چنگ چی کیلئے شہر قائد میں رسائل و مسائل

تیزی سے گذرتے وقت کے ساتھ شہر قائد میں ٹریفک کی روانی بڑے اور پیچیدہ مسئلے کی صورت اختیار کر کر چکی ہے۔ عوام اپنی آسانیوں کیلئے نت نئی ایجادات کر کے اور انہیں اپنا کر اپنے حصے کا کردار ادا کر دتے ہیں تاہم وہ و سائل جو مسائل کو حل کرنے کیلئے استعمال ہوئے کچھ ان سے بڑے مسئلے حل نہیں ہوئے اوروہ مزید بڑھ گئے۔ شہر قائد میں چنگ چی کا آغاز بھی عوامی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے ہوا، ابتدا ء میں عوام کو کچھ حیرانی ہوئی جو بعد ازاں خوشی میں تبدیل ہوئی ، خوشی کی بڑی وجہ یہی تھی کہ عوام کو بیٹھ کر سستا اور آسان سفر کرنے کو ملا۔

عوام کی جانب سے چنگ چی کااستعمال بڑھتا گیا اور شہر قائد میں نت نئے چنگ چی عوام کو اپنی سہولیات اور دیگر کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے اس کااستعمال بڑھاتے رہے۔ چنگ چی کے بڑھنے کے ساتھ ہی مختلف نجی کمپنیاں نئے ڈیزائن کے چنگ چی بھی متعارف کراتی رہیں۔ عام رکشوں کو بھی چنگ چی بنایا جانے لگا ،انہیں میں بیٹھنے کی سہولت کے ساتھ بٹھانے کی جگہ بھی بڑھائی گئی ۔ عام موٹر سائیکلوں کو بھی انہی مقاصد کیلئے استعمال کیا جانے لگا۔

ٹریفک پولیس کیلئے یہ معاملہ اک المیہ رہا کہ وہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر ان کے خلاف کوئی چالان کر نا چاہئیں تو کس کھاتے میں اور کونسا چالان کریں۔ ٹریفک کی روانی کو بحال اور قابو کرنے کیلئے انہیں اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ۔ عام ٹریفک کی روانی بھی ان کی وجہ سے متاثر ہوجاتی اور اکثر و بیشتر ٹریفک جام کی صورت سامنے آجاتی۔ جس سے عوام کو مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ، ایمبولینسیں مریضوں کو ہسپتالوں میں پہنچانے کیلئے شدید مشکل مرحلے سے گذرتیں ۔ حادثات میں بھی چنگ چی کی آمد اور استعمال میں اضافے کے باعث اضافہ ہوا ۔ سڑکوں پر روان ٹریفک کیلئے پہلے ہی جگہ کی کمی واقع تھی جوکہ چنگ چی کے زیادہ مقدار میں آجانے کے باعث متاثر ہونے کے ساتھ مزید کم ہوئی۔ اس صورت حال کے پیش نظر حکومت وقت نے بلاآخر چنگ چی پر پابندی عائد کر دی ۔ جس سے ہزاروں افراد کے روزگار کا مسئلہ سامنے آیا اور اس کے ساتھ چنگ چی میں سفر کرنے والوں کو بھی حکومتی اچانک پابندی کے باعث تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑا۔

چنگ چی کی باقائدہ اور بے قائدہ یونین چنگ چی کے کاموں کو منظم اندازمیں آگے کی جانب بڑھا رہی تھیں حکومتی اقدام کے بعد یونین نے مل کر حکومتی اقدام کے خلاف عدالت کا رخ کیا ۔ حکومتی اقدام کے خلاف مقدمہ دائر کیا جس میں انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔ عوامی ضرورت کے پیش نظر کئی سیاسی تنظیموں نے چنگ چی یونیں کا ساتھ دیا اور عدلیہ سے انصاف کے حصول کیلئے انہیں ہر طرح کی مدد کی ۔ طویل سوچ بچار اور باہمی مشاورت کے بعد چنگ چی یونین نے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپنے مقدمے کو سپریم کورٹ میں لے جانا مناسب جانا اوراس طرح چنگ چی کا مقدمہ سپریم کورٹ میں جانے کے بعد سبھی کی توجہ کا مرکز بنا۔

سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی آگیا جس میں مخصوص چنگ چی کی اجازت دی گئی تاہم متعدد پر پابندی برقرار رکھی گئی۔ بعض سیاسی جماعتوں نے اس فیصلے کو عوام کی فتح قرار دیا۔ چنگ چی یونین اور اس ویونین کے کارکنوں کو اپنے دفاتر بلواکر انہیں مٹھائیاں کھلائی گئیں۔ چنگ چی رکھنے والے اس نئی صورتحال سے اک عجب کیفیت سے دوچار ہوئے۔ نہ تو وہ فیصلے کو اپنے لئے مناسب سمجھ پارہے تھے اور نہ ہی وہ اپنی چنگ چیوں کو دوبارہ سڑکوں پر لانے کیلئے تیار ہورہے تھے ۔ قدرے مدت کے بعد 6نشتوں والی چنگ چی سڑک پر آئیں اور ان کی تعداد میں اضافہ ہوا لیکن دیگر 9نشتوں والی اور ان کے ساتھ موٹر سائیکل سے بننے والی چنگ چیاں سڑکوں پر نہیں آئیں جس انداز میں پہلے آئیں تھیں۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو اس عوامی ایجاد سے عوام کو اس قدر فائدہ نہیں ہوا جس قدر اس کا آغاز ہوا تھا یا ان کی سوچ تھی۔ عوام چنگ چی چے پہلے بھی ٹریفک کے مسائل سے دوچار تھے اور چنگ چی آنے کے بعد اگر چہ کچھ ان مسائل میں کمی واقع ہوئی بیٹھ کر سفر کرنے کی آسانی ہوئی تاہم مسائل کم ہونے کے بجائے مزید بڑھے۔

چنگ چی کی آمد ، استعمال ، اس کے حال اور مستقبل کی منصوبہ بندی کے حوالے شہر قائد کے محتلف علاقوں میں تفصیلی سروے کے بعد جو صورتحال سامنے آئی جو گفتگو مسافروں ، ڈرائیوروں ، پولیس اہلکاروں سے سامنے آئی اس کا خلاصہ بیان کر دیا گیا ہے اس کے ساتھ ہی کچھ ملاقاتوں اور باتوں کی تفصیل درج ذیل ہے۔شہر قائد کے مرکز صدر میں چنگ چی رکھنے والے خضرات نے اپنے خیال بیان کرتے کہا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے اگر چنگ کو مکمل آزادی سے چلانے کی اجازت مل جاتی تو ہم سب کیلئے اچھا ہوتا ۔ عوام کو بھی فائدہ ہوتا اور اس کے ساتھ ہمیں بھی سکون سے گھر کے خرچے پورے کرنے میں آسانی ہوتی۔ محمد ریاض نے مزید کہا کہ چنگ وہ ہر تعداد والی سہی تھی کیوں کہ ان میں سواریوں کو بیٹھ کر اپنا سفر کرنے کا محفوظ موقع مل رہا تھا۔ ان کے کرائے بسوں ، کوچوں کے علاوہ دیگر رکشوں سے بھی کم تھے۔

گارڈن میں نقی عالم نے کہا کہ مسافروں کو چھوٹا سفر کرنے میں چنگ نے بڑا کردار ادا کیا لیکن اب جو صرف ایک عدد چنگ چی چلانے کی اجازت ہوئی ہے تو باقی نشستوں والی چنگ چی رکھنے والے حضرات اب کیا کریں گے۔ ان نے مزید کہا کہ یہ کام کرنے والوں نے پابندی کے بعد تو نہایت ہی کم داموں میں اپنی چنگ چیوں کو بیچ ڈالا ہے کچھ نے انہیں کباڑیوں تک کے حوالے کر دیا ، اور کچھ بھائی ایسے بھی تھے جنہوں نے اس کام کو چھوڑ کر دیگر کام کی جانب توجہ دینی شروع کردی۔ لیاقت آباد کے لئیق احمد نے کہا کہ پورے لالوکھیت میں چنگ چیوں کی موج تھی جو بعض اوقات چنگ چیوں کی فوج نظر آتی تھی عوام بسوں اور کوچوں کے بجائے چنگ چیوں میں سفر کو ترجیح دیتے تھے ۔ یہ بات درست ہے کہ ان کی وجہ سے مرکزی سڑکوں سمیت آبادی کی اند ر کی سڑکوں پر بھی ٹریفک بڑھ گئی تھی لیکن جتنے مسائل موجود ہوتے ہیں انہیں حل کرنے کیلئے موجود وسائل سے ہی کام لینا پڑتا ہے۔ ان نے کہا کہ بازاروں سے اپنے گھروں تک خواتین چنگ چی کا استعمال ہی کیا کرتی تھیں ۔گلشن اقبال کی ایک طالبہ نے کہا کہ چنگ چی آنے کے بعد انہیں کالج کیلئے آمدورفت میں نہات آسانی ہوگئی تھی ۔ کالج کی وین کو اس مقصد کیلئے چھوڑ دیا تھا لیکن اب دوبارہ سے کالج وین میں آنا اور جانا ہوتا ہے اب کی بار تو انہوں نے اپنے پیسوں میں بھی اضافہ کر دیا ہے۔ قریب موجود ایک اور خاتوں خانم بی بی نے کہا کہ اب جو چنگ چی چل رہی ہے اس میں صرف چھ افراد بیٹھ سکتے ہیں ان میں ایک مسئلہ یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک ہی چنگ چی میں مرد اور خواتین کو ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھا یا جاتا ہے ۔ جس سے خواتین کو تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ موٹر سائیکل والی چنگ چی میں پیچھے کی جانب صرف خواتین کو بیٹھا دیا جاتا تھا جس کے وجہ سے انہیں آرام اور سکون کے ساتھ سفر کرنا پڑتا تھا ۔ چنگ چی چلانے والے ایک عبد الباسط نے کہا کہ انہیں قانون نافذ کرنے والے اداروں پولیس و ٹریفک پولیس کی جانب سے کبھی مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑا ۔ لیکن جب پابندی عائد ہوئی اور اب صرف چھ سیٹر چنگ چی چلنے کی اجازت ہوئی ہے تو اب پولیس والے سڑکوں پر آنے کی قطعی اجازت نہیں دیتے ۔ اس صورتحال میں اب ہم لوگ اپنی گاڑیوں کو گلی اور محلوں میں ہی چلاتے ہیں اور سامان کی منتقلی کیلئے بھی انہیں استعمال کرتے ہیں۔

ٹریفک اہلکار ارشد کا کہنا تھا کہ چنگ چی کی وجہ سے ٹریفک کی روانی میں شدید رکاوٹ آجاتی تھی پابندی کی وجہ سے ٹریفک کی روانی میں کسی بھی طرح کی رکاوٹ سامنے نہیں آئی ہے۔ یہ بات درست ہے کہ کراچی کی سڑکیں سنگ ہیں اور ٹریفک زیادہ لیکن اس کے ساتھ یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہئے کہ جہاں ٹریفک جام ہوتی ہے وہ صرف سڑک کی تنگی کی وجہ سے نہیں ہوتی بلکہ اور بھی رکاوٹیں اس تنگی کا باعث بنتی ہیں۔ پولیس اہلکار نسیم علی کا کہنا تھا کہ ٹریفک روانی میں رکاوٹ رانگ ٹریفک کی بھی ایک بڑی وجہ ہے ۔ ایک سڑک پر اگر ایک ہی جانب سے ٹریفک رواں رہے تو ٹریفک نہ جام ہوتی ہے اور نہ کوئی اور مسئلہ درپیش ہوتا ہے لیکن ہماری عوام تو اپنے فائدے کیلئے رانگ وے پر جانے کو بھی اپنا حق سمجھتی ہے۔

شعبہ تعلیم سے تعلق رکھنے والے یوسف رضا نے کہا کہ شہر قائد کی مجموعی آباد ی کو دیکھیں اور سڑکوں کی صورتحال بھی سامنے رہے تو ٹریفک کا جام ہونا لازمی ہے ۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ چنگ چی کو عوام کیلئے اس انداز میں چلانے کی اجازت دے جس سے مسائل حل ہوں نہ کہ مسائل میں اضافہ ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ مسئلہ جس قدر بھی بڑا ہو اس کا حل موجود ہوتا ہے اس لئے چنگ چی کو مسئلہ نہ سمجھا اور بنایا جائے ۔
 
تفصیلی سروے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اگر حکومت عوام کے مفاد کیلئے سنجیدگی سے کوئی اقدام کرے اور اس اقدام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا عمل کر دکھائے تو اس سے شہر قائد کے عوام میں مسائل سے پریشانی کے بجائے انہیں حل کرنے کے جذبات بڑھیں گے۔ ٹریفک روانی کیلئے موجود قوانیں پر عملدرآمد سے ٹریفک کے مسائل حل رہیں گے ، یہ اس وقت ہی ممکن ہوگا جب قوانین پر عملدرآمد کرنے والے عوام خاص بھی ہوں اور عوام عام بھی۔
Hafeez khattak
About the Author: Hafeez khattak Read More Articles by Hafeez khattak: 195 Articles with 165851 views came to the journalism through an accident, now trying to become a journalist from last 12 years,
write to express and share me feeling as well taug
.. View More