سید صاحب کا نظریہ جہاد

یوں تو امیر المؤمنین سیّد احمد شہید رحمۃ اﷲ کی حیات مبارکہ خیر کے تمام پہلوؤں کی جامع ہے مگر جس عمل کو آپ کا ’’عطر حیات‘‘کہا جائے وہ’’جہاد فی سبیل اﷲ‘‘ کا عمل ہے۔ سیّد صاحب(رح) زمانہ شعور سے ہی مجاہد تھے اور جہاد کی تیاری میںمشغول تھے،اﷲ رب العزت نے آپ کو جو صلاحیتیں عطائ فرمائیں آپ نے انہیں جہاد کے لئے خرچ کیا،جو مناصب عطائ فرمائے آپ نے انہیں بھی جہاد فی سبیل اﷲ کے فروغ کا ذریعہ بنایا، جو بہترین رفقائ عطائ فرمائے انہیں بھی جہاد میں لگایا، جو مخلص معاونین ملے انہیں بھی جہاد کی طرف متوجہ فرمایا۔ غرضیکہ آپ کی تمام کاوشوں کا مقصد یہی نظر آتا ہے کہ فریضۂ جہاد کا احیائ ہو، اجرائ ہو اور فروغ ہو۔ آئیے! ہم حضرت سیّد صاحب کی سوانح سے اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ آپ کا نظریہ جہاد کیا تھا؟ اور کوشش کرتے ہیں کہ اس کی ضوئ میں اپنے نظریہ کی اصلاح کریں اور امت مسلمہ تک سیّد صاحب(رح) کی زندگی کا یہ پیغام پہنچائیں کہ ایک مؤمن کا جہاد کے بارے میں نظریہ کیا ہو نا چاہئے۔

﴿۱﴾ جہاد کے بارے میں صحیح عقیدہ
جہاد کے بارے میں صحیح اسلامی عقیدہ یہ ہے کہ جہاد نماز ،روزہ، زکوٰۃ، حج کی طرح اسلامی فریضہ ہے، اس کا منکر کافر ہے، کج بحثی کرنے والا گمراہ ہے اور فرض ہونے کی صورت میں بلاعذر ترک کرنے والا فاسق ہے۔ یہ بحث الگ ہے کہ جہاد کس وقت فرض عین ہوتا ہے اور کس وقت فرض کفایہ۔ مگر اعتقاد یہ رکھنا کہ جہاد فرض ہے ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے، علامہ سرخسی رحمہ اﷲ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب’’المبسوط‘‘ کی ’’کتاب السیر‘‘ کا آغاز اسی اسلامی نظریے اور عقیدے کے اعلان سے فرمایا ہے۔ حضرت سیّد صاحب رحمہ اﷲ خود اور آپ کی جماعت اس نظریے کے حامل تھے اور اسی کو حق جانتے تھے۔ پنجتار کی جنگ میں سکھ فوج کے فرانسیسی جرنیل ونیٹورہ نے جب سیّد صاحب(رح) سے درخواست کی کہ اپنے لشکر میں کسی ایسے نمائندے کو بھیجیں جن سے وہ سیّد صاحب(رح) کی آمد اور اس مہم کے مقاصد کو جان سکے تو سیّد صاحب(رح) نے اپنے لشکر میں سے مولانا خیر الدین شیر کوٹی (رح) کو بھیجا۔ جنرل ونیٹورہ نے جب ان سے یہ سوال کیا کہ سیّد صاحب(رح) نے کس مقصد کی خاطر اتنا دور دراز سفر اختیار کیا ہے اور اپنا وطن چھوڑ آئے ہیں تو مولانا نے فرمایا:
’’سیّد صاحب کے آنے کا سبب یہ ہے کہ آپ کو معلوم ہے کہ دین اسلام میں پانچ احکام ’’فرض ‘‘ کا درجہ رکھتے ہیں جنکی ادائیگی کی اﷲ تعالیٰ کی طرف سے سخت تاکید ہے اور وہ نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور جہاد ہیں۔‘‘﴿جب ایمان کی بہار آئی ص ۷۶۱﴾

﴿۲﴾ جہاد صداقت ایمان کی نشانی ہے
اﷲ رب العزت نے جب جہاد کو فرض فرمایا تو لوگ دو جماعتوں میں تقسیم ہو گئے۔ ﴿۱﴾ مخلص مؤمن﴿۲﴾ منافق۔ قرآن کریم کی سینکڑوں آیات میں ان دونوں جماعتوں کا بیان ہے۔ مخلص مؤمن وہ تھے جنہوں نے اﷲ رب العزت کے اس حکم کے آگے سر تسلیم خم کیا اور اس پر چلے جبکہ جنہوں نے پس و پیش کی اور مختلف حیلوں بہانوں سے جان چھڑانے کی کوشش کی انہیں منافق کہا گیا اور دعویٰ ایمان میں جھوٹا قرار دیا گیا﴿ اس باب کی تفصیل کے لئے فتح الجوّاد فی معارف آیات الجہاد میں سورۃ آل عمران، نسائ، مائدہ، انفال، توبہ، احزاب اور سورۃ محمد کے معارف ملاحظہ کر لئے جائیں﴾ حضرت سیّد صاحب (رح)بھی یہی بیان فرماتے ہیں کہ مؤمن جب تک اپنی جان قربان کرنے اﷲ کے راستے میں نہ نکل آئے اس کادعویٰ کمال ایمان کا سچ نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ کمال ایمان کی نشانی ہے اﷲ تعالیٰ کی محبت سب محبتوں پر غالب آجانا اور یہ مقام حاصل ہونے کی نشانی میدان جہاد میںنکل آنا ہے۔ سیّد صاحب فرماتے ہیں:

تمام عبادتوں کی بنیاد، تمام طاعتوں کی اصل اور تمام سعادتوں کا مدار یہ ہے کہ بندے کا اﷲ تعالیٰ کے ساتھ عبودیت یعنی بندگی کا رشتہ قائم ہو جائے. یہ رشتہ قائم ہونے کی نشانی یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی محبت تمام رشتوں اور چیزوں کی محبت سے بڑھ کر نصیب ہو جائے. اب اس بات کا پتہ کس طرح چلے گا کہ اﷲ تعالیٰ کی محبت سب سے بڑھ کر ہے تو اس محبت کی سب سے بڑی امتحان گاہ’’میدان جہاد‘‘ ہے.پس جہاد کے لئے قدم اٹھانا جسے حدیث شریف میں اسلام کی چوٹی کی بلندی قرار دیا گیا ہے اس بات کی مضبوط علامت ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی محبت تمام مخلوقات کی محبت پر غالب ہو گئی ہے۔﴿سید احمد شہید﴾

﴿۳﴾ جہاد کی تیاری
اﷲ رب العزت نے اہل ایمان کو ہروقت جہاد کے لئے تیار رہنے کا حکم فرمایا ہے۔
واعدوالہم مااستطعتم من قوۃ ومن رباط الخیل ﴿الآیۃ انفال ۰۶﴾
ترجمہ: اور ان سے لڑنے کیلئے جو کچھ ﴿سپاہیانہ﴾ قوت سے اور پلے ہوئے گھوڑوں سے جمع کر سکو سوتیار رکھو۔

جہاد کے لئے جسم کو مضبوط رکھنا، جہادی اسلحہ اور سازو سامان تیار رکھنا، اسلحہ چلانے کی مہارت حاصل کرنا، گھڑ سواری ،تیراکی اور دیگر جہادی کھیلوں میں مہارت حاصل کرنا، یہ سب اﷲ تعالیٰ کے احکام ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے نہ صرف خود ان تمام امور کو اپنایا بلکہ اپنی امت کو ان کی بہت زیادہ تاکید فرمائی۔ سورہ توبہ کی ایک آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ جہادی تربیت اور تیاری نفاق سے برأت کا پروانہ ہے۔ اﷲ رب العزت نے غزوۂ تبوک میں نہ نکلنے والے ان منافقین کو جب بہانہ سازیاں کرتے دیکھا تو وحی نازل فرمائی:
ولو ارادوا الخروج لا عدوالہ عدۃ ﴿التوبہ آیت ۶۴﴾
ترجمہ: اور اگر وہ نکلنا چاہتے تو اس کے لئے سامان ضرور تیار کرتے

یعنی جہاد میں نہ نکلنے کے لئے اعذار پیش کرنے والے لوگ اگر اس بات میں سچے ہوتے کہ فلاںعذر نہ ہوتا تو ہم ضرور نکلتے تو یہ لوگ جہاد کی تیاری سے تو غافل نہ ہوتے، تیاری اور تربیت سے مکمل غفلت اس بات کی علامت ہے کہ یہ سچے نہیں بلکہ انہوں نے تو کبھی سچے دل سے جہاد میں نکلنے کی نیت ہی نہیں کی اس لئے اب جوا عذار پیش کررہے ہیں وہ محض عذر لنگ ہیں۔ خلاصہ یہ کہ جہاد کی تربیت اور تیاری ایک ضروری امر ہے۔ حضرت سیّد صاحب(رح) نے اوائل عمر سے ہی اس اسلامی حکم کی طرف توجہ فرمائی۔ بچپن کی لاشعوری عمر میں جب بچوں کے کھیل اکثر لہو ولعب پر مشتمل ہوتے ہیں سیّد صاحب(رح) کا پسندیدہ کھیل یہ ہوتا تھا کہ آپ بچوں کی دو جماعتیں بناتے، ایک جماعت دوسری کے قلعوں پر حملے کیا کرتی۔

نوجوانی میں آپ نے اس طرف زیادہ توجہ فرمائی اور تمام سپاہیانہ کھیلوں میں مہارت حاصل کی۔ گھڑ سواری اور تیر اندازی سیکھی، تیراکی میں اس قدر مہارت حاصل کی کہ دہلی کے مشہور پیراک مولوی علیم اﷲ کہتے تھے کہ یہ وصف صرف سیّد صاحب میں ہی دیکھا کہ سخت سے سخت بہاؤ میں بہاؤ کے خلاف تیرتے تھے میںباوجود اتنی مشق اور زمانے کہ یہ نہیں کر سکتا۔﴿سیرت سیّد احمد شہید﴾

اس طرح شہ زوری میں آپ کا اس زمانے میں کوئی مقابل نہ تھا۔ بھانجے کو پاؤں پر کھڑا کر کے ایک ہزار ڈنڈ لگایا کرتے اور چالیس کلو تک کا گرز چار گھنٹے تک ہلاتے۔

اسی طرح باوجود پیر زادگی اور خاندانی وجاہت کے سیّد صاحب اپنا کام خود کرتے بلکہ دوسروں کی خدمات بجالانے کی بھرپور محنت کرتے کیونکہ عملی شرکت جہاد کے لئے یہ کام ضروری ہے۔بندوق چلانے، توپ سرکرنے اور نشانہ لگانے میں آپ کی مہارت کے کچھ واقعات آپ اسی اشاعت کے کسی دوسرے مضمون میں پڑھ لیں گے۔ یہ سب اس وجہ سے تھا کہ آپ نے بنیت جہاد ان تمام چیزوں کی تربیت خوب اچھی طرح حاصل کی تھی۔

پھر اس تربیت کی عملی تکمیل کے لئے آپ نے اوائل جوانی میں ہی نواب امیر الدولہ مرحوم کے لشکر میں شمولیت اخیتار کر لی جو اس زمانے میں مرہٹوں کے خلاف جہادمیں مشغول تھے، جب تک نواب صاحب جہاد کرتے رہے آپ ان کے ساتھ رہے اور اپنی جسمانی و روحانی صلاحیتوں سے پورے لشکر کو فائدہ پہنچاتے رہے، جب نواب صاحب نے انگریزوں کے ساتھ صلح کر لی اورجہاد سے دستبردار ہوئے تو آپ نے بھی لشکر سے علیحدگی اختیار کر لی اور دہلی تشریف لے گئے۔ لشکر میں ملازمت اختیار کرنے کا سبب جہاں جنگ میں مہارت حاصل کرنا اور فوجوں کا نظام دیکھنا تھا وہیں یہ بھی تھا کہ جنگ آزما لوگوں سے میل جول ہو جائے اور انہیں بعد میںلشکر جہاد میں شامل کیا جا سکے۔ سیّد صاحب جب اپنا لشکر بنا کر جہاد کے لئے روانہ ہوئے تواس لشکر کے بہت سے رفقائ آپ کے جہادی قافلے کا حصہ بنے۔ گویا یہ ابھی سے ہی لشکر سازی کا آغاز بھی تھا۔

سیّد صاحب کا یہ طرز عمل ان بہت سے لوگوں کے لئے سوالیہ نشان ہے جوتربیت،تیاری، جہادی سازو سامان کی تجہیز اور جہادی کھیلوں کو اپنے مقام و منصب سے کم ترجان کر یا محض سستی وکاہلی کی بنائ پر ان سے غافل ہیں۔ اتنے بڑے روحانی خاندان کے چشم و چراغ، حسنی حسینی سیّد، روحانیت کے بادشاہ، علم و عرفان کے آفتاب وماہتاب کرتہ اتار کر صرف تہبند باندھے ڈنڈ پیلنے، وزن اٹھانے، گھڑ سواری کرنے، نشانہ بازی میں مشغول رہنے کو اپنے لئے مایۂ افتخار سمجھتے تھے اور ہم پورے کپڑے پہن کر دوڑلگانے کو بھی کسرِشان سمجھتے ہیں۔
ببیںتفاوت راہ ازکجا ست تابکجا

اس زمانے میں ایک اور شخص بھی کچھ ایسے ہی کاموں میں مشغول تھے ۔ خاندان ولی اللّہی کے علوم کے وارث، اپنے زمانے کے بالاتفاق ذہین اور زکی ترین فرد، جنہیں شاہ عبدالعزیزرحمہ اﷲ تعالیٰ جیسے شخص نے امام التفسیر کا خطاب دیا، سخت گرمی میںننگے پاؤں اکبری مسجد کے سخت اینٹوں والے گرم فرش پر گھنٹوں چلتے، سخت سردی میں ململ کا ایک باریک کرتہ زیب تن کر کے مسجد کی چھت پر قیام فرماتے، دہلی سے آگرہ دریا میں تیرتے ہوئے جاتے اور واپس آ تے،گھوڑے کی خدمت کرتے ہوئے خیالی کا درس دیتے اور روزانہ کئی گھنٹے نشانہ بازی کی مشق کرتے اور سنت اسماعیل علیہ السلام پر عمل کرتے ہوئے شکار کرتے۔ یہ تھے سیّد صاحب(رح) کے رفیق حضرت مولانا شاہ اسماعیل شہید رحمہ اﷲ تعالیٰ۔بہرحال عرض یہ کرنا مقصد تھا کہ ان حضرات نے جہاد کی بھرپور تیاری کی اور اپنے آپ کو اس قابل بنایا کہ میدان میں جا کر لڑسکیں کیونکہ تربیت کے بغیر جہاد نہیں ہوتا۔

جہاد کے مقاصد
قرآن کریم کی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاد کے تین مقاصد اور اہداف ہیں:
﴿۱﴾ اعلائے کلمۃ اﷲیعنی اﷲ تعالیٰ کادین ہر جگہ پہنچانا اور غالب کرنا۔
﴿۲﴾ ردالعددان یعنی کافروںکی عسکری،مادی اور سیاسی طاقت کوتوڑنا۔
﴿۳﴾ نصرۃ المستضعفین یعنی مظلوم و مقہور مسلمانوں کی مدد کرنا۔

ان تینوں یا کسی ہدف کو حاصل کرنے کے لئے جو جنگ لڑی جائے توہ جہاد شرعی کہلائے گا۔ بعض لوگ جن میں کچھ اہل علم بھی زمانۂ حاضر کی جنگوںپر اعتراض کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جس جہاد کے بدلے میں اسلامی حکومت قائم نہ ہو وہ جہاد شرعی نہیں۔ آئیے حضرت سید صاحب(رح) سے پوچھتے ہیں کہ ان کا نظریہ جہاد اس باب میں کیا تعلیم دیتا ہے۔

قبل اس کے کہ ہم سید صاحب کے وہ مکاتیب پیش کریں جو حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی قدس سرہ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب سیر ت احمد شہید (رح) میں جمع فرمائے ہیں اور وہ مکاتیب حضرت سید صاحب اور ان کی جماعت کا نظریہ جہاد سمجھنے کیلئے کافی ہیں۔ہم سید صاحب کی سوانح اور وقائع سے دو ایسے واقعات کا تذکرہ کرناضروری سمجھتے ہیں جن سے واضح ہو جائے گا کہ سید صاحب(رح) محض اہل ایمان کی نصرت کے لئے نکلنا بھی جہاد اور فریضۂ ایمانی سمجھتے تھے اگرچہ خلافت و حکومت قائم کرنا وہاں ملحوظ نہ ہو۔ اگر چہ یہ بات بھی حتمی ہے کہ جہاد کا اعلی ترین اور اولین مقصد دین کا پھیلاؤ، غلبہ اور قیام خلافت ہی ہے مگر اس بات کا بطلان بھی بد یہی ہے کہ مسلمانوں کو ظلم سے نجات دلانے کیلئے لڑنا، اسلامی ممالک کو کفر کے تسلط سے آزاد کرانے کی جہدوجہد کرنا، مسلمانوں کی زمین اور عزتوں کی حفاظت کے لئے جنگ کرنا جہاد نہیں۔

حضرت سید صاحب(رح) ان تمام مقاصد کے حصول کیلئے سرگرم تھے،آپ(رح) کئی بار محض وقتی طور پر مسلمانوں کے دفاع کے لئے نکلے ، چند بار صرف کفار و مفسدین پر رعب طاری کرنے کیلئے خروج فرمایا، اسلامی حکومت قائم کی، بیعت امارت بھی لی، اسلامی ممالک کو کفار کے شکنجے سے آزاد کرانے کا عزم ظاہر فرمایا، یہ تمام باتیں آپ کو ان مکاتیب میں مل جائیں گی۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ سید صاحب(رح) کی سرحد کی جانب ہجرت بھی مظلوم مسلمانوں کوسکھوں کے ظلم سے نجات دلانے اور سرحدکو مرکز بنا کر ہندوستان کو انگریزوں سے آزاد کرانے کیلئے تھی۔ بیعت امارت تو کئی جنگوں کے بعد امور شرعیہ میں کچھ کوتاہیاں سامنے آنے پر لی گئی۔پہلے صرف ’’بیعت علی الجہاد‘‘ کی بنیادپر جہاد ہوتا رہا۔یہ واضح حجت ہے ان لوگوں پر جو آج بھی امیر اور امام کی موجودگی کو شرط قرار دینے پرمصر ہیں۔ سید صاحب(رح) میں دینی غیرت کا جوش کس قدر تھا اس واقعہ سے اندازہ لگالیں۔

حضرت سید صاحب(رح) کی نوعمری کے زمانے کا واقعہ ہے کہ ہندوؤں اور مسلمانوں میں لڑائی چھڑ گئی، آپ(رح) کو خبر ملی تو لڑائی میں جانے کو بے تاب ہوئے، والدہ صاحبہ اس وقت نماز میں مصروف تھیں اس لئے آیا نے جانے کی اجازت نہ دی۔ سید صاحب(رح) منتظر کھڑے رہے کہ والدہ سلام پھیریں تو جانے کی اجازت مانگیں۔ انہوںنے سلام پھیرتو دایہ سے کہا ’’بی بی تمہیں احمد سے محبت ضرور ہے مگر میری طرح نہیں ہو سکتی، یہ روکنے کا موقع نہ تھا، جاؤ بھیا اﷲ کا نام لے کر جاؤ،مگرخبردار پیٹھ مت پھیرنا ورنہ تمہاری صورت نہ دیکھوں گی اور اگر وہ نکل جانے کے لئے راستہ مانگیں اور کہیں کہ ہمیں جانے دو تو راستہ دے دینا۔‘‘ آپ جیسے ہی پہنچے انہوں نے کہنا شروع کر دیا کہ ہم کو راستہ دو۔ ہم چلے جائیں گے ، ہمیں آپ سے کچھ مطلب نہیں، آپ کا بھی ہم سے جھگڑا نہیں۔ جیسے ہی آپ نے یہ سنا بھائیوں سے کہا’’ ان کو جانے دو اور کچھ روک ٹوک نہ کرو اسی میں خیر ہے۔‘‘﴿تاریخ دعوت وعزیمت حصہ ششم ص ۲۱۱﴾
اس واقعہ میں سید صاحب کے نظریہ جہاد کے حوالے سے کئی اسباق ہیں۔
﴿۱﴾ آپ کی دینی غیرت و حمیت کہ آپ نے مسلمانوں پر کفار کا حملہ برداشت نہ کیا
﴿۲﴾ جہاد میں شرکت کے لئے بے تابی
﴿۳﴾ والدہ کا ایثار کہ اتنے سے بچے کو جو ابھی دایہ کی تربیت میں ہے جہاد میں شرکت کی اجازت دی اور حضرت اسمائ رضی اﷲ عنہا کا کردار زندہ کیا۔
﴿۴﴾ جہاد میں حدود شرع کی پابندی کہ کب لڑنا جائز ہے اور کب ناجائز۔دشمن جب میدان چھوڑنے پر آمادہ ہو گیا تو مقصد حاصل ہوگیا پھر لڑنادرست نہ رہا۔
﴿۵﴾ محض مسلمانوں کی مدد کے جذبے سے نکلنا جہاد ہے اور آپ اسی مقصد کے لئے نکلے۔

اسی طرح وقائع سید احمد شہید(رح) میں دوجگہ یہ واقعہ درج ہے کہ لکھنؤ کے قریبی علاقے نصیر آباد کے سنی مسلمانوں نے روافض کے خلاف آپ سے مدد مانگی اور آپ دونوں بار اپنا لشکر لے کر تشریف لے گئے اور مفسدین کو مرعوب کیا۔ واقعہ یوں ہوا کہ روافض نے اعلان کیا کہ وہ محرم کے دنوں میں تعزیے سنی مسلمانوں کے گھروں میں لا کر اتاریں گے اوران کے سامنے صحابہ کرام(رض) پر تبرا کریں گے، اگر کوئی سنی حارج ہوا تو اسے قتل کر دیں گے۔ لکھنؤ میں روافض کی حکومت قائم تھی،بادشاہ غازی الدین حیدر خود کٹر رافضی تھا اور اس کی سرپرستی میں یہ سارے کام ہوتے تھے سنیوں کی مجال نہ تھی کہ انہیں روکتے۔ اس موقع پر مظلوم مسلمانوں نے سید صاحب سے مدد طلب کی۔ آپ نے ان کے قاصد سے فرمایا کہ تم جاؤ ہم کل کوئی فیصلہ کریں گے۔ اس تاخیر پر بذریعہ الہام تنبیہ ہوئی۔ آپ(رح) نے اپنے ناظم الامور جناب پیر محمد صاحب کوحکم دیا کہ ابھی سب لوگوں میں اسلحہ بارود تقسیم کریں اور روانگی کا اعلان کریں۔ اس طرح آپ تمام لشکر کو لے کر نکلے اور راتوں رات نصیر آباد پہنچ کر پڑاؤ کیا اور روافض کو تہدید کی کہ جس طرح ہمیشہ تعزیہ وغیرہ نکالتے ہیں حسب معمول نکالیں مگر اہل سنت کو تنگ نہ کریں اور نہ ہی صحابۂ کرام(رض) کی شان میں گستاخی کی جسارت کریں۔ وہ خوف کی وجہ سے باز رہے۔چہلم کے ایام میں حکومت سے مدد کا وعدہ لے کر انہوں نے پھر یہی شرارت کرنا چاہی، آپ(رح) پھر اپنا لشکر لے کر وہاں پہنچے اور انہیں تنبیہ فرمائی۔ اس موقع پر اہلسنت کے بعض سرداروں نے کوشش کی کہ جنگ چھڑ جائے مگر سید صاحب(رح) نے فرمایا کہ ہم جنگ چھیڑنے نہیں اپنے بھائیوں کی مدد کرنے اور شرارت رفع کرنے آئے ہیں اس لئے بغیر ان کی تعدی کے جنگ نہ چھیڑیں گے۔﴿خلاصہ از وقائع سید احمدشہید ص ۸۶۴ تا ۶۰۵﴾
ان واقعات سے بات واضح ہوگئی کہ سید صاحب محض مظلوم مسلمانوں کی مدد کے لئے نکلنا ضروری سمجھتے تھے، دونوں بار آپ لشکر لے کر نصیرآباد آئے، نہ حکومت پر قبضہ فرمایا نہ خلافت کا قیام بس مسلمانوں کو نجات دلا کر واپس تشریف لے گئے۔ اس نکتے پر جو زیادہ زور دیا جارہا ہے وہ اس لئے کہ جہاد کشمیر وافغانستان پر آج کل بہت لوگوں کو ان اعتراضات کا مروڑ اٹھ رہا ہے۔

اب ملاحظہ فرمائیں انمکاتیب و ملفوظات کا خلاصہ جو بڑی جامعیت کے ساتھ سید صاحب کی نظر میں جہاد کے مقاصد، جہاد کے مقام اور اہمیت واضح کرتے ہیں۔

تعمیل ِ حکم
اس تمام جہدوجہد سے فقیر کا مقصود صرف یہ ہے کہ اہل کفر وضلالت سے جنگ کرنے کے بارے میں جو احکام وارد ہوئے ہیں اور فرمان خداوندی’’جاھدوا باموالکم وانفسکم‘‘﴿اپنے مال وجان کے ساتھ جہاد کرو﴾ کی تعمیل کی صورت پیدا ہو، فرماں بردار بندے کے لئے اپنے مالک کے حکم کی تعمیل کے بغیر چارہ نہیں۔﴿مکتوب بنام سردار یار محمد خاں﴾

فقیر نے اﷲ کے وعدوں پر اعتماد کیا اور حکمِ حاکم ﴿خداوند علام﴾ کی تعمیل کو اپنا مرکزِ توجہ بنایا، ماسوی اﷲ کو پس پشت ڈال دیا، گردوپیش سے آنکھیں بند کر لی ہیں اور رضائے مولیٰ کی راہِ راست کو سامنے رکھ کر کمالِ اطمینان وفرحت اور بشارت و مسرت کے ساتھ اس راستے پر چلا جارہا ہے۔﴿مکتوب بنام سردار یار محمد خاں﴾

فقیر کو حکم الٰہی کی تعمیل تہ دل سے مقصودہے اور اﷲ کے وعدے پر اعتماد ہے، باقی اس کی شکل کیا ہو گی؟ غلام کی کیا مجال کہ وہ اپنے مالک سے پوچھے کہ وہ اپنے وعدے کا ایفا کس صورت سے کرے گا کہ یہ سوال آئین بندگی کے خلاف ہے۔﴿مکتوب بنام سردار یار محمد خاں﴾
﴿اس مکتوب کو دل کی آنکھیں کھول کر بار بار پڑھا جائے کہ جہاد بندگی کا تقاضا ہے مقاصد حاصل ہوں یا نہ ہوں﴾

ہم لوگ خد کے بندے اور رسول ﷺ کی امت ہیں، بلاشبہ اسلام کے دعوے رکھتے ہیں اور اپنے کو پیروان رسول میں شمارکرتے ہیں، جب ہم نے اس بات﴿جہاد﴾ پر کلام الہٰی کو ناطق مان لیا ہے اور نبی کریم ﷺ کو سچا سمجھ لیا ہے، لامحالہ ہم نے اﷲ اور اس کے حکم کی بجا آوری کے لئے کمر ہمت باندھی ہے اور اسوۂ رسول ﷺ کے اتباع میں سفر کے لئے نکل کھڑے ہوئے ہیں۔﴿مکتوبِ عام بنا علما و رؤسائے سرحد﴾

رضا و محبت الٰہی
ہم محض رضائے الٰہی کے آرزو مند ہیں ،ہم اپنی آنکھوں اور کانوں کو غیر اﷲ کی طرف سے بند کر چکے ہیں اور دنیا و مافیہا سے ہاتھ اٹھا چکے ہیں، ہم نے محض اﷲ کے لئے علم جہاد بلندکیا ہے، ہم مال و منال ، جاہ و جلال، امارت و ریاست حکومت و سیاست کی طلب وآرزو سے آگے نکل گئے ہیں،خدا کے سوا ہمارا کوئی مطلوب نہیں۔﴿مکتوب عام بنام علمائ و رؤسائے سرحد﴾

اگرچہ ہم عاجز و خاکسار، ذرۂ بے مقدار ہیں لیکن بلاشک محبت الٰہی سے سرشار اور غیر خدا کی محبت سے بالکل دستبردارہیں۔﴿مکتوب عام بنام علمائ و رؤسائے سرحد﴾
﴿معلوم ہوا کہ امارت وخلافت مقصود نہ ہو تب بھی جہاد درست ہوتا ہے﴾

یہ سب کچھ محض اﷲ کے لئے ہے، اس جذبۂ الہٰیہ میں نفسانی خواہشات اور شیطانی وسوسے کا شائبہ بھی نہیں، اگر یہ بات فقیر کے اکثر واقفانِ حال پر ظاہر ہے لیکن مزید تاکید کے لئے پھر نئے سرے سے کہتا ہوں کہ میں خدائے علّام الغیوب کو گواہ بناتا ہوں کہ کفار اور دشمنوں کے ساتھ جو جذبۂ جہاد فقیر کے دل میں موجزن ہے، اس میں رضائے الٰہی اور اعلائے کلمۃ اﷲ کے مقصد کے سوا عزت و جاہ و مال ودولت شہرت و ناموری، امارت و سلطنت، برادران و معاصرین پر فضیلت و بزرگی یا کسی اور چیز کا فاسد خیال ہر گز دل میں نہیں ہے ’’ اور ہم جو بات کہہ رہے ہیں، اﷲ اس کا گواہ ہے۔‘‘﴿بنام علمائ و مشائخ و امرائے ہندوستان﴾

مسلمانوں کی بے بسی اور اہل کفر کا غلبہ
اگرچہ کفار اور سرکشوں سے ہر زمانے اور ہر مقام میں جنگ کرنا لازم ہے، لیکن خصوصیت کے ساتھ اس زمانے میں کہ اہل کفر و طغیان کی سرکشی حد سے گزر چکی ہے، مظلوموں کی آہ و فریاد کا غلغہ بلند ہے، شعائر اسلام کی توہین ان کے ہاتھوں صاف نظر آرہی ہے، اس بنا پر اب اقامت رکن دین یعنی، اہل شرک سے جہاد عامۂ مسلمین کے ذمے کہیں زیادہ مؤکد اور واجب ہو گیا ہے۔﴿بنام شرفا و سادات وعلما و مشائخ ہندوستان﴾
﴿اس مکتوب گرامی کی روشنی میں زمانہ حاضر میں جہاد کا حکم اور مقام سمجھا جا سکتا ہے﴾

ہندوستان پر کفار کا تسلط اور اسلام کا زوال
تقدیر سے چند سال سے ہندوستان کی حکومت و سلطنت کا یہ حال ہو گیا ہے کہ عیسائیوں اور مشرکین نے ہندوستان کے اکثر حصے پر غلبہ حاصل کر لیا ہے اور ظلم و بیداد شروع کر دی ہے کفر و شرک کے رسوم کا غلبہ ہو گیا ہے اور شعائر اسلام اٹھ گئے یہ حال دیکھ کر ہم لوگوں کو بڑا صدمہ ہو، ہجرت کا شوق دامن گیرا ہوا، دل میں غیرت ایمانی اور سر میں جہاد کا جوش و خروش ہے۔﴿بنام شاہ سلیمان﴾

ہندوستان پر انگریزوں کا تسلط
جناب کو خوب معلوم ہے کہ یہ پردیسی سمندر پار کے رہنے والے دنیا جہان کے تاجدار اور یہ سودا بیچنے والے سلطنت کے مالک بن گئے ہیں، بڑے بڑے اہل حکومت کی حکومت اور ان کی عزت وحرمت کو انہوں نے خاک میں ملا دیا ہے ، جو حکومت و سیاست کے مرد میدان تھے، وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں، اس لئے مجبوراً چند غریب و بے سروسامان کمر ہمت باندھ کر کھڑے ہو گئے اور محض اﷲ کے دین کی خدمت کے لئے اپنے گھروں سے نکل آئے، یہ اﷲ کے بندے ہر گز دنیا دار اورجاہ طلب نہیں ہیں محض اﷲ کے دین کی خدمت کے لئے اٹھے ہیں،مال و دولت کی ان کو ذرہ بھر طمع نہیں۔﴿بنام راجہ ہندوراؤ، وزیر گوالیار﴾
ملک ہندوستان کا بڑا حصہ غیر ملکیوں کے قبضے میں چلا گیا ہے اور انہوں نے ہر جگہ ظلم و زیادتی پر کمر باندھی ہے، ہندوستان کے حاکموں کی حکومت برباد ہو گئی کسی کو ان سے مقابلے کی تاب نہیں بلکہ ہر ایک ان کو اپنا آقا سمجھنے لگا ہے چونکہ بڑے بڑے اہل حکومت ان کا مقابلہ کرنے کا خیال ترک کر کے بیٹھ گئے ہیں اس لئے چند کمزور و بے حقیقت اشخاص نے اس کا بیڑہ اٹھایا۔﴿بنام غلام حیدر خاں﴾
﴿ان دونوں مکاتیب سے واضح ہے کہ سید صاحب(رح) انگریزوں سے ہندوستان کو آزاد کرانے کی فکر رکھتے تھے اور اس مقصد کو ذہن میں رکھ کر لڑ رہے تھے﴾

اعلائے کلمۃ اﷲ ،احیائے سنت اور بلاد اسلامیہ کا اِستخلاص
اس تمام معرکہ آرائی اور جنگ آزمائی کا مقصودصرف یہ ہے کہ اﷲ کاکلمہ بلند ہو ، رسول اﷲ ﷺ کی سنت زندہ ہو اور مسلمانوں کا ایک ملک کفار و مشرکین کے قبضے سے نکل آئے، اس کے سوا کوئی مقصود نہیں۔ اس فقیر کا مال و دولت اور حصول سلطنت و حکومت سے کچھ غرض نہیں، دینی بھائیوں میں سے جو شخص بھی کفارکے ہاتھوں سے ملک کو آزاد کرے، رب العالمین کے احکام کو رواج دینے اور سید المرسلین ﷺ کی سنت کو پھیلانے کی کوشش کرے گا اور ریاست وعدالت میں قوانین شریعت کی رعایت و پابندی کرے گا فقیر کا مقصود حاصل ہو جائے گا اور میری کوشش کامیاب ہو جائے گی۔﴿بنام شاہ سلیمان﴾
دین کاقیام سلطنت سے ہے

حقیقت میں مطابق مقولۂ سلطنت و مذہب جڑواں ہیں، اگرچہ یہ قول حجت شرعی نہیں لیکن مدعا کے موافق ہے کہ دین کا قیام سلطنت سے ہے اور وہ دینی احکام جن کا تعلق سلطنت سے ہے ، سلطنت کے نہ ہونے سے صاف ہاتھ سے نکل جاتے ہیں اور مسلمانوں کے کاموں کی خرابی اور سرکش کفار کے ہاتھوں ان کی ذلت و نکبت اور شریعت مقدسہ کے شعائر کی بے حرمتی اور مسلمانوں کی مساجد و معابد کی تخریب جو ہوتی ہے، وہ بخوبی ظاہر ہے۔﴿مکاتیب﴾

احکام شرعی کا نفاذ
میرا اس منصبِ﴿امامت﴾ کے قبول کرنے سے اس کے سوا کوئی مقصودنہیں کہ جہاد کو شرعی طریقے پر قائم کیا جائے اور مسلمانوں کی فوجوں میں نظم قائم ہو، اس کے سوا کوئی دوسری نفسانی غرض مثلاً روپے پیسے کے خزانے یا ملکوں اور شہروں پر تسلط یا حصول سلطنت و ریاست یا اہل حکومت و صاحب اقتدار لوگوں کو تذلیل یا اپنے ہمسروں پر اپنے احکام کااجرائ یا اپنے ہم عصروں پر فوقیت و امتیاز قطعاً و بالکیۃ شامل نہیں، بلکہ ایسی بات نہ کبھی زبان پر آتی ہے، نہ کبھی خیال میں گزرتی ہے، تاج فریدوں و تخت سکندری کی قیمت میرے نزدیک ایک جو کے برابر بھی نہیں، کسریٰ و قیصر کی سلطنت میں خاطر میں بھی نہیں لاتا، ہاں اس قدر آرزورکھتا ہوں کہ اکثر افراد انسانی بلکہ تمام ممالک عالم میں رب العالمین کے احکام جن کا نام شرع متین ہے کسی کی مخالفت کے بغیر جاری ہو جائیں، خواہ میرے ہاتھ سےِ،خواہ کسی دوسرے کے ہاتھ سے پس ہر ترکیب و تدبیر، جو اس مقصد کے حصول کے لئے مفید ہو گی عمل میں لاؤں گا۔﴿بنام سردار محمد خاں و سردار سید محمدخاں﴾

زبانی دعوت و تبلیغ جہاد کے بغیر ممکن نہیں
چونکہ زبانی دعوت و تبلیغ شمشیر وسنان سے جہاد کے بغیر مکمل نہیں ہوتی اس لئے رہنماؤں کے پیشوا اور مبلغوں کے سردار محمد رسول اﷲ ﷺ آخر میں کفار سے جنگ کرنے کے لئے مامور ہوئے اور دینی شعائر کی عزت اور شریعت کی سربلندی و ترقی اسی رکن جہاد کی اقامت کی وجہ سے ظہور پذیر ہوئی۔﴿سادات وعلما و مشائخ و امرائے ہندوستان کے نام﴾
﴿جہاد اور تبلیغ کو جدا جدا سمجھنے والے یا جہاد کے بغیر تبلیغ کو مکمل سمجھنے والے حضرات ان الفاظ کو بار بارپڑھیں﴾

عزم راسخ
اس عبادت عظمیٰ کا ادا کرنا اور سعادت عالیہ کے حصول کا عزم اس طرح اس فقیر پر القا کیا گیا ہے کہ اس عظیم المرتبت کام کے انجام دینے میں جان و مال قربان کردینا، اہل وعیال کو خیر باد کہنا اور وطن سے ہجرت کر جانا،ناپاک مکھیوں کو ہانکنے اور خس وخاشاک کو دور کرنے سے زیادہ نہیں معلوم ہوتا۔ جب تک ہمارے جسم میں جان ہے اور ہمارے سر جسموں کے ساتھ ہیں، ہم بصد حیلہ وفن اسی سودے میں لگے ہوئے ہیں، خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہم اپنے مالک کی اطاعت میںمشغول ہیںاور محض رضائے الہیٰ کے آرزو مند۔﴿مکتوب عام علما و رؤسائے سرحد کے نام﴾

ہماری جنگ صرف اہل کفر سے ہے
ہمارا جھگڑا امرا و رؤسائے اسلام سے نہیں ہے، بلکہ ہم کو لانبے بال والوں،﴿سکھوں﴾بلکہ تمام فتنہ انگیز کافروں سے جنگ کرنا ہے، نہ کہ اپنے کلمہ گو بھائیوں سے اورہم مذہب مسلمانوں سے۔﴿مکتوب عام علما و رؤسائے سرحد کے نام﴾

مقصود اصلی ہندوستان ہے
اس ملک﴿سرحد﴾ کو مشرکین کی نجاستوں سے پاک کرنے اور منافقین کی گندگی سے صاف کرنے کے بعد حکومت و سلطنت کا استحقاق اور ریاست و انتظام سلطنت کی استعداد رکھنے والوں کے حوالے کر دیا جائے گا، لیکن اس شرط کے ساتھ کہ وہ احسان خداوندی کا لشکر بجالائیں گے اور ہمیشہ اور ہر حال میں جہاد کو قائم رکھیں گے اور کبھی اس کو موقوف نہیں کریںگے اور انصاف اور مقدمات کے فیصلے میں شرع شریف کے قوانین سے بال بھر بھی تجاوز و انحراف نہیں کریں گے اور ظلم و فسق سے کلیۃً اجتناب کریں گے، اس کے بعد میں اپنے مجاہدین کے ساتھ ہندوستان کا رخ کروں گا تاکہ اس کو شرک و کفر سے پاک کیا جائے اس لئے کہ امر مقصود اصلی ہندوستان پر جہاد ہے نہ کہ ملک خراسان﴿سرحد وافغانستان﴾ میں سکونت اختیار کرنا۔﴿بنام شاہزادۂ کامران﴾

جہاد کے عمومی و خصوصی منافع
جس طرح بارش سے نباتات اور حیوانات اورانسانوں کو بکثرت فوائد پہنچتے ہیں، اسی طرح جہاد سے عامۂ خلائق کو نفع پہنچتا ہے، ایک نفع تو وہ ہے جو اہل ایمان فرمانبردار اور منکروں اور سرکشوں اور فاسقوں اور منافقوں کو یکساں پہنچتا ہے، بلکہ جن و انس حیوانات و نباتات بھی اس میں شریک ہوتے ہیں اور ایک یہ کہ بعض خاص خاص جماعتوں اور بعض خاص خاص اشخاص کو ایک طرح کا نفع حاصل ہوتا ہے اور دوسری جماعتوں اور دوسرے اشخاص کو دوسری طرح کا۔

منفعتِ عامہ
عمومی نفع کی تفصیل یہ ہے کہ تجربہ بتاتا ہے کہ اہل حکومت کے انصاف، اہل معاملات کی دیانتداری اہل دولت کی سخاوت وفیاضی اورعام لوگوں کی نیک نیتی سے آسمانی برکتیں نازل ہوتی ہیں، وقت پر بارشیں ہوتی ہیں، پیداوار کی بہتات ہوتی ہے فصلیں اچھی ہوتی ہیں، تجارت کا فروغ ہوتا ہے، سامان تجارت کا چلن اچھا ہوتا ہے، بلائیں ٹلتی ہیں،مالوںمیںترقی اور نمو ہوتاہے، اہل ہنر اور ارباب کمال بہت کثرت سے پیدا ہوتے ہیں، دین حق کی قوت وشوکت ، دیندار سلاطین کے عروج اور اطراف ممالک میں ان کی حکومت کی ترقی، ملت حقہ کے عساکر و افواج کی قوت اور احکام شریعت کی اشاعت و عمومیت سے بدرجہا زیادہ نتائج و برکات ظاہر ہوتے ہیں۔

﴿حالات کی شکایات کا رونا رونے والے ان الفاظ کو بار بار پڑھیں، یقینا برے حالات سے نکلنے کاراستہ سمجھ میں آجائے گا﴾
ہندوستان اور آزاد اسلامی ممالک کا مقابلہ
آسمانی برکتوں کے نزول کے سلسلے میں روم اور ترکی سے ہندوستان کا مقابلہ کر کے دیکھ لو۔

گزشتہ و موجودہ ہندوستان
بلکہ موجودہ۳۳۲۱ھ ہندوستان جس کا بڑا حصہ دارالحرب بن چکا ہے، اس کا مقابلہ دوسو تین سو برس پہلے کے ہندوستان سے کرو، آسمانی برکتوں کا کیا حال تھا اور اولیائے عظام اور علمائے کرام کی کتنی بڑی تعداد پائی جاتی تھی۔

منفعتِ مخصوص بمجاہدین
باقی رہے خصوصی فوائد تو شہدائے مومنین،مسلمان مجاہدین صاحب اقتدار سلاطین اور میدان کار زار کے جو انمردوں کو جو فوائد پہنچتے ہیں ان کی تفصیل کی ضرورت نہیں۔

اصحاب باطن
ان کے علاوہ ارباب باطن کو تھوڑے تھوڑے وقت میں بڑی بڑی ترقیاں حاصل ہوتی ہیں اور معمولی ریاضتوں سے مراتب ولایت اور مناصب و جاہت پر فائز ہوتے ہیں۔
﴿روحانی مدارج کے خواہشمند حضرات غور فرمائیں﴾

علمائ
علوم حقہ کی عام اشاعت ہوتی ہے، معلمین و طلبہ کی کثرت ہوتی ہے، علما احتساب و قضا اور اجتہاد افتا کے عہدوںپر فائز اور امامت باطنی کے منصب سے سرفراز ہوتے ہیں، یعنی دین حق کی طرف کھلی ہوئی عمومی دعوت اورعقائد حق اور احکام شریعت کی اشاعت اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے ذریعے انبیائ علیہم السلام کی نیابت کا شرف حاصل ہوتا ہے۔

عوام صلحائ
عام اہل صلاح بھی اس کے برکات سے محروم نہیں رہتے نیکو کاری اور خداترسی کا شوق ترقی کر جاتا ہے، اسلئے کہ نیکو کار انسانوں کا اعزاز ہوتا ہے بداخلاق اور فاجر انسانوں کی تذلیل کا زمانہ ہوتا ہے مستحسن اور شرعی باتوں کا فروغ ہوتا ہے مذموم اور ممنوع امور کو عام زوال ہوتا ہے، مسلمان سلاطین کی اطاعت اور علمائے کرام کی عزت اور اولیائے عظام کی عقیدت اور مسلمانوں کے سواداعظم میں شمولیت کی برکت سے ان کی طاعات کا ثواب بڑھ جاتا ہے۔

عوام مؤمنین
عام مسلمان بھی اس کے برکات سے محروم نہیں رہتے،معاملات میں درستی، نیت اور اطاعت کی طرف عام رغبت اور شوق دلوں میں پیدا ہو جاتا ہے جس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ دین کے انوار ہر طرف پھیلتے ہوتے ہیں، اﷲ تعالیٰ کے خاص الطاف و عنایات کا زمانہ ہوتا ہے، شرعی رسوم و عادات کا ایساچرچا اور رواج ہوتاہے کہ لوگ﴿خواہ تقلیدی طور پر﴾ ان کے پابند ہوتے ہیں آسمانی برکتوں کے نزول، سلاطین کے انصاف اور اہل سخاوت کی فیاضی کی وجہ سے فارغ البالی اور خوشحالی عام ہوتی ہے اور قوانین شرعیہ کی پابندی کی وجہ سے دنیوی و اخروی امور و معاملات درست اور باقاعدہ ہو جاتے ہیں۔

فساق
فساق و فجار بھی اس کے برکات سے محروم نہیں رہتے ملت حقہ کے انوار بنی آدم کے قلوب میں اس طرح ساری ہو جاتے ہیں اور ملت حق کی شہرت کی وجہ سے مذموم افعال کی قباحت عوام کے دماغوں میں اس طرح واضح اور جاگزیں ہوجاتی ہے، اور منکرات و بدعات کی قباحت ایسی مشہور و مسلم ہوتی ہے کہ حدود تعزیرات کے خوف یا ہمچشموں اور ہمسروں کے طعن و ملامت کے اندیشے اور بدنامی کے خطرے سے فساق و فجار منکرات و بدعات کے اظہار سے دستکش ہو جاتے ہیں۔

منافقین
اہل نفاق بھی اس کے برکات سے محروم نہیں رہتے، وہ قتل کے خوف سے اہل ایمان کے دبدبے اور غلبے اور سرکشوں کی ذلت و نکبت کو دیکھ کر ظاہری طو ر پر دین حق پر قائم رہتے ہیں اور کھلے ہوئے کافروں کے زمرے میں شامل نہیں ہوتے نیز دین کی روشنی کے پھیل جانے اور آسمانی برکتوں کے نزول اور مسلمانوں کی عظمت و شوکت دیکھ دیکھ کر اولیائے عظام اور علمائے کرام کے ساتھ اختلاط اور رہنے سہنے کی وجہ سے اور ان کے انوار کا ان کے قلوب پر عکس اور ان کے مواعظ کا ان کے دلوں پر اثر پڑنے سے اس کی بھی امید کی جاتی ہے کہ دین کا نور ان کے دلوں کی گہرائی میں اتر جائے گا۔

ذِمّی کفّار
ذمی کافر بھی جو مسلمانوں کی رعیت بن کر رہیں، اور جزیہ دیں، اس کے برکات سے محروم نہیں رہتے، آسمانی برکتوں تجارت کے فروغ بادشاہوں کے انصاف اور رہزنوں سے امن واطمینان کی وجہ سے وہ اسلامی ممالک میں فارغ البال اور خوشحال رہتے ہیں، اہل حق کے ساتھ رہنے سہنے اور شہری زندی گزارنے اور ان کے رسوم و عادات کے رواج و شہرت کی وجہ سے ، نیز دین حق کے ماننے والوں کے اتباع شریعت کیوجہ سے معاشی و اخروی امور و معاملات کی درستی اور باقاعدگی دیکھ دیکھ کر وہ متاثر ہوتے ہیں اور اس کی امید کی جا سکتی ہے کہ ان کے دل میں دین حق کی طرف میلان ہو جائے گا۔

اہل حرب
اہل حرب بھی اس کے برکات سے محروم نہیں رہتے جو لوگ جہاد میں اہل اسلام کے ہاتھ سے مقتول ہوتے ہیں، اگرچہ وہ اقل قلیل ہوتے ہیں اس لئے کہ جھگڑوں میں بھاگ جانے والوں کے مقابلے میں قتل ہونے والے﴿خصوصاً جانب مخالف کی شوکت و قوت کے ظہور کے زمانے میں﴾ کہیں کم ہوتے ہیں پھر بھی جو مقبول ہوتے ہیں، ان کے حق میں ان کا قتل ہونا، عذاب خداوندی کی تخفیف اور سزا کی تقلیل کا سبب ہوتا ہے، اسلئے کہ اگر وہ مقتول نہ ہوتے تو اپنے کفر پر مدت تک باقی رہتے اس طرح ان کا کفر بڑھتا ہی رہتا اور کفر جتنا بڑھتا اور جتنے دلوں قائم رہتا اس کی سزا بھی اتنی ہی زیادہ ہوتی۔

ذُریتِ کفار
اہل حرب کی نسل و اولاد کے حق میں بھی وہ نفع اور برکت سے خالی نہیں، چونکہ غلامی کی وجہ سے ان کو اہل حق کے ساتھ اختلاط و معاشرت کا موقع ملتا ہے، اس لئے اہل حق کی صحبت کے فوائد کو حاصل ہو سکتے ہیں۔

یہ جہاد کے برکات و فوائد کا ایک حصہ ہے جو بیان کیاگیا ہے اس کی تفصیل اور اس کا پورا بیان اس موقع پر ممکن نہیں۔

جہاد کی مثال بارش کی سی ہے
خلاصہ یہ ہے کہ اہل ایمان پر جہاد کا وجوب اور قیامت تک اس کو قائم رکھنے کا حکم کارخانۂ تشریع میں وہی حیثیت رکھتا ہے، جو بارش کے نازل کرنے اور نہروں کے جاری کرنے کی حیثیت کارخانۂ تکوین میں ہے، باقی چند ایسے اشخاص کی ہلاکت جو اپنی استعداد کھوچکے ہیں مثلاً بعض مسلمان جو جہاد کے راستے میں رکاوٹ بنتے ہیں، اور اپنی باطنی خرابی حسد اور کفار سے محبت کی بنائ پر مجاہدین کی مخالفت اختیار کرتے ہیں اورہلاکت ابدی میں اپنے کو مبتلا کرتے ہیں، اور بدترین منافقین کے زمرے میں داخل ہوتے ہیں تو ان لوگوں کی ہلاکت و بربادی جہاد کے عمومی منافع میں مخل نہیں اس لئے کہ یہی بارش ہے جس کا نفع عام انسانوں کے حق میں بدیہی ہے گو بعض آدمی عمارتوں کے انہدام یا سیلاب اور نہروں کی طغیانی سے تلف ہو جاتے ہیں لیکن اس کے باوجودبارش کی برکت اور نفع میں کلام نہیں۔

مندرجۂ بالا اقتباسات سے اندازہ ہوتا ہے کہ سید صاحب(رح) کی نظر میں جہاد دین کا ایک نہایت اہم شعبہ اور تکمیلی قدم ہے، ان کوقرآن مجید کی صریح آیات اور واضح احادیث کے پیش نظر تعمیل کا جذبہ اس پر ابھارتاہے رضا و محبت الہیٰ کا شوق دل کو گدگداتا ہے، پھر مسلمانوں کی بے بسی اور اہل کفر کا غلبہ رہ کر ان کے حساس دل میں چٹکیاں لیتا ہے، ہندوستان پر کفار کے تسلط اور اسلام کے زوال کا مشاہدہ ان کو بے چین کرتاہے ان کے نزدیک اعلائے کلمۃ اﷲ اور بلاد اسلامیہ کے استخلاص کی ضرورت ہر غیور اور فرض شناس مسلمان سے جہاد کا مطالبہ کر رہی ہے ان کا یقین ہے کہ سلطنت کے بغیر نہ دین کا قیام ہو سکتا ہے، نہ احکام شرعی کا نفاذ ممکن ہے، نہ دعوت و تبلیغ کا کام مکمل ہے،پھر جہادایسا بابرکت عمل ہے جس سے ساری دنیا کو فیض پہنچتا ہے، اور انسانوں کا کوئی طبقہ اس کے برکات و منافع سے محروم نہیں رہتا ان کے نزدیک حالات کی ابتری اور عالم کا فساد اس اہم فریضے کے تعطل کا نتیجہ ہے، یہ سب حقائق ان کے دل میں جہاد کا عزم راسخ پیدا کرتے ہیں اور وہ اسی راستے میں جان کی بازی لگا دینا چاہتے ہیں۔
سید صاحب کے مکاتیب و ملفوظات آپ نے ملاحظہ فرمالیئے امید ہے کہ ان کانظریۂ جہاد آپ پر مکمل واضح ہو گیا ہو گا۔

جہاد اسلامی اعمال میں افضل ترین
قرآن کریم کی دو آیات مبارکہ سے یہ مضمون اتنی وضاحت کے ساتھ ثابت ہے کہ تردد اور شبہ کی گنجائش نہیں رہتی، سورۃ النسائ آیت ۴۹ اور سورۃ التوبہ آیت ۹۱﴿تفصیلات درکارہوں تو فتح الجوّاد فی معارف آیات الجہاد میں ان آیات کی تفسیر دیکھ لی جائے﴾

اسی طرح کئی احادیث صحیحہ میں بھی یہ مضمون بڑی صراحت کے ساتھ آیا ہے۔ حضرت سید صاحب(رح) اور ان کی جماعت کا بھی جہاد کے بارے میںیہی نظریہ تھا اور آپ کے ملفوظات و وقائع میں یہ مضمون جا بجا موجود ہے۔ ذیل میں ہم حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمہ اﷲ کی کتاب سیرت سید احمد شہید سے اس مضمون کو نقل کرتے ہیں۔

’’یوں تو عبادت وسلوک کے ساتھ جہاد کی تیاری آپ ہمیشہ کرتے رہتے تھے لیکن اس قیام میں اس طرف سب سے زیادہ توجہ تھی، جہاد کی ضرورت کا احساس روز بروز بڑھتا جاتا تھا اور یہ کانٹاتھا جو آپ کو برابربے چین رکھتا تھا، دن رات اسی کا خیال رہتا تھا، زیادہ تر یہی مشاغل بھی رہتے ، آپ اکثر اسلحہ لگاتے تاکہ دوسروں کو اس کی اہمیت معلوم ہو اور شوق ہو، دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیتے ،لکھنؤ میں آپ نے ایک مرید کو ایک تفنگچہ دیا اور کہا کہ’’جہاد فی سبیل اﷲ کی نیت سے ہتھیار رکھواور شکم سیر ہو کرکھاؤ انشائ اﷲ کفارسے جہاد کریں گے تم بھی مشق میں مشغول رہو، اس سے بہتر کوئی فقیری اور درویشی نہیں۔‘‘

جب فنونِ حرب کی مشق و تعلیم میں زیادہ انہماک ہوا اور زیادہ تر وقت اسی میں صرف ہونے لگا یہاں تک کہ سلوک کے کاموں میں کمی ہونے لگی تو رفقائ نے آپس میں گفتگو کرنی شروع کی اور مشورہ کیا کہ مولانا محمد یوسف صاحب پھلتی اس بارے میں سید صاحب(رح) سے گفتگو کریں اور جماعت کے ان خیالات کی اطلاع دیں، مولانا نے سید صاحب(رح) سے عرض کیا، سید صاحب(رح) نے آپ کو جواب دیا کہ’’ ان دنوں اس سے افضل کام ہم کو درپیش ہے، اسی میں ہمارا دل مشغول ہے، وہ جہادفی سبیل اﷲ کے لئے تیاری ہے، اس کے سامنے اس حال کی کچھ حقیقت نہیں، وہ کام یعنی تحصیل علم سلوک اس کام کے تابع ہے، اگر کوئی تمام دن روزہ رکھے، تمام رات عبادت و ریاضت میں گزارے اور نوافل پڑھتے پڑھتے پیروں میں ورم آجائے اور دوسرا شخص جہاد کی نیت سے ایک گھڑی بھی بارود اڑائے تاکہ کفار کے مقابلے میں بندوق لگاتے آنکھ نہ جھپکے تو وہ عابد اس مجاہد کے رتبے کو ہرگز نہیں پہنچ سکتااور وہ کام ﴿سلوک و تصوف﴾اس وقت کا ہے، جب اس کام﴿تیاری جہاد﴾ سے فارغ البال ہو، اب جو پندرہ سولہ روز سے نماز یا مراقبے میں دوسرے انوار کی ترقی معلوم ہوتی ہے، وہ اسی کاروبار کے طفیل سے ہے، کوئی بھائی جہاد کی نیت سے تیر اندازی کرتا ہے، کوئی بندوق لگاتا ہے، کوئی پھری گد کا کھیلتا ہے، کوئی ڈَنٹر پیلتا ہے، اگر ہم اس کام کی اس وقت تعلیم کریں تو ہمارے یہ بھائی اس کام سے جاتے رہیں، یوسف جی! تم خود اپنا حال دیکھو کہ گردن ڈالے ہوئے ایک عالم سکوت میں رہتے ہو، اسی طرح اور لوگ بھی کوئی کمبل اوڑھے مسجد کے کونے میں بیٹھا ہے کوئی چادر لپیٹے حجرے میں بیٹھا ہے، کوئی جنگل جا کر مراقبہ کرتا ہے، کوئی ندی کنارے گڑھا کھود کر بیٹھا رہتا ہے، ان صاحبوں سے تو جہاد کا کام ہونا مشکل ہے، تم ہمارے بھائیوں کو سمجھاؤ کہ اب اسی کام میں دل
لگائیں، یہی بہتر ہے ، حاجی عبدالرحیم صاحب سے مشورہ کر کے جواب دو۔‘‘

یہ مضمون خصوصیت کے ساتھ ان لوگوں کے لئے قابل توجہ ہے جو مجاہدۂ نفس کو جہاد کا نام دے کر اسے قتال فی سبیل اﷲ سے افضل قرار دیتے ہیں۔ کیا ان میں سے کوئی امام الاولیائ حضرت سید احمد شہید رحمہ اﷲ سے زیادہ تصوف اور مجاہدے کی حقیقت کو سمجھنے والا ہے؟ سید صاحب(رح) وہ بزرگ ہیں کہ مولانا عبدالحیٔ بڈھانوی اور شاہ اسماعیل شہید رحمہم اﷲ جیسے جبال علم نے باوجود کم عمری کے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی ۔ حاجی عبدالرحیم ولایتی رحمہ اﷲ جیسے بڑے پیر کا قول ابھی آپ نے پڑھا کہ انہوں نے کس طرح اپنی مشیخت ترک کر کے سید صاحب کی نسبت اختیار کی۔ یہ تمام لوگ اس شخصیت کے ہاتھ پر نہ صرف بیعت ہوئے بلکہ ان کے ساتھ چلتے ہوئے گھر بار جان ومال سب کچھ قربان کر دیا جن کے خیال میں جہاد فی سبیل اﷲان تمام اشغال و کیفیات سے بالاتر چیز تھی۔ اگر ایسے حضرات حضرت سید صاحب(رح) کے نظریہ جہاد کو بغور اوربنیت اصلاح پڑھیں تو انہیں اپنے بہت سے سوالات کا نہ صرف جواب مل جائے گا بلکہ صحیح اسلامی نظریہ بھی نصیب ہو گا۔

حضرت سید صاحب(رح) کے نظریہ جہاد کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم اﷲ تعالیٰ کے سچے ولی، مجدد زمان، قطب الاقطاب کے ایمانی نظریے کو جانیں اور اپنانے کی فکر کریں۔ اﷲ رب العزت ہم سب کو توفیق عطائ فرمائیں۔
Shaheen Ahmad
About the Author: Shaheen Ahmad Read More Articles by Shaheen Ahmad: 99 Articles with 210834 views A Simple Person, Nothing Special.. View More