دور فاروقي ميں ايك شخص كا قبر نبي سے تبرك

دور فاروقي ميں ايك شخص كا قبر نبي سے تبرك
تحقیق: فضیلۃ الشیخ علامہ ظہیر امن پوری حفظہ اللہ

عن مالك الدار، قال: وكان خازن عمر علي الطعام، قال: أصاب الناس قحط في زمن عمر، فجاء رجل إلي قبر النبي صلي الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، استسق لأمتك، فإنهم قد هلكوا، فأتي الرجل في المنام، فقيل له: ائت عمر فأقرئه السلام، وأخبره أنكم سستقمون، وقل له، عليك الكيس، عليك الكيس، فأتي عمر، فأخبره، فبكي عمر، ثم قال: يا رب، لا آلو إلا ما عجزت عنه

مالک دار، جو کہ غلے پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی طرف سے خزانچی مقرر تھے، ان سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں لوگ قحط میں مبتلا ہوگۓ. ایک صحابی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر حاضر ہوۓ اور عرض کی: اللہ کے رسول! آپ (اللہ تعالی سے) اپنی امت کے لیے بارش طلب فرمائیں، کیونکہ وہ (قحط سالی کے باعث) تباہ ہو گئ ہے. پھر خواب میں نبی کریم اس صحابی کے پاس تشریف لاۓ اور فرمایا: عمر کے پاس جاکر میرا سلام کہیں اور انہیں بتائیں کہ تم سیراب کیے جاؤ گے اور عمر سے (یہ بھی) کہ دو کہ عقلمندی سے کام لے. وہ صحابی سیدنا عمر کے پاس آۓ اور انہیں خبر دی تو سیدنا عمر رو پڑے اور فرمایا: اے اللہ! میں کوتاہی نہیں کرتا، مگر یہ کہ میں عاجز ہوں.

مصنف ابن ابی شیب: 6/356، تاریخ ابن ابی خیثم 2/70 الرقم: 1818 دلائل النبوۃ للبیھقی 7/47 وغیرہ

تبصرہ:
اسکی سند ضعیف ہے، کیونکہ:

1. اس میں (سلیمان بن مہران) اعمش مدلس ہیں اور عن سے روایت کر رہے ہیں، ان کے سماع کی تصریح نہیں مل سکی.

امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لا نقبل من مدلس حديثا، حتي يقول فيه: حدثني أو سمعت
ہم کسی مدلس سے کوئ بھی حدیث اس وقت تک قبول نہیں کرتے جب تک وہ اس میں سماع کی تصریح نہ کر دے
الرساله ص: 380

امام یحی بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لا يكون حجة فيما دلس
مدلس راوی کی تدلیس والی روایت قابل حجت نہیں ہے
الکامل لابن عدی 1/34 وسندہ حسن

حافظ سخاوی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
وممن ذهب إلي هذا التفصيل الشافعي وابن معين وابن المديني رحمہم اللہ
جو ائمہ کرام اس موقف کے حامل ہیں، ان میں امام شافعی، امام ابن معین اور امام ابن مدینی کے نام شامل ہیں.
فتح المغیث: 1/182

حافظ علائ رحمہ اللہ اسی کو ثابت کرتے ہوۓ لکھتے ہیں:
الصحيح الذي عليه جمهور أئمة الحديث والفقه والأصول
یہی وہ صحیح مذہب ہے، جس پر جمہور ائمہ حدیث وفقہ واصول قائم ہیں
جامع التحصیل، ص: 111

حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وقالوا: لا يقبل تدليس الأعمش
اھل علم کہتے ہیں کہ اعمش کی تدلیس قبول نہیں ہوتی.
التمھید 1/30

علامہ عینی حنفی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
إن الأعمش مدلس، وعنعنة المدلس لا تعتبر إلا إذا علم سماعه
بلاشبہ (سلیمان بن مہران) اعمش مدلس ہیں اور مدلس راوی کی عن والی روایت اسی وقت قابل اعتبار ہوتی ہے، جب اس کے سماع کی تصریح مل جاۓ.
عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری، تحت الحدیث:219

اس روایت کی صحت کے مدعی پر سماع کی تصریح لازم ہے.

2. مالک دار مجہول الحال ہے سواۓ امام ابن حبان 384/5) نے اسکی توثیق نہیں کی. اسکے بارے میں:

حافظ منذری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لا أعرفه
میں اسے نہیں جانتا
الترغیب والترھیب:29/2

حافظ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لم أعرفه
میں اسے نہی پہچان سکا.
مجمع الزوائد:3/123

اس کے صحابی ہونے پر کوئ دلیل نہیں. لہذا بعض بعد والوں کا اسے صحابہ میں ذکر کرنا صحیح نہیں.

نیز حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ البدایة والنهاية: 167/5 اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباري شرح صحيح بحاري: 495/2
اس روایت کی سند کو صحیح قرار دینا ان کی علمی تسامح ہے. انکی یہ بات اصول حدیث کے مطابق درست نہیں. صرف حافظ ابن کثیر اور حافظ ابن حجر کا اسے صحیح کہنا بعض لوگوں کی دلیل نہیں بن سکتا. کیونکہ بہت سی ایسی روایات کو یہ لوگ بھی صحیح تسلیم نہیں کرتے جنہیں ان دونوں حفاظ نے صحیح کہا ہوا ہے. اور بہت سی ایسی روایات کو یہ لوگ بھی ضعیف تسلیم نہیں کرتے جنہیں ان دونوں حفاظ نے ضعیف کہا ہوا ہے.

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ خود سلیمان بن مہران اعمش کی تدلیس کے روایت حدیث کے مضر ہونے کے بارے میں لکھتے ہیں:
وعندي أن إسناد الحديث الذي صححه ابن القطان معلول، لإنه لا يلزم من كون رجاله ثقات ان يكون صحيحا، لأن الأعمش مدلس، ولم يذكر سماعه من عطاء، وعطاء يحتمل أن يكون هو عطاء الخراساني، فيكون فيه تدليس التسوية بإسقاط نافع بين عطاء وابن عمر
میرے خیال میں جس حدیث کو ابن قطان نے صحیح کہا ہے، وہ معلول (ضعیف) ہے، کیونکہ راویوں کے ثقہ ہونے سے حدیث کا صحیح ہونا لازم نہیں آتا. اس میں اعمش مدلس ہیں اور انہوں نے عطا سے اپنے سماع کا ذکر نہیں کیا. اور یہ بھی احتمال ہے کہ اس سند میں مذکور عطاء خراسانی ہوں، یوں اعمش کی تدلیس تسویہ بن جاۓ گی، کیونکہ اس صورت میں انہوں نے عطا اور سیدنا ابن عمر کے درمیان نافع کا واسطہ بھی گرا دیا ہے.
التلخیص الحبیر: 3/19

حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
قال علي بن المديني: قال يحيي بن سعيد: قال سفيان و شعبة لم يسمع الأعمش هذا الحديث من إبراهيم التيمي، قال أبو عمر: هذه شهادة عدلين إمامين علي الأعمش بالتدليس، وأنه كان يحدث عن من لقيه بما لم يسمع منه، وربما كان بينهما رجل أو رجلان، فلمثل هذا وشبهه قال ابن معين وغيره في الأعمش: أنه مدلس
امام علی بن مدینی نے امام یحی بن سعید قطان سے نقل کیا ہے کہ امام سفیان اور امام شعبہ رحمہم اللہ نے فرمایا کہ اعمش نے یہ حدیث ابراہیم تیمی سے نہیں سنی. میں (ابن عبدالبر) کہتا ہوں کہ اعمش کے مدلس ہونے پر یہ دو عادل اماموں کی گواہی ہے اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اعمش ان لوگوں سے ان سنی روایات بیان کرتے تھے، جن سے ان کی ملاقات ہوئ ہوتی تھی. بسا اوقات ایسے لوگوں سے اعمش ایک یا دو واسطے گرا کر بھی روایات لیتے تھے. اسی طرح کے حقائق کی بنا پر امام ابن معین وغیرہ نے اعمش کو مدلس قرار دیا ہے.
التمھید لما فی المؤطآ من المعانی والاسانید 1/32

تنبیہ:
امام طبری رحمہ اللہ کی تاریخ (98/4) اور حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کی البدایه والنھایه میں ہے:
حتي أقبل بلال بن الحارث المزني، فاستأذن عليه رحمہ اللہ ، فقال: أنا رسول رسول الله إليك، يقول لك رسول الله.."
بلال بن حارث مزنی آۓ، تو انہوں نے اجازت طلب کی اور کہا: میں آپ کی طرف رسول اللہ کا ایلچی ہوں، اللہ کے رسول آپ سے فرماتے ہیں.."
یہ روایت بھی جھوٹ کا پلندا ہے، کیونکہ:
1. شعیب بن ابراہیم رفاعی کوفی مجہول راوی ہے. اسکے بارے میں
امام ابن عدی فرماتے ہیں:
وشعيب بن إبراهيم هذا، له أحاديث وأخبار، وهو ليس بذلك المعروف، ومقدار ما يروي من الحديث والاخبار ليست بالكثيرة، وفيه بعض النكرة، لأن في أخباره وأحاديثه ما فيه تحامل علي السلف
اس شعیب بن ابراہیم نے کئ احادیث اور روایات بیان کیں ہیں. یہ فن حدیث میں معروف نہیں. اسکی بیان کردہ احادیث و روایات زیادہ نہیں. پھر بھی ان میں کچھ نکارات موجود ہیں، کیونکہ ان میں سلف صالحین کی اہانت ہے.
الکامل فی ضعفاء الرجال: 7/5

حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فيه جهالة.
اس میں جہالت ہے
میزان الاعتدال 275/2

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وفي ثقات ابن حبان: شعيب بن إبراهيم من أهل الكوفة، يروي عن محمد بن أبان ابلخي (الجعفي)، روي عنه يعقوب ابن سفيان، (قلت) فيحتمل ان يكون هو، والظهر أنه غيره
ثقات ابن حبان میں ہے کہ شعیب بن ابراہیم کوفی، محمد بن ابان بلخی جعفی سے روایت کرتا ہے اور اس سے یعقوب بن سفیان نے روایت کیا ہے. (میں کہتا ہوں) ممکن ہے کہ یہ راوی وہی ہو، لیکن ظاہرا یہ کوئ اور راوی لگتا ہے.
لسان المیزان 145/3

2. سیف بن عمر راوی بالتفاق محدثین ضعیف، متروک وضاع ہے. اس کی روایت کا قطعا کوئ اعتبار نہیں.

ا3. اسکا استاذ سہل بن یوسف بن سہل بن مالک انصاری بھی مجہول ہے. اس کے بارے میں حافظ ابن حجر لکھتے ہیں:
مجهول الحال
یہ مجہول الحال راوی ہے
لسان المیزان 122/3

حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ اسکی ایک روایت کو موضوع منکر قرار دیتے ہوۓ فرماتے ہیں:
لا يعرف
یہ مجہول الحال راوی ہے
الاستعیاب فی معرف الاصحاب 667/2

ثابت ہوا کہ بعض الناس کا یہ کہنا کہ مذکورہ روایت میں خواب دیکھنے والا شخص صحابی رسول، سیدنا بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہ ہیں بالکل بے بنیاد ہے

گویا اس ارٹیکل:
https://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=71507

میں پیش کیے صاحب کا اس ضعیف روایت سے استدلال صحیح نہیں. افسوس اس بات پر ہے کہ ان احباب کا دارومدار صرف روایت پیش کرنے پر ہے نہ کہ یہ دیکھنے پر کہ مذکورہ روایت صحت و سقم کے اعتبار سے کیا درجہ رکھتی ہے.
 
manhaj-as-salaf
About the Author: manhaj-as-salaf Read More Articles by manhaj-as-salaf: 291 Articles with 448688 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.