شاعری کا تیسرا دور 1908 تا 1923
علامہ صاحب کے شاعری کے تیسرے دور میں گورا راج نے 1911 میں ہندوؤں کی
مخالفت کے سامنے گھٹنے ٹیکتے ہوئے تقسیم بنگال کو منسوخ کر دیا ۔ پھر 1913
میں مسجد شہید گنج کانپور کا واقعہ بہت اہمیت کا حامل تھا۔ جس نے مسلمانوں
کو اپنے حقوق کے تحفظ کی تحریک میں بنیادی اور کلیدی کردار ادا کرنے کی طرف
پہلا قدم بنا دیا۔ اور 1914 میں پہلی جنگ عظیم کا آغاز ہوا۔ جس میں ملت
اسلامیہ کے مرکز خلافت عثمانیہ ترکی نے جرمنی اور جاپان کے ساتھ شامل ہوکر
دنیا کی اتحادی ممالک کے خلاف صف آرا ہوا۔ برطانوی حکومت کے زیر اثر
ہندوستان بھی بالواسطہ یا بلا واسطہ سلطنت عثمانیہ ترکی کے خلاف جنگ میں
شامل ہوا۔ مسلمان جسے اپنا اسلامی مرکز سمجھتے تھے وہ اس سے پہلے ہی یورپ
کے مرد بیمار کا مقام پا چکا تھا۔ اس جنگ کی وجہ سے آخری سانسوں پہ چلا گیا۔
مسلمان ترکی سے دلی وابستگی رکھتے تھے۔ اور اس جنگ میں ترکی کا کردار اتنا
اہم نہیں تھا مگر انجام بہت اہم تھا۔ پہلی جنگ عظیم کے خاتمے پر جس طرح
ترکی کے حصے بخرے کر کے بندر بانٹ کی گئی۔ وہ ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے
درد اور اذیت کا باعث تھی۔ اور اس جنگ کے خاتمے کے بعد ہی ہندوستان کے اندر
انتہا پسند تنظیموں کا اثر ورسوخ بڑھتا چلا گیا۔ جو مسلمانوں سے مفاہمت کی
بجائے مخاصمت کی روش پر عمل پیرا تھیں۔ سیاسی جماعتیں سیاسی داؤ پیچ سے اس
مسئلے کے حل میں کوشاں تھیں۔
علامہ اقبال اپنی اس فکر کو اشعار کی زبان میں مجلسوں میں بیان کرتے۔ اور
قوم کے اندر نئی و ولولہ کو پیدا کرنے کی تحریک بنے۔ شعور کی بیداری اور
تحریکوں کے آغاز نے قوم میں جو نئی روح پھونکی۔ تو قومیں اپنے حقوق کے تحفظ
کے لئے آواز بلند کرتی چلی گئیں۔ جوں جوں منزل قریب آتی گئی فاصلے بڑھتے
چلے گئے اور راستے جدا ہوتے چلے گئے۔
علامہ صاحب کی شاعری میں وہ تمام اثرات جو ان کی دلی کیفیت کے غماز تھے
نمایاں نظر آتے ہیں۔
بلاد اسلامیہ علامہ اقبال کی وہ نظم ہے کہ جس میں انہوں نے نہایت خوبصورت
پیرائے میں پرچم اسلامی کی سر بلندی کی داستان بیان کر دی اور ان کا مکہ
معظمہ و مدینہ منورہ سمیت اسلام سے عقیدت عشق کا اظہار پڑھنے کے لائق ہے۔
سرزميں دلی کی مسجود دل غم ديدہ ہے
ذرے ذرے ميں لہو اسلاف کا خوابيدہ ہے
پاک اس اجڑے گلستاں کی نہ ہو کيونکر زميں
خانقاہ عظمت اسلام ہے يہ سرزميں
ہے زمين قرطبہ بھی ديدہء مسلم کا نور
ظلمت مغرب ميں جو روشن تھی مثل شمع طور
مسلم ثقافت و تہذیب کی بدولت عالم دنیا میں عَلم اسلام کی سر بلندی کا ذکر
بار بار کرتے ہیں اور گورستان شاہی میں بادشاہت کے متعلق ان کا انداز کلام
کیا خوب ہے۔
خواب گہ شاہوں کی ہے يہ منزل حسرت فزا
ديدہء عبرت! خراج اشک گلگوں کر ادا
ہے ہزاروں قافلوں سے آشنا يہ رہ گزر
چشم کوہ نور نے ديکھے ہيں کتنے تاجور
اس نشاط آباد ميں گو عيش بے اندازہ ہے
ايک غم، يعنی غم ملت ہميشہ تازہ ہے
دہر کو ديتے ہيں موتی ديدہء گرياں کے ہم
آخری بادل ہيں اک گزرے ہوئے طوفاں کے ہم
ہيں ابھی صد ہا گہر اس ابر کی آغوش ميں
برق ابھی باقی ہے اس کے سينہء خاموش ميں
علامہ اقبال نے اپنی ابتدائی شاعری میں ترانہ ہندی لکھا تھا مگر برصغیر کی
بدلتی سیاسی صورتحال میں ان کی شاعری میں مسلم قومیت کا رنگ نمایاں ہوتا
چلا گیا۔ جب وہ 1908 میں یورپ سے لوٹے تو ہندوستان میں تقسیم بنگال کو لے
کر ہندوؤں نے واویلہ مچا رکھا تھا کیونکہ مسلم اکثریتی مشرقی بنگال (
موجودہ :بنگلہ دیش) صوبہ بننے سے مسلم ترقی اور اکثریتی صوبہ ہندو سے
برداشت نہیں ہو رہا تھا۔ اور آخر کار گورا حکومت نے ان کے سامنے گھٹنے ٹیک
دئیے اور 1911 میں تنسیخ تقسیم بنگال ہو گئی۔ پھر ان کا رحجان شاعری میں
ہندوستان کے ساتھ مسلمان کی طرف بہت نمایاں نظر آتا ہے۔ جیسے ان کا یہ
ترانہ ملی ملاحظہ فرمائیں ۔
چين و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا
مسلم ہيں ہم، وطن ہے سارا جہاں ہمارا
توحيد کی امانت سينوں ميں ہے ہمارے
آساں نہيں مٹانا نام و نشاں ہمارا
یہ وہ دور ہے جب ان کی شاعری میں انسانیت ناطے اشعار کے کہنے کا مزاج بدل
چکا تھا۔ ہندوستان کو مسلم اسلاف کا امین قرار دیتے تھے۔ ان کے نزدیک
بادشاہت کے خاتمے سے ہندوستان فتح ہوا تھا مسلمان نہیں۔ اسی فکر کو انہوں
نے جگانے کی کوشش کی۔ جو بار بار اشعار کی صورت میں مسلم قوم میں اس جذبہ
کو پیدا کرنے کا سبب ہوئی۔ مثلاً ان کے کلام وطنيت (يعنی وطن بحيثيت ايک
سياسی تصور کے( میں ان کا اسلوب بیان قومیت کی تعریف یوں کرتا ہے ۔
گفتار سياست ميں وطن اور ہی کچھ ہے
ارشاد نبوت ميں وطن اور ہی کچھ ہے
اقوام جہاں ميں ہے رقابت تو اسی سے
تسخير ہے مقصود تجارت تو اسی سے
خالی ہے صداقت سے سياست تو اسی سے
کمزور کا گھر ہوتا ہے غارت تو اسی سے
اقوام ميں مخلوق خدا بٹتی ہے اس سے
قوميت اسلام کے جڑ کٹتی ہے اس سے
مسلمان قوم جس مشکل کا شکار تھی۔ طاقت کا توازن بگڑنے سے حاکم محکومی کے اس
مقام پر جا پہنچے جہاں انہیں معاشی ومعاشرتی نا ہموار سماج کے ساتھ ساتھ غم
روزگار کے بھی لالے تھے۔ کئی دہائیوں سے انہیں انگریزی تعلیم کے حصول کی
طرف راغب کیا جارہا تھا۔ انگریز بہادر کے ساتھ ساتھ ہندو صدیاں محکومی کا
بدلہ انگریز کے کندھوں پر چڑھ کر مسلمانوں سے لینا چاہتے تھے۔ علامہ اقبال
کا شکوہ بھی آرزدہ دل مسلمان کی پکار تھی۔
کيوں زياں کار بنوں، سود فراموش رہوں
فکر فردا نہ کروں محو غم دوش رہوں
نالے بلبل کے سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں
ہم نوا ميں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں
ہے بجا شيوہء تسليم ميں مشہور ہيں ہم
قصہ درد سناتے ہيں کہ مجبور ہيں ہم
اے خدا! شکوہء ارباب وفا بھی سن لے
خوگر حمد سے تھوڑا سا گلا بھی سن لے
تھی تو موجود ازل سے ہی تری ذات قديم
پھول تھا زيب چمن پر نہ پريشاں تھی شميم
جسٹس جاوید اقبال اپنی کتاب میں والد محترم کے متعلق لکھتے ہیں کہ علامہ
صاحب جب واپس لوٹے تو انہیں ابتدا میں یورپ میں گزارے گئے اپنے دن یاد آتے
رہے۔ جدید تعلیم سے آراستہ شاعری میں کہنہ مشق اقبال اس وقت کی سیاست کے
لئے انتہائی موضوع اوصاف کے مالک تھے ۔مگر پرواز کی رغبت نہیں تھی تو خود
کو کچھ اس انداز میں نصيحت فرماتے ہیں ۔
ميں نے اقبال سے از راہ نصيحت يہ کہا
عامل روزہ ہے تو اور نہ پابند نماز
تو بھی ہے شيوہ ارباب ريا ميں کامل
دل ميں لندن کی ہوس ، لب پہ ترے ذکر حجاز
جتنے اوصاف ہيں ليڈر کے ، وہ ہيں تجھ ميں سبھی
تجھ کو لازم ہے کہ ہو اٹھ کے شريک تگ و تاز
غم صياد نہيں ، اور پر و بال بھی ہيں
پھر سبب کيا ہے ، نہيں تجھ کو دماغ پرواز
مسلمان نوجوان جس دور سے گزر رہے تھے وہ انہیں جدید دنیا سے روشناس کرانے
میں ایک اہم سمت چل رہا تھا۔ مشینی ترقی سے معاشرتی قدریں اکثر کمزور پڑ
جاتی ہیں۔ اور یہی اس دور کا خاصہ تھا کہ نوجوانوں میں حقوق آزادی کی اُمنگ
کی بجائے عیش ترنگ کی کیفیت طاری تھی۔ جسے جنجھوڑنے کی ضرورت تھی۔ علامہ
صاحب نے خطاب بہ جوانان اسلام میں اسی پیغام کو باور کروایا۔
کبھی اے نوجواں مسلم! تدبر بھی کيا تو نے
وہ کيا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا
تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوش محبت ميں
کچل ڈالا تھا جس نے پاؤں ميں تاج سر دارا
تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہو نہيں سکتی
کہ تو گفتار وہ کردار ، تو ثابت وہ سےارا
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے ميراث پائی تھی
ثريا سے زميں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
اس کے باوجود کہ حالات مسلمانوں کے حق میں بہتر نہیں تھے وہ مسلمانوں کے
استقلال و نیت خلوص پر یقین رکھتے تھے۔ انہوں نے اپنے کلام مسلم جون1912ء
میں ایسے اظہار کیا ۔
آشکارا ہيں مری آنکھوں پہ اسرار حيات
کہہ نہيں سکتے مجھے نوميد پيکار حيات
کب ڈرا سکتا ہے غم کا عارضی منظر مجھے
ہے بھروسا اپنی ملت کے مقدر پر مجھے
شکوہ لکھنے پر انہیں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تو انہوں نے جواب شکوہ
لکھ کر تمام نقادوں، معترضین کو لا جواب کر دیا کہ دل سے جو بات نکلتی ہے
اثر رکھتی ہے ۔
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہيں' طاقت پرواز مگر رکھتی ہے
ہم تو مائل بہ کرم ہيں' کوئی سائل ہی نہيں
راہ دکھلائيں کسے' رہر و منزل ہی نہيں
تربيت عام تو ہے' جوہر قابل ہی نہيں
جس سے تعمير ہو آدم کی' يہ وہ گل ہی نہيں
کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی ديتے ہيں
ڈھونڈنے والوں کو دنيا بھی نئی ديتے ہيں
1911 میں تنسیخ بنگال نے مسلمانوں میں انتہائی مایوسی پیدا کر دی تھی۔
انہیں اپنا مستقبل تاریک نظر آ رہا تھا۔ ایک طاقت کا شاہسوار تو ایک کوڑا
تھا۔ مسلمان بیچارگی کی تصویر بنا اچھے مستقبل کی امید بھی کھوتا جا رہا
تھا۔ ایسے میں علامہ صاحب کا یہ کلام نوید صبح (1912ء) حوصلہ و ہمت بندھانے
کی نوید تھا۔
آتی ہے مشرق سے جب ہنگامہ در دامن سحر
منزل ہستی سے کر جاتی ہے خاموشی سفر
محفل قدرت کا آخر ٹوٹ جاتا ہے سکوت
ديتی ہے ہر چيز اپنی زندگانی کا ثبوت
چہچاتے ہيں پرندے پا کے پيغام حيات
باندھتے ہيں پھول بھی گلشن ميں احرام حيات
مسلم خوابيدہ اٹھ ، ہنگامہ آرا تو بھی ہو
وہ چمک اٹھا افق ، گرم تقاضا تو بھی ہو
صرف قوم کو خوابیدگی سے اُٹھانے پر ہی اکتفا نہیں کرتے تھے بلکہ ان کے لئے
دعا بھی نکلتی ان کے دل سے ۔
يا رب! دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے
جو قلب کو گرما دے، جو روح کو تڑپا دے
پھر وادي فاراں کے ہر ذرے کو چمکا دے
پھر شوق تماشا دے، پھر ذوق تقاضا دے
مغربی دنیا کے زیر اثر نوجوان مسلمان اپنی ثقافت و تہذیب بھی بھولتے جارہے
تھے۔ قوم کی قسمت کا فیصلہ نئی نسل کے ہاتھ میں تھا جنہوں نے قیادت کی ذمہ
داری کندھوں پر اُٹھانی تھی اور وہی نئی تہذیب کی رعنائی کے دلدادہ ہوتے
جارہے تھے وہ اپنے کلام تہذيب حاضر میں اسی نقطہ کو واضح کرتے ہیں۔
نئے انداز پائے نوجوانوں کی طبيعت نے
يہ رعنائی، يہ بيداری ، يہ آزادی ، يہ بے باکی
تغير آگيا ايسا تدبر ميں، تخيل ميں
ہنسی سمجھی گئی گلشن ميں غنچوں کی جگر چاکی
علامہ اقبال مسلمانوں کو ان کے مذہب پر کاربند رہنے کو ان کی بحیثیت ملی
تشخص قائم رکھنے کی بندش سمجھتے تھے۔ مسلمانوں کا طرز حیات جدا ہے اور اسے
چھوڑنے سے سارے ناطے رشتے مذہب کا دھاگہ کھلنے سے ملت کے موتی بکھرنے کی
مثل ہو جاتا ہے۔ اسی پیغام کو انہوں نے اپنے کلام مذہب میں یوں بیان کیا ۔
اپنی ملت پر قياس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکيب ميں قوم رسول ہاشمی
دامن ديں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعيت کہاں
اور جمعيت ہوئی رخصت تو ملت بھی گئی
اور پھر انہیں اس امید کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ اگر وہ مذہب سے بیگانہ نہ
ہوں تو ابھی بھی وقت ہاتھ سے نہیں چھوٹا۔ اس کے باوجود کہ قوم اپنا ماضی
کھو چکی ہے۔ لیکن انہیں اس بات سے غرض نہیں ہونی چاہیئے کہ انہوں نے زوال
کا تاریک دور دیکھا۔ بلکہ انہیں ملت میں پرو کر رہنا ہوگا۔ اور نئی زندگی
کی صبح کا انتظار کرنا ہوگا۔
ہے لازوال عہد خزاں اس کے واسطے
کچھ واسطہ نہيں ہے اسے برگ و بار سے
ملت کے ساتھ رابطہء استوار رکھ
پيوستہ رہ شجر سے ، اميد بہار رکھ!
علامہ صاحب کا یہ شعر!
نالہ ہے بلبل شوريدہ ترا خام ابھی
اپنے سينے ميں اسے اور ذرا تھام ابھی
کبھی کبھار ایسے موقع پر پڑھنے کا اتفاق ہوا ہے جہاں کسی کو یہ باور کروانا
ہو کہ جناب ابھی صبر رکھیں۔ آپ اس قابل نہیں کہ پرواز کر سکیں ابھی آپ میں
مقابلہ کا دم نہیں۔ لیکن جب میں نے اس شعر کو پورے مفہوم کے ساتھ پڑھا تو
علامہ صاحب کا عشق حقیقی ابھر کر آنکھوں کے سامنے آ گیا۔ ایسے ہی نقادوں کے
لئے یہ اگلا شعر!
پختہ ہوتی ہے اگر مصلحت انديش ہو عقل
عشق ہو مصلحت انديش تو ہے خام ابھی
کہیں پھر کوئی نقاد نہ آ دھمکے کہ چیلنج ہو گیا اور علامہ صاحب کو جو میں
خراج تحسین پیش کر رہا ہوں وہ بحث میں بدل جائے تو واپس موضوع کی طرف آتے
ہیں اور ان اشعار کو پڑھتے ہیں۔
نالہ ہے بلبل شوريدہ ترا خام ابھی
اپنے سينے ميں اسے اور ذرا تھام ابھی
پختہ ہوتی ہے اگر مصلحت انديش ہو عقل
عشق ہو مصلحت انديش تو ہے خام ابھی
بے خطر کود پڑا آتش نمردو ميں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
اسی طرح علامہ صاحب کا یہ شعر بھی زبان زد عام ہے اور کسی پر طنز کے لئے
استعمال کیا جاتا ہے۔ خاص کر اگر کبھی کوئی اچھا کام کی نیت کرے تو کہا
جاتا ہے تیرا دل تو ہے صنم آشنا، تجھے کيا ملے گا نماز ميں
لیکن اگر پڑھتے جائیں تو انسان خود پڑھنے پڑ جاتا ہے کہ علامہ صاحب بہت بڑی
بات کتنی آسانی سے کیسے کہہ گئے۔ کہ پڑھتے جائیں تو مفہوم کیا سے کیا ہو
جاتا ہے۔
کبھی اے حقيقت منتظر نظر لباس مجاز ميں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہيں مری جبين نياز ميں
نہ کہيں جہاں ميں اماں ملی، جو اماں ملی تو کہاں ملی
مرے جرم خانہ خراب کو ترے عفو بندہ نواز ميں
نہ وہ عشق ميں رہيں گرمياں،نہ وہ حسن ميں رہيں شوخياں
نہ وہ غزنوی ميں تڑپ رہی، نہ وہ خم ہے زلف اياز ميں
جو ميں سر بسجدہ ہوا کبھی تو زميں سے آنے لگی صدا
ترا دل تو ہے صنم آشنا، تجھے کيا ملے گا نماز ميں
عقل میں تعبیر و تنقید تو دل سے عشق کا معاملہ قرار دیا جاتا ہے لیکن عشق
حقیقی میں اظہار سے زیادہ اعمال کی بنیاد پر روح عمل سے آبیاری کی ضرورت
ہوتی ہے جسے علامہ صاحب کچھ اس طرح سے بیان کرتے ہیں۔
گرچہ تو زندانی اسباب ہے
قلب کو ليکن ذرا آزاد رکھ
عقل کو تنقيد سے فرصت نہيں
عشق پر اعمال کی بنياد رکھ |