……تو کون ہے……تیری پردہ کشائی انگشت بدنداں کیوں کر دیتی ہے۔
’’میں نے کہا بھائی!نوشی بھابی کے پانی بھر آؤں……بھائی بولے ہاں ہاں جاؤسارا دن بے چاری پانی بھرتی رہتی ہیں ایک پل
کو سانس نہیں……اپنے گھر میں تو ایسے نہیں بھرتی ہوں گی ناکچھ آرام ملے گا……جاؤ جاؤ پائپ لے جاؤ……حال احوال رکھا کرو ان کا کمزور سی ہیں‘اتنی وزنی وزنی بالٹیاں اٹھاتی ہیں……گرمی سردی لگی رہتی ہیں……ری چٹی آئی تھیں ‘کالی سیاہ ہونے میں دن نہ لگے۔‘‘
بھائی نے اتنا کچھ کہا یا نہیں ‘لیکن بوا ضرور کہہ رہی تھی۔دیور بھڑک بھڑک جا رہے تھے۔کرم کمرے میں جا کر سستانے لگا۔وہ ہر معاملے میں ہی سست تھا۔بوا اور ساس بیٹھی اس کے چال چلن کے قصے سنا رہی تھیں اور وہ بھلا مانس اونگھ رہا تھا۔ساس نے جا کر اسے جھنجھوڑا
‘بھائی الگ غیرت دلانے لگے۔
’’وہ گئی……وہ گئی……ارے بھاگ گئی……‘‘
’’میں کیا کروں؟‘‘ وہ سستی مارا تپ گیا،اس سے بڑھ کر نوشی کی کیا اوقات ہو گی؟
بوا کے قصے ختم ہونے میں نہیں آ رہے تھے کہ کیسے وہ گھنٹہ گھنٹہ چھت پر لگا کر آتی تھی‘فلاں چھت کا رنڈوا،فلا ں کا کنورا،
فلاں کا لونڈا‘چڑھے رہتے تھے اپنی اپنی چھتوں پر۔بنا دوپٹے کے جاتی تھی،کہا تھا دوسرے شہر کی نہ لاؤ،اپنے شہر کی دیکھ بھال کر تو لاتے نا،پتا نہیں کیا کیا گل کھلائے ہوں گے اپنے محلے میں۔
بوا شادی کے کئی سالوں تک بے اولاد رہی تھیں پھر بیوہ ہو گئیں۔انھیں لگتا تھا انھی کا تجربہ گھر کے سارے مردوں سے زیادہ ہے۔عورتوں میں وہ تاک ہیں کہ کون کیسی ہے‘ مردوں کی چال سے جان جاتی ہیں کہ کس عورت پر تیر مارنے کو تیا ر ہو رہا ہے اور تو اور یہ تک جان جاتی ہیں کہ کم بخت ماری یہ عورتیں خوابوں میں کیا کیا گل کھلاتی ہیں……واہ سیانی بوا……
نل سے بوندیں ٹپک رہی تھیں……بالٹی بھر گئی……دیور نے اٹھا کر ٹنکی میں انڈیل دی۔
ابھی بھی اس بوند بوند ٹپکتے پانی کی ہی سب کو پڑی تھی……اب بھی پانی نہ بہنے دیا گیا۔
کرم نے اس کے میکے فون کیا۔پہلے گالیاں دیں‘ پھر بات بتائی۔نوشی کی اماں سنتے ہی بے ہوش ہو گئی۔
’’کہاں گئی نوشی،ہائے مار ڈالا ہو گا اُسے کہیں دبا دیا ہو گا اب کہتے ہیں بھاگ گئی؟‘‘
’’بھاگ گئی اور کیا۔‘‘ کرم دھاڑا‘پیچھے دونوں دیور اس سے زیادہ دھاڑے
’’کیوں بھاگے گی وہ؟‘‘ نوشی کا بھائی چلایا۔
’’کیا کیا ہے تم نے اس کے ساتھ،کہاں مار کر دبایا ہے بھونکو کتوں‘‘
دو گالیاں ادھر سے دو گالیاں ادھر سے۔اس دوران بھی دیورسسر بالٹی ٹنکی میں انڈیلتے رہے‘ٹنکی بھرنے لگی ۔دیور بکتے جھکتے رہے۔نوشی سامنے ہوتی تو ضرور پوچھتی دیوروں سے……
’’گالیاں دے رہے ہو ……تمہارے لیے بوند بوند پانی جمع کیا۔ہزاروں بار ٹنکی بھری کہ تم گرد سے آزاد ہو جاؤ۔معلوم
ہے کتنی مصیبت سے ایک بالٹی بھرتی ہے؟ معلوم ہے اس پانی کی کیا قیمت ہے ؟؟یہ سستا نہیں ہے،آگ اکھٹی کرتی رہی ہوں میں‘ خود
کو جلا بیٹھی ہوں……عزت گنوا بیٹھی ہوں ……اور اب……ایسے باتیں کرتے ہو……آگ کو پانی کیا ہے میں نے ،نار کو بوند بوند جمع کیا ہے……تہمت لگا رہے ہو؟ کتنی بار تمہارے کپڑے ان بوندوں سے دھوئے۔خود گندی رہ کر تمہیں صاف رکھا‘ آرام دیا‘ اب کیسے باتیں بنا رہے ہو۔اب سارے عیب نظر آنے لگے ہیں،گن تو نظر نہ آئے،آنکھوں میں تیرتے آنسو تو نظر نہ آئے،اب اتنا کچھ دیکھنے لگے ہو،اب کیسے آنکھیں آ گئیں……اب کیسے زبان والے ہو گئے……؟؟‘‘
اتنے سوال کرتی نوشی کہ جواب دیتے دیتے وہ پانی پانی ہو جاتے۔پرپانی پانی بھی وہی ہوتے ہیں جو پانی کی طرح بہتے ہیں‘
جوہڑوں کی طرح رکے ہوئے تو بدبو ہی دیتے ہیں بس۔
سسر نے بالٹی بھری اور اوپر چھت پر آئے
’’یہ لیٹرین میں کون ہے۔‘‘چھجے سے سسرنیچے کی طرف منہ کر کے بولے۔
’’کون ہو گا۔‘‘ دونوں دیور اور کرم اوپر لپکے۔
کوئی ……چور……لٹیرا……کون چھپا بیٹھا ہے……رات ہونے کو آئی ہے……
چھت پر کوئی جاتا ہی نہیں اوپر کاٹھ کباڑ رکھا ہے۔ساس اور بوا نے بھی اوپر چڑھنے کی کوشش شروع کر دی۔دیور نے دروازے پر زور ڈالا ،دروازہ اندر سے ہی بند تھا۔
’’ کون ہے ‘ ‘ دیور دھاڑا۔
’’کون کم بخت ہے‘‘ بوا اوپر جڑھتے ہوئے بولی،وہ اب بھی مردوں سے پیچھے رہنا نہیں چاہتی تھیں کہ چوروں کا سامنا صرف مرد ہی کیا کرتے ہیں۔
سب ایک دوسرے کی شکل دیکھنے لگے سسر نے کاٹھ کباڑمیں سے ایک موٹا ڈنڈا ہاتھ میں آٹھا لیا کرم ذرا پیچھے ہو کر کھڑا ہو گیا وہ تو چھوٹے ہوتے باہر سے مار کھا آیا کرتا تھا اور لیٹرین میں چھپ کر رو لیا کرتا تھا،اب کہاں آگے ہوتا۔
دیور نے زور کا دھکا مارادیمک زدہ لکڑی کا دروازہ ایک ہی جھٹکے سے کھل گیا……اور……اور……اندر کا منظر بڑا بھیانک تھا……ان کے لیے جو آنکھ رکھتے ہیں……اندر بہت کچھ ہوتا رہا تھا……اندر……اندر……
فلیش پر لکڑی کا تختہ رکھے نوشی دیوار سے سر ٹکائے خراٹے لے رہی تھی۔اتنی سی جگہ میں وہ بمشکل آڑی ترچھی پڑی تھی ۔بوا سے پرے……فلاں فلاں چھتوں کے رنڈوے کنوارے لونڈوں سے ……ساس اور دیوروں سے اور قطرہ قطرہ ٹپکتے نل سے بھی پرے……
وہ بس مزے سے خراٹے لے رہی تھی……نیچے نل بوند بوند ٹپک رہا تھا……
٭٭
Sumaira Hameed
About the Author: Sumaira Hameed Read More Articles by Sumaira Hameed: 5 Articles with 6804 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.