سپرپاورامریکاکے کے سب سے بڑے انتظامی
ومقتدرمنصب کے امیدوارڈونلڈٹرمپ جواسلام اورمسلم دشمنی میں غالباًسب دشمنوں
پرسبقت لے گئے ہیں،وہ مسلمانوں کوامریکا سے نکالنے کی بڑی پرجوش مہم چلارہے
ہیں،کے خلاف متنازعہ اور متعصب بیانات کے بعدبرطانیہ میں مقیم پانچ لاکھ سے
زائد مسلمانوں نے تحریری احتجاج میں ڈونلڈٹرمپ کے برطانیہ میں داخلے
پرپابندی کامطالبہ کیاہے جس پران دنوں برطانوی پارلیمنٹ میں بحث جاری ہے،جس
کے جواب میں اس بحث پر دباؤبڑھاتے ہوئے ڈونلڈٹرمپ نے برطانیہ میں اپنی
مزیدسرمایہ کاری روک دینے کی دہمکی دے ڈالی ہے۔مسلمانوں نے سکاٹ لینڈمیں
ٹرمپ کے گھرکے باہر علامتی مظاہرہ بھی کیالیکن یوں محسوس ہورہاہے کہ اس بحث
کوجلد ہی ٹرمپ کے حق میں سمیٹ دیا جائے گااوریوں ایک مرتبہ پھرجمہوریت کی
ماں ''بیوگی'' سے دوچارکردی جائے گی لیکن سوچنے اورجاننے کی بات یہ ہے کہ
موصوف خودکیا چیزہیں؟ان کاخاندانی پس منظرکیاہے؟اس سوال کاجواب اپنے
اندردلچسپی ومطالعے کے ساتھ ساتھ عبرت کے پہلوبھی رکھتاہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ٹرمپ خاندان شروع ہی سے نسلی اورمذہبی تعصب کاشدید رحجان
رکھتاہے۔بدقسمتی یہ کہ مختلف مذاہب کے پیروکاروں(مسلمانوں)کے خلاف تحریک
اورنعرہ زنی کودنیاکی اس سپرپاور(امریکا) کی صدارتی مہم کا حصہ
بنایاجارہاہے جودنیاکو جمہوریت اورانسانی حقوق کی پابندی کادرس دیتے ہوئے
نہیں تھکتی۔امریکی قوم کویہ منظربھی دیکھناتھاکہ آئندہ صدارتی الیکشن کیلئے
صدارتی امیدواروں کی فہرست میں ڈونلڈٹرمپ جیسے مسلم دشمنوں کو شامل کیاجا
رہاہے۔ڈونلڈ نے مسلمانوں کوامریکاسے نکالنے اورکسی بھی مسلمان کے امریکامیں
داخل ہونے کے بارے میں جوکہا،وہ اس کی مسلم برادری سے نفرت کی انتہاء نہیں
بلکہ ابتداہے۔اگراس کے سرمائے کی جانب دیکھیں تومنشیات کی سوداگری، قحبہ
خانوں کی مجاوری اورسونے کی لوٹ مارکی آمدنی کے سوا کچھ نہیں۔جرمنی میں
ڈونلڈ کے خاندان کاپیشہ ''حجام''بال کاٹنا تھا۔قلیل آمدنی سے چھٹکارہ پانے
کیلئے اس کے دادانے نیویارک جانے کافیصلہ کیا۔شائداس کی نظر میں یہ پیشہ
حقارت کا باعث نہیں تھاکیونکہ اگراس کاقحبہ گری یاچوری چکاری سے موازنہ
کیاجائے توحجام کاپیشہ باعزت ہی قرارپائے گا۔
ڈونلڈ اپناآبائی وطن ہمیشہ جرمنی ہی بتاتارہالیکن دوسری جنگ عظیم کے ۴۰سال
بعداس نے دوستوں کوبتایاکہ ان کاخاندان اصل میں سوئیڈش ہے۔اس کااقرار اس نے
۱۹۸۷ء میں شائع ہونے والی اپنی کتاب’’دی آرٹ آف دی ڈیل‘‘میں تفصیل کے ساتھ
کیاہے۔ابھی تک یہ سمجھ میں نہیں آسکاکہ اتناعرصہ اپنی اصل خاندانی شناخت کے
بارے میں غلط بیانی میں اس کاکیامقصدتھا لیکن اب حالیہ کئی برسوں سے وہ
اپنے خاندان کی نسبت ایک بارپھرجرمنی سے جوڑرہاہے ۔اس کاکہناہے کہ اس
کاپردادا۱۸۹۵ء میں جرمنی کے ایک چھوٹے سے قصبے’’کالسٹڈٹ‘‘سے نیویارک
پہنچاجہاں وہ ہیئرکٹنگ کرتاتھا کیونکہ یہ اس کا خاندانی پیشہ تھااوراس کے
والدین نے اسے اس کے علاوہ اورکچھ سکھایاہی نہیں تھا۔یہ بتانے کی ضرورت
نہیں کہ اس میں اورکسی کام کی صلاحیت ہی دکھائی نہیں دیتی تھی۔اس کے دل میں
امیربننے کی خواہش ہروقت مچلتی رہتی تھی چنانچہ ایک دن وہ بال کاٹنے کی
کوفت سے تنگ آکرگھرسے بھاگ نکلا۔وہ نہیں چاہتاتھاکہ ساری زندگی لوگوں کے
بال کاٹتے گزاردے ۔اس کے بعدوہ تعمیراتی کام سے وابستہ ہوگیاجس میں اس کے
خاندان نے آگے چل کربڑی ترقی کی۔
۱۹۷۳ء میں امریکی جسٹس ڈیپارٹمنٹ برائے شہری حقوق کوشکائت ملی کہ ٹرمپ
خاندان کی تعمیراتی کمپنی اپنے بنائے گھر''کالے رنگ''والوں کیلئے ممنوع
قراردیتے ہوئے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی مرتکب ہورہی ہے۔اس رویے کی
تصدیق کرنے کیلئے اربن لیگ نے چندگوروں اورکچھ کالے لوگوں کواس کے تیارکیے
گئے گھروں کوخریدنے یاکرائے پر لینے کیلئے بھیجا اوروہ یہ جان کرحیران رہ
گئے کہ ٹرمپ کمپنی نے گوری رنگت والوں کوتواسی وقت گھردے دیئے لیکن کالوں
کی بات سننے سے بھی انکارکردیااوریہ کہتے ہوئے انہیں وہاں سے جانے کوکہاکہ
ان کے پاس اس وقت کوئی گھر کرائے یابیچنے کیلئے دستیاب نہیں۔سول رائٹس کی
عدالت کے ریکارڈمیں آج تک اس بات کی تفصیل موجودہے کہ عدالتی عملے کے
چاراہلکاروں نے پراپرٹی کرائے پرلینے کیلئے ٹرمپ کمپنی کودرخواستیں دیں
تھیں،اس وقت ان کے پاس گھرخالی تھے لیکن کمپنی نے غلط بیانی سے کام
لیااورتحقیق کے بعد ثابت ہوگیاکہ یہ شکائت حقیقت پرمبنی ہے۔
۱۹۷۹ء میں ''ویلج وائس''نامی رسالے نے اس عدالتی کاروائی کے بارے میں
لکھاکہ کمپنی کے رئیل اسٹیٹ ایجنٹوں نے اقرارکیاہے کہ انہیں ٹرمپ نے سختی
سے ہدائت کررکھی تھی کہ کسی کالے کواس کے تیارکردہ گھرکرائے پرنہ دیئے
جائیں۔۱۹۷۵ء میں امریکی ہاؤسنگ ڈویژن نے اس معاملے کی انکوائری کرائی۔
کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں سفارش کی ٹرمپ کمپنی اپنے خالی گھروں اور اسامیوں
کودیئے گئے اشتہارات میں کالی رنگت اوراس قسم کے دوسرے لوگوں کو شامل کرنے
کی پابندی ہوگی۔ٹرمپ کمپنی سے کہاگیاکہ وہ اپنی کمپنی میں خالی اسامیوں کی
ایک فہرست اربن لیگ کو ارسال کرنے کی بھی پابندہوگی تاکہ اسے بے
روزگارلوگوں کی اطلاع اوررہنمائی کیلئے استعمال کیاجاسکے۔اپنے فیصلے میں
جسٹس ڈیپارٹمنٹ نے ٹرمپ کمپنی پرالزام لگاتے ہوئے کہاکہ ان کی جانب سے کالی
رنگت والوں کے خلاف اختیارکیے گئے رویے سے امریکامیں نسلی تعصب پھیلنے
کاخدشہ ہے جسے کوئی مہذب معاشرہ قبول نہیں کرسکتا۔اب ٹرمپ یہی روّیہ
مسلمانوں کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کررہاہے۔
ٹرمپ کے دادافریڈرک ٹرمپ نے اپنے کاروبارکاآغازنارتھ ویسٹرن امریکااور
ویسٹرن کینیڈامیں ریسٹورنٹس اورقحبہ خانوں سے کیا۔ڈونلڈٹرمپ کے ذرائع آمدن
اوران کے پیشے کے بارے میں ''وائٹ ہارس اسٹار''نامی اخبارنے ۲۷فروری ۱۹۰۱ء
کوصفحۂ اوّل پرخبردیتے ہوئے لکھا:
Donald Trump's grandfather rich in the yukon with Hotels on "Female
Companion ship.
بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ اس کے داداکے بارے میں بائیوگرافرگونڈا
بلیئرکا کہناہے کہ انہوں نے شہرکے ریڈلائٹ ایریامیں جسے’’لاوابیڈز‘‘کے نام
سے جانا جاتا ہے،جگہ لیزپرحاصل کرنے کے بعد''پوڈل ڈاگ''کے نام سے ایک سٹور/
ریسٹورنٹ تعمیرکیاجس میں ایک کچن اوربارروم کے علاوہ ''خواتین کیلئے
پرائیویٹ کمرے''بھی تھے،جنہیں ’’کوڈآف پروسٹی چیوٹس‘‘کے نام سے پکارا جانے
لگا۔سرکاری ریکارڈکے مطابق ٹرمپ فیملی کاکلنڈائک میں ایک ہوٹل اور ایک
ریسٹورنٹ تھاجو’’لیک بینیٹ‘‘اوروائٹ ہارس میں واقع تھے،ان میں سے
ایک’’آرکٹک‘‘اوردوسرا’’آرکٹک نیو‘‘کے نام سے جاناجاتاتھا۔
یکون سن اخبارمیں اس کے ایک قاری کااپریل ۱۹۰۰ء میں لکھا ہوا خط آج بھی
محفوظ ہے،جس میں''بینیٹ کے علاقے میں آنے والی کیلی معزز خواتین سے درخواست
کی گئی کہ وہ یہاں کےکسی ہوٹل میں ٹھہرنے سے پہلے اس کی شہرت کے بارے میں
تصدیق کرلیاکریں''۔
امریکاکے آئندہ صدارتی امیدوارکی ذات اوراس کے خاندانی پس منظرکے بارے میں
یہ تحقیقی جائزہ سب سے زیادہ امریکی رائے دہندگان کیلئے غوروفکر کا متقاضی
ہے۔کیاامریکی اپنے نامزدصدارتی امیدوارکو اس بناء پرمسندِصدارت پرمتکمن
ہوتاہوادیکھیں گے کہ وہ بدترین متعصب شخص ہے،جسے متمدن و مہذب ہی نہیں
گرداناجاسکتاجوانسانیت کے درجے سے گراہواانسان ہے۔مسلمانوں کے ساتھ اس کی
نفرت میں جوغیرمعمولی شدت پائی جاتی ہے اس کا موازنہ خود اسلام کے
علمبرداروں سے کیاجائے تو انتہائی سنجیدہ غوروفکرکی متقاضی ایک الگ ہی
تصویرہی سامنے آتی ہے ۔ذراایک لمحے کیلئے رک کر''واشنگٹن پوسٹ'' کی یہ
خبرملاحظہ فرمائیں:
’’کرسمس سے چاردن پہلے ۲۱دسمبرکی شام ایک مسافربس کینیاکے قصبے منڈیراسے
گزررہی تھی کہ اچانک مسلم انتہا پسندتنظیم ''الشباب''کے گوریلوں نے بس
کوروک کراس میں سوار مسلمانوں مردوں سے کہاکہ وہ عیسائی سواریوں کی نشاندہی
کریں تاکہ انہیں نیچے اتارکرقتل کیاجاسکے لیکن بس میں موجودمسلم خواتین نے
اپنے سروں سے حجاب اور اسکارف اتارکر عیسائی خواتین کوپہنا دیئے اورمسلم
عورتوں اورمردوں نے عیسائی مسافروں کے سامنے اپنے جسموں کوڈھال بناکرالشباب
کے انتہاپسندوں سے کہاکہ ان عیسائیوں سے پہلے آپ کو بس میں سوارمسلمانوں
کوقتل کرناہوگا۔ خاصی دیرکی کھینچاتانی اورانتہاپسندوں کی جانب سے مسلمانوں
کومارنے کی دہمکیوں اورکچھ رائفلوں کے بٹ مارنے کے باوجودجب گوریلوں نے
مسلمانوں کے پختہ عزائم میں کوئی کمی نہیں دیکھی تو وہ انہیں وارننگ دیتے
ہوئے چلے گئے۔ کہا جاتاہے کہ ڈونلڈٹرمپ اسی قبیل کے مسلمانوں کوامریکاسے
نکالنے کی مہم چلارہے ہیں لیکن یہ پوراسچ نہیں۔حقیقت یہ ہے کہ ٹرمپ خاندان
شروع ہی سے نسلی اورمذہبی تشددکا شدید رحجان رکھتا ہے۔
اور سب بھول گئے حرف صداقت لکھنا
رہ گیا کام ہمارا ہی بغاوت لکھنا |