یہ میگا پراجیکٹس؟
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
گزشتہ چند روز سے پاکستان کا سب سے
گرم ایشو نیب ہے، کیوں نہ ہو کہ وزیراعظم میاں نواز شریف نے خود اس کی
ابتدا کی ہے، اب اپوزیشن لیڈر سے لے کر دیگر سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں تک
سب اس پر تبصرہ کرنا ضروری خیال کرتے ہیں، اگر وزیراعظم نے نیب کو درست
طریقہ اختیار کرنے اور بلا ثبوت ہر کسی کے گھر میں جھانکنے سے روکا ہے، توا
ن کے پاس یقینا اس کے ثبوت ہونگے۔ مگر کیا کیجئے کہ اپنی سیاست حقائق اور
سچائی کے معاملات میں زیادہ دخل اندازی نہیں کرتی، نہ ہی پارٹیاں اپنے
منشور پر توجہ دیتی ہیں اور نہ ہی حکمرانوں یا اپوزیشن کے پاس کوئی لائحہ
عمل ہے ۔ بس بیانات اور ہنگامی منصوبوں پر عمل پیرا ہونے کو ہی کامیابی
تصور کیا جاتا ہے۔ نیب کے بارے میں اگر سیاستدانوں کے بیانات ہی مرتب کرلئے
جائیں تو کئی ضخیم مضمون معرض وجود میں آجائیں گے۔ ایک طرف تو اپوزیشن نے
تنقید کے تیر چلانے شروع کئے ہوئے ہیں، جن میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کا
کہنا ہے کہ وزیراعظم اور میں نے مل کر ہی چیئرمین کا انتخاب کیا تھا۔ اب اس
میں کیا خامی پیدا ہوگئی۔ دوسروں کا کہنا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن یہی
چاہتے ہیں کہ نیب ’دوسروں‘ پر ہی ہاتھ ڈالے، اگر اس میں خود حکومتی پارٹی
یا اس کے خاص لوگوں کا نام آتا ہے تو پھر نیب ناانصافی کررہا ہے۔ اگر
دوسروں کو ہی پکڑے تو پھر وہ بہترین انداز میں اپنے فرائض کی انجام دہی میں
مصروف ہے۔ نیب کی بات چونکہ وزیراعظم نے کی ہے اس لئے تمام حکومتی ارکان
اور وزراء وغیرہ نے اس بیان کو فرض جان کر اس پر رائے زنی کا فیصلہ کیا ہوا
ہے، اب بہت سے وزراء روزانہ نیب کے خلاف بیان دے کر اپنے قائد کے سامنے
سرخرو ہوتے اور اپنے نمبر پکے کرتے ہیں۔
دوسری طرف پنجاب اسمبلی کے بارے میں خبر آئی ہے کہ ایوان مچھلی منڈی کا
منظر پیش کرنے لگا، کیونکہ وہاں یہ بحث چھڑ گئی کہ اورنج لائن ٹرین ضروری
ہے یا غیر ضروری ۔ دونوں فریق اپنی اپنی انتہاؤں پر قائم رہے، اگر حکمران
جماعت نے میٹرو ٹرین کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملائے تو دوسری طرف
اپوزیشن پارٹیوں نے بھی اس منصوبے کو یکسر مسترد کردیا۔ معاملہ بحث ومباحثے
سے شروع ہوا اور بات آپس میں الجھنے تک پہنچ گئی۔ بتایا گیا کہ اپوزیشن
جتنا چاہے شور مچا لے میٹرو ٹرین بن کر رہے گی۔ یقینا ایسا ہی ہوگا، کیونکہ
جس منصوبے کا آغاز ہو چکا ہے اور جس پر اربوں روپے لگ بھی چکے ہیں، اس کا
روکنا ممکن نہیں لگتا۔ یہ الگ بات ہے کہ حکومتی پارٹی کے علاوہ اہلِ دانش
بھی اس منصوبے کو بہت مناسب قرار نہیں دے رہے، ان کا کہنا ہے کہ اس منصوبے
سے کم از کم لاہور کی تاریخی عمارات کو کوئی نقصان نہیں پہنچنا چاہئے۔ مگر
جب ترقی کی لہر اٹھتی ہے تو اس کے راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو دور
کردیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مخالفین کے تحفظات کے باوجود کام جاری ہے،
حتیٰ کہ یہ بیانات بھی سامنے آرہے ہیں کہ جہاں کہیں عدالت نے حکم امتناعی
جاری کر رکھا ہے وہاں بھی کام ہورہا ہے۔
موجودہ وزیراعلیٰ کو فعال ترین وزیراعلیٰ قرار دیا جاتا ہے، خود موصوف کا
یہ دعویٰ بھی ہے کہ ایک دھیلے کی بھی کرپشن ثابت ہوجائے میں سیاست چھوڑ دوں
گا، مگر اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ میاں شہباز شریف کو ’میگا
پراجیکٹس‘ کا بے حد شوق ہے، وہ لاکھوں کے یا چند کروڑ کے کسی منصوبے کا نام
بھی نہیں سننا چاہتے، ان کی نگاہ میں منصوبے کا آغاز اسی وقت ہوتاہے جب اس
پر پچاس کروڑ یا ارب روپیہ لگتا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ اپنے ہاں سکولوں کی
حالت کیا ہے، جہاں کلاس روم ، واش روم اور چار دیواری نہیں ہوگی، وہاں بچے
کیسے تعلیم حاصل کریں گے۔ کس کو نہیں معلوم کہ ہسپتالوں میں ضروری مشینری
اول تو ہے ہی نہیں، اور اگر ہے تو قیمتی مشینری خراب پڑی ہے، ادویات کی
قیمتیں آسمان سے باتیں کرہی ہیں، غریب ہسپتالوں کے باہر دھکے کھانے پر
مجبور ہیں۔ بڑی رابطہ سڑکوں کی بجائے ہر سڑک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، پینے کے
صاف پانی کے پلانٹس کی کس قدر قلت ہے، یہ کتنے اور کہاں کہاں نصب ہونے
چاہیئں؟ کتنے لاکھ بچے سکولوں سے باہر ہیں، کتنے لوگ غربت اور مہنگائی کی
بنا پر خود کشیوں پر مجبور ہیں؟ مگر کیا ہے کہ اپنے حکمرانوں کی نگاہ میں
پروٹوکول، مراعات اور بادشاہی انداز حکمرانی ہی سب کچھ ہے، یا پھر وہ میگا
پراجیکٹس جو نسلوں کے مستقبل کی قربانی دے کر بنائے جائیں، یہ میٹرو، یہ
دانش سکول، یہ لیپ ٹاپ اور دیگر منصوبے درست ہیں، مگر ان سے پہلے بھوک،
ناخواندگی اور بیماریوں کے خاتمے کی ضرورت ہے۔ |
|