سعدی کے قلم سے
اﷲ تعالیٰ نے ایک’’پتھر‘‘ پر محبت کی نظر فرمائی تو وہ. کالا پتھر
یعنی’’حجر اسود‘‘ کتنا’’محبوب‘‘ ہوگیا.لاکھوں، کروڑوں مسلمان اُس کی زیارت
کرتے ہیں. اور لپک لپک کر اُس کے بوسے لیتے ہیں. اﷲ تعالیٰ کی محبت عجیب
نعمت ہے یہ جس کو بھی نصیب ہو جائے وہ ’’محبوب‘‘ بن جاتا ہے.
وَأَلْقَیْتُ عَلَیْکَ مَحَبَّۃً مِّنِّیْ
خواہ وہ کوئی انسان ہو، پتھر ہو یا پانی ہو. ’’زمزم شریف‘‘ کتنا محبو ب ہے،
حالانکہ وہ بھی پانی ہے. مگر اﷲ تعالیٰ کی ’’نظر محبت‘‘ نے اُسے کیا سے کیا
بنا دیا ہے.
سبحان اﷲ وبحمدہ سبحان اﷲ العظیم
حضرت سیّد احمد شہید(رح) بھی ایک ’’انسان ‘ ‘ تھے. اور ہماری طرح رسول پاک
ﷺ کے ایک اُمّتی تھے. وہ نہ پیغمبر تھے اور نہ صحابی. مگر اﷲ تعالیٰ نے اُن
پر اپنی محبت کی نظر فرمائی. اور اُن کو اپنی محبت والے خاص راستے یعنی
’’جہاد فی سبیل اﷲ‘‘ کے لئے منتخب فرمایا. اﷲ تعالیٰ کی اس ’’محبت‘‘ نے
حضرت سیّد صاحب(رح) کو ایسا ’’محبوب‘‘ بنادیا کہ. مسلمان آج بھی اُن سے
محبت رکھتے ہیں، اُن سے روشنی لیتے ہیں. اور اُن کے لئے دعائیں کرنا اپنے
لئے سعادت سمجھتے ہیں.
سبحان اﷲ وبحمدہ سبحان اﷲ العظیم
القلم کی شاندار محفل
جہاد، روحانیت اور محبت کے اس خوبصورت ’’سنگم‘‘ پرالقلم آج ایک شاندار محفل
سجا رہا ہے. اس میں آپ کو ایک’’مرد مجاہد‘‘ کے کارنامے. اور ایک کامیاب
مسلمان کے حالاتِ زندگی سنائے جائیں گے. آج القلم آپ کو اپنے ساتھ لیکر ایک
جانباز قافلے کے پیچھے پیچھے عقیدت کے ساتھ دوڑے گا. رائے بریلی سے
دہلی.کلکتہ سے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ.تکیہ علم اﷲ سے قندھار. پشاور سے
پنجتار. طورو اور مایار. سوات، ہزارہ اور پھر بالاکوٹ. ایمان اور نفاق کے
عجیب مناظر. وفا اور دغا کی انمٹ کہانیاں. جرأت اور غیرت کے مثالی شاہکار.
بالاکوٹ کے آنسو اور روشنی کے ٹوٹتے بکھرتے ذرّات. معطّر خون اور منوّر
قبریں. اور قرون اولیٰ کی یادیں تازہ کرنے والے جہادی زمزمے. واہ القلم!
واہ توبھی بہت خوش نصیب ہے. اﷲ تعالیٰ نظرِ بد سے بچائے. بے شک تو. تپتے
صحراؤں میں بادل اور گھٹا ٹوپ اندھیروں میں چراغ ہے. اﷲ تعالیٰ تجھے سلامت
رکھے. مسلمانوں کو سچے لوگوں کی داستانیں سناتا جا. اور انہیں اُن کی عزت و
عظمت کا آئینہ دکھاتا جا.
سبحان اﷲ وبحمدہ سبحان اﷲ العظیم
ایک سوال
کیا ہر کسی کو ’’محبوبیت‘‘ اﷲ تعالیٰ کی ’’نظر محبت‘‘ سے ملتی ہے؟. آج
کروڑوں لوگ ’’بتوں‘‘ کی محبت میں مبتلا ہیں. لاکھوں لوگ درختوں، پنڈتوں اور
بدعتی پیروں کے گرد جمع ہیں.کیا﴿نعوذباﷲ﴾ ان بتوں، آستانوں، اور مشرکوں کو
اﷲ تعالیٰ کی محبت حاصل ہے؟. نہیں ہرگز نہیں. آپ نے مکھیوں کو دیکھا ہو گا
کہ غلاظت پر جمع ہو جاتی ہیں. شیطان غلط اور ناپاک چیزوں کی محبت. ناپاک
لوگوں کے دلوں میں مزیّن کر دیتا ہے. دیکھنے میں یہ بھی محبت نظر آتی ہے.
مگر اندر جھانک کر دیکھیں تو محض’’نفسانیت‘‘ ہوتی ہے.نفس پرستی ،مفاد
پرستی. اﷲ تعالیٰ جس شخص یا چیز کو اپنی محبت عطائ فرماتے ہیں. وہ’’محبت‘‘
لوگوں کو اﷲ تعالیٰ سے جوڑنے کا ذریعہ بنتی ہے. حجر اسود کو چومنے اور
دیکھنے سے توحید کا عقیدہ مضبوط ہوتا ہے.زمزم شریف پینے سے’’لا الہ الا
اﷲ‘‘ پر یقین بڑھتا ہے. اب اس معیار پر آپ حضرت سیّد احمد شہید(رح) کو دیکھ
لیں. آپ کو اُن کے حالات پڑھ کر توحید، سنت اور جہاد سے محبت حاصل ہوتی ہے.
شرک، بدعت، بزدلی اورحبّ دنیا سے نفرت ہوتی ہے. جو شخص لوگوں کو اﷲ تعالیٰ
سے جوڑتا ہو، مسلمانوں کی آزادی کے لئے تڑپتا ہو، اسلام کے غلبے کے لئے سب
کچھ لٹاتاہو. اُس کی محبت. مقبول محبت ہوتی ہے. اﷲ تعالیٰ نے حضرت سیّد
صاحب(رح) کو ایسی مقبول محبت عطائ فرمائی کہ. زمانے کے بڑے بڑے علمائ اور
اولیائ اُن کی جوتیاں اٹھانا سعادت سمجھتے تھے. ہزاروں لاکھوں لوگ آپ کی
زیارت کے لئے ترستے تھے. آپ کے قدموں کی مٹی لوگ برکت کے لئے اٹھا کر لے
جاتے تھے. آپ کی طرف مخلوق کا ہجوم دیوانہ وار دوڑ رہاتھا.مگر آپ خود اپنے
محبوب رب کے راستے میں دوڑے جارہے تھے. آپ ہر ایک کو بتار ہے تھے کہ. اﷲ
تعالیٰ ایک ہے، اُس کا کوئی شریک نہیں. وہی ہم سب کا رازق ہے. وہی قادر اور
مشکل کشا ہے. اے لوگو! اگر رب سے محبت کرتے ہوتو آؤ. رب کی خاطر قربانی
دو. کافروں نے مسلمانوں کے علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے. مظلوم مسلمان ہر طرف
تڑپ رہے ہیں. ہماری زندگیوں میں شعائر اسلام پر پابندی لگائی جارہی ہے. اے
مسلمانو!محبت تو غیرت سکھاتی ہے. اسلام کے لئے غیرت کرو. اور کفر کی طاقت
کو نابود کر دو.ہزاروں لوگ حضرت سیّد صاحب(رح) کی طرف کھنچے چلے آرہے تھے.
جبکہ سیّد صاحب(رح) پہاڑوں، وادیوں اورجنگلوں میں. اسلام کے لئے عظمت اور
اپنے لئے شہادت ڈھونڈتے پھر رہے تھے. اﷲ اکبر کبیرا.
آپ یہ نہ سمجھیں
آپ یہ نہ سمجھیں کہ حضرت سیّد احمد شہید(رح) کو اﷲ تعالیٰ نے ’’محبوبیت‘‘
عطائ فرمائی تو کوئی بھی اُن کا مخالف نہ تھا. حضرت سیّد صاحب(رح) کے
مخالفین بہت زیادہ تھے. غیر تو مخالف ہوتے ہی ہیں. اپنوں نے بھی
اعتراضات،الزامات اور بہتان تراشی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی. حضرت سیّد
صاحب(رح) پر جو اعتراضات کئے گئے اُ ن میں سے چند ایک یہ ہیں:۔
﴿۱﴾ حضرت سیّد صاحب﴿نعوذ باﷲ﴾ انگریزوں کے ایجنٹ ہیں. اور جہاد کا لبادہ
اوڑھ کر درحقیقت انگریزوں کا کام آسان کر رہے ہیں. ہندوستان کے کئی
پیرزادوں اور مولویوں نے اس تہمت پر مشتمل ایک فتویٰ نامہ تیار کرا کے دور
دور تک تقسیم کیا. اور اس فتویٰ یا پمفلٹ نے بہت سے لوگوں کو حضرت سیّد
صاحب(رح) کا مخالف بنایا.
﴿۲﴾حضرت سیّد صاحب(رح) کے پاس لشکر اور سازو سامان کم ہے، جبکہ مدّ مقابل
دشمن بہت طاقتور ہے. جب تک اُس دشمن جتنی طاقت مہیا نہ ہو جائے یہ جہاد
شرعاً درست نہیں ہے.
﴿۳﴾کئی بڑے بڑے لوگ سیّد صاحب(رح) سے بیعت کر کے. کچھ ہی عرصہ بعد منحرف ہو
گئے اور انہوں نے ’’بیعت‘‘ توڑ دی. آخر کوئی خرابی تو دیکھی ہو گی؟. جب
اتنے لوگ بیعت توڑ گئے تو باقی کا کیا پتہ کہ کب توڑ دیں. تو ایسے لشکر کا
کیا اعتبار؟
﴿۴﴾ جہاد فرض کفایہ ہے. چند لوگوں کے ادا کرنے سے باقی تمام کے ذمہ سے ساقط
ہو جاتا ہے. تو سیّدصاحب(رح) عمومی طور پر اس کی دعوت کیوں دے رہے ہیں؟
﴿۵﴾جہاد کے لئے’’جامع الشروط‘‘ امام کی ضرورت ہے. یعنی ایسا امیر جس میں
فلاں فلاں شرطیں موجود ہوں. کیا سیّد صاحب(رح) میں یہ تمام شرطیں پائی جاتی
ہیں؟
یہ اوراس طرح کے کئی فضول اور گمراہ کن اعتراضات اورشبہات. مختلف لوگ حضرت
سیّد صاحب(رح) اور اُن کی جماعت کے متعلق پھیلا رہے تھے. مگر حضرت سیّد
صاحب(رح) کے لشکر میں شیخ الاسلام حضرت مولانا عبدالحی صاحب(رح) اور حجۃ
الاسلام حضرت شاہ اسماعیل شہید(رح) جیسیے اہل علم موجود تھے. ان حضرات نے
تمام اعتراضات کا مدلّل جواب دیا اور مسئلہ جہاد کو خوب اجاگر فرمایا. لیکن
بدقسمتی اور ضد کا کوئی علاج نہیں ہے. ہر بزدل کو جہاد میں موت نظر آتی ہے.
مگر کئی بزدل اپنے اس اندرونی خوف کو ’’علمی پاجامہ‘‘ پہنا دیتے ہیں. کہ
فلاں فلاں دلیل کی وجہ سے جہاد ٹھیک نہیں ہور ہا. حضرت شاہ اسماعیل
شہید(رح) نے ایسے ہی بدنصیب لوگوں کے بارے میں نہایت درد کے ساتھ ارشاد
فرمایا:
’’سبحان اﷲ! کیا اسلام کا حق یہی ہے کہ اُس کے ’’رُکنِ اعظم‘‘﴿یعنی جہاد فی
سبیل اﷲ﴾ کو جڑ سے اکھاڑا جا رہا ہو اور جس شخص کے سینے میں ضُعف اور
ناتوانی﴿یعنی کمزوری﴾ کے باوجود اسلامی حمیّت﴿یعنی غیرت﴾ نے جُوش مارا،
اُسے طعن وملامت ﴿یعنی اعتراضات﴾ کا ہدف بنایا جائے؟ آیا یہ ﴿اعتراض کرنے
والے﴾ لوگ نصرانی، یا یہودی یا مجوس یاہنود ہیں کہ ملّتِ محمدیہ کے ساتھ
دشمنی کر رہے ہیں؟محمدیت ﴿یعنی مسلمانی کا﴾ مقتضا یہ تھا کہ اگر کوئی شخص
ہنسی ،مذاق میں بھی جہاد کا نام لیتا تھا تو مسلمانوں کے دل پُھول کی طرح
کھل جاتے تھے اور سنبل کی طرح تروتازہ ہو جاتے تھے اگر دور دست﴿یعنی بہت
دور دراز﴾ مقامات سے بھی جہاد کا آوازہ غیرت مندانِ اسلام کے کانوں میں
پہنچتا تھا تو وہ دیوانہ وار دشت و کہسار﴿یعنی صحراؤں اور پہاڑوں﴾ میں دوڑ
پڑتے بلکہ شہباز کی طرح اُڑنے لگ جاتے، آیا! جہاد کے معاملے کو، عظمتِ شان
کے باوجود حیض و نفاس کے مسائل پڑھنے پڑھانے سے بھی کم تر سمجھ لیا
گیا؟‘‘﴿سیّد احمد شہید ص ۲۶۲﴾
تربیت کے مراحل
حضرت سیّد صاحب(رح) ’’ماشائ اﷲ‘‘ ایک کامیاب، مقبول، محبوب اور شاندار
زندگی گزار گئے. اور اپنے پیچھے اپنے لئے’’ صدقاتِ جاریہ‘‘ کے بڑے بڑے
ذخیرے چھوڑ گئے. حضرت سیّد صاحب(رح) نے تربیت اور ترقی کے یہ مراحل جس
ترتیب سے طے فرمائے.اُس پر ایک نظر ڈالتے ہیں.
﴿۱﴾ شعوری اسلام
بچپن سے ہی اسلام کی نظریاتی تعلیم حاصل کی جائے تاکہ دل اور دماغ کے نرم
خلیوں میں بس اسلام ہی رچ بس جائے. یہ تعلیم کچھ تو گھر میں والدین دیں اور
باقی قرآنی اور دینی مکاتب سے حاصل کی جائے. حضرت سیّد صاحب(رح) کو یہ
مرحلہ کامیابی سے طے کرنا نصیب ہوا.
﴿۲﴾ جسمانی مضبوطی
جسم کی کمزوری اور سُستی انسان کے نظریات کو کمزور اور غلامانہ بنا سکتی
ہے. حضرت سیّد صاحب(رح) کی کامیاب زندگی کا آغاز ’’جسمانی مضبوطی‘‘ کی محنت
سے ہوا. پہلوانی، تیراکی اور دیگرمردانہ کھیلوں میں آپ نے کمال درجہ محنت
کی. ہر مسلمان کو چاہئے کہ. اپنے بچوںکو پہلوانی، تیراکی، گھڑ سواری، بنوٹ
اوراسلحہ کی تربیت دلوائے تاکہ وہ آگے چل کر’’برائلر‘‘ نہیں’’شہباز‘‘
بنیں.ان کو ویڈیو، کمپیوٹر، کرکٹ، شطرنج، کیرم اور لڈو جیسے فضول اور گناہ
خیز کھیلوں سے بچایا جائے.
﴿۳﴾ نسبت، یعنی تعلق مع اﷲ
حضرت سیّد صاحب(رح) نے خاص اس مرحلے کی تکمیل کے لئے بہت پُر مشقت سفر
فرمایا اور حضرت شاہ عبدالعزیز محدّث دہلوی(رح) کے در پر حاضری دی. حضرت
شاہ صاحب(رح) نے آپ کو اپنے بھائی حضرت شاہ عبدالقادر صاحب(رح) کے سپر
دفرمایا. اور کچھ دن بعد اپنی بیعت میں بھی قبول فرمالیا. حضرت شاہ
عبدالقادر(رح) قرآن پاک کے مفسّر اور آیاتِ جہاد کے ’’عارف‘‘ تھے. اُن کی
صحبت اور تربیت نے حضرت سیّد صاحب(رح) کو اسلام کے بلند ترین مقام. یعنی
جہاد فی سبیل اﷲ کا سچا عاشق بنا دیا. اُدھر حضرت شاہ عبدالعزیز(رح) نے
سیّد صاحب(رح) کے احوال اور مقامات دیکھ کر اُن کو’’خلافت ‘‘ سے نوازہ. پس
ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ تربیت اور ترقی کے اس مرحلے کو طے کرنے کے لئے.
کسی ایسے صاحب نسبت اﷲ والے سے تعلق جوڑے جس کے پاس جہاد سمیت مکمل دین کا
نصاب ہو. اور جس کے ہاں عقیدہ ٔ توحید، اتباع سنت اور دین کے لئے قربانی
کاسبق ملتا ہو. اور جو معرفت ، تصحیح نیت، اخلاص اور احسان کی منزلیں طے
کرنے کے طریقے سکھاتا ہو. خبردار! کسی دنیا پرست، بدعتی، خلافِ شرع اور
جہاد کے مخالف یا منکر’’پیر‘‘ سے ہرگز بیعت نہ کریں. جو شخص دین کے کسی
فریضے کا منکر یا مخالف ہو وہ کبھی صاحب معرفت نہیں ہو سکتا. جو شخص خود
دین کے لئے جان و مال کی قربانی کا جذبہ نہ رکھتا ہو وہ لوگوں کی اصلاح
نہیں کر سکتا .
﴿۴﴾عسکری تربیت
حضرت سیّد صاحب(رح) کو اتنے بڑے شیخ سے ’’خلافت‘‘ مل چکی تھی. کئی عجیب
خواب اور بشارتیں بھی آپ کو نصیب ہو چکی تھیں. مگر آپ کسی’’گدّی‘‘ پر
بیٹھنے کی بجائے. اسلام کے بلند ترین مقام کی طرف نکل پڑے. جی ہاں آپ نے
جہاد فی سبیل اﷲ کو سیکھنے کے لئے نواب امیر خاں مرحوم کے لشکر میں باقاعدہ
شمولیت اختیار فرمالی. تاکہ’’فریضہ جہاد‘‘ کو ہر پہلو سے سیکھ لیں اور اس
میں عملی شرکت کاتجربہ بھی حاصل کر لیں. بے شک جو مسلمان اﷲ تعالیٰ کے ہاں
محبت کا اونچامقام چاہتا ہے . اور اُس کے دل میں اسلام کے غلبے اور مظلوم
مسلمانوں کے تحفظ کا درد ہوتاہے تو وہ. خود کو جہاد کے میدانوں کا خوگر
بناتا ہے. تاکہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے کسی کام آسکے. اور اﷲ تعالیٰ کے
حضور اپنی جان و مال کا سودا کر سکے. سبحان اﷲ وبحمدہ سبحان اﷲ العظیم. یہ
ہے پانچ نکاتی، بالکل سیدھا سادہ سا ایک نصاب. کیا ہی اچھا ہو کہ. ہم اپنی
اور اپنی اولاد کی تربیت میں اس نصاب کو بھی مدنظر رکھیں.
شرعی جہاد اور محاذ کی تلاش
ہر لڑائی اور جنگ کا نام’’جہاد‘‘ نہیں ہے. جہاد ایک اسلامی فریضہ ہے. اور
نماز، روزے اور حج کی طرح اسلام نے اُس کے احکامات کو بھی بیان فرمایا ہے.
پس جو لڑائی ان احکامات کے مطابق ہو گی وہی’’جہاد‘‘ بنے گی.بہت سے لوگ ہر
کارروائی کو ’’جہاد‘‘ سمجھ لیتے ہیں. یہ اس طرح ہے کہ جیسے کوئی ہر اُٹھک
بیٹھک کو’’نماز‘‘ کا نام دے دے. کئی لوگ جہاد کی فرضیت اور فضیلت سنتے ہیں
توفوراً. اپنے ارد گرد شکار ڈھونڈنے لگتے ہیں. لیکن حضرت سیّد صاحب(رح) نے
جب’’احیائِ جہاد‘‘ کا ارادہ فرمایا تو اپنے آس پاس کے کافروں اور منافقوں
پر فوری حملہ شروع نہیں کر دیا. بلکہ بہت غور، فکر، تدبیر، دعائ، مشورے اور
استخارے کے بعدجہاد کے آغاز کے لئے ایک’’شرعی محاذ‘‘ کا انتخاب فرمایا.
اورپھر اس محاذ تک پہنچنے کے لئے ایسا پرمشقت سفر فرمایا کہ. اُس کے حالات
پڑھ کر دانتوں کوبھی پسینہ آجاتا ہے. حضرت سیّد صاحب(رح) صاف فرماتے تھے
کہ. میرا مقصد ہنگامہ کرنا یا ہلّہ کرنا نہیں ہے. میں تو مظلوم مسلمانوں کی
آزادی، اسلام کے غلبے اورنفاذ اور کفر کی طاقت کو توڑنے کے لئے جہاد کرتا
ہوں. حضرت سیّد صاحب(رح) کے مختصر سے جہاد میں اتنی برکت اس لئے ہوئی کہ
اُس کی ترتیب بھی شریعت کے مطابق تھی. اور اُس کا محاذ جنگ بھی شرعی تھا.
حضرت سیّد صاحب(رح) نے جب پشاور بغیر کسی جنگ اورمزاحمت کے فتح فرما لیا
تو. ہر کسی نے آپ کو یہی مشورہ دیا کہ پشاور کو اب نہ چھوڑا جائے. مگر حضرت
سیّد صاحب(رح) دھوکہ کھانے والے ’’سادہ بزرگ‘‘ نہیں تھے کہ. لوگوں کی باتوں
میں آکر ایک نئی اور فضول جنگ میں اپنے رفقائ کو مرواتے. آپ نے بیعت کرنے
والوں کے’’ہجوم‘‘ اور آئندہ مدد کے وعدے کرنے والوں سے دھوکہ نہیں کھایا.
بلکہ اپنی دور اندیش نگاہوں سے معاملے کی حقیقت اور تہہ کو سمجھ لیا. کہ
اگر پشاور پر قبضہ برقرار رکھا گیا تو پورا اسلامی لشکر. اسی کے دفاع میں
لگار ہے گا. ہر آئے دن مسلمانوں اور منافقوں سے جنگیں ہوں گی اور اُدھر
کافر مزے سے مسلمانوں پر مظالم ڈھاتے رہیں گے. چنانچہ سیّد صاحب(رح) نے اس
محاذ کو چھوڑ دیا اور سکھوں کے مقابلے کے لئے روانہ ہو گئے. اور آپ نے
منافقوں کی بجائے کافروں کے ہاتھوں شہید ہونے کو ترجیح دی. آج کے مجاہدین
کوبھی اس عظیم جہادی حکمت عملی اور شرعی ترتیب سے سبق لینا چاہئے.
جہاد سب سے بڑا کام
قرآن وسنت نے سمجھایا ہے کہ. ایک مسلمان کے لئے’’جہاد فی سبیل اﷲ‘‘ ہی سب
سے بڑا کام ہے. حضرت سیّد صاحب(رح) نے یہ مسئلہ اپنے قول اور عمل سے واضح
فرمایا. آپ نے برصغیر کی سب سے بڑی خانقاہ چلاتے ہوئے. مسلمانوں کو سمجھایا
کہ سلوک و احسان سب جہاد کے تابع ہیں .اور جہاد سے بڑا کوئی مقام نہیں ہے.
بعض نادان لوگ سلوک و احسان. اور جہاد کو ایک دوسرے کا مدّمقابل بنا کر پیش
کرتے ہیں جو غلط ہے. جہاد ایک مستقل فریضہ ہے. جبکہ تزکیہ ، اخلاص اور
تصحیح نیت اس کے ہر حکم میںلازم ہے. اور ہر حکم کی جان ہے. دوسری طرف
مجاہدین میں ایک وبا صدیوں سے چلی آتی ہے کہ. کچھ لوگ خود کو’’زیادہ
قیمتی‘‘ سمجھ کر. جہاد میں کسی ’’بڑے کام‘‘ کی خواہش لے کر گھر بیٹھے رہتے
ہیں. ان لوگوں کو جہاد کی دعوت دی جائے تو کہتے ہیں. ہم سے کوئی بڑا کام
لیا جائے تو ہم تیار ہیں. ماضی میں یہ مطالبہ کچھ باصلاحیت لوگ کرتے تھے.
مگر آج کل تو کمپیوٹر جیسی بے کار چیز کے ماہر بھی خود کو بڑا قیمتی اور
عقلمند سمجھ لیتے ہیں. انا ﷲ وانا الیہ راجعون.
یہ’’سائبر عقلمند‘‘ عام مجاہدین کو بالکل بے وقوف اور نادان سمجھتے ہیں.
اور ہر وقت اسی خیال میں کھوئے رہتے ہیں کہ. کوئی بڑا کام ہو توتم بھی
نکلیں. اﷲ کے بندو! کمپیوٹر تو اب ہر چوڑھے،چمار، بھنگی، کافر اور منافق
کوآتا ہے.اورآپ سے اچھا آتاہے. زیادہ معلومات تک رسائی انسان کو اکثرکمزور
اور معطّل کر دیتی ہے. روم و فارس کو جن صحابہ کرام(رض) نے شکست دی ان میں
سے بعض کو یہ پتا بھی نہیں تھا کہ ایک ہزار سے اوپر گنتی ہوتی ہے. آج بھی
امریکہ، نیٹو اور انڈیا کو. اُن سادہ لوح اوربھولے بھالے مجاہدین نے لوہے
کی لگام دے رکھی ہے جو. ستارے اور سیارچے کا فرق تک نہیں جانتے. حضرت سیّد
صاحب(رح) نے سمجھایا کہ. جہاد خود بڑا کام ہے. دراصل بڑاکام وہ ہوتا ہے جس
میں آدمی کا اخلاص کامل ،محنت مکمل اور قربانی پوری ہو. ان تین شرطوں کے
ساتھ جہاد کا ہر کام. بڑا کام ہے. خواہ وہ روٹی پکانے کی محنت ہو یا آگے
بڑھ کر حملہ کرنے کی مشقت. خود قرآن پاک نے غزوہ تبوک کے ضمن میں یہ مسئلہ
تفصیل سے سمجھایا ہے.حضرت سیّد صاحب(رح) نے اس موضوع پر خاص محنت فرمائی
چنانچہ. آپ نے اپنے مجاہدین کو جس کام اور محاذ پر لگایا انہوںنے اُسی کو
بڑا سمجھ کر خوشی سے قبول کر لیا. اور ’’بڑے کام‘‘ کی خواہش میں کسی نے الگ
دھڑا یا گروپ نہیں بنایا. سبحان اﷲ وبحمدہ سبحان اﷲ العظیم
ایک فہرست
آج حضرت سیّد صاحب(رح) اور اُن کی مبارک جماعت اور تحریک کے متعلق کئی
باتوں کو لکھنے کا ارادہ تھا.مگرچند باتوں میں ہی’’کالم‘‘ مکمل ہونے کو ہے.
چنانچہ اُن ’’عنوانات‘‘ کی فہرست پیش کر رہاہوں. جن پر مذاکرے کا ارادہ
تھا. شائقین خودان پر غور فرمالیں.
﴿۱﴾ حضرت سیّد صاحب(رح) کی بلند جہادی نیت اور اونچے جہادی عزائم
﴿۲﴾ حضرت سیّد صاحب (رح) کی یہ تمنا کہ اسلام غالب اور نافذ ہو. خواہ اُن
کے ہاتھ سے ہو یا کسی اور کے ہاتھ سے
﴿۳﴾ سیّد صاحب(رح) کی وہ کوششیں جو انہوں نے مسلمانوں اور منافقوں سے نہ
لڑنے کیلئے فرمائیں
﴿۴﴾ شرعی پردے کے بارے میں حضرت سیّد صاحب(رح) اور اُن کی جماعت کا مسلکِ
اعتدال
﴿۵﴾ حضرت سیّد صاحب(رح) کے جہادی لشکر کا ماحول. عبادت، تلاوت، ذکر اذکار،
مراقبات، دینی تعلیم و تعلّم.وہاں نہ تو دنیاداری اور بزنس کے چرچے تھے نہ
شادیوں کے ہوس انگیز تذکرے۔
﴿۶﴾ حضرت سیّد صاحب(رح) کا یہ اسلامی نظریہ کہ. جہاد میں ہماری نظر فتح یا
شکست پر نہیں. اخلاص کے ساتھ جہاد کرنا ہی مسلمانوں کی فتح اور کامیابی ہے۔
﴿۷﴾ حضرت سیّد صاحب(رح) کا شوقِ شہادت اور اس پر آپ کی عجیب ترغیبات۔
﴿۸﴾ غریبوں اور مسکینوں پر حضرت سیّد صاحب(رح) کی خاص شفقت.
ایک دعا
عجیب اتفاق ہے کہ شہدائے بالاکوٹ سے اتنی محبت اور عقیدت کے باوجود اُن کے
بارے میںمفصل’’مطالعہ‘‘ کا موقع اب جا کر ملا.جب سے جہاد کے ساتھ اﷲ تعالیٰ
نے تعلق عطائ فرمایا. زیادہ توجہ آیات جہاد، احادیث جہاد اورعلم جہاد کی
طرف رہی. اب الحمدﷲ حضرت سیّد صاحب(رح) اور اُن کی تحریک کا تفصیلی مطالعہ
بھی نصیب ہو رہا ہے. یقینا اﷲ تعالیٰ کے ہاںیہی وقت اس کے لئے مناسب
ہوگا.حضرت سیّد صاحب(رح) اور اُن کی تحریک کو پڑھ کر. اپنے جہادی نظریات
پرمزید مضبوطی اور اطمینان نصیب ہوا. اور آج کے جہاد میں اُن کے جہاد جیسی
جوخوبیاں نظر آرہی ہیں اُن کو دیکھ کر اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کیا. اور جو
کمی، کوتاہی سامنے آئی. اُس کے ازالے کی دعائ مانگی. اﷲ تعالیٰ ہم سب کو.
اور ہماری جماعت کو حضرت سیّد صاحب(رح) کے فیوض وبرکات نصیب فرمائے. اور
خاص اپنا فضل فرما کر. ہماری ناقص محنتوں کو قبول فرمائے.
آمین یا ارحم الراحمین
اللھم صل علی سیّدنا محمد بقدر حسنہ وجمالہ ودعوتہ وجہادہ والہ وصحبہ وبارک
وسلم تسلیما کثیرا کثیرا |