شعر گوئی کام ہے آتش مرصع ساز کا

شعر، عربی لغت کا لفظ ہے اور قرآن و حدیث میں اس کا ذکر بھی خصوصیت سے موجود ہے- شعر، شعور سے مشتق ہے- اور شعور انسانی ذہن کو ارقتائی منازل کی سمت سفر کراتا ہے لہٰذا ثابت ہوا ہے کہ شاعر صاحب فہم و حکمت، با شعور اور آگہی یافتہ شخص ہوتا ہے- کوئی کوتاہ مغز اور کج فکر اور تنگ نظر انسان اس کا اہل نہیں ہو سکتا-

شاعری انسانی جذبات و احساسات کا عکس ہوتی ہے- ایک حساس شخص اپنے گرد و پیش کے ماحول سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا اسی لئے وہ اپنے نشاط و کرب دروں کے اظہار کے لئے مختلف انداز و اطوار اپناتا ہے- کوئی غلط اور ممنوع راستوں پر سرکشی کی ڈور تھامے چل پڑتا ہے تو کوئی علم و حکمت کی دنیا کی سمت رخت سفر باندہ لیتا ہے- شاعری چونکہ انسان کی باطنی کیفیات کی منظر کشی کرتی ہے اس لئے اس کا شمار فنون لطیفہ کی صف اول میں ہوتا ہے- انسانی باطن بھی لطیف ہوتا ہے جبکہ جسم کثیف ہوتا ہے - یہی سبب ہے کہ جسمانی امور کی انجام دہی میں کثافت کے باعث مشقت کا عنصر زیادہ نمایاں ہے جبکہ روحانی و باطنی معاملات میں کی جانے والی مشقت و عرق ریزی جسے دماغ سوزی و جاں کاوی کہا جاتا ہے، کا وجود چشم ظاہر بین دیکھنے سے قاصر ہے-

اسی طرح شعر و شاعری ایک مکمل اور لا محدود علم ہے جو انسانی ذہن کو کشادگی، فکری توانائی اور گدازئی قلب عطا کرتی ہے جو تخلیق آدم و بنی آدم کا سب سے بڑا مقصد ہے- ہمارے اساتذہ سخن، جن کا نام اور کام صدیاں گزر جانے کے باوجود آج بھی اسی طرح زندہ ہے، نے اس علم کے سیکھنے اور سکھانے میں شبانہ روز محنتیں صرف کی ہیں- قرآن و حدیث میں اللہ رب العالمین اور حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے پسند فرمایا ہے- اسی لئے کہ شاعری فی نفسہ کوئی شجر ممنوعہ نہیں اگر ایسی بات ہوتی تو حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور اطہر میں کثیر تعداد میں صحابہ کرام شعر و سخن کا ذوق رکھتے تھے- تو کیا وہ سب معاذ اللہ دائرہ اسلام سے خارج تھے؟ ایسی بات نہیں ہے !

شاعری مطلق حرام نہیں ہے - صرف وہ اشعار جو انسانی باطن میں پنہاں شریر جذبات اور شریر عناصر کو برانگیختہ کریں - جس ادب اور جس شعر کو پڑھ کر یا سن کر انسانی فطرت میں برائی، خواہ وہ کسی بھی نوعیت کی ہو، انگڑائیاں لینے لگے- اللہ اور اس کے رسول پاک نے اسے حرام اور شیطانی فعل قرار دیا ہے-

اگر کسی شعر سے انسانی طبعیت میں گداز پیدا ہو، دل میں انابت الی اللہ، حب رسول پیدا ہو، دنیا کی بے ثباتی کا درس اس میں ملے، حرص و ہوس اور زر اندوزی و ذخیرہ اندوزی اور حب دنیا سے دل اچاٹ ہو تو یہی تو اسلامی تعلیمات کا نچوڑ ہے- اس سے بڑی عبادت اور کون سی ہوگی- ہمارے صوفیا کی مجالس سماع میں ایسے اشعار ہی تو سنے جاتے ہیں اور اس پہ سر دھنے جاتے ہیں-

یہ صرف اور صرف ہمارے عہد کی نالائقی ہے- ہم علم و عمل سے دور، اخلاص سے خالی ہیں، مقام شعر اور اس کی اہمیت سے بے بہرہ ہیں- جس نے ذرا سی مترنم گفتگو کر لی جس میں دو چار لفظوں کی آوازیں آپس میں مل گئیں- ہم اسے شعر اور شاعری سمجھنا شروع کر دیا- اللہ تعالیٰ ہمیں کماحقہ اس علم اور فن کی سمجھ اور اس کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے-

(جاری ہے-----------)
Khalid ROOMI
About the Author: Khalid ROOMI Read More Articles by Khalid ROOMI: 10 Articles with 16968 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.