مغرب کا ناسور

کسی بھی قوم کی جداگانہ حیثیت اور امتیازی شان اس کے عقائد و نظریات اور تہذیب و تمدن میں پوشیدہ ہے۔جب کوئی قوم ان میں سے کسی ایک سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے تو اس کی امتیازی شان ختم ہو جاتی ہے۔اگر کوئی شخص اپنی تہذیب اور ثقافت کو چھوڑ کرکسی دوسری قوم کی تہذیب و ثقافت کو اپنا لے تو وہ اسی قوم کا فرد شمار ہوگا جس کی تہذیب اس نے اختیار کی ہے۔مثلاً اگر کوئی ہندو مسلمانوں کا رہن سہن اپنا لے اور مسلمانوں کے طور طریقوں پر اپنی زندگی بسر کرنا شروع کر دے تو لو گ اسے مسلمان سمجھیں گے ۔اسی طرح اگر کوئی مسلمان ہندوانہ طرزِ زندگی اختیار کر لے تو اسے بھی یہی سمجھا جائے گا کہ وہ عقیدتاً مسلمان ہے لیکن عملًا ہندو ہے۔

اس تناظر میں تاریخ کے اوراق کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہود و ہنود اور نصاریٰ ازل ہی سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشوں کے جال بنتے آئے ہیں ۔کبھی تو انہوں نے علی الاعلان مسلمانوں کو نقصان پہنچایا اور کبھی آستین کے سانپ بن کر۔ دوسری طرف آج کے مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ ان کی نظریں غیر مسلموں کی تہذیب و تمدن کی جانب بڑے مرغوبانہ انداز میں اٹھتی ہیں جس کا اجتماعی مظاہرہ غیر مسلموں کے تہواروں مثلاً بسنت ‘نیو ایئر نائٹ‘ ویلنٹائن ڈے اور اپریل فول وغیرہ) کے مواقع پر نظر آتا ہے۔یہ دراصل ایک طرح کی ذہنی غلامی ہے۔ جس کے متعلق اقبال نے فرمایا ہے: ؂
تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر

ان تہواروں میں ایک تہوار ’’ویلنٹائن ڈے ‘‘ہے جسے یومِ محبت کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے ……اس تہوار کا نام ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ نہیں بلکہ ’’ویلنٹائنز ڈے‘‘(یعنی ویلنٹائن کا دن)ہے……یہ تہوار چودہ فروری کومنایا جاتا ہے جس میں نوجوان لڑکے لڑکیاں ایک دوسرے سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں ‘لال رنگ کے گلاب کے پھول‘محبت بھرے کارڈ اور چاکلیٹ ایک دوسرے کو دیتے ہیں۔ویلنٹائن ڈے کایہ تہوار اپنی ہزار ہا برائیوں کے باوجود اسلامی ممالک بالخصوص پاکستان میں تیزی سے فروغ پا رہا ہے اور اس میں زیادہ تر کردار ان این جی اوز کا بھی ہے جو فلاحی اداروں کی آڑ میں مغربی تہواروں کو نوجوان نسل میں فروغ دے کر انہیں مغربی طرز ِزندگی کا دلدادہ بنا رہی ہیں۔دوسری طرف موجودہ سالوں میں تو ٹی وی ڈراموں‘ میوزک شوز‘کیبل‘ ڈش‘ انٹرنیٹ اورموبائل فونز کی بدولت ویلنٹائن ڈے نے پاکستان کے بڑے شہروں سے ہوتے ہوئے قصبوں اور دیہات تک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔

اس نام نہاد کی تہوار کی حقیقت خواہ کچھ بھی ہو سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس تہوار سے ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا ہے؟ اور کیا وجہ ہے کہ یہ تہوار اپنی تمام تر خرابیوں کے باوجود مقبول ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے پیچھے مغرب کا کیاایجنڈا کار فرما ہے؟ اس دن جن اشیاء کی خریدوفروخت کا بازار گرم ہوتاہے ان میں گلاب کے پھول، کاسمیٹکس، کارڈز، چاکلیٹس اور دیگر اشیاء شامل ہیں۔ جن کی قیمتیں بھی آسمان کو چھو رہی ہوتی ہیں۔ آپ اس دن ہونے والی فضول خرچیوں کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ مغرب نے اپنی پروڈکٹ فروخت کرنے کے لیے اسے ہوا دی اور ہماری معصومیت دیکھیے کہ ہم اس جال میں پھنستے چلے گئے۔ اہلِ مغرب اپنی تہذیب کو تار تار کر چکے اب ہماری تہذیب کو روند ڈالنے کے درپے ہے۔ میں اسی مغرب کی بات کر رہاہوں کہ جہاں کہ بچے یہ تک نہیں جانتے کہ ان کے اصل والدین کون ہیں؟ کہ جہاں پر بڑے بڑے سائن بورڈ آویزاں کر کے اس بات کی دعوت دی جاتی ہے کہ آئیے ہم آپ کوبتاتے ہیں کہ آپ کا باپ کون ہے، ہم آپ کو آپ کی ماں کا بتاتے ہیں ۔ اس بات سے آپ وہاں ناجائز پیدا ہونے ولی اولاد کی ریشو کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔ اس دن کوئی بھائی اپنی بہن کے ساتھ بازار جانے کے تصور ہی سے گھبراتاہے کیونکہ ہر آنکھ شکی نگاہ سے اسے دیکھ رہی ہوتی ہے۔ اگر کوئی لڑکی بھولے سے سرخ لباس زیب تن کر لے تو وہ خود کو جنگل میں بھیڑیوں کے درمیان تصور کرتی ہے۔ ایسے موقعہ پر اگر اسلام پسند اس نام نہاد تہوار سے باز رہنے کی تلقین کریں تو انہیں انتہاپسند اور ظالم کے خطاب سے نوازا جاتاہے اور نعوذباﷲ اسلام کو محبت کادشمن قرار دیا جاتاہے۔ یہ عقل سے بے بہرہ مخلوق اس بات سے بھی آگاہ نہیں کہ اسلام نے پاکیزہ رشتوں سے محبت کی جہاں اجازت دی ہے وہیں پر اس کی تلقین بھی کی ہے۔

اس تہوار کے حوالے سے مسلمانوں کے لیے سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ یہودیوں اور ہندوؤں نے اپنے ممالک میں اس تہوار کو فروغ دینے والوں کے خلاف اعلانِ جنگ بلندکیا ہوا ہیکیونکہ ان کے مطابق یہ تہوار نوجوانوں میں جنسی آوارگی پیدا کر رہا ہے ۔ چند سال پہلے بھارت جیسے سیکولر ملک میں ممبئی اور دیگر شہروں میں ویلنٹائن ڈے کے مخالفین نے ’’انڈین کلچر کو بچاؤ‘‘ کے نعروں کے ساتھ کارڈز بیچنے والی دکانوں پر چھاپے مار کر ویلنٹائن ڈے کے کارڈز کو آگ لگا دی۔دوسری طرف انتہائی افسوس اور دکھ سے کہنا پڑ رہا ہے کہ ویلنٹائن ڈے ہر سال پاکستان میں بہت تیزی سے فروغ پا رہا ہے اور اب تو یہ پاکستانی کلچر بنتا جارہا ہے۔اگر آج ہم نے اس کے خلاف کچھ نہ کیا تو آنے والی نسلیں ان تہواروں کو’’ اپنا تہوار‘‘ سمجھ کر منائیں گی جواسلام کے نام پر بننے والے ملکِ پاکستان اور اس کی نظریات کے لیے ’’زہرِ قاتل‘‘ سے کم نہیں ہوگا۔
Fareed Razaqi
About the Author: Fareed Razaqi Read More Articles by Fareed Razaqi: 15 Articles with 11129 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.