کراچی میں ادبی سرگرمیاں۔۔۔ قائدکے شہر کاروشن چہرا

مارچ آنے میں چند دن باقی ہیں لیکن صبح کی ٹھنڈی ہوائیں ابھی سے ہی بہار کی نوید سنا رہی ہیں۔ ویسے تو کراچی کے موسم کی بھی کیا کہنے، کہ جب پورا ملک یخ سردی سے ٹھٹھر رہا ہو تو یہاں کے شہری سہانے موسم کا لطف اُٹھا رہے ہوتے ہیں۔ فوڈاسٹریٹ، ساحل سمندر اور سینما گھروں سے لے کر چائے کے ڈھابوں تک ، ہر جگہ انسانوں کے جتھے اُمڈ آتے ہیں، کچھ اپنی سناتے ہیں، کچھ دوسروں کی سنتے ہیں، اور یوں یہ خوبصورت لمحات کیسے گزرتے ہیں، احساس ہی نہیں ہوتا۔ کچھ ایسی ہی صورتحال گرمیوں کی بھی ہے، یوں کہہ لیں ''نہ سردیوں میں زیادہ ٹھنڈ اور نہ گرمیوں زیادہ گرمی''، قدرت نے معتدل موسم کی جو دولت اس شہر کو عطا کی ہے شاید ہی کسی اور شہر کو حاصل ہو۔ لیکن اسے ہمارے اعمال کا نتیجہ کہہ لیں یا پھر قدرت کا امتحان ، گزشتہ کئی برسوں تک اس شہر سے تو جیسے قسمت ہی روٹھی رہی۔ بادلوں نے برسنا چھوڑ دیا، گزشتہ سال سورج نے ایسی آگ برسائی کہ دو روز میں سیکڑوں افراد لقمہ اجل بن گئے، لیکن ہم بات کر رہے ہیں بدامنی کی، جس نے اس پاک سرزمین کے اس دل کا وہ حال کیا کہ نوبت بائی پاس تک جا پہنچی۔ سرمایہ کار، سیاح اور تاجر کیا آتے، خود یہاں کے رہنے والوں نے بھی شہر چھوڑنے میں عافیت جانی۔ گینگ وار، بھتہ خوری، اغواء برائے تاوان، ٹارگٹ کلنگ ، کیسی کیسی اصطلاحات متعارف نہیں ہوئیں۔ شاہد ہی کوئی دن جاتا جب شہر سے آٹھ ،دس جنازے نہ اُٹھتے۔

لیکن قدرت کا یہ قانون بھی اٹل ہے کہ اُس نے ہر رات کے بعد دن اور خزاں کے بعد بہار بنا رکھی ہے، اور اب ایسا لگتا ہے کہ کراچی سے بھی ظلم و بربریت کی کالی رات ختم ہونے کو ہے۔ گلی محلوں میں دندناتے دہشت گرد یا تو جیلوں میں سڑ رہے ہیں یا پھر فورسز سے مقابلوں میں اپنے انجام کو پہنچ چکے ہیں۔ شہر میں امن کی ہوائیں چلنا شروع ہوگئی ہیں۔ سینماہالز میں ہاؤس فل کے بورڈز، فوڈ اسٹریٹس اور تفریحی مقامات پر شہریوں کا رش بتا رہا ہے کہ شہریوں کو بڑے عرصے بعد اطمینان اور سکون میسر آیا ہے۔ آرٹس کونسل سمیت مختلف مقامات پر ہونے والی ادبی سرگرمیاں پاکستان سمیت دنیا بھر میں مقیم ہم وطنوں کو پیغام دے رہی ہیں کہ '' گھرآجاپردیسی تیرا دیس بلائے رہے۔''

حال ہی میں آکسفورڈ یورنیورسٹی پریس کی جانب سے سالانہ اُردو کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ ساحل سمندر کے کنارے لالا زار پر واقع دلکش ہوٹل میں سجنے والی یہ تقریب درحقیقت کراچی کا وہ روشن چہرا تھا جسے بدامنی نے گہنا کر رکھ دیا تھا۔ دنیا بھر کے ادیب، صحافی، دانشور، ڈرامہ نگار، فلمی ستارے، انسانی حقوق کی نمائندہ تنظمیں، کون تھا جس نے اس کانفرنس میں شرکت ضروری نہ سمجھی ہو۔ طلباء طالبات سمیت وہ طبقات جنہیں شاید ٹھیک سے اُردو بولنا بھی نہیں آتی ہو، اُنہوں نے بھی اس میلے میں بھرپور شرکت کی۔ یہ تقریب چونکہ امریکی ادارے یو ایس ایڈ کے تعاون سے منعقد کی گئی تھی، اس لیے پاکستان میں امریکی قونصل جنرل برائن ہیتھ نے بھی خصوصی شرکت کی اور اس میلے کو شہر کی اہم ترین ثقافتی تقریب قرار دیا۔ کانفرنس میں لگ بھگ سو نشستیں منعقد ہوئیں، جن میں ایک بھی ایسی نہ تھی جس میں حاضرین کی اچھی خاصی تعداد موجود نہ ہو۔ افتتاحی سیشن سے خطاب میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی بانی ڈائیریکٹر امینہ سید کا کہنا تھا کہ ''اُنہوں نے اس میلے کا آغاز دو ہزار دس میں اُس وقت کیا جب کراچی آگ اور خون میں نہا رہا تھا، پہلے سال شرکاء کی تعداد پانچ ہزار کے لگ بھگ تھی جو اس بار سوا لاکھ تک جا پہنچی ہے۔'' اس کانفرس سے ایک ماہ قبل ہی آرٹس کونسل آف پاکستان کے تحت آٹھویں عالمی اردو کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، جس میں بھارت، بنگلہ دیش، برطانیہ کے علاوہ پاکستان کے تمام بڑے شہروں سے اہل علم و دانش نے شرکت کی۔ گزشتہ سال کے اختتام پر ہی ایکسپو سینٹر کراچی میں پانچ روزہ کتابی میلا سجایا گیا جس میں لاکھوں کی تعداد میٍں کتابیں فروخت ہویٔیں۔ اس کے علاوہ نجی ادارے آئے روز کتابوں کی نمائش، مشاعرے اور دیگر تقریبات سجاتے رہتے ہیں جو قائد کے شہر میں بدلتے حالات کا پتہ دے رہے ہیں۔ چند روز قبل یہاں بلدیاتی انتخابات کی گہما گہمی بھی دیکھنے کے قابل تھی۔ ایک نجی ٹی وی کے ملازم کی حیثیت سے میری ڈیوٹی لیاری میں لگی۔ یہ وہی علاقہ ہے جو تقریبا آٹھ سال تک دہشت کی علامت بنا رہا، مسلح گینگز کی آپس میں لڑائی نے ماہی گیروں کی اس پرامن بستی کو جہنم بنا تھا تھا لیکن پولیس اور رینجرز کے کامیاب آپریشن کے بعد یہاں کے حالات میں کافی بہتری آئی ہے۔ بدامنی کی وجہ سے جو لوگ یہاں سے کوچ کر گئے تھے، وہ اب دوبارہ لوٹ رہے ہیں۔

الغرض پورے شہر میں امن کی ہوائیں چل رہی ہیں، روشنیوں کا شہر تاریک رات کے بعد پھر روشنیوں کی طرف لوٹ رہا ہے۔ لوگ ان روشنیوں کا سارا کریڈٹ آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور ڈی جی رینجرز میجر جنرل بلال اکبر اور اُن کی ٹیم کو دیتے ہیں، جو میری نظر میں کسی بھی طرح مناسب نہیں۔ بلاشبہ فورسز کے جوانوں نے شہر کے امن کے لیے بڑی قربانیاں دی ہیں لیکن لاکھ اختلافات کے باوجود وفاقی حکومت اور سندھ پولیس کا کردار بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا، گزشتہ چند برسوں کے دوران سیکڑوں پولیس اہلکاروں نے شہر کے امن کی خاطر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے ہیں، اس کے علاوہ سرکاری ادارے بھی اگر فورسز کا ساتھ نہ دیتے تو اس قدر کامیابیاں ملنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور تھا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سیکیورٹی فورسز اس آپریشن کو جلد از جلد منطقی انجام تک پہنچائیں اور راستے میں آنے والی دیوار خواہ وہ کتنی ہی مضبوط کیوں نہ ہو، اُکھاڑ پھینکے۔ اس کے ساتھ ہم پربھی یہ لازم ہے کہ ہم اپنی غلطیوں پر نظر دوڑائیں ایسے عناصر کو مسترد کردیں جن کی وجہ سے یہ تاریک رات ہم پر مسلط ہوئی، تاکہ یہ شہر صدا امن اور خوشحالی کا گہوار بن جائے۔۔۔
Zubair Niazi
About the Author: Zubair Niazi Read More Articles by Zubair Niazi: 41 Articles with 45151 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.