ایک سبق ایک کہانی
(Dr Zahoor Ahmed Danish, Karachi)
مسلمان حاکم ہارون الرشید عبّاسی کے دو
بیٹے تھے۔ اس نے اپنے دونوں بیٹوں کو ایک بزرگ استاد کے پاس پڑھنے کے لیے
بٹھایا۔ ایک دن حاکم کے دل میں خیال آیا کہ مجھے استاد صاحب کے پاس جا کر
اپنے بیٹوں کی پڑھائی کے بارے میں معلوم کرنا چاہیے۔ حاکم استاد صاحب کی
ملاقات کے لیے گیا۔ جب استاد صاحب حاکم کے استقبال کے لیے اُٹھنے لگے تو
دونوں شہزادے دَوڑکر اُٹھے اور اپنے استاد کی جوتی اس کے پاؤں کے آگے رکھنے
میں پہل کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ ایک شہزادے کی خواہش تھی کہ پہلے مَیں جوتی
رکھوں اور دوسرے شہزادے کی خواہش تھی کہ یہ کام پہلے مَیں کروں۔ حاکم نے جب
استاد کے احترام کا یہ منظر دیکھا۔ تو اس نے استاد صاحب سے کہا کہ آپ
جیساآدمی مر نہیں سکتا۔
پیارے بچو!اس چھوٹی سی کہانی سے تم نے کیا سبق سیکھا؟ یہی ناکہ ہمیں اپنے
بزرگوں اور استادوں کا احترام اور ان کی عزت کرنی چاہیے۔ بچو!سچّی بات تو
یہ ہے کہ دنیا میں کوئی بھی قوم اس وقت ہی زندہ قوم کہلاسکتی ہے جب اس قوم
کے بچوں اور نوجوانوں میں یہ خواہش پیدا ہو کہ جو بڑے بڑے اور اچھے اچھے
کام ہمارے بزرگوں نے کیے ہیں وہی کام بلکہ ان سے بڑھ کر کام کرنے کی ہم
کوشش کریں۔ جب تمہارے دل میں اپنے بزرگوں جیسا بننے کی خواہش پیدا ہوگی تو
یقینا تم ان کی زندگی کے حالات اور ان کے کارناموں کے بارے میں بھی جاننا
چاہو گے۔
آؤ!آج مَیں تمہیں اسلامی تاریخ کے ایک بہت بڑے بزرگ اور عالمِ دین امام
اعظم ابو حنیفہؒ کی زندگی کے حالات اور ان کے کارناموں اور ان کی شخصیت کے
بارے میں پیاری پیاری باتیں بتاتی ہوں۔
بچو!کوفہ ایک بہت ہی پیارا شہر ہے۔ پتہ ہے!جب عرب کے مسلمان بہت زیادہ ترقی
کرگئے اور یہاں کی آبادی میں اضافہ ہونے لگا تو حضرت عمرفاروقؓ نے حضرت
سعدبن ابی وقاصؓ کو ایک خط لکھا کہ مسلمانوں کے لیے ایک شہر بساؤ۔ حضرت سعد
بن ابی وقاصؓ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے اور
کسریٰ کی زبردست حکومت کو بھی آپ ہی کے ہاتھوں شکست ہوئی۔ آپ نے مسلمانوں
کا شہر بسانے کے لیے کوفہ کی زمین کو پسند کیا۔ 17ھ میں اس شہر کی بنیاد
رکھی گئی۔ بہت سادہ اور معمولی قسم کے مکانات بنائے گئے۔ عرب کے مختلف
قبیلے اس شہر میں آکر آباد ہونے لگے۔ تھوڑے ہی دنوں میں اس شہر نے بہت
مقبولیت حاصل کرلی۔ حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے اس شہر کو دارالخلافہ قرار دیا۔
اس شہر میں جن بزرگوں نے سکونت اختیار کی ان میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم
کے ساتھ غزوۂ بدر میں شامل ہونے والے صحابہؓ بھی تھے۔
بچو!ان بزرگوں کی وجہ سے کوفہ نے مکّہ معظمہ اور مدینہ منوّرہ کی طرح دار
العلمیعنی علم کے گھر کی حیثیت اختیار کی۔اسی علم کے گھر یعنی کوفہ میں
ہمارے پیارے بزرگ حضرت امام ابو حنیفہؒ 80ھ میں پیدا ہوئے۔ 80ھ عبدالملک بن
مروان کا عہدِ حکومت تھا۔ یہ زمانہ قرونِ اولیٰ (ابتدائی زمانہ)کہلاتاہے۔
بچو! یہ تو تم جانتے ہوکہ قرونِ اولیٰ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور صحابہؓ
کا زمانہ تھا۔ ہمارے پیارے امام ابو حنیفہؒ کتنے خوش قسمت تھے کہ آپ نے اس
مبارک زمانہ کو پایا جس میں کچھ صحابۂ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم بھی موجود تھے۔
بچو!حضرت امام ابو حنیفہؒ کا اصل نام نعمان تھا۔ آپ کا قد درمیانہ اور چہرہ
خوبصورت تھا۔ آپ کے دادا کا نام زوطی اور والد کا نام ثابت تھا۔ آپ کا
خاندان ایران کا ایک مشہور اور باعزّت خاندان تھا۔ جب ایران میں اسلام
پھیلنا شروع ہوا تو آپ کے دادا زوطی نے اسلام قبول کرلیا۔ گھر اور خاندان
والوں نے ناراضگی کا اظہار کیا تو سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر عرب تشریف لے آئے۔
اس وقت حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی حکومت کا زمانہ تھا۔ آپ کے دادا کوفہ میں
ٹھہر گئے۔ یہیں پر حضرت امام ابو حنیفہؒ کے والد ثابت پیدا ہوئے جنہیں حضرت
امام ابو حنیفہؒ کے دادا حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی خدمت میں لے گئے۔ حضرت علی
رضی اﷲ عنہ نے انہیں پیار کیا اور ان کے لیے دعابھی کی۔ آپ کے والد تجارت
کیا کرتے تھے۔ حضرت امام ابو حنیفہؒ کی پیدائش کے وقت ان کے والد کی عمر
چالیس سال تھی۔
حضرت امام ابو حنیفہؒ کے بچپن کے زمانہ میں عرب کے سیاسی حالات بہت خراب
تھے۔ عبدالملک بن مروان نے حجّاج بن یوسف کو عراق کا گورنر مقرر کیا۔ حجّاج
بن یوسف بہت ظالم گورنر تھا۔ عبدالملک بن مروان کے بیٹے ولید کے عہدِ حکومت
میں 95ھ میں اس کا انتقال ہوا۔ ایک سال کے بعد ولید کا بھی انتقال ہوگیا۔
ہمارے پیارے بزرگ امام ابو حنیفہؒ کاتمام بچپن ایسی حالت میں گذراکہ ملک کے
سیاسی حالات بہت خراب تھے۔ امن وامان نہیں تھا۔ قرآن کریم حفظ کرلینے کے
بعد ابھی دین کا علم سیکھ رہے تھے اور علمی بحثیں کرتے تھے۔ ایک دن کیا ہوا
کہ حجّاج بن یوسف کا زمانہ تھا، امام صاحب بحث میں مصروف تھے کہ ایک شخص نے
آپ سے خالص دینی فرائض کے بارے میں ایک مسئلہ پوچھا۔ اب بچو! آپ نے دینی
علوم تو حاصل کیے ہی نہیں تھے اس لیے اس کو کوئی جواب نہیں دے سکے۔ وہ شخص
کہنے لگا آپ بحثیں تو بہت لمبی لمبی کرتے ہیں مگر ایک دینی فریضہ تک کا آپ
کو پتہ نہیں۔ امام صاحبؒ یہ سن کر بہت شرمندہ ہوئے اور ارادہ کر لیا کہ اب
میں دین کا علم حاصل کروں گا۔
بچو!ولید کے انتقال کے بعد حکومت سلیمان بن عبدالملک کے حصّے میں آئی جو
ولید کا سگا بھائی تھا۔ وہ بہت ہی نیک اور علم سے محبت رکھنے والا انسان
تھا۔ اس کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے حضرت عمرؒ بن عبدالعزیز کو
اپنا مشیر خاص بنایا۔ پھر باوجود اس کے کہ اس کے اپنے بھائی اور بیٹے موجود
تھے اس نے حضرت عمرؒ بن عبدالعزیز کو ولی عہد منتخب کیا۔ سلیمان بن
عبدالملک کی حکومت کے زمانہ میں لوگوں کی توجہ مذہبی اور علمی گفتگو کی
جانب ہوئی۔ امام ابو حنیفہؒ کے دل میں بھی خالص دینی علم حاصل کرنے کا شوق
پیدا ہوچکا تھا۔ بحث ومباحثہ سے آپ کی طبیعت بیزار ہوچکی تھی۔ اس وقت آپ کی
عمر17سال تھی۔ آپ اپنے والد کی طرح تجارت کیا کرتے۔ اپنی دیانتداری کی وجہ
سے آپ نے تجارت میں بہت ترقی حاصل کی۔
بچو!ایک دن کسی تجارتی کام کی غرض سے آپ بازار جانے کے لیے گھر سے نکلے۔
راستہ میں امام شعبیؒ کامکان تھا۔ آپ کوفہ کے ایک بہت بڑے امام تھے۔ امام
شعبیؒ نے ابو حنیفہؒ کو دیکھا تو اپنے پاس بلایا اور پوچھا۔ کہاں جارہے ہو؟
آپ نے جواب دیا کہ میں تجارتی کام سے بازار ایک سوداگر کے پاس جارہا ہوں۔
امام شعبیؒ نے پھر پوچھا کہ میرا مطلب ہے کہ تم کس سے پڑھتے ہو؟ آپ نے جواب
دیا۔ کسی سے بھی نہیں پڑھتا۔ اس پر امام شعبیؒ نے فرمایا تمہیں چاہیے کہ
عالم لوگوں کے ساتھ بیٹھا کرو اور علم حاصل کیاکرو۔
بچو! اصل میں بات یہ تھی کہ حضرت امام ابو حنیفہؒ شکل سے تاجر لگتے ہی نہ
تھے۔ آپ فضول گفتگو بالکل نہیں کرتے تھے۔ اگر کوئی سوال کرتا تو نہایت ادب
اور احترام کے ساتھ اسے جواب دیتے۔ یہی وجہ تھی کہ جو کوئی بھی آپ کو
دیکھتا وہ تاجر کی بجائے آپ کو طالب علم سمجھتا تھا۔ امام شعبیؒ کی بات نے
آپ کے دل پر بہت اثر کیا اور آپ نے دل میں پکّا فیصلہ کرلیا کہ اب مَیں
عالم لوگوں کے ساتھ بیٹھوں گا اور دین کا علم حاصل کروں گا۔
بچو!تم نے یہ پیاری حدیث بھی سُنی ہوگی کہ طالب علم کے راستے میں فرشتے
اپنے پَر بچھا دیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جوشخص بھی علم حاصل کرناچاہتا
ہے اﷲ تعالیٰ اپنے فرشتوں کے ذریعہ اس کی مدد کرتاہے۔ حضرت امام صاحب نے
بھی اﷲ تعالیٰ کے فضل اور اس کی مدد کے ساتھ علم حاصل کرنا شروع کیا۔ اس
زمانہ میں علم حاصل کرنے کا طریقہ یہ تھاکہ اساتذہ کسی خاص مسئلہ پر طالب
علموں کے سامنے تقریر کیا کرتے پھر طالب علم کو جوبات سمجھ نہ آتی وہ ان سے
پوچھ لیا کرتے اور ساتھ ہی اسے لکھ بھی لیتے تھے۔کوفہ میں امام حمادؒ کی
درس گاہ بہت بڑی اور مشہور تھی۔ امام اعظم ابو حنیفہؒ نے بھی اسی درس گاہ
کا انتخاب کیا اور فقہ کی تعلیم حاصل کی۔ تم میں سے اکثربچوں کو یہ معلوم
نہیں ہوگا کہ فقہ کا علم کسے کہتے ہیں؟ آؤ مَیں تمہیں سمجھاؤں کہ فقہ کا
علم کیاہوتاہے؟
دیکھو بچو!!ہمارے پیارے اﷲ میاں نے تمام دنیا کی ہدایت کے لیے آنحضرت صلی
اﷲ علیہ وسلم کو پیدا کیا اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم پر قرآن مجید جیسی پیاری
اور مکمل کتاب نازل فرمائی۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہمیں بتایا کہ
دیکھو! قرآن کریم کے ذریعہ اﷲ تعالیٰ نے تمام انسانوں کے نام ایک بہت پیارا
خط لکھا ہے اور مجھے اس کام پر مقرر کیاہے کہ مَیں یہ خط پڑھ کر تمہیں
سناؤں اور تمہیں سمجھاؤں۔ اب جو بات بھی میں کہوں یا جو عمل بھی مَیں کروں
تو سمجھ لینا کہ وہ بات اور وہ عمل مَیں نے خدا کے حکم کے مطابق کیاہے۔
دینی یا دنیاوی معاملہ میں اگر تمہیں کوئی مشکل پیش آئے تو قرآن کریم اور
میری بات اور عمل کے ذریعہ اس مشکل سے نجات حاصل کرلینا۔
بچو!جب ہمارے پیارے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوتی توآپﷺ لوگوں کو
زبانی بھی سمجھا دیا کرتے اور اس حکم پر عمل کرکے رہنمائی فرما دیتے تھے۔
آپﷺ کی وفات کے بعد بھی جب کبھی کوئی مسئلہ پیش آجاتا تو صحابہ غور کرتے کہ
اس بارے میں قرآن کا کیا حکم ہے اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے کیا فرمایا
ہے اورآپﷺ کا اس بارے میں کیا عمل اور ارشاد تھا۔ اس طرح قرآن، سنّت اور
حدیث کی روشنی میں وہ اپنے علم کے مطابق مسائل حل کیاکرتے تھے۔
محترم قارئین :یہ تحریر فقط آپ کے لیے ہی نہیں بلکہ آپ کے بچوّں کے لیے بھی
لکھی گئی ہے ۔انھیں گھر میں پڑھ کرسنائیں ۔بتائیں ۔اسلاف کے کردار اسے آگاہ
کریں ۔پھر دیکھئے گا آپ کو کیسے ثمرات کرتے ہیں ۔ |
|