حامل ہذا کو مطالبہ پر ادا کرے گا۔۔دھوکہ ،فریب یا کچھ اور۔۔۔!!!
(Dr B.A Khurram, Karachi)
تحریر ۔۔۔چوہدری ناصر گجر
بینک دولت پاکستان ایک ہزار روپیہ حامل ہذا کو مطالبہ پر ادا کرے گا ۔پاکستان
کے ہزار روپیہ کے بینک نوٹ پر لکھے اس ادائیگی کے وعدے کا مطلب کیا ہے؟بڑے
نوٹ کے بدلے چھوٹے نوٹ تو کوئی بھی دے سکتا ہے پھر اس کیلیے سرکاری بینک کی
ہی کیا ضرورت ہے ؟اس کا مطلب یہ ہے کہ بینک دولت پاکستان کی طرف اس کے پاس
ایک ہزار روپے مالیت زر(سونا یا چاندی)کی کاغذی رسید ہے اس رسید پر مطالبہ
کرنے والے کو وہ یہی دینے کا پابند اور ذمہ دار ہے ۔نوے کی دہائی کا آغاز
تھا گجرات سے جنم لینے والا انڈسٹریل کو آپریٹیو بینک اپنی پوری آب و تاب
سے چل رہا تھا ۔اچانک شہر میں افوا ہ پھیلی کہ بینک بند ہو رہا ہے ۔صبح
سویرے اس بینک کے باہر لوگوں کا ہجوم تھا جنکا مطالبہ تھا کہ انکی رقوم
بینک انہیں واپس کر دے ۔چند ایک چیک تو کیش ہوئے پھر بہانے شروع ہو گئے ۔۔۔
کیش منگوایا ہے ،ابھی آتا ہی ہو گا ،ہیڈ کوارٹر سے وین چل پڑی ہے ۔گیارہ
بجے تک ملازمین بینک کو تالا لگا کر بھاگ گئے ۔یہ صرف ایک شہر میں پھیلی
ہوئی چھوٹی سی افواہ کا نتیجہ تھا لوگ صرف بینک سے اپنے کاغذ کے نوٹ طلب کر
رہے تھے لیکن دھوکے بازی ،جھوٹ اور فراڈ پر مبنی بینکاری کی اوقات یہ تھی
کہ صرف دو گھنٹے میں یہ عمارت زمین بوس ہو گئی ۔ابھی تو نوبت کاغذ کے نوٹو
ں تک پہنچی تھی جس پر عبارت تحریر ہوتی ہے ۔،،بینک دولت پاکستان ایک سو
روپیہ ،، حامل ہذا کو مطالبہ پر ادا کریگا ،حکومت پاکستان کی ضمانت سے جاری
ہوا ،،۔ اس عبارت کے نیچے گورنر سٹیٹ بینک کے دستخط ثبت ہوتے ہیں ۔یعنی یہ
ایک رسید ہے ،ایک وعدہ ہے ،ایک حلف نامہ ہے کہ اس کے بدلے جب اور جس وقت
رسید کا حامل سونا ،چاندی ،اجناس یا جو چیز طلب کرے حکومت پاکستان اسکو ادا
کرے گی ۔اس وقت ملک میں قریباً ایک ہزار سات سو ستتر ارب کے نوٹ گردش میں
ہیں ۔اگر کسی دن اٹھارہ کروڑ عوام کھڑے ہو کر یہ اعلان کریں کہ ہم ان ردی
کے ٹکڑوں کو نہیں جانتے ،تم نے جو اس کے اوپر تحریر لکھی ہے ،جو وعدہ کیا
ہے ،جو اسٹامپ پیپر ہمیں دیا ہے اس کے مطابق ہمیں ان کاغذوں کے بدلے سونا ،چاندی
یا کوئی بھی جنس جو تم بہتر تصورکرتے ہو ،دے دو تو صرف پانچ منٹ میں یہ
کاغذ کے نوٹوں پر کھڑی عمارت دھڑام سے نیچے گر جائے گی اور اسکے ملبے تلے
جمہوری حکومت ہو یا آمریت سب دفن ہو جائیں گے ۔اس مکار ،چالاک ،فریبی اور
لوگوں کو دھوکہ دینے کے اصولوں پر مبنی بینکاری کے اس معاشی نظام پر بیش
بہا کتابیں لکھی جاتی ہیں اس کے مستحکم اور غیر مستحکم ہونے کے اصول وضع
کرتے ہیں ۔معاشیات یعنی اکنامکس کا مضمون یونیورسٹیوں میں پڑھایا جا تا ہے
پندرہ بیس سالوں کی تعلیمی محنت میں طلبا ء نے یہ سمجھنے کی مہارت حاصل کی
ہوتی ہے کہ یہ کاغذ کے اسٹامپ پیپرز جنہیں کرنسی نوٹ کہا جاتاہے اور یہ
بینکاری نظام کیا ہے ؟ کیسے ناپا جائے کہ اس کاغذ کی قیمت اوپر ہو گئی ہے
یا نیچے ؟ افراط زر کی چڑیا کس گراف کے فراٹے بھرتی ہے ؟ کرنسی کے نوٹ جو
سٹیٹ بینک چھاپتا ہے ان سے دولت کیسے جنم لیتی ہے ؟ بینک کیسے انہی نوٹوں
کو اپنے کھاتوں میں دو گنا اور تین گنا کر لیتا ہے جسے ایم ون اور ایم ٹو
کا نام دیا جاتا ہے ؟ بینک دیوالیہ ہو جائے توکیسے حکومت اس نظام کو بچانے
کیلئے عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ انہیں واپس کر تی ہے ؟ کس طرح بینکوں کو
بچانے کیلئے انشورنس کمپنیوں کے ذریعے آکسیجن فراہم کی جاتی ہے ؟ عام آدمی
کے پیسے سے ایک پورا متبادل نظام وضع کیا جاتا ہے کہ بینکو ں کا خسارہ ان
انشورنس پالیسیوں سے پو را کیا جائے جو بینکوں نے خریدی ہوتیں ہیں ۔لیکن اس
نظام کے پیچھے ایک کاغذ ہے جسکے اوپر ایک جھوٹی اور بے سر و پا عبارت درج
ہے کہ حامل ہذا کو مطالبہ پر ادا کریگا ۔دنیا کا کوئی بھی ملک امریکہ ہو یا
برطانیہ ،فرانس ہو یا جرمنی ،بھارت ہو یا چین اپنا یہ لکھا وعدہ پورا نہیں
کر سکتے ۔اس لئے کہ اس وعدے کی بنیاد جھوٹ پر مبنی ہے ۔کچھ عرصہ قبل جب
یونان میں معاشی بحران آیا تو لوگ بینکوں کے دروازوں پر نوٹ وصول کرنے
کیلئے جمع ہو گئے ۔اس ملک کے تین شہر تو ایسے تھے کہ دوکانداروں نے گاہکوں
سے نوٹ لینے بند کر دئے اور کہا کہ گھر سے کوئی بھی چیز لے آؤ اس کے بدلے
ہم آپکو سودا دیں گے ،لیکن اس بے کار ردی کے ٹکڑے پر بھروسہ نہیں کریں گے
جس پر ایک چھوٹی سی عبارت تحریر ہے ۔جب بھی اثاثوں سے زیادہ کرنسی چھپتی ہے
تو نتیجہ معاشی بحران اور افراط زر ہوتا ہے ۔ سونا ایک غیر اعلانیہ بین
الاقوامی زر کثیف ہے ۔اسکی قیمت کے بڑھنے سے کسی ملک کی کاغذی کرنسی میں
ہونے والے افراط زر کا بخوبی اندازی لگایا جا سکتا ہے ۔زمبابوے میں اتنے
زیادہ نوٹ چھاپے گئے کہ 2008ء میں سو ارب ڈالر میں صرف تین انڈے خریدے جا
سکتے تھے ۔اگر یکم جنوری 2001 سے یکم جنوری 2014 تک کی سونے کی قیمتوں کا
جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ پچھلے تیرہ سالوں میں پاکستانی کرنسی کی
قیمت میں ساڑھے سات گنا اور ہندوستانی کرنسی کی قیمت میں پانچ گنا کمی آئی
ہے جبکہ اسی دوران ایران میں مہنگائی لگ بھگ 60 گنا بڑھ چکی ہے ۔ پاکستان
کے ایک ہزار روپے کے بینک نوٹ پر لکھے ،،بینک دولت پاکستان ایک ہزار روپے
حامل ہذا کو مطالبے پر ادا کرے گا کا مطلب ہے کہ اسٹیٹ بینک کاغذ کی اس
رسید یا نوٹ کے بدلے چاندی کے ایک ہزار سکے ادا کرے گا ۔چاندی کا روپیہ
پاکستا ن بنتے وقت رائج تھا ۔لیکن اب لوگ چاندی کا روپیہ بھول چکے ہیں اور
اسٹیٹ بنک بھی چاندی کے سکے کی ادائیگی نہیں کر سکتا ۔پاکستان کا 1948 ء
میں بنا ہوا ایک روپے کا دھاتی سکہ اگرچہ ماضی کے دھاتی روپے کی طرح چاندی
کا ہی سمجھا جاتا تھا مگر در حقیقت وہ نکل کا بنا ہوا تھا اور وزن میں ایک
تولے سے قدرے کم ،11.1 گرام کا تھا ۔لفظ روپیہ سنسکرت زبان کا لفظ روپا سے
ماخوذ ہے جسکے معنی ہیں چاندی۔ہزاروں سال سے کرنسی سونے چاندی کے سکوں پر
مشتمل ہوا کرتی تھی کیونکہ لوگ اپنی مرضی کی چیز بطور کرنسی استعمال کرنے
کا حق رکھتے تھے ۔لیکن بعد میں حکومتیں قانون بنا کر مخصوص کرنسی استعمال
کرنے پر مجبور کرنے لگیں اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے ۔جب بینکاری کو عروج
ہوا تو بینکوں کو اندازہ ہوا کہ کاغذی کرنسی کے رواج کو فروغ دینے سے
بینکوں کو کس قدر زیادہ منافع ہو سکتا ہے مرکزی بینک چونکہ سونا اور چاندی
نہیں بنا سکتے اسلئے وہ سونے ،چاندی سے بنی کرنسی کو کنٹرول بھی نہیں کر
سکتے تھے۔اس لئے مرکزی بینک سونے چاندی کو بطور کرنسی استعمال کرنے کے سخت
خلاف ہیں ۔مرکزی بینک ہمیشہ ایک ایسی کرنسی چاہتے ہیں جسے وہ پوری دنیا میں
کنٹرول کر سکیں تاکہ مالی طور پر بے حد درجہ طاقتور بن جائیں اسی لئے انہوں
نے کاغذی کرنسی کو اہمیت دی کیونکہ یہ کرنسی جتنی چاہے چھاپی جا سکتی ہے ۔
اس پورے سودی نظام کو تحفظ دینے کیلئے جمہوریت ،پارلیمنٹ اور اس طرح کے
ادارے قائم کئے گئے جن کا کام ہی جھوٹ اور فراڈ کی معیشت کو سہارا دینا
ہوتا ہے ۔یہ صرف پاکستان میں ہی نہیں دنیا کے ہر ملک میں ہے ۔پوری دنیا کے
اربوں انسانوں کو اسی دھوکے ،فراڈ اور جھوٹی رسیدوں کے ذریعے پاگل بنایا
گیا ہے۔اس وقت بینک مالکان پوری دنیا کے مالک بنے ہوئے ہیں اگر ان سے یہ
دنیا چھن بھی جائے لیکن ان کے پاس کرنسی بنانے کا اختیارباقی رہے تووہ ایک
جنبش قلم سے اتنی کرنسی بنا لیں گے کہ وہ دوبارہ دنیا خرید لیں ۔۔۔اگر تم
چاہتے ہو کہ بینگ مالکان کی غلامی کرتے رہو اور اپنی غلامی کی قیمت بھی ادا
کرتے رہو تو تو بینک مالکان کو کرنسی بنانے دو اور قرضے کنٹرول کرنے دو۔ |
|