جب مجھے موسٹ لائِکڈ کا سرٹیفیکیٹ ملا تو
دل خوشی و تشکر کے جزبات سے لبریز ہو گیا۔ یقین آگیا کہ آج بھی یہ ممکن ہے
بغیر سفارش کے۔۔۔۔۔۔ کہ انسان کام کرے اور اسکے ٹیلنٹ کو راستہ و موقع بھی
ملے اور تسلیم بھی کیا جائے۔ اسکے لئے میں ہماری ویب کی بے حد مشکور ہوں کہ
انھوں نے مجھے مو قع بھی دیا اور تسلیم بھی کیا سب سے بڑھ کر وہ پڑھنے والے
جنھوں نے اتنا ریٹ کیا اور اتنی پسندیدگی ظاہر کی کہ "موسٹ لائیکڈ" میں ایک
نام میرا بھی منتخب ہوا۔
ہر انسان میں کچھ کرنے کے جراثیم ہوتے ہِیں مجھے بہت پہلے پتہ لگ گیا تھا
کہ میں لکھ سکتی ہوں نہ لکھوں نہ بولوں تو ہاتھ و زبان میں کھجلی ہونے لگتی
ہے۔ وقت نے ثابت کیا کہ میں ایک کاؤنسلر اچھی بن سکتی ہوں ایک
ٹرینر۔۔۔۔۔۔ساتھ لکھنے کا دل بھی چاہتا رہا اور یہاں وہاں چھوٹے موٹے
اخبارات میں لکھتی رہی۔
کئی جگوں پر مسئلہ یہ ہوا کہ جی میرے پاس کوئی ریفر کرنے کے لئے تعلق نہیں
سو لکھا چھپوا نہیں سکتی۔ کہیں پر صرف وعدے بھی ملے کہ آپکا لکھا ضرور جگہ
پائے گا مگر جگہ نہ ملی۔۔
کئی جگہ پر چھپوانے کے لئے لکھنے سے پہلے فون نمبرز کے تبادلے اور ایس ایم
ایس لکھنے کی پیشکش ہوتی رہی۔ جب ایس ایم ایس نہ لکھے تو آرٹیکل چھپنے کی
بیل بھی منڈھے نہیں چڑھ سکی۔ ایسا تو صرف ایک آدھ نہیں کئی جگوں پر ہوا۔
لکھنے اور دوسروں کو پڑھانے کی خواہش جب بے چین کرتی رہی تو پھر انٹرنیٹ پر
ڈھونڈنا شروع کیا کہ لکھنے کے لئَے کیا کیا جائَے ایک وقت آیا کہ انٹرنیٹ
پر ڈھونڈھنا شروع کر دیا ۔ ڈھونڈھتے ڈھونڈھتے آخر کو ہماری ویب مل گئی۔ کچھ
لکھی چیزیں جمع کروانے پر فوری چھپ بھی گئیں۔
پھر سلسلہ چل نکلا اور ایک کے بعد ایک جمع کرواتی رہی۔ ہر دفعہ ہوا یہ کہ
اپنا ٹرینر والا رنگ کہیں نہ کہیں جھلک جاتا ۔ آہستہ آہستہ لوگوں نے پڑھنا
بھی شروع کیا اور کچھ بہت پسند بھی آئے۔ پھر لکھتے لکھتے اندازہ ہوا کہ ہر
ایک کو نصیحت آمیز مواد پڑھنے کے لئے پہنچانا عقلمندی نہیں۔ مگر پھر بھی
اندر کا ٹرینر نہ رکا۔ حل یہ نکلا کہ مزاح کا تڑکا بھی لگانا شروع کر دیا۔
لکھتے لکھتے جب وقت ہو گیا تو ایک دن پتہ لگا کہ ای میل کے ذریعے کہ اب نا
م فیچر رائٹرز کی لسٹ میں ڈال دیا گیا ہے۔ خوشی کا ٹھکا نا نہیں۔ پھر زیادہ
باقاعدگی سے لکھنا شروع کر دیا۔ مزید اچھا لکھنے کے لئے پھر اپنا مطالعہ
اپنا تجربہ اپنا مشاہدہ اپنے متعلقہ میدانوں میں بڑھانے کا کام بھی جاری
رہا۔ جو کچھ سیکھا شئیر بھی کرتی رہی۔
اس سب سلسلے کے دوران دو معاشرتی روئیے جو مجھے بے حد دلچسپ لگے جو کہ ہم
سب ہی اگر کام کرنے والے ہیں تو انکا سامنا ضرور کرتے ہیں۔ جب کسی نے پوچھا
فیچر رائٹر کیسے بنی۔ میں نے بتا یا شوق کام اور اللہ کا فضل۔ مگر جواب آتا
کہ نہیں ریفرنس کیا ہے یہ پوچھا ہے؟ اب ریفرنس تو تھا کوئی نہیں۔ مستقل
مزاجی سے کام کرنے نے کچھ بنا دیا۔ جب کسی نے پوچھا کہ رائٹر بنا کیسے جاتا
ہے؟ بتا یا کہ پریکٹس اور مزید پریکٹس۔ جب بہت سوں نے پوچھا تو "رائٹر بننے
کی ریسپی " کے نام سے ایک آرٹیکل بھی لکھ ڈالا۔ جس میں محنت اور سیکھنے کی
کہانی بیان کی۔ مگر بہت سوں کو یقین نہ آیا۔
تب پتہ چلا کہ ایک تو لوگ ہمارے ہاں ٹیلنٹ سے زیادہ ریفرنس پر یقین رکھتے
ہیں۔ اور شارٹ کٹ سے کم کام کر کے زیادہ کامیابی سمیٹنا چاہتے ہیں۔
تب پتہ چلا بلکہ یقین آگیا کہ واقعی ٹیلنٹ کو سہارا دینے والے ،مل جاتے ہیں
ٹیلنٹ اپنا آپ منوا لیتا ہے اور شارٹ کٹ مارنے والے ہی سب سے ذیادہ سفارش
ڈھونڈتے اور ٹیلنٹ کی ناقدری کا رونا روتے نظر آتے ہیں۔
ہماری ویب کا شکریہ کہ اس نے بہت سے ٹیلنٹڈ لوگوں کو سہارا دیا۔۔۔۔۔۔ |