میں ہار نہیں مانوں گا!

نہ جانے وہ کیا سوچ کر درخت کے سائے میں لگی ایک بینچ پر بیٹھ گیا تھا۔۔۔وہ ایک عرصے سے اسی راستے کا مسافر تھا۔۔۔مگر اس نے کبھی دھیان ہی نہیں دیا تھا کہ یہ بینچ یہاں کیوں لگی ہے ۔۔۔آج جب وہ یہاں سے گزر رہا تھا تو اسے محسوس ہوا جیسے اس کہ پیر کچھ بوجھل سے ہو رہے ہیں۔۔۔معلوم نہیں بوجھل ہو رہے تھے یا اس بینچ کو دیکھ کر بوجھل ہوگئے۔۔۔اس نے بینچ پر بیٹھتے ہوئے سوچا کہ بینچ شائد میرے لئے ہی لگائی گئی تھی مگر میں رکتا تو کیا دیکھتا ہی نہیں تھا۔۔۔مگر آج میں رکا بھی اور اس بینچ پر بیٹھ گیا اس نے رب کا شکر ادا کیا اور ساتھ ہی اس سرکاری اہکار کا بھی شکر گزار ہوا جس نے یہ بینچ یہاں نسب کروائی تھی۔۔۔

وہ سوچ رہا تھا کہ تھکن کسی کی ہار اور جیت میں کتنا کردار ادا کرسکتی ہے ۔۔۔ایک وہ وقت بھی تھا جب وہ اس جگہ سے تقریباً بھاگتے ہوئے اس جگہ سے گزرتا تھا۔۔۔اور آج یہ نوبت آچکی تھی کہ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی یہاں بیٹھ گیا تھا۔۔۔وہ تھک چکا تھا ۔۔۔زندگی نے اسے اتنا دوڑایا تھا اتنا بھگایا تھا کہ وہ تھک کر اس بینچ پر براجمان ہوچکا تھا۔۔۔زندگی سے وفا نہیں ہے ۔۔۔نہ جانے کیوں لوگ اپنے محبوب کو زندگی کہتے ہیں یا وہ جان بوجھ کر ایسا کرتے ہیں۔۔۔اکثر محبوب بے وفا ہی تو نکلتے ہیں۔۔۔وہ زندگی کو خوبصورت دیکھنا چاہتا تھا بنانا چاہتا تھا۔۔۔اس چاہ میں وہ ہلکان ہوگیاتھا۔۔۔اور اب راستے کی ایک بینچ پر بیٹھا تھا۔۔۔اب وہ ایسے ہی بیٹھا رہنا چاہتا تھا۔۔۔دور سڑک پر سے گزرتی گاڑیاں ، گاڑیوں میں بیٹھے لوگ سب اپنی طرح پریشان لگ رہے تھے۔۔۔وہ ان لوگوں کہ لئے پریشان تھا۔۔۔مگر ان میں امید کہ ساتھ ساتھ ہمت بھی باقی تھی۔۔۔اسکے پاس امید تو باقی تھی مگر ہمت جواب دیتی جارہی تھی۔۔۔سورج اپنی شعاعیں سمیٹ رہا تھا ۔۔۔رات کی سیاہی آہستہ آہستہ اطراف کی ہر چیز کو نظروں سے پوشیدہ کئے جارہی تھی۔۔۔وہ اپنی ہتھیلیوں میں اپنی تھوڑی رکھے ہوئے گہری سوچوں میں گم تھا۔۔۔تاریکی بڑھنے لگی تھی۔۔۔دور سے گزرتی کسی گاڑی کی روشنی نے اسکی پلکوں کو جھپکنے پر امادہ کیا۔۔۔وہ اٹھا اور چلنے لگا ۔۔۔اسی راستے پر جس سے اسکے پاؤں بہت بخوبی شناسا تھے۔۔۔وہ راستہ بدلنے کیلئے تیار نہیں تھا ۔۔۔وہ کوئی ہم سفر چننے کیلئے تیار نہیں تھا۔۔۔وہ اکیلا بینچ پر بیٹھا رہنا چاہتا تھا۔۔۔وہ بہت اچھی طرح جانتا تھا کہ راستے کہ قریب پہنچ کر مایوسی اپنے عروج پر پہنچ جاتی ہے۔۔۔اسکی مایوسی بھی اسے بہت اچھی طرح جانتی تھی۔۔۔وہ جانتی تھی کہ یہ بظاہر مایوس ہے یا تھوڑا سا تھکا ہوا ہے جس کی وجہ سے اس نے مایوسی کا دل رکھنے کیلئے اسے اپنی بینچ پر تھوڑی سی جگہ دی ہے ۔۔۔اس کی جستجو میں کبھی کمی نہیں آئی ہے ۔۔۔راستے بدلے ہیں، انداز بدلے ہیں، مگر جستجو ترک نہیں کی۔۔۔بسوں کہ پیچھے بھاگنا ہو یا قطاروں میں لگنا ہو۔۔۔وہ اپنی جستجو سے نظریں چرانے والا نہیں۔۔۔کسی کا دھوکا ، کسی کی بے وفائی یا بے اعتنائی ،کیسے بھی حالات تھے وہ اپنی منزل کی جانب گامزن تھا۔۔۔وہ بہت اچھی طرح اس حقیقت سے بھی واقف تھا کہ زندگی کہاں اور کب اس کا یا کسی کا بھی ساتھ چھوڑ دیگی ۔۔۔کوئی نہیں جان سکتا۔۔۔وہ وقت کو بہترین استعمال کرنا چاہتا تھا۔۔۔کبھی کبھی تو وہ چاہتا کہ میں اپنے آپ کو بانٹ لوں اور کم وقت میں زیادہ سے زیادہ کام کرلوں۔۔۔مگر ہر کام اپنے وقت پر ہی ہوتا ہے ۔۔۔

اب ہوا کی خنکی اسے محسوس ہونے لگی تھی۔۔۔چاندنی سے اسکی آنکھوں کی نمی خشک ہو چکی ۔۔۔اب وہ بس اسٹاپ پر کھڑا آنے جانے والی گاڑیوں میں اپنے گھر جانے والی گاڑی کہ نمبر پر غور کر رہا تھا۔۔۔اسکے وجود میں ایک نئی روح سی پھونک دی گئی تھی۔۔۔اس نے بینچ پر بیٹھے بیٹھے اپنے آپ سے تمام واقعات کا احاطہ کیا تھا اور خود کو یہ سمجھانے پر امادہ ہو گیا تھا کہ کل کا سورج نئی کرنوں کی تمازت سے حرارت سے مجھے نئی ہمت اور حوصلہ دے گا۔۔۔اس نے اپنے آپ کو باور کرایا تھا کہ میں ہار نہیں مانونگا۔۔۔
Sh. Khalid Zahid
About the Author: Sh. Khalid Zahid Read More Articles by Sh. Khalid Zahid: 529 Articles with 454791 views Take good care of others who live near you specially... View More