طلبہ یونین کی بحالی معاشرتی ترقی و سربلندی کے لئے امر لازم
(Attique Ur Rehman, Islamabad)
انسانی سماج کی کامیابی و کامرانی میں
معاشرے کے نوجوان طبقے کا نہایت اہم کردار و حصہ ہے ۔سیاسی و مذہبی،لسانی و
قومی تحریکوں کو عوامی حمایت بھی صرف اور صرف نئے خون کے سبب ملی ۔بعثت
اسلام سے قبل بھی اور بعثت کے بعد بھی شباب و جوانوں نے اسلام کی دعوت کو
پھلنے پھولنے میں ایک متقوی غذا کا کام دیا ۔اسی سبب ہم دیکھتے ہیں کہ نبی
کریمؐ کی جماعت اول کے سبھی لوگ نوجوان و باشعور تھے جس کے سبب انہوں نے
اپنی محنت و جدوجہد کے نتیجہ میں اس وقت کی دو عظیم سپر پاور قوتوں کو زیر
نگین کیا اور ان کو مسخر کر کے ان پر پھریرا اسلام کو وہاں پر لہرا
دیا۔اسلام کے ہیرو حضرت اسامہ بن زید،حضرت خالد بن ولید و حضرت عمروابن
العاص حضرت ابوعبیدہ بن الجراح وصلاح الدین و محمد الفاتح اور محمد ابن
قاسم سمیت متعدد قائد و سرخیل حق و مجاہدین اسلام سبھی اسی عہد سے وابستہ
تھے کہ ان کا خون نا صرف گرم تھا بلکہ ان میں اسلام کی دعوت و پیغام سے اس
قدر محبت تھی کہ وہ اس کو اپنا اوڑھنا بناچکے تھے۔ یہی ہی نہیں بلکہ بعد کے
زمانہ میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں جتنے بھی انقلابات پباہوئے اور
کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہوئے ان سب میں نوجوانوں کا اہم کردار رہاہے۔
تحریک خلافت و تحریک آزادی و تحریک کشمیر اور تحریک پاکستان میں سرگرم عمل
رہنے والوں میں نوجوان کسی سے پیچھے نہیں تھے۔مسلم لیگ کا شعبہ طلبہ نہایت
سرگرم و عمل رہاہے جس کے نتیجہ میں مسلم لیگ کے جلسوں اور کانفرنسوں کے
تمام انتظام نوجوان ہی سنبھالتے تھے۔جس کا اعتراف و ثبوت کے لئے اتنا ہی
کافی ہے کہ علامہ اقبالؒ و قائد اعظم ؒنے نوجوانوں کے زیراانتظام منعقدہ
کانفرنس میں بخوشی شرکت کی ۔معاملہ علامہ اقبال ؒ کا تو مزید آگئے بڑھا
ہواہے کہ انہوں نے اپنی شاعری کا محور و مرکز اور خطاب بھی نوجوانوں کو
بنایا جنہیں مختلف انداز سے مخاطب کرتے رہے کیوں کہ وہ سمجھتے تھے کہ
برصغیر کی آزادی اور انگریز کی بے دخلی کے لئے اساسی و اہم کردار نوجوانوں
کا ہی ہے۔اس لئے انہوں نے نوجوانوں سے متعلق یہ شعر بھی کہا تھاکہ:
جھپٹنا پلٹنا پلٹ کر جھپٹنا لہوگرم رکھنے کا ہے اک بہانا
یعنی کہ علامہ یہ جانتے تھے کہ ان کا شاہین و جاوید ہی وہ قوت و طاقت اور
صلاحیت رکھتاہے کہ اپنی محنت و سعی سے انگریز کو اس خطے سے ناصرف بے دخل
کردے گا بلکہ اسلام اور مسلمانوں کی سربلندی کے لئے بھی یہی شاہین قائدانہ
کردار اداکرے گا۔
بدقسمتی سے کہنا پڑتاہے کہ سرمایادار و سردارطبقوں نے طلبہ و نوجوانوں کو
اپنا دشمن سمجھتے ہوئے ان کی سرگرمیوں کو مقید کرنے کی کوشش کی مگر جب ایوب
خان کو اس وقت ناکامی ہوئی تو یہ فریضہ مارشل لاء کے ذریعہ جنرل ضیاء الحق
نے طلبہ یونین پر پابندی کا اعلان کیا ۔اس کے سببب معاشرے میں مساوات و
برابری کا خاتمہ ہوگیا کیوں کہ سیاستدانوں اور سرداروں کے مدمقابل آنے والے
طبقے کو ختم کردیا گیا جس کے سبب ملک پاک بے پناہ مسائل سے دوچار ہوا۔مملکت
سے احتساب کے عمل کا خاتمہ ہوگیا ۔اس امر میں شک و شبہ نہیں ہے کہ سماج کے
دیگر شعبہ جات کی طرح کالی بھیڑیں اور غلط لوگ طلبہ کے طبقہ میں بھی موجود
ہیں جن کا مقصد تعلیم و تربیت اور اسلام و ملک کی خدمت ہرگز نہیں ہوتابلکہ
وہ اپنی ذات اور مادہ پرستی کے سحر میں گرفتار ہوتے ہیں جس کے باعث وہ اپنی
قوت و صلاحیت اور طاقت کا ناجائز استعمال کرتے ہیں ۔لیکن یہ امر اس جانب لے
جانے کا سبب نہیں ہونا چاہیے کہ ہم طلبہ یونین اور نوجوانوں کے ان کے حق
آزادی سے ہی محروم کردیں ۔باوجود اس کے کہ ملک کے تمام طبقات کو سیاسی و
مذہبی ،لسانی و قومی ،تجار و لیبر کواور ملک کے تعلیمی اداروں اور دیگر
اداروں میں تمام کام کرنے والوں کو یونین قائم کرنے کی اجازت موجود ہے مگر
صرف اور صرف طلبہ کے حقوق کوجبرا ًغصب کیا گیا ہے اور یہ امر ظلم عظیم ہے۔
یہی وجہ ہے کہ تعلیمی اداروں میں تعلیم کے معیار میں کمی واقع ہوئی ہے کہ
اساتذہ و منتظمین بلاخوف و تردد من چاہی زندگی بسر کررہے ہیں اور مال و زر
کے ذریعہ درجات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ جنسی حراساں تک کرنے کے واقعات اس
مقدس پیشہ کو مجروح کیے ہوئے ہے۔سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ملاک پاکستان کے
بیشتر اداروں میں ملازمتوں سے فارغ ہونے کے باوجود بزرگ لوگ مناصب پر قابض
و براجمان ہیں کیوں کہ نئی نسل کے پاس قائدانہ صلاحیتوں کا فقدان ہے اوراسی
سبب ملک میں تشدد و عدم برداشت کا عنصر فروغ پارہاہے۔ایسے میں لازم
ہوجاتاہے کہ اگر ہم واقعتاً مخلص ہیں اپنے وطن اور ملت کے ساتھ تو ان کے
نوجوانوں کو آزادی رائے کا موقع دیں اور ان کے حقوق کا تحفظ کریں۔
طلبہ تنظیمیں گاہے بگاہے طلبہ یونین کی بحالی کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں جس
کے نتیجہ میں ملک پاکستان کا سپریم ادارہ سینٹ بھی گذشتہ ماہ طلبہ یونین کی
بحالی کے مسئلہ پر غور کرنے پر مجبور ہوا اور اس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ
طلبہ یونین کو فی الفور بحال کیا جانا چاہیے ۔ایوان سینٹ میں طلبہ کے حقوق
کے حق میں اپوزیشن و حکومت کے سبھی ارکان متفق تھے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا
طلبہ کے دکھوں کا مداوا ہوگا یا پھر ماضی کی حکومت کی طرح اس بار بھی طلبہ
کے جذبات کو سرد کرنے کے لئے لیت و لعل سے کام لیا جائے گا۔سینٹ میں طلبہ
یونین کا موضوع زیر بحث آنے کے سبب طلبہ تنظیمیں بھی متحرک ہوگی ہیں کہ
انہوں نے طلبہ یونین کی بحالی کے لئے پریس کانفرنسوں ،پریس ریلیز اور
مظاہروں کا سلسلہ ملک کے طول و عرض میں شروع کردیاہے۔اس سلسلہ میں اسلامی
جمعیت کے نومنتخب ناظم اعلیٰ صہیب الدین کاکاخیل نے ایک بیان میں حکومت سے
مطالبہ کیا ہے کہ جلد سے جلد طلبہ یونین کو بحال کرکے ان کے الیکشن کروائے
جائیں۔جمہوری حکومت میں طلبہ یونین کی عدم بحالی جمہوری روایات کا قتل عام
ہے۔تعلیمی اداروں میں پیش آنے والے جمیع مسائل کا حل طلبہ یونین کی بحالی
میں مضمر ہے۔انہوں نے کہا کہ یونین پر پابندی کی وجہ سے ہی تعلیمی نظام بری
طرح متاثر ہوا،تعلیم کو طبقات میں تقسیم کرکے غریب و نادار طلبہ پر تعلیم
کے دروازے بند کردئے گے۔انہوں نے کہا کہ سینٹ میں طلبہ یونین کا مسئلہ زیر
بحث آنا خوش آئندہے اب ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت عملی قدم اٹھاتے ہوئے
طلبہ یونین کو بحال کرے تاکہ تعلیمی اداروں سے بدمزگی و تشدد اور عدم
پرداشت کے عنصر کا خاتمہ ہوسکے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ موجودہ حکومت تعلیمی
شعبہ کو درست و بہتر کرنے میں مخلص نہیں جس کے سبب وہ حیلے بہانوں سے طلبہ
و اساتذہ کو امتیازی سلوک کا نشانہ بناتے ہیں ۔دن بدن شعبہ تعلیم ملک میں
کمزور ہوتاجارہاہے اور ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ اگر اساتذہ اپنے حقوق کے
لئے احتجاج کو اختیار کریں گے تو کیوں گر ممکن ہے کہ شعبہ تعلیم اور تعلیم
ترقی کرے؟ اسی طرح طلبہ کی ایک تنظیم انجمن طلبہ اسلام نے ’’طلبہ یونین
‘‘پر پابندی کے خلاف اسلام آباد میں یوم سیاہ منایا اور انہوں نے سپرمارکیٹ
سے نیشنل پریس کلب تک ریلی نکالی جس کی قیادت اے ٹی آئی کے مرکزی سیکریٹری
اطلاعات سید وقار شاہ ،اسلامی یونیورسٹی کے ناظم فیاض حسین مصطفائی نے کی
اور انہوں نے مظاہرہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ طلبہ یونین پر پابندی کالا
قانون ہے اور ہم اس کی مذمت کرتے ہیں اور حکومت وقت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ
وہ فی الفور طلبہ یونین کو بحال کریں تاکہ طلبہ اپنے حقوق کے حصول کے لئے
عملی جدوجہد کرسکیں۔اے ٹی آئی نے ساتھ ہی حکومت ،ایچ ای سی اور تعلیمی
اداروں کے سربراہان کو متنبہ کیا کہ اگر ان کے یک نکاتی مطالبے کو منظور نہ
کیا گیا تو اگلے مرحلے میں وہ تعلیمی کلاسز کا بائیکاٹ کریں گے تاوقتیکہ
حکومت طلبہ یونین کے الیکشن پر سے پابندی ختم کردے۔
میں یہ سمجھتاہوں کہ ملک پاک کی سبھی چھوٹی بڑی طلبہ تنظیمیں ’’طلبہ
یونین‘‘پر سے پابندی ہٹانے کا مطالبہ کرتی ہیں تو ایسے میں لازمی ہے کہ
حکومت طلبہ کی صلاحیتوں کو جلابخشنے کے لئے طلبہ یونین کے الیکشن کا جلد سے
جلد اعلان کرے۔اور جہاں تک بات رہی ہے کہ طلبہ یا طلبہ تنظیموں میں متشدد
اور انتہاپسند یا ذاتی مفادات کے حصول کے لئے طلبہ کی قوت کا ناجائز
استعمال کرنے والوں کی تو حکومت اور انتظامی اداروں کو چاہیے کہ وہ ایسے
طلبہ پر کڑی نظر رکھیں اور ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی عمل میں
لائیں۔طلبہ تنظیموں پر بھی ضروری وواجب ہے کہ وہ اختلاف جماعت کوافتراق و
نفرت کے درجہ تک نہ پہنچائیں بلکہ باہم انسانیت اور اسلامیت کے سبب محبت و
موددت کے رشتے کو فروغ دیں اور ان کی صفوں میں موجود غلط لوگوں سے خودہی
رضاکارانہ طورپر برأت کا اعلان کریں ۔کیوں کہ ہمارادین ہمیں اسی بات کی
تلقین کرتاہے کہ ہم حق و سچ کا ساتھ دیں اگرچہ وہ ہماری ذات یا خاندان و
والدین کے خلاف بھی کیوں نہ ہو،یہی امر ہم سب طلبہ کے لئے امید سحر کا سبب
بنے گا۔ |
|