جہنم کے سوداگر - دوسری قسط

جہنم کے سوداگر(تحریر:محمد جبران) راوی :وقارعلی جان
نامعلوم حملہ آور (دوسری قسط)
میں نے ایک دم مسکراتے ہوئے سگریٹ ہونٹوں کو لگایااور پھر ایک گہراکش لیکر دھواں چھوڑ ا ہی تھا کہ کرنل گویاہوا:
"یہ کیاہورہاتھا۔۔۔۔؟ "کرنل اشر نے اسی طرح مجھے گھورتے ہوئے کہاتومیرا دل کیا کہ بھڑوں کا چھتہ کھول کر اس کے منہ سے لگالواور تب تک اس کے منہ سے لگائے رکھوں جب تک اس کامنہ سوج کرٹماٹر جیسانہ ہوجائے۔مگر ہر شرارتی خواہش پوری نہیں ہوتی اور اگر پوری ہوجاتی توکتنامزہ آتا مگراسے ابھی ہمارے سروں پر مسلط رہناتھا ۔
"دیکھیں ناں کرنل صاحب بالکل چڑیل لگ رہی تھی،سچ بولا تو برا مان گئی ۔اب آپ خود ہی انصاف کریں کہ کیا اب یہ بڑھی نہیں ہوگئی اور اسکے چہرے پر جھریاں نہیں آگئیں؟ ۔۔"میں نے اسے مسکراتے ہوئے کہاتووہ قہقہہ لگا کر ہنس پڑااور پھر اس نے میری پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کہا۔
"بہت شریر ہوگئے ہوتم ۔۔۔۔۔یقین کرووہ صحیح کہہ رہی تھی جب سے تم پاکستان سے لوٹے ہو تب سے تمہارے مزاج میں بڑی خوشگوار تبدیلیاں آگئی ہیں اور مجھے بڑی خوشی ہے پر یارد یکھو اتنی خوش شکل عورتوں کا دل نہ توڑا کرو۔یہ بہت معصوم ہوتی ہیں ان کی تھوڑی سی تعریف کردوتویہ خوش ہوجاتی ہیں ۔ویسے پہلے توتم اس کے پیچھے لگے رہتے تھے اب یہ تمہارے پیچھے لگی رہتی ہے یہ چکرکیاہے ؟"کرنل نے مجھے اپنی دائیں آنکھ دباکرکہاتو میرا دل کیا کہ خولیل لیکر بالکل اسی آنکھ پرجو اس نے دبائی تھی ایک پتھر دے ماروں اور اس کی آنکھ ہمیشہ کے لئے ہی دبی رہے ۔پہلے کم بھیانک تھاجو اب اسکی یہ آنکھ پھوڑدی جاتی تو مزید نکھر جاتا ۔اس کی جسامت بالکل گینڈے جیسی تھی ،اگر اسے چڑیاگھر پہنچادیاجاتاتو وہاں یہ باقی جانوروں کے ساتھ اچھی خاصی کمپنی کرلیتاکم سے کم میری جان تو چھوٹ جاتی اس سے نئے باس کو پھر دیکھ لیتے۔جس طر ح یہ ہمارے کان کھاتاتھا اگر اسی طرح سے یہ چڑیاگھر والوں کے کان کھانے لگ جاتاتو سچ میں ان کی بھی بوریت ختم ہوجاتاتی۔ویسے بھی وہ سارا دن ہی فارغ ہوتے ہیں یہ بھی فارغ ہی تھاتبھی اسے ہری ہری سوجھتی تھی۔
"دیکھیں کرنل صاحب انسان کو وقت کے ساتھ ساتھ بدلتے رہناچاہے ،اب دیکھیں ناں وہ بدل گئی تو غصہ کرتے ہوئے کیسی عجیب و غریب مخلوق لگتی ہے ۔سیدھی سی بات ہے پہلے میں اس کے پیچھے لگا رہتاتھاکہ یہ مجھ سے شادی کرلے تو اس کو نخرہ تھایہ نہیں مانتی تھی ۔ اب یہ میرے پیچھے لگی رہتی ہے کہ میں اس سے شادی کرلوں تو اب میرا ارادہ بدل گیاہے۔اگر آپ یہ کہیں کہ اب مجھ میں نخرہ آگیا ہے تو مجھے برا نہیں لگے گا۔ویسے بھی انسان کے زندگی میں کچھ اصول ہونے چاہیں ان کے بغیر تو انسان آگے نہیں بڑھ سکتا۔اب مایاکے کوئی اصول نہیں ہیں تو ا س میرا قصور تو نہیں ہیں ناں؟"میں نے ایک کش لیکردھواں فضامیں چھوڑتے ہوئے مسکراکرکہاتومیری بات پر کرنل بھی مسکرانے لگا۔پھر اس نے کہا:
"تم باتیں خوب بنالیتے ہویقین کرو اگرتم سیکرٹ ایجنٹ نہ ہوتے تو یقیناًکہیں نہ کہیں باتیں بنانے کے کورس کروارہے ہوتے۔ آجایار تھوڑا ٹائم ہمیں بھی دے دیاکر۔۔۔۔۔۔ تم سے تھوڑی ضروری باتیں کرنی ہیں ۔۔۔"اس کی بات سن کر میں نے پھر سگریٹ منہ سے لگایاکش لیااور دھواں چھوڑنے کے بعدمیں پھر مسکرایااور سر کوہلکی سی جنبش دی تووہ میرا ہاتھ پکڑکر اپنے آفس کی طرف لے جانے لگا۔تھوڑی دیر میں ہم اسی راہداری میں اسکے آفس کے گلاس ڈورز کھول کر اندرداخل ہورہے تھے۔یہ بلیک ڈائمنڈایجنسی کاہیڈکرواٹرتھا۔ جو نیویارک سٹی کے مشہور ومعروف براڈوے روڈ پر ایک دس منزلہ عمارت میں واقع تھا۔اس کا ہیڈکواٹر ماضی میں دوباراپنی لوکیشنز بدلتارہاتھااور اب یہ اسکی تیسری عمارت تھی۔عمارت بدلنے کی وجہ بہت کوششوں کے باوجود بھی مجھے سمجھ نہیں آئی تھی۔ایک اندازہ یہی تھاکہ ایجنسی اپنی اصل شناخت اپنے دشمنوں سے خفیہ رکھنے کے لئے بار بار اپنی لوکیشنز بدل رہی تھی۔اس بات کا ذکر میں نے کرنل سے بھی کیاتھاکہ کیوں ہیڈکواٹر کی عمارت بدلی جاتی ہے تو کرنل مجھے بات بتائے بغیر ٹال جاتاتھا۔
وہ ایک بہترین انداز میں سجاہواکمرہ تھادیواروں پر نادر مصوری کی تصاویر موجود تھیں۔بہترین قالین اور کھڑکیوں پر شاندار پردے آویزاں تھے ۔دیوار پر موجود دیگرتصاویر میں خاص طور پر ایک تصویر ادھورے اہرام کی بھی تھی اوراس کے اوپر ایک چمکتی ہوئی آنکھ بھی بنی ہوئی تھی۔جہاں اس قسم کی تصویرآپکی نظر سے گذرے تو ایک لمحے کے لئے اسے رک کر اس پرآپ کو ضرور غوروفکر کرناچاہے کہ اس قسم کی تصویر کاکیامقصدہوسکتاہے اور اس کے پیچھے اصل کہانی کیاہے؟اگر آپ میں سے کسی کاامریکہ جانے کا اتفاق ہوتووہاں پر جو ایک ڈالرکا کرنسی نوٹ استعمال ہوتا ہے اس پر بھی یہ تصویر موجود ہے اور اس قسم کی تصاویر آپ کو امریکہ میں جگہ جگہ ملیں گیں ۔اگر یہ اس قدر استعمال ہورہی ہیں تو یقیناآپ سمجھ جائیں کہ اس تصویر کی کوئی نہ کوئی خاص بات ضرور ہے،ورنہ یہ اتنااستعمال نہ ہورہی ہوتی۔ یہ تصویر انہی کی علامتی تصویرہے جس پرمیں اپنی یہ آپ بیتی لکھ رہاہوں۔یہ شیطان کے پجاریوں کی علامتی تصویر ہے جو دراصل جہنم کے سوداگر ہیں ۔اس لئے کہ وہ حقیقت میں اس دنیا کو جہنم بنانے کے لئے تلے ہوئے ہیں ۔یہ آنکھ اسی شیطان کی ہے جس کے یہ کرنل سمیت پجاری ہیں بظاہر یہودیت اور اسرائیل کا نعرہ لگانے والے اور یہودیوں کے حقوق پر علم بلند کر نے والے تمام صیہونی دراصل اسی شیطان کے پجاری ہیں جسکی یہ آنکھ ہے۔بہت سے لوگ اسے دجال بھی کہتے ہیں اور بہت سے لوگوں کا یہ مانناہے کہ یہ آنکھ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ہم سب پر نظر رکھ رہاہے۔یہ آنکھ آپکو اکثر ٹی وی کے پروگرامزمیں بھی نظر آئے گی ،اس کے علاوہ اشتہارات میں بھی نظر آئے گی اور دیگر بل بورڈز وغیرہ پربھی۔شیطان کے پجاریوں میں ایک خاص بات یہ کہ یہ سب علامات پر یقین رکھتے ہیں اور انہی علامات میں ایک آنکھ اور یہ ادھورا اہرام بھی ہے۔اس راز سے میں مزید آگے چل کر پردہ اٹھاؤں گاتب تک کے لئے میں آپ لوگوں کے صبر کاامتحان لینے پر معذرت خواہ ہوں۔
کرنل اشر ایک درمیانے سائزکی میزکی دوسری طرف گھوم کرایک ریوالونگ چیئر پر بیٹھ کراس نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے بیٹھنے کو کہا۔ تواسکی اجازت کے بعد میں بھی اسکے سامنے بیٹھ گیا۔میزپر ایک دو نمائشی پیس رکھے ہوئے تھے جبکہ درمیان میں امریکہ اور اسرائیل کے چھوٹے جھنڈے موجود تھے۔کمرہ ساؤنڈ پروف تھا،نیم سردیوں کے دن تھے اور اس وقت کمرے میں دیوار پر لگے ہوئے کلاک کی ٹک ٹک ٹک ٹک ہورہی تھی۔کرنل کا چہرہ ایک دم سے سپاٹ ہوگیااور آنکھوں میں پراسرار چمک عودآئی ۔میں نے بے چینی سے پہلوبدلا تو اس نے قدرے آگے جھکتے ہوئے راز داری سے کہا۔
" کیاتم میرے ساتھ کبھی میرے عقیدے کے لوگوں کوعبادت کرتاہوادیکھو گے؟" اس نے انتہائی پراسرارلہجے میں کہااور پھر وہ میرے چہرے کے تاثرات کا بغور جائزہ لینے لگا۔مجھے بھی اپنے جذبات چھپانے کی مکمل مہارت تھی،میں نے کبھی بھی کسی کو اپنے چہرے کے تاثرات سے اپنے اندر کی کیفیات کااندازہ لگانے کا موقع نہیں دیا۔ بلکہ کئی دفعہ میں اپنے مخالف کو اپنی اندرونی کیفیات کے بالکل برعکس نئے اور نہ پڑھے جانے والے تاثرات طاری کرکے دھوکادینے میں کامیاب ہوجاتاتھا۔ میں چہرے پر کمال مہارت سے حیرت کے تاثرات پیداکرتے ہوئے کہا۔
"میں آپکی بات نہیں سمجھا،ہم سب یہودی ہیں او راپنی عبادت گاہ میں عبادت کے لئے جاتے ہیں۔جسے ہم تفلیح کہتے ہیں اور دن میں سو دفع برخوت بھی پڑھتے ہیں ۔جس میں ہم اپنے آپ کو ایک مخصوص انداز میں موڑ کر اس کے سامنے جھکتے ہوئے برخوت دعاپڑھتے ہیں۔لیکن آپ کس قسم کی عبادت کی بات کررہے ہیں؟ہم یہودیوں میں تو یہی بہت کامن ہیے ؟؟؟"
"تم بس حامی بھر و تو میں تمہیں کچھ بہت ہی حیران کن دیکھانا چاہتاہوں جو آج تک تم نے نہیں دیکھاہوگا۔ مگر تم ایک وعدہ کرو کے اس کا ذکر کسی اور سے نہیں کرو گے اورہم نائن الیون کے بعد خفیہ طور پر روانہ ہوجائیں گے ۔ ہم نے بس چند گھنٹے وہاں گزارنے ہیں پھر خفیہ طور پر واپس بھی آجائیں گے۔کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوگی اس دوران میں تمہیں بہت سی ایسی باتیں بتاؤں گا جو اس سے قبل آپ کی نظروں سے کبھی نہیں گزری ہونگی۔تمہیں اکثر میری خفیہ سرگرمیوں پر تشویش ہوتی ہے تمہیں بہت جلد ان کا جواب مل جائے گامگر شرط وہی ہوگی کہ تم ہمارے اس سفر کو خفیہ رکھوگے۔یہ جو میرے اوپر تصویر دیکھ رہے ہو۔اس میں ایک آنکھ بنی ہوئی ہے جانتے ہو یہ کیاہے؟اور اس کامقصد کیا ہے؟ اس سے دولت، عزت، شہرت سب کچھ آپ کے قدموں میں پڑا ہواملتاہے۔میں سمجھتاہوں کہ اگر تم میرے ساتھ چلوگے تو تمہاری زندگی میں بہت سی حیرت انگیز تبدیلیاں آئیں گی۔ایک نیاتجربہ ہوگاممکن ہے تم اپنا مذہب ہی بدلو،یقین کروان روائتی مذاہب میں کچھ نہیں رکھا۔دن رات ہمیں ہمارے مذہبی رہنماہمیں ڈراتے رہتے ہیں،ڈر اور خوب کا دوسرا نام مذہب ہے مگر میں چاہتاہوں کہ تم اپنے ڈر پر قابو پا کر اس مذہب کی طرف آؤ جس میں تمہیں کوئی ڈر اور خو ف نہیں ہوگاہوسکتاہے کہ تمہارا ارادہ بدل جائے۔"اس کی باتیں سن کر مجھے اس پر تھوڑی حیرت ضرور ہوئی تھی مگر کیا یہودیت تک تومیں اپنی شناخت بدل سکتاتھامگر اب یہ مجھے ایک نئے مذہب کی طرف بلارہاتھا ۔میں چند لمحوں تک تذبذب میں رہاکہ کیاٖفیصلہ کیا جائے کیونکہ یہ ایک بہت بڑا فیصلہ تھاجس کامیرے مستقبل پر بہت گہرااثرپڑنے والاتھا۔اس پر تبصرہ کرنافل الحال میرے لئے مشکل تھانہ جانے کرنل مجھے کہاں لے جانے کی بات کررہاتھا اور وہ کیاچاہتاتھا۔اگر میں نے حامی بھر ی تو اس کا مجھ پر کیا اثر ہوگا اوراگرانکار کیاتو نہ جانے مجھے کن نئے خطرات کا سامنا کرناپڑے۔جان کاخطرہ تو ہر وقت ہی تھا مگر میں نہیں چاہتاتھاکہ بلاوجہ مارا جاؤں اور اس میں مسلمانوں اور خاص طور پر پاکستان کا میرے اس فیصلے پر کیا اثر پڑسکتاہے ۔کیونکہ میں اکیلا نہیں تھا اور میرے ساتھ کئی جانیں نتھی تھیں ۔مجھے اپنی جان کی تو کوئی پرواہ نہیں تھی مگر انسان جان بھی تب دے جس سے بہت بڑا مسئلہ حل ہوتاہویامیرے خون سے بہت بڑی تبدیلی متوقع ہو۔ کچھ اسی قسم کے سوالات اور خدشات میرے سینے میں کانٹوں کی طرح چبھ رہے تھے ۔جن پرفوری فیصلہ کرنا قدرے مشکل تھا،ان تمام خیالوں کے تاثرات کو میں نے اپنے چہرے سے عیاں نہیں ہونے دیا۔میں نے الفاظ کو جوڑ کر خوب تولتے ہوئے کہا:
"کرنل صاحب آپ کی باتوں سے میراتجسس اور بڑھ گیاہے،یقینااگر آپ نے مجھے اپنا سب سے بڑا راز بنانے کا فیصلہ کیا ہے توخوب سوچ سمجھ کر کیاہوگا۔میں نہیں چاہتاکہ میں کبھی بھی آپ کو مایوس کروں ،آپ تو جانتے ہیں کہ میرا سارا فوکس گریٹ گیم کی طرف ہے۔اگر میں آپ کے مزید قریب آگیا تو یہ میرے لئے کسی اعزاز سے کم نہیں ہوگا۔اگر آپ نے میرے بارے میں اتنابڑا فیصلہ کیاتو ضرور اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی حکمت رہی ہوگی۔میں آپ کو زبان دیتا ہوں کہ یہاں جو بھی گفتگو ہوئی یہ آپ کے اور میرے درمیان میں رہے گی اور آپ تو جانتے ہیں جب ڈیوڈ کوئی وعدہ کرلے تو اسے آخری حد تک نبھاتا ہے۔لیکن میں چاہتاہوں کہ اتنابڑا فیصلہ کرنے سے قبل اس پر ٹھنڈے دماغ سے تنہائی میں سوچ لوں ۔مجھے پوری امید ہے کہ آپ مایوسی نہیں ہوگی۔"کرنل میری گفتگو کے دوران ہلکاہلکامسکراتا رہااور پھر وہ کہنے لگا۔
"گڈشو ڈیوڈ،مجھے تم سے اسی قسم کے جواب کی امیدتھی۔تم نے مجھے اب مطمئن کردیاہے کہ میرا فیصلہ ایک بار پھرٹھیک ثابت ہوا۔ میں نے یہ سب کچھ تمہارے فائدے کے لئے کیاہے تاکہ تم مزید ترقی کرسکو۔میں نے جب سے تمہیں اپنی ایجنسی میں لیاہے تم نے مجھے کبھی مایوس نہیں کیااور تمہاری صلاحیتوں سے میں ہمیشہ خوش ہوا ہوں۔مجھے امید ہے کہ تم اب بھی مجھے مایوس نہیں کروگے،تمہیں اجازت ہے تم خوب سوچ سمجھ کر مجھے اپنے جواب سے آگاہ کرنامیں تمہارا جواب پاتے ہی چیف سے بات کروں گااور تمہارے جانے کابندوبست ہوگا۔"اسے میرے جواب سے کافی تسلی ہوئی تھی اور اسے اب یہ بھی امید تھی کہ میں جانے کی حامی بھر لوں گا۔پھر اس نے اپنی میزکی دراز کھولی اور اس میں سے ایک لفافہ نکال کرمیزپررکھ لیا۔کچھ دیربعد وہ اس لفافے میں سے چند فوٹو گراف نکال رہاتھا۔بعدازں اس نے ان فوٹوگرافس میں سے چار کاانتخاب کر کے انہیں میری طرف بڑھادیا۔
"یہ ان انیس ہائی جیکرز میں سے چار کی فوٹوگرافس ہیں ،انہیں تم اپنے پاس رکھ لو۔میں چاہتاہوں کہ کل تم انہیں ہمارے خفیہ پوائنٹ زیرو ون پر ملوان سے ذرا انٹرویووغیرہ کرو۔تم ان سے تحریک الشیر گروپ کے امریکہ میں نمائندے کی حیثیت سے مل سکتے ہو۔چاہوتو دو چارگالیاں امریکہ کوبھی نکال لینااور اگر اس سے زیادہ بھی نکال لو گے تو میری صحت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔اس تنظیم نے نائن الیون کے بعد ہی دہشت گرد تنظیم کی حیثیت اختیار کرلینی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ تم پھر اس کے سربراہ ابوالمسعود سے ملو جو افغانستان میں ہے،اس کو ایک چپ دے کر آنا جس میں کچھ ہدایات ہیں ۔ہدایات اپنی جگہ مگراس چپ کے ذریعے ہم اسے مکمل ٹریک کریں گے،میں نہیں چاہتا کہ یہ کسی بھی وقت باغی ہوکر ہمارے ہاتھ سے نکل جائے۔ جس وقت یہ باغی ہوگا اس کی ٹریکنگ تو پہلے ہی ہم کررہے ہیں ہم اسی لوکیشن پر ڈرون مارکر اسے ختم کردیں گے۔۔۔۔۔"اس کے بعد وہ پھر دراز میں ہاتھ ڈال کر جھکااور پھر اس نے ایک نقشہ نکال کر میز پر پھیلادیا۔میں نے وہ فوٹوگرافس اس سے لیکر اپنے کوٹ کی اندرونی جیب میں ڈال لیں ۔اس کے ساتھ ہی اس نے ایک پین نکال کر اس کی مدد سے مجھے متوجہ کرتے ہوئے کہا:
"یہ دیکھو یہ اسرائیل ہے،اس کے جنوب مشرقی کنارے پر بحیرہ روم واقع ہے ،اس کے شمالی کنارے کے خلیج عقبہ پر بحیرہ احمر ہے۔جسکی سرحدیں لبنان کے شمال میں جاکر ملتی ہیں پھر شمال مشرقی طرف شام ہے اور یہ دیکھو یہ مشرق کی طر ف اردن ہے ۔پھر ان کو بھی دیکھ لو یہ مشرق اور مغرب کی طرف فلسطینی علاقے ہیں جن میں ایک ویسٹ بینک ہے اور دوسری غزہ کی پٹی۔ان میں سے کچھ حصے ہمارے اپنے کنٹرول میں ہیں اور یہ جنوب مغرب کی طرف مصر واقع ہے۔اس کے بعد یہ دیگر اسلامی ممالک جس میں عراق ،ترکی ،ایران ،سعودی عرب اور لیبیا وغیر شامل ہیں ۔جنہیں ہم خاص طور اسرائیل کے دشمن ممالک کہتے ہیں ۔اس نقشے کو تم پہلے بھی کئی دفعہ دیکھ چکے ہومگر میں تمہیں اس نقشے اور اس میں موجود تمام مسلم ممالک کواس لئے دکھارہاہوں تاکہ تمہیں ایک خاص چیز دکھا سکوں ۔۔۔۔۔"اس کے بعد اس نے ایک فائل نکال کر میرے سامنے رکھتے ہوئے کہا۔
"اگلے پندرہ سالوں میں یہاں ان میں سے کوئی بھی بھی ملک مکمل طور پر محفوظ نہیں ہوگا۔ہم ایک ایک کر کے ہر ملک کے حالات خراب کرتے جائیں گے اور حکومتوں کے تختے الٹتے چلے جائیں گے اور جو حکومت خود نہیں جائے گی وہاں ہم امریکی فوجی بھیج دیں گے۔تاکہ اسرائیل کے بڑھنے اور پھلنے پھولنے کی راہ ہموار ہوسکیں ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ جو ملک کچھ زیادہ ہی مضبوط ہوں انہیں اتناکھوکھلاکردیا جائے کہ وہ دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑے نہ ہوسکے اور جو ملک کھڑے ہی نہ ہوسکیں وہ اسرائیل کے لئے کہاں خطرہ بن سکتے ہیں؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"بہت دھماکے دار قسم کے انکشافات کے بعد تو میرے لئے ان تمام باتوں کو ہضم کر نا بہت مشکل ہوگیاتھا۔کیونکہ اس وقت یہ تمام ممالک کافی مضبوط تھے ۔انہیں چھیڑنا اتناآسان نہیں تھاجتنااب ہے اور سچ بات ہے میں ان ساری باتوں کو کرنل کی محض خام خیالی ہی سمجھاتھا۔لیکن اب اگر ان باتوں پرغور کیا جائے تو کرنل کا کہاہوا ایک ایک لفظ ٹھیک تھا۔تو اب سوال یہاں یہ پیدہوتا تھا کہ اگر مجھے ان تمام باتوں کاپہلے سے پتاتھاتو میں انہیں روک کیوں نہیں سکا۔یہ بہت سخت سوال ہے آج بھی کئی بار مجھے میراضمیر ملامت کرتا ہے کہ میں نے کیوں نا اس کوکچھ کرکے روکاتواس جواب آپ کو آگے چل کر بہت وضاحت سے ملے گا۔ابھی میں اس تفصیل میں جاؤں گا تو ممکن ہے آپ کو میری بات پر یقین نہ آئے خیر کچھ دیرتک ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں اور پھر میں نے اس سے رخصت چاہی اور مصافہ کرکے اس کے کمرے سے باہر آگیا۔
********
1997میں امریکی ایجنٹ ڈیوڈ بن ایرول نے پاکستا ن آنا تھا،اسے ڈاکڑ شاہد عباس کوقتل کرنے کا مشن دیاگیاتھا۔بلیک ڈائمنڈ ایجنسی نے اسکی پلاننگ ایک سال قبل ہی کردی تھی۔مگر اب وہ اس پر عملدرآمد کررہے تھے،ڈیوڈ مختلف راستوں سے اسمگل ہوتا ہوا افغانستان کے راستے سے پاکستان میں داخل میں ہواتھااور پھر وہاں سے وہ پشاور پہنچاتھا۔اس کی جاسوسی میں نے نہیں بلکہ میرے محکمے کے دیگر ساتھی کررہے تھے۔انہوں نے ڈیوڈ کے امریکہ سے نکلنے اور پھر مختلف راستوں سے ہوتے ہوئے افغانستان میں داخل ہونے اورپھر ابو المسعود کا مہمان بنے تک پل پل کی خبر رکھی تھی۔
ڈیوڈ امریکی یہودی تھااوروہیں پلابڑھاتھاوہ یتیم تھااور اس کی پرورش آنٹی سارہ نے کی تھی۔جو ایک نیک یہودی خاتون تھیں ،انہوں نے خوب محنت مزدوری کرکے ڈیوڈ کو پڑھایا تھا۔دونوں کے درمیان ایک ماں بیٹے جیسا رشتہ بن گیاتھا۔ان کی بھی کوئی اولاد نہیں تھی ،ان کے شوہر کا انتقال جوانی میں ہی ہوگیا تھا اس کے بعد انہوں نے دوسری شادی کا کبھی سوچاہی نہیں ،مگر انہیں اپنی اولاد ہونے کی بہت خواہش تھی۔ سو انہوں نے ایک یتیم خانے سے ڈیوڈ کو لیکر اس کی پرور ش شروع کردی ۔انہوں نے بچپن سے ہی اس کی ہر خواہش کا احترام کیاتھااس کی خاطر انہوں نے ایک فیکٹری میں ملازمت اختیار کرلی جہاں پر وہ ایک ورکرکی حیثیت سے آٹھ گھنٹے کی شفٹ میں کا م کیا کرتی تھیں ۔اس دوران ڈیوڈ اسکول میں تعلیم حاصل کررہاہوتاتھا،فیکٹری سے فارغ ہوکر وہ شام کی اخبارگھر گھرجاکر بیچا کرتی تھیں تاکہ وہ ڈیوڈ کے مہنگے مہنگے اخراجات پورے کرسکیں۔محنت کرنے میں انہوں نے کبھی بھی آر محسوس نہیں کی تھی،دن مہینوں میں اور مہینے سالوں میں بدلتے گئے اور ڈیوڈ بھی بڑا ہوتاگیا۔ڈیوڈ کے سرپر باپ کاسایا نہ ہونے کے باوجود آنٹی سارہ کی شفقت اور محبت سے کی جانے والی تربیت نے ڈیوڈ کو ایک بہترین انسان بنادیا۔اسے یہودیت سے محبت کوٹ کوٹ کردل میں بٹھائی گئی۔مگر باپ کا سایہ سر پر نہ ہونے کی وجہ سے اس کی شخصیت میں کچھ خلاء پیدا ہوگئے اسے پورا کرنے کے لئے اس نے سگریٹ اور شراب سے دوستی بچپن سے ہی کرلی تھی۔اس نے باپ کی سختی دیکھی ہوتی تو شایدوہ بہت سی بری عادات سے بچ جاتا۔اسے بچپن سے ہی جاسوسی ناول پڑھنے کی عادت پڑگئی تھی اور پھر اس نے فیصلہ کرلیاتھا کہ وہ بڑا ہوکر ایک سیکرٹ ایجنٹ ہی بنے گا۔اس نے اپنے فیصلے سے آنٹی سارہ کو بھی آگاہ کردیاتھااس نے اپنی محنت جاری رکھی تعلیم میں بھی کافی تیز تھاوقت گذرتا گیااور پھر وہ دن آگئے جب اس نے امریکہ کی سیکرٹ سروس میں جانے کے لئے امتحان پاس کیا اور پھر اس کی سلیکشن ہوگئی ۔اسے امریکہ سے دور برازیل لے جاکر اس کی ٹریننگ کروائی گئی ۔اسے عام انسان سے فولادبنایاگیااور پھر اس کاانتخاب کرنل اشرنے ٹریننگ کے دوران ہی کرلیاتھا۔ٹریننگ مکمل ہوتے ہی وہ سروس میں آگیا۔انتہائی مضبوط اعصاب کامالک تھااور جو فیصلہ کرلیتاتھاکبھی بھی پھر اس سے پیچھے نہیں ہٹتاتھا۔ چوڑا چکلا جسم کشادہ پیشانی اور باڈی بلڈروالا اسکا جسم تھا۔صبح سویرے اٹھ کرورش اور جاگنگ کرنااسکاروز کا معمول تھا،پھر شام کو وہ جم بھی جاکرخوب جان بناتاتھا۔ مگر سروس میں آنے کے بعد آنٹی سارہ کاانتقال ہوگیاتو ڈیوڈ نے اپنے لئے الگ رہائش گاہ لے لی تھی۔وہ کمال کا ذہین اور بلاکا فائٹر تھا،وہ چین اسموکر ہونے کے ساتھ ساتھ بے تحاشاشراب پینے کاعادی بھی پیتا تھا۔ کئی دفعہ ماہانہ چیک اپ کے دوران اکثر ڈاکٹر ز اسے شراب پینے سے روکاکرتے تھے مگر وہ باز نہیں آتا تھا۔مایا اور اس کی دوستی یہیں سروس میں آنے کے بعد ہی ہوئی تھی ،مگر ایک دوست سے زیادہ مایا نے اسے کبھی لفٹ ہی نہیں کرائی تھی اور ڈیوڈ نے اسے پسند کر لیاتھا لہذا شادی کا مطالبہ کردیاتھا۔مگر وہ اس کا مطالبہ ٹالتی آئی تھی اس بات پر دونوں کی بہت منہ ماری بھی ہوتی تھی مگر ڈیوڈ اپنی ضد پراڑا رہا۔اسکے علاوہ اسے کرنل کا خصوصی اعتماد اس لئے حاصل ہواتھاکہ ایک مشن کے دوران روس میں کرنل کی جان ڈیوڈ نے بچائی تھی۔کرنل کو ایک مشن کے دوران روسی جاسوسوں نے جو دراصل ڈریگن گروپ سے تھے برطانیہ کے ائرپورٹ سے اغوا کرلیاتھااور پھر وہ اسے زمینی راستے سے لیتے ہوئے روس لے گئے تھے۔کرنل کے پاس ایک بہت اہم روسی سرکاری راز برطانیہ سے ہتھے چڑھاتھاجسکے بعد اس کی خواہش تھی کہ وہ اس کاخوب استعمال کرے۔وہ راز ایک مائیکرو فلم کی صورت میں پہلے ہی اس نے ڈیوڈ کے ہاتھ روانہ کردیاتھااور خود اسے وہاں دیگر معاملات کے لئے رکناتھا۔روسیوں نے اس پر تشدد کی انتہاکردی تھی وہ بھی کرنل تھاتمام تشدد برداشت کرتارہا۔مگر ڈیوڈ نے نہ صرف وہ رازبلیک ڈائمنڈ کے ہیڈکواٹر میں پہنچایابلکہ واپس لوٹ کر اس نے روس کے لئے روانگی اختیارکی اور پھر ایک خطرناک معرکے کے بعد اس نے نہ صر ف کرنل کو وہاں سے رہاکروالیاتھابلکہ روس کی جس تنظیم نے اسے اغوا کیاتھاڈیوڈ نے اس کا ہیڈکواٹر بھی تباہ کردیاتھا۔ جس سے اس تنظیم کو کافی نقصان پہنچاتھااور پھر اس کی کوئی اطلاع نہیں ملی تھی۔وہ ڈریگن گروپ پھر زیرزمین چلاگیاتھا۔۔۔۔
********
میں کرنل کے کمرے سے باہر نکلااور پھر وہاں سے ایک راہداری میں آگیاجہاں دائیں بائیں لاتعداد کمرے موجود تھے ۔ان کمروں کے سامنے سے گذر کرمیں سیدھا لفٹ میں داخل ہوا اور پھر زیرو فلور کابٹن پریس کرکے میں سکون سے کھڑاہوگیا۔میں نے بلیوکلرکا تھری پیس سوٹ پہنا ہواتھااوریہ دن کے دو کا وقت تھا۔ہمارے کام کی نوعیت تو چوبیس گھنٹے تھی مگر کرنل نے ہماری سہولت کے لئے ہمیں سخت ڈیوٹی سے بچایاہواتھا۔ اس نے اپنی ایجنسی میں ایجنٹس کی تعداد بڑھائی ہوئی تھی جسکی وجہ سے ہم پر کام کا زیادہ بوجھ نہیں پڑتاتھا۔کرنل کافی زندہ دل تھاہمیں کبھی بھی اس کی کمپنی میں بوریت محسوس نہیں ہوئی۔مگر جب کوئی خاص مشن درپیش ہوتاتوکرنل کی جھاگ دیکھنے والی ہوتی تھی۔ بالکل زہر لگ رہاہوتاتھا،میری یہاں بطور ڈیوڈ سب سے اچھی خاصی بنی ہوئی تھی۔سب لوگ میری خوب عزت کرتے تھے اور جب بھی میں جاتا تھاتو مجھے سرآنکھوں پر بٹھاتے تھے۔
وقت ایک سانہیں رہتا،کرنل کے ارادے کافی خطرناک تھے ۔جس دن کرنل میرے ہاتھوں چڑھ گیاتو پھر اس کا حال بھی ویساہی ہونا تھا جیسا وہ مسلمانوں یا پاکستان کے بارے میں سوچ رہاتھا۔مگر میں صحیح وقت کا انتظار کررہاتھااور وقت کی سب بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ کبھی بھی بتاکر نہیں آتابس آجاتاہے۔بس اسی وقت کا میں نہایت بے چینی سے انتظار کررہاتھا۔ابھی کرنل کی زیادہ بڑی عمر نہیں تھی ساٹھ کے قریب قریب ہی ہوگا۔چہرہ کلین شیو اور بال سفیدوہ پہلے اسرائیل کی فوج میں تھا۔وہاں پندرہ سال تک نوکری کی پھر جلد ہی ریٹائر ہوکر اپنی فیملی کے ساتھ امریکہ شفٹ ہوگیاتھا۔یہاں آتے ہی اس نے ڈیفنس سے متعلق ایک تھنک ٹینک تشکیل دے دیاجس کا نام بھی بلیک ڈائمنڈتھنک ٹینک تھا۔اس تھنک ٹینک نے ماہاناپالیسی پیپرز نکالناشروع کردئیے جو بہت جلد ہی حکومتی حلقے میں بہت مقبول ہوناشروع ہوگئے۔کرنل امریکہ کی حکومتی کریم اور ڈپلومیٹس میں مقبول ہوگیا،اس کی مسلمانوں کے خلاف تنگ نظری نے سب کے دل جیت لئے۔ اس کو باقاعدہ حکومتی میٹنگز میں مدعو کیاجانے لگا۔اس کا جاریحانہ اندازاور شعلہ بیان تقاریرنے سب کو اپناگرویدہ بنالیا۔جلدہی اس نے اپنااثرورسوخ بڑھاناشروع کردیاکرنل چونکہ بے حد چالاک اور عیار واقع ہواتھااس لئے جلد ہی اپنی جگہ بناگیا۔اسے خاص طور پر صیہونیوں نے اپنانمائندہ بنالیااور پھر انکے ہی کہنے پر اس نے اپنے تھنک ٹینک کو وسعت دیتے ہوئے اسے ایک تھنک ٹینک سے ایک سیکرٹ ایجنسی کی شکل دے دی۔کرنل نے ٹھیک کہاتھااس روشن آنکھ اورآدھے اہرام نے اس کی تقدیر بدل دی تھی۔اسے فوری طور پر بڑے بڑے مشن ملناشروع ہوگئے،پیسے تھے کے ختم ہونے کانام ہی نہیں لیتے تھے۔پھر اس نے اس ایجنسی میں مختلف ایجنٹس کو لاناشروع کردیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس کی کارکردگی کو چار چاند لگ گئے ۔یہ خفیہ ایجنسی اپنی شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئی تھی۔سب نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیاتھا۔
خیر میں نے کوٹ کی اندرونی جیب سے سیاہ چشمہ نکالا اور پھر اسے اپنے چہرے پر سجالیا۔تھوڑی دیر میں مجھے لفٹ نے زیرو فلور پر پہنچایا،وہاں پر مختلف کاریں اور موٹربائکس موجودتھیں۔میں نے اپنا رخ اپنی ریڈکلر کی جدید ترین اسپورٹس کی طرف کیااور پھر اس کا دروازہ کھول کر اندر بیٹھ گیا۔میں نے اپنی تیز نظروں سے گاڑی کو ایک بار اچھی طرح سے چیک کرلیااور خوب تسلی کے بعد میں نے اپنی گاڑی اسٹارٹ کوکیااور پھر پارکنگ سے نکال کر میں مین سڑک پر آگیا۔وہاں سے میں مختلف راستوں سے ہوتا ہوا،میں نے اپنارخ اپنے گھر کی طرف کرلیا۔میری اس وقت کئی رہائش گاہیں تھیں اور میں نے کسی ایک مکان کو مستقل اپنا گھر نہیں بنایاتھاتاکہ کسی بھی ہنگامی حالت میں وہاں سے نکل سکوں۔خیر اس وقت میر ا رخ اپنی تیسری کوٹھی کی جانب تھا،میں گھر تقریباًبیس پچیس منٹ کی ڈرائیو کے بعد پہنچااور پھر گاڑی دروازے پر روک کر میں گیٹ کے پاس آیااور پھر سائیڈ پر موجود ایک خفیہ بٹن پریس کیا تو وہاں پر ایک منی کمپیوٹر ظاہر ہوگیا۔جس پر میں نے ٹائپنگ پیڈ کی مدد سے ایک کوڈ لکھاتو دروازہ کھل گیا۔پھر میں نے دوبارہ وہی بٹن پریس کیاتووہ منی کمپیوٹر دیوار کے اندر غائب ہوگیا۔یہ بٹن دراصل دیوار پر ایک ہلکے سے ابھار کی صورت میں تھاجسے میرے علاوہ کوئی نہیں جانتاتھا۔میں واپس گاڑی میں آکربیٹھااور پھر اسے ڈرائیوکرکے میں نے اسے کوٹھی کی پارکنگ میں کھڑا کیااور پھر میں جوں ہی نیچے اتراتومیرے پیچھے دروازہ بغیرآوازکئے آٹومیٹک انداز میں بندہوگیا۔میری یہ کوٹھی انتہائی جدیدترین اور بہترین انداز میں تعمیرکی گئی تھی،مجھ جیسے بندے کے لئے تو یہ بہت بڑی تھی ۔یہ ایک ٹرپل اسٹوری ہاؤس تھاجسکے سامنے کی طرف بہترین درخت اور ہریالی تھی جبکہ بیک سائیڈ پر باقاعدہ سوئمنگ پول تھا۔کبھی کبھی من ہوتا تو میں اس میں نہابھی لیاکرتاتھا۔کسی سرونٹ یاکام والے کو نہیں رکھاتھا،کیونکہ میرے موڈ کا کچھ پتہ نہیں ہوتا تھاکہ میں یہاں رہنے پے آؤں تو مہینہ بھی رہ لیتاتھا اور اگر موڈ نہ ہواور بوریت کی وجہ سے جلد ہی اکتاجاؤں تومیں چند گھنٹوں میں ہی اپنی رہائش گاہ چھوڑدیتاتھا۔یہاں پر کرنل نے باقاعدہ کیمرے نصب کروائے ہوئے تھے، صرف یہاں پر نہیں میر ی تینوں رہائش گاہوں پر ہی یہی حال تھااور یہ بلیک ڈائمنڈ ایجنسی کااصول تھاکہ وہ اپنے تماایجنٹس کی مکمل نگرانی کرتی تھی کہ کہیں سے بھی کسی قسم کا کوئی دھوکانہ ہو۔ میں اس سب کچھ کے لئے مکمل طور پر تیارتھااور کبھی بھی مائنڈ نہیں کیاتھاکیونکہ مجھے پکڑناانکے بس میں نہیں تھا۔اگر میں اتنی آسانی سے پکڑاجاتاتو چار سال تک انکے درمیان نہ رہ رہاہوتاوہ میرے روئیے سے حیران ہوکر بھی میرے خلاف بات نہیں کرتے تھے۔بلکہ انہیں آج تک مجھ پر شک نہیں ہواتھا۔
خیر میں کافی تھک گیاتھا گزشتہ رات سے کام پہ تھااب میرا تھوڑا سونے کا ارادہ تھا۔تو سو ہری بھری گاس سے گزرتاہوامیں برآمدے میں داخل ہوا اور پھر اوہاں سے میں ایک دروازے سے کوٹھی کے اندرداخل ہوگیا۔ وہاں سے میں ایک خوبصورت انداز میں سجی ہوئی زینوں پر چڑھااور پھر اوپر جانے لگا۔وہ گول گھومتی ہوئی مجھے دوسری منزل پر لے آئیں۔میں نے وہاں پہنچ کر راہداری میں موجود ایک کمرے کا دروازہ کھولا اور اندر داخل ہوگیا یہ دراصل بیڈ روم تھا ۔جو انتہائی خوب صورت انداز میں سجاہواتھا۔میں نے جاتے ہی کوٹ کی اندرونی جیب سے موبائل فون نکال کرتکئیے کے پاس رکھا ،اپنے کپڑے چینج کئے اور سلیپنگ گاؤن پہن کربسترپر لیٹ گیا۔اس کے بعد میں نے فون اٹھاکر یوں ہی اس پر ہاتھ چلانا شروع کردئیے اور کچھ دیربعد اسکی پاور آف کرکے لمبی طان کر سو گیا۔ اس وقت دوپہرکے دو کا عمل تھامیری آنکھ جاکر شام سات بجے کھلی ۔کام کوئی تھا نہیں سو میں نے سوچا کہ فل الحال لمبا ہی سویاجائے سو میں نے ایسا ہی کیا۔میری جاب کی نوعیت ہی ایسی تھی کہ باز اوقات کئی کئی دنوں تک مجھے فیلڈ میں رہ کر جاگنا پڑتاتھااور اپنے آپ کو مکمل تروتازہ رکھناہوتاتھااس اعتبارجب بھی موقع ملتا تھا میں خوب اچھی طرح سولیتاتھامگر نیند میں بھی اپنے تمام اعصاب جگ رہے ہوتے تھے ۔کسی بھی قسم کی ہلکی سی آواز سے میری آنکھ کھل جاتی تھی اور میں کبھی بھی بے خیالی میں نہیں ماراگیا۔
موبائل آف میں نے مایا کی وجہ سے کیاتھا اور مجھے یقین تھا کہ وہ یقینامجھے کال کرے گی اور نہ سہی تو اس کا ٹیکسٹ ضرور پڑاہوگا۔وہ اوپر سے کچھ کہتی تھی اور اندر سے اسکی پروگرامنگ کچھ اور ہی ہوتی تھی۔میں نے جب موبائل کھول کر دیکھاتو اس کی دو مس کالز اور تین چار پیغامات پڑے ہوئے تھے اور سب میں ہی معافیاں مانگی ہوئی تھیں کہ میری اس بات کا مطلب وہ نہیں تھا اور میں یہ کہناچاہتی تھی تم تو بہت اچھے ہو۔بلا بلا بلا۔۔۔۔۔۔نا جانے وہ کیا سوچتی رہتی تھی اور خود اپنے دل میں خاکے بنتی رہتی تھی جو میری وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتاتھا۔خیرمیں اٹھاتو مجھے سخت بھو ک لگ رہی تھی اور اب ارادہ تھا کہ کسی اچھے سے ہوٹل میں جاکر کھانا کھاؤں گا۔میں واش روم گھس گیااورپھر گر م گر م پانی سے کوئی پندرہ منٹ تک نہانے کے بعد وہاں سے نکلااور جو سوٹ میں نے دن کو پہناتھا وہی دوبارہ پہن لیا،موبائل اٹھاکرکوٹ کی اندرونی جیب میں رکھااپنے ہتھیار کی موجودگی کو یقینی بناتا ہوامیرا رخ اب گیراج کی طرف تھا۔میں نے گیٹ کے پاس آکر اس کی پاس والی دیوار میں وہی عمل دہرایا جو پہلے کر چکاتھا اور پھر آٹومیٹک انداز میں گیٹ کے کھلتے ہی میں وہاں سے گاڑی کے پاس آیااور پھر اسے اسٹارٹ کرکے میں نے اپنا رخ شہر کے سب سے بڑے ہوٹل کی طر ف کردیا۔کوئی تیس منٹ کی ڈرائیو کے بعد میں ہوٹل ٹرپل زیرو پہنچا اور اسکے کمپاؤنڈ میں گاڑی داخل کر کے میں پھر اسکی پارکنگ میں لے گیا اور کار پارک کرمیں گاڑی سے باہر نکل کر اسے لاک کیا اور پھر میں اس کے گلاس ڈورز کے اندر داخل ہوگیا۔سامنے ایک بڑا سا ڈائننگ ہال تھامیں اس میں جاکر بیٹھ گیا۔ہال میں ابھی وہ رش نہیں تھا جوکہ ہونا چاہیے تھا امید تھی کہ رات گئے تک ہال بھر ہی جائے گا۔مجھے ابھی بیٹھے کچھ ہی دیر گزری تھی کہ بیرہ میر ے سرپر پہنچ گیا۔میں نے اسے آرڈر دیا اور پھر اپنے سامنے موجود ٹشو پیپر کے رول میں سے ایک ٹشوپیپر نکالا اور پھر اسے اپنے سامنے ٹیبل پر احتیاط سے بچھادیا۔پھر اس کے بعد میں نے سامنے بڑی اسکرین پرٹی وی دیکھتے ہوئے غیر محسوس طریقے سے اپنے آگے موجود ایک خوب صورت گلدان میں سے ایک مصنوعی گلاب کا پھول نکالا اورپھر اسے ویسے ہی اپنے ہاتھ میں لیکر گھومانا شروع کردیا۔ اس دوران میری نظریں ٹی وی پر تھیں اور بیرے کو آنے میں ابھی دیر تھی۔لوگ آہستہ آہستہ ہال میں داخل ہورہے تھے۔
میں نے احتیاط سے اپنے بائیں ہاتھ کی کہنی ٹیبل پر ٹیک کر اپنے ہاتھ کے اوپر سر رکھ لیااور پھراپنے دائیں ہاتھ سے میں نے غیر محسوس طریقے سے ٹشوپیپرپرگلاب کے پھول کی ٹہنی کی مدد سے کوڈ ورڈز میں تحریر لکھناشروع کردی ۔جو بظاہر نظر نہیں آرہی تھی مگر گلاب کی ٹہنی کسی قلم کی
طر ح کام کررہی تھی۔دیکھتے ہی دیکھتے میں نے وہ خاموش تحریر مکمل کی اور پھر دوبار ہ گلاپ کے پھول کو گھومانا شروع کردیا ۔ جبکہ میری نظریں ابھی بھی ٹی وی وی پر جمی ہوئی تھیں ۔ کسی کورتی برابر بھی شک نہیں ہوا ہوگا کہ میں نے گلاب کے پھول سے کیا ہے۔ اس کے بعد میں نے واپس اسے گلدان میں رکھ دیااور ٹشوپیپر اٹھا کر اس کی مدد سے اپنا ماتھاصاف کرنے لگا اور پھر اسے چہرے پر پھیرکر میں نے اسے فولڈ کرکے اسے اپنے ہاتھ میں تھام کر میں نے ایک بھر پور انگڑائی لی اور اپنی چیئر سے اٹھ کر میں نے واش رو م کارخ کرلیا ۔اس ہوٹل میں باقاعدہ واش رومزمردوں اور عورتوں کے لئے الگ الگ بنے ہوئے تھے۔ میں مردوں والی سائیڈ پر چلاگیا اور پھر وہاں کے کوڑے دان میں میں نے وہ ٹشوپیپر پھینکااور پھر میں خالی واش میں داخل ہوگیا۔ضروریات سے فارغ ہوکر میں جوں ہی باہر نکلاتوایک بھر پورگھونسہ میرے منہ پر پڑا اور پھر اس کے بعد نامعلوم افراد نے مجھ پر بری طرح سے حملہ کردیا۔ میں ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں پوری سچوئیشن سمجھ گیا۔
میں نے بھی ان پر جوابی حملے شروع کردئیے مگر کچھ ہی دیر میں میرے عقب سے تین چار شدید نوعیت کے ہتھوڑے پڑے اور میں اپنے ہوش و حواس کھوتا چلاگیا۔میں اپناسر تھامے زمین پر گرنے لگامیراسر بری طرح سے جھول رہاتھا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے میں دنیا و مافیاسے بے گانہ ہونے لگا۔آخری خیال جو میرے ذہن میں تھاوہ یہ کہ میں بری طرح سے دھر لیاگیاہوں اور اب ممکن ہے مجھے کوئی اغوا کرکے لے جائے گا۔ لیکن وہ لوگ کون تھے اور اس طرح مجھ پر کیوں حملہ آوار ہوئے تھے؟ اس کا جواب میرے پاس نہیں تھا۔۔۔۔!
(جاری ہے)
Muhammad Jabran
About the Author: Muhammad Jabran Read More Articles by Muhammad Jabran: 47 Articles with 56625 views
I am M Phil Scholar In Media Studies. Previously, i have created many videos which are circulating all over Social Media.
I am the Author of thre
.. View More