سیدنا ابو ایوب رضی اللہ عنہ اور قبر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تبرک

سیدنا ابو ایوب رضی اللہ عنہ اور قبر نبی سے تبرک
تحقیق: حافظ ابو یحی نور پوری حفظہ اللہ

داؤد بن ابو صالح حجازی کا بیان ہے:
أقبل مروان يوما، فوجد
رجلا واضعا وجهه علي القبر، ققال: أتدري ما تصنع؟ فاقبل عليه، فإذا هو أبو أيوب، فقال: نعم، جئت رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ولم آت الحجر، سمعت رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم يقول: لا تبكوا علي الدين إذا وليه أهله، ولكن ابكوا عليه إذا وليه غير اهله.

ایک دن مروان آیا، تو اس نے دیکھا کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر اپنا چہرہ رکھے ہوۓ تھا. مروان نے کہا: تمہیں معلوم ہے کہ کیا کر رہے ہو؟ اس شخص نے مروان کی جانب اپنا چہرہ موڑا، تو وہ سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ تھے تو انہوں نے فرمایا: ہاں! مجھے خوب معلوم ہے. میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا ہوں، پتھر پر نہیں. میں نے آپ کو فرماتے ہوۓ سنا تھا کہ جب دین کا والی کوئ دین دار شخص بن جاۓ، تو اس پر نہ رونا. اس پر اس وقت رونا جب اس کے والے نا اہل لوگ بن جائیں.
مسند احمد: 422/5، المستدرک عل الصحیحین للحاکم 515/4

اس روایت کی سند ضعیف ہے،کیونکہ اس کے راوی داؤد بن ابی صالح حجازی کے بارے میں:

حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
لا یعرف
یہ مجہول راوی ہے
(میزان الاعتدال 2/9)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اسکے بارے میں فرماتے ہیں:
مقبول
یہ مجہول الحال شخص ہے
(تقریب التھذیب: 1792)

لہذا امام حاکم رحمہ اللہ کا اس کی بیان کردہ اس روایت کی سند کو صحیح کہنا اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ کا انکی موافقت کرنا صحیح نہیں ہے.

دین کی باتیں ثقہ لوگوں سے قبول کی جاتیں ہیں نہ کے مجہول اور لاپتہ لوگوں سے.

فائدہ: یہ روایت قبر کے ذکر کے بغیر معجم الکبیر طبرانی (4/189، ح: 3999) اور معجم اوسط طبرانی (1/94، ح: 284) میں بھی موجود ہے. لیکن اسکی سند درج ذیل وجوہ سے ضعیف ہے:

. سفیان بن بشر کوفی راوی نامعلوم اور غیر معروف ہے.1
حافظ ہیثمی رحمہ اللہ اسکے بارے میں فرماتے ہیں:
ولم أعرفه
میں اسے نہیں پہچانتا
(مجمع الزوائد 9/130)

2. مطلب بن عبداللہ بن خطب راوی مدلس ہے. اور وہ بصیغہ عن روایت کر رہا ہے. اسکے سماع کی تصریح نہیں ملی.
3. مطلب بن عبداللہ کا سیدنا ابو ایوب سے سماع ثابت نہی
4. اس روایت میں امام طبرانی رحمہ اللہ کے دو استاذ ہیں. ایک ہارون بن سلیمان ابو ذر ہے اور وہ مجہول ہے. جبکہ دوسرا احمد بن محمد بن حجاج بن رشدین ہے. اور وہ ضعیف ہے.

اسکے بارے میں امام ابن ابی حاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
سمعت منه بمصر، ولم احدث عنه، لما تکلموا فیه
میں نے اس سے مصر میں احادیث سنی تھیں، لیکن میں وہ احادیث بیان نہیں کرتا، کیونکہ محدثین نے اس پر جرح کی ہے.
(الجرح والتعدیل 2/75)

امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
صاحب حدیث کثیر، أنکرت علیه اشیاء، وهو ممن یکتب حدیثه مع ضعفه
اسکے پاس بہت سی احادیث تھیں، ان میں سے کئ ایک روایات کو محدثین کرام نے منکر قرار دیا ہے، اسکے ضعیف ہونے کے باوجود اسکی حدیث (متابعت و شواہد میں) لکھی جاۓ گی
(الکامل فی ضعفاء الرجال 1/198)
حافظ ہیثمی رحمہ اللہ نےبھی اسے ضعیف قرار دیا ہے
(مجمع الزوائد 2/25، 6/694)

فائدہ:
اسکی تیسری سند ابو الحسین یحیی بن حسن بن جعفر بن عبید اللہ حسینی کی کتاب اخبار المدینۃ میں آتی ہے
شفاء السقام للسبکی ص: 343
اس میں عمر بن خالد راوی نامعلوم ہے، باقی مطلب بن عبداللہ کی تدلیس اور ان کا سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے عدم سماع کا مسئلہ بھی ہے

گویا اس ارٹیکل:
https://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=71507

میں پیش کیے صاحب کا اس ضعیف روایت سے استدلال صحیح نہیں. افسوس اس بات پر ہے کہ ان احباب کا دارومدار صرف روایت پیش کرنے پر ہے نہ کہ یہ دیکھنے پر کہ مذکورہ روایت صحت و سقم کے اعتبار سے کیا درجہ رکھتی ہے
 
manhaj-as-salaf
About the Author: manhaj-as-salaf Read More Articles by manhaj-as-salaf: 291 Articles with 448650 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.