علم حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور فیس بکی ”دانش وڑ“

کچھ لوگ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ اپنے مکروہ اہداف میں مکمل طورپر کامیاب ہونا ممکن نہ ہوتو نوخیز اذہان میں ماخذ شریعت سے متعلق شک میں مبتلا کردینا ہی ان کی کوشش ہوتی ہے۔ ان کی تمام تر کوششوں کا سرچشمہ مستشرقین کے افکار و نظریات ہیں۔ مستشرقین نے قرآن مجید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کو ہدف تنقید بنایا تو مسلمان اہل علم نے ان کے بودے اعتراضات کی سطحیت کو دلائل و براہین کے ترازو میں رکھ کر ان کی علمی خیانت و بددیانتی کو مبرہن کر کے رکھ دیا اور مستشرقین کو منہ کی کھانی پڑی۔ اس کے بعد یہودی مستشرقین ”گولڈز یہر“ اور ”شاخت“ نے اپنی توپوں کا رخ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب موڑ دیا۔ ”گولڈزیہر“ نے حدیث رسول سے متعلق جتنی بھی زہر افشانی کی، اس کے بعد آنے والے مستشرقین نے بھی اسی کی اقتدا کی۔ اس محاذ پر بھی اہل علم نے لاجواب کتب تصنیف کر کے مستشرقین کی بولتی بند کردی، لیکن عصر حاضر میں بعض دانشوڑ علم دین سے ناواقف سادہ لوح لوگوں کو راہ راست سے ہٹا کر اپنے پیش روﺅں کے مشن کو آگے بڑھانے کے لیے کمربستہ ہیں۔ اپنے مقصد میں شاید کسی حد تک کامیاب بھی ہوئے ہوں، کیونکہ جن لوگوں کو اصل ماخذ کا مطالعہ کرنے پر قدرت حاصل نہیں اور خالص علمی و تحقیقی مباحث کا آسانی سے سمجھ لینا بھی ان کے لیے آسان نہیں، ان کا شکوک و شبہات میں مبتلا ہوجانا انہونی بات نہیں ہے۔

اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ عصر حاضر کے دانشوڑوں کا بنیادی مقصد اسلامی علوم میں تحقیق نہیں، بلکہ تحقیق کے لبادے میں اسلامی تعلیمات کو مسخ کر کے پیش کرنا ہے۔ اگر تحقیق کرنا ہی مقصود ہوتا تو علم حدیث میں مہارت رکھنے والے کسی محدث کے سامنے اپنے اعتراضات رکھے جاتے تو یقینا تسلی بخش جواب مل جاتا۔ اس حوالے سے بہت سی تصانیف معرض وجود میں آچکی ہیں، جن میں مستشرقین کی جانب سے حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ہونے والے تمام اعتراضات کے جوابات دیے جاچکے ہیں۔ اہل علم نے فن حدیث میں کھوٹے کھرے کی تمیز کرنے کے لیے ایسے اصول وضع کیے ہیں، معترضین بھی جن پر دنگ ہیں۔ متن حدیث تو رہا ایک طرف، یہاں تو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے لے کر چوتھی صدی ہجری تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال اور احوال کے لاکھوں راویوں کے مجموعہ احوال تک کو جانچنے کے لیے اسماءالرجال کا فن ایجاد کیا گیا ہے، جس کے بارے میں متعصب یورپین ’ ڈاکٹر اسپرنگر‘کو بھی یہ لکھنا پڑا :”کوئی قوم دنیا میں ایسی نہیں گزری، نہ آج موجود ہے، جس نے مسلمانوں کی طرح ”اسماءالرجال“کا عظیم الشان فن ایجاد کیا ہو، جس کی بدولت آج پانچ لاکھ شخصوں کا حال معلوم ہوسکتا ہو۔“ اس فن کی بدولت ہر راوی کا نام، کنیت، لقب، راوی کہاں کے رہنے والے تھے؟ ان کے آباءواجداد کون تھے؟ کس مزاج وطبیعت کے تھے؟ حافظہ کیسا تھا؟ تقویٰ اور دیانت کے لحاظ سے کیا معیار تھا؟ کن اساتذہ اور شیوخ سے علم حاصل کیا تھا؟ طلب علم کے سلسلے میں کہاں کہاں کا سفر کیا؟ کن لوگوں نے ان سے علم حاصل کیا؟ وغیرہ تمام سوالات کا علم حاصل ہوسکا۔ راویانِ حدیث کی تحقیق وتفتیش کے اس طرح شفاف ریکارڈ جمع کرنے کی دنیائے قدیم و جدید کی تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ اس قدر سخت ضوابط لاگو کیے جانے کے بعدعلوم حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں بھلا کوئی کمی کوتاہی کس طرح واقع ہوسکتی ہے؟
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 702976 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.