غزوہ بنی نضیر
ربیع الاول4ہجری کو پیش آیا۔ مدینہ واپسی کے وقت واقعہ بئر معونہ میں بچ
جانے والے شخص عمرو بن امیہ کے ہاتھوں بنی عامر کے دو آدمیوں کے قتل نے ایک
نئی مصیبت کھڑی کر دی کیونکہ اس نے غلطی سے بے قصور افراد کو قتل کر دیا
تھا۔ جو عہد و پیمان بنی عامر نے رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے کیا
تھا اس کے مطابق مسلمانوں کو ان مقتولین کا خون بہا ادا کرنا چاہیے تھا۔
ایک طرف بنی نضیر کے یہودی مسلمانوں کے ہم پیمان تھے اور بنی عامر سے بھی
معاہدہ رکھتے تھے۔ لہٰذا اپنے پیمان کے مفاد کے مطابق ان لوگوں کو بھی خون
بہا ادا کرنے میں مسلمانوں کی مدد کرنی چاہیے۔ بئر معونہ اور رجیع کے منحوس
واقعہ کے بعد جو کہ چند دنوں پہلے پیش آیا تھا، یہودی منافقین کے ساتھ مل
کر مسلمانوں کا مذاق اڑانے لگے تھے اور کہتے تھے کہ جو پیغمبر خدا کا بھیجا
ہوا ہوتا ہے وہ شکست نہیں کھاتا، یہ لوگ ہر آن شورش برپا کرنے کے موقع کی
تلاش میں رہتے تھے۔
اب بنی نضیر کے یہودیوں کی بری نیتوں سے خداوند عالم کے آگاہ کرنے کا
بہترین وقت آگیا تھا۔ بنی نضیر سے رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم عہد و
پیمان کے مطابق مقتولین کی دیت ادا کرنے میں مدد طلب کرنے کے لئے اپنے چند
اصحاب کے ساتھ بنی نضیر کے قلعہ میں داخل ہوئے۔ انہوں نے ظاہراً تو رسول
خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی پیشکش کا استقبال کیا لیکن خفیہ طور پر انہوں
نے ایک دوسرے سے مشورہ کیا اور یہ ارادہ کرلیا کہ مناسب موقع ہاتھ آیا ہے
اس سے فائدہ اٹھائیں اور پیغمبر کی شمع حیات کو گل کر دیں۔
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ایک گھر کی دیوار کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ان
لوگوں نے ”عمرو“ نامی ایک شخص کو بھیجا کہ وہ کوٹھے سے ایک پتھر آپ کے سر
اقدس پر گرا دے فرشتہ وحی نے رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو آگاہ کر
دیا۔ آپ اسی حالت میں جس حالت میں ان کے مشکوک افراد کی رفت و آمد کا نظارہ
فرما رہے تھے۔ اطمینان سے ان کے درمیان سے اٹھے اور اکیلے ہی مدینہ کی طرف
چل دیئے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب جو آپ کی تاخیر سے پریشان
ہو گئے تھے۔ مدینہ لوٹ آئے۔ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے محمد بن
مسلمہ کو بنی نضیر کے پاس بھیجا اور ان لوگوں سے کہلوایا کہ مدینہ کو 10دن
کے اندر چھوڑ دیں جب بنی نضیر کے سربرآوردہ افراد نے اس پیغام کو سنا تو ان
کے درمیان ایک ہنگامہ برپا ہوگیا اور ہر آدمی اپنا نظریہ پیش کرنے لگا وہ
لوگ مدینہ سے نکلنے کا سوچ ہی رہے تھے کہ عبداللہ ابن ابی نے ان کے پاس
پیغام بھیجا کہ تم لوگ یہیں ٹھہرو اور اپنا دفاع کرو میں2 ہزار افراد کو
تمہاری مدد کے لئے بھیجتا ہوں اور بنی قریظہ کے یہودی بھی ہمارا تعاون کریں
گے۔
منافقین کے لیڈر کے پیغام نے یہودیوں کو ہٹ دھرمی پر باقی رہنے اور اپنا
دفاع کرنے کے ارادہ میں اور پکا بنا دیا اور ان کی تشویش دور ہوئی۔ لہٰذا
قبیلہ بنی نضیر کے سردار ”حیی بن اخطب“ نے رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم
کے پاس پیغام بھیجا کہ ہم جانے والے نہیں ہیں آپ کو جو کرنا ہو کر لیجئے۔
رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ان تک کسی طرح کی مدد اور قوت پہنچنے سے
پہلے ہی بنی نضیر کے قلعہ کا محاصرہ کرلیا۔6 دن محاصرہ میں یہودیوں کا قلعہ
کے باہر سے ہر طرح کا رابطہ منقطع ہوگیا۔ آخرکار ان لوگوں نے منافقین اور
بنی قریظہ کی کمک سے مایوس ہو کر مجبوراً اپنے آپ کو لشکر اسلام کے حوالہ
کر دیا۔ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو اس بات کی اجازت دی کہ
اسلحہ کے علاوہ اپنے منقولہ اموال میں سے جتنا وہ چاہیں اپنے ساتھ لے
جائیں۔
حریص یہودی جو بھی لے جاسکتے تھے انہوں نے اپنے اونٹوں پر لادا یہاں تک کہ
گھر کے دروازوں کو چوکھٹ بازو کے ساتھ ساتھ اکھاڑ کر اونٹ پر لاد لیا۔ ان
میں سے کچھ لوگ خیبر کی طرف اور کچھ شام کی طرف روانہ ہوئے۔ دو ان میں سے
مسلمان بھی ہوئے۔ یہودیوں کے غیر منقول اموال اور قابل کاشت زمنیں پیغمبر
کے ہاتھ آئیں۔ آپ نے انصار کو بلایا ان کی سچی خدمتوں اور ایثار و قربانیوں
کو سراہا اور فرمایا کہ مہاجرین تمہارے گھروں میں تمہارے مہمان ہیں۔ ان کی
رہائش کا بار تم اپنے کاندھوں پر اٹھائے ہو۔ اگر تم راضی ہو تو بنی نضیر کے
مالِ غنیمت کو میں مہاجرین کے درمیان تقسیم کر دوں وہ لوگ بھی تمہارا گھر
خالی کر دیں؟ ”سعد بن معاذ“ اور ”سعد بن عبادہ“ قبیلہ ”اوس و خزرج“ کے
دونوں سرداروں نے جواب دیا” اے رسول اللہ مالِ غنیمت کو ہمارے مہاجر
بھائیوں کے درمیان بانٹ دیجئے اور وہ بدستور ہمارے گھروں میں مہمان رہیں۔
رسول اللہ نے بنی نضیر کے تمام اموال اور قابل کاشت زمینوں کو مہاجرین کے
درمیان تقسیم کر دیا اور انصار میں سے صرف دو افراد یعنی ”سہل بن حنیف اور
ابو دجانہ“ کو جو کہ بہت زیادہ تہی دست تھے، کچھ حصہ عنایت فرمایا” بنی
نضیر کے یہودیوں کی پیمان شکنی کے بارے میں خاص کر سورہ ”حشر“ نازل ہوا۔
(سیرت ابن ہشام)
دہشت گردی کا انتقام
بنی نضیر کے واقعہ کے بعد ”یامین بن عمیر“ جو یہودی سے مسلمان ہو گیا تھا۔
اس سے رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے کہا کہ تم نے نہیں دیکھا کہ
تمہارا چچا زاد بھائی میرے بارے میں کیا ارادہ رکھتا تھا اور وہ چاہتا تھا
کہ میرا خاتمہ کر دے؟ یامین نے ایک شخص کو دس دینار دیئے اور اس سے کہا کہ
عمرو بن حجاش یہودی جس نے رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے سر پر پتھر
گرانے کا ارادہ کیا تھا کو قتل کر دے۔ وہ شخص گیا اور اس نے اس ذلیل یہودی
کو اس کی سزا تک پہنچا دیا۔ (سیرت ابن ہشام ج۳ ص ۲۰۳)
غزوہ بدر موعد
یکم ذیقعدہ 4 ہجری قمری کو جنگ احد ختم ہو جانے کے بعد ابوسفیان نے جو
کامیابی سے سرمست تھا، مسلمانوں کو دھمکایا کہ وہ آئندہ سال بدر میں ان سے
مقابلہ کرے گا۔ ایک سال گزر چکا تھا اور مسلمان مختلف جنگوں میں کچھ نئی
کامیابیاں حاصل کرچکے تھے اور ابو سفیان جو ڈر رہا تھا کہ کہیں کوئی جنگ نہ
چھڑ جائے اور شکست سے دوچار ہونا پڑے۔ بدر تک پہنچنے کے لئے وہ ایک بہانہ
تراش رہا تھا اور چاہتا تھا کہ مسلمانوں کو نصرف کر دے۔ ابو سفیان نے اس
ہدف تک پہنچنے کے لئے ایک سیاسی چال چلی۔ نعیم نامی ایک شخص کو اس بات پر
مامور کیا کہ وہ مدینہ جائے اور افواہیں پھیلائے تاکہ لشکر اسلام کے حوصلے
پست و جائیں، ابو سفیان کے فرستادہ نے مدینہ پہنچنے کے بعد اپنی نفسیاتی
جنگ کا آغاز کر دیا۔ موقع کی تلاش میں رہنے والے منافقین نے اس کی افواہوں
کو پھیلانے میں مدد کی اور لشکر ابوسفیان کے عظیم حملہ کی جھوٹی خبر نہایت
آب و تاب کے ساتھ لوگوں کے سامنے بار بار بیان کرنے لگے۔ لیکن اس نفسیاتی
جنگ نے رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے باوفا اصحاب کے دل پر ذرہ
برابر بھی اثر نہیں کیا۔ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اس جماعت کے
مقابل جو ذرا ہچکچاہٹ کا اظہار کر رہی تھی فرمایا اگر کوئی میرے ساتھ نہیں
جائے گا تو میں تنہا جاؤں گا۔ پھر رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے پرچم
اسلام حضرت علی علیہ السلام کے سپرد کیا اور1500 افراد کے ساتھ مدینہ
سے160کلومیٹر بدر کی طرف روانہ ہو گئے۔ اس حالت میں کہ آپ کے ساتھ صرف دس
گھوڑے تھے۔
اپنی سازش کی ناکامی اور مسلمانوں کی آمادگی کی خبر سن کر ابوسفیان بھی
2000 افراد کے ساتھ بدر کی طرف روانہ ہوا لیکن مقام ”عسفان“ میں خشک سالی
اور قحط کو بہانہ بنا کر خوف و وحشت کے ساتھ مکہ لوٹ گیا۔
مسلمان جو بدر میں ابوسفیان کے انتظار میں وقت گزار رہے تھے، مقام بدر میں
سیزن کے زمانہ میں انہوں نے اپنا تجارتی سامان فروخت کر دیا اور ہر دینار
پر ان کو ایک دینار نفع ملا اور یہ لوگ سولہ دنوں کے بعد مدینہ پلٹ آئے۔ اس
طرح سے کفار قریش کے دل میں خوف و وحشت کی لہر دوڑ گئی اور احد کی شکست کے
آثار محو ہوگئے۔ اس لیے کہ قریش کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہوچکی تھی کہ
اسلام کا لشکر اب شکست کھانے والا نہیں ہے۔ (سیرت ابن ہشام ج۳ ص ۲۲۰)
غزوہ دومة الجندل
روانگی یکشنبہ25 ربیع الاول 5ہجری۔۔۔مدینہ واپسی 20 ربیع الثانی
مخبروں نے رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو خبر دی کہ دومتہ الجندل میں
بہت سے لوگ جمع ہوگئے ہیں اور مسافروں کا راستہ روکنے کے علاوہ ان پر ظلم و
ستم بھی ڈھا رہے ہیں ان کا قصد یہ ہے کہ مدینہ پر حملہ کر دیں، رسول خدا
صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے سباع بن عرفطہ غفاری کو مدینہ میں اپنا جانشین
معین فرمایا اور ہزار آدمیوں کے لشکر کے ساتھ دومتہ الجندل کی طرف روانہ
ہوگئے۔ آنحضرت کے سپاہی راتوں کو راستہ طے کرتے اور دن کو دروں میں چھپ کر
آرام کرتے تھے، دشمن کو لشکر اسلام کی روانگی کا پتہ چل گیا اور ان پر ایسا
رعب طاری ہوا جو پہلے کبھی نہیں ہوا تھا اور اس علاقہ سے دشمن تیزی سے بھاگ
گئے۔ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اس علاقہ میں قیام پذیر رہے اور آپ نے
مختلف دستوں کو اطراف و جوانب میں بھیجا تاکہ خبر ملنے پر دشمنوں کی سازشوں
کو ناکام بنا دیں۔ آپ25 روز کے بعد مدینہ پلٹ آئے۔ لوٹتے وقت فراز نامی شخص
سے جس کا قبیلہ قحط سے متاثر ہوا تھا آپ نے معاہدہ کیا اور ان کو اجازت دی
کہ وہ مدینہ کے اطراف کی چراگاہوں سے استفادہ کریں۔ اس غزوہ کی اہمیت کی
وجہ یہ ہے کہ مدینہ سے دور دراز کے علاقوں تک جادہ پیمائی اور خشک و ہولناک
صحرائوں سے بعور کرنے میں مسلمانوں کی طاقت کا مظاہرہ ہوا اور دوسری طرف
اسلام مشرقی روم کی سرحدوں تک نفوذ کرگیا اور یہ فوجی تحریک رومیوں کی
تحقیر کا مؤجب بنی۔ مسعودی کی تحریر کے مطابق، تاریخ اسلام میں روم کی بڑی
طاقت کے ہاتھوں کی کھلونا حکومت کے ساتھ فوجی مقابلہ کے لیے یہ پہلا قدم
تھا۔(النبیہ والاشراف۲۱۵۲)
۔۔۔۔ جاری ۔۔۔۔
نوٹ۔۔۔ محترم قارئین آپ کی قیمتی آراء باعث عزت و رہنمائی ہوگی |