آج اگر عمران خان اور خورشید شاہ کی نیب سے متعلق نیت ٹھیک ہے تو پھر ....؟
(Muhammad Azam Azim Azam, Karachi)
ن لیگ نے نیب کے پرکاٹے تومخالفت کریں گے،نیب کے معاملے پرپنجاب سیخ پانہ ہو، عمران و خورشید |
|
لیجئے، پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین
عمران خان نے تو نیب کے اختیارات کو وفاق کی جانب سے محدود کرنے کے معاملے
پر آستینیں چڑھالی ہیں اور ایسالگتاہے کہ جیسے اَ ب یہ کھلم کھلانیب کے
اختیارات کے معاملات کو وفاق اور پنجاب حکومتوں کی جانب سے محدودکئے جانے
کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ اور سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کرسامنے آنے کی
تیاریاں مکمل کرچکے ہیں ۔
اگرچہ گزشتہ دنوں نیب کے متعلق وزیراعظم نوازشریف کے بیان کی مذمت کرتے
ہوئے عمران خان نے جس اندازہ سے اپنا یہ بیان داغاہے کہ ’’ن لیگ نے نیب کے
پرکاٹے تو مخالفت کریں گے‘ـ‘آج اگر واقعی عمران خان کی نیب سے متعلق نیت
ٹھیک ہے توپھر عمران خان کو تمام سیاسی مصالحتوں اور مفاہمتوں اور
چاپلوسیوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے نیب کی مکمل حمایت میں سامنے آنے کی تحریک
ایک نہ ختم ہونے والے دھرنے کے اعلان سے کردیناچاہئے اورساتھ ہی یہ بھی
بتادیناچاہئے کہ آج حکومت نے نیب کے پر کاٹ دیئے تو پھر مُلک میں کرپشن اور
کرپٹ عناصر کو لگام دینے والا کون ہوگا؟؟ اور اِسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی
کے سینئر رہنماخورشیدشاہ نے بھی بڑے مبہماور گول مول انداز سے حکومت الوقت
پر تنقیدکرتے ہوئے کہاہے کہ’’نیب کے معاملے پر پنجاب سیخ پانہ ہو ادارے کی
اصلاح کی جائے، نیب ن لیگ نے ہی قائم کی ہے اَب اِسے بھگتیں‘‘۔
ایسے میں یہاں سوال یہ پیداہوتاہے کہ آج اگر عمران خان اور خورشیدشاہ واقعی
نیب کو تماشہ بننے سے بچاناہی چاہتے ہیں توپھر اِنہیں اپنااپنا صاف سُتھرا
سیاسی رول اداکرناہوگاورنہ قوم کو بے وقوف بنانے کا یہ سلسلہ بند کردیں کہ
ہم حکومت کے کسی ایسے اقدام کے سخت خلاف ہیں جو اداروں کے اختیارات میں کمی
سے متعلق ہو،آج عمران خان اور خورشیدشاہ اگر واقعی اپنے دل کے کسی کونے یا
خانے میں مُلک اور قوم کی ترقی اور خوشحالی میں حائل کرپشن اور کرپٹ عناصر
کا قلع قمع کرنے کا ایمانداری سے کوئی رتی برابربھی ارادہ رکھتے ہیں تو پھر
اِنہیں پوری طرح اپنی باتوں پر ڈٹ جاناہوگااورن لیگ کے خالصتاََ بزنس مائنڈ
وزیراعظم نوازشریف اور اِن کے کاروباری چنداہم وزراء سے نیب کو اِس کے
پرکاٹنے سے حقیقی معنوں میں بچاناہوگاورنہ تو آج ہی کیا پھر کبھی بھی عمران
اور خورشید کی باتوں پر عوام اعتبار نہیں کریں گے۔
آج قطعاََ اِس سے کسی کو انکار نہیں ہے کہ اکثر سرزمین پاکستان میں
خوداعتمادی سے عاری حکمرانوں اورسیاستدانوں نے اپنے ذاتی اور سیاسی فوائد
کے خاطر قوم کو بے وقوف بنایاہے یہ بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی ہے بلکہ میرے
مُلکِ پاکستان کی گزشتہ 68سالہ تاریخ بھی اِس سے بھری پڑی ہے کہ جب جب
مُلکِ پاکستان کے سیاسی میدان میں (جتنے بھی پرانے یا نئے سیاسی) کھلاڑی
آئے ہیں اُن میں چندایک ہی ایسے تھے جن کی ذات جذبہ حب الوطنی سے سرشارتھی
اوراُن میں بے پناہ خوداعتمادی نظرتھی وہ اپنے قول و فعل کے سچے اور کھرے
اِنسان تھے اور اُنہوں نے واقعی اپنی اِس صلاحیت کو بروئے کارلاکرمُلک اور
قوم کی بہتری اور ترقی و خوشحالی کے لئے اپنا جامع اور فعل کردار بھی
اداکیاہے۔
آ ج اگر خوش قسمتی سے میرے مُلکِ پاکستان میں کہیں کہیں تھوڑابہت جو لولا
لنگڑا سیاسی اور جمہوری کلچر نظرآرہاہے اور ہم آج جس جمہوری کلچر میں اپنا
نظامِ حکومت زندگی کے دیگرمعاملات چلارہے ہیں تویہ ماضی کے اُن چند ایک
باصلاحیت اور بااعتماد سیاسی کھلاڑیوں کی حقیقی اور بامقصدسیاسی اور جمہوری
خدمات اور قربانیوں کا ہی صلہ اور مرہونِ منت ہے ورنہ تو موجودہ حکمرانوں
اور سیاستدانوں میں اتنادم خم کہاں ہے؟ کہ یہ بیچارے سیاسی اور جمہوری عمل
کو ٹھیک طرح چلابھی پاتے کیونکہ آج اِن کے ذہنوں میں تو پی آئی اے ، اسٹیل
مل اور دیگر منافع بخش قومی اداروں کی نج کاری کا ڈرامہ رچا کر اونے پونے
داموں فروخت کرکے دو دونی چار کرنے اور نیب جیسے اداروں کے پرکاٹنے کے سوا
کچھ اور سُجھتاہی نہیں ہے ۔
اَب اِس منظراور پس منظر میں ہم اپنے موجودہ سیاسی اور جمہوری کلچر کے دعوے
کرنے والے حکمرانوں اور سیاستدانوں کے سیاسی رویوں اور اِن کی سوچ
وفکراوراِن کے اذکاروافکارکا جائزہ لیں اورآج اگر ہم کسی بھی سیاست دان کے
گریبان میں جھانکیں تو ہمیں کوئی بھی ایسا حکمران اور سیاستدان نہیں ملے گا
جومثبت سوچ کے ساتھ عوامی خدمات اور صاف سُتھری سیاست اور جمہور اور
جمہوریت کی اصل روح سے بھی واقف ہو۔
اَب ایسے میں بسااوقات جنہیں دیکھ کراور اِن کی کمرشل بنیادوں پر قومی
اداروں کی فروخت کردینے والی سوچوں اور حقیقی اعمال سے ایسا لگتا ہے کہ
جیسے میرے مُلک کے خالصتاََ بزنس مائنڈ وزیراعظم نوازشریف اور سیاستدانوں
نے مُلکی سیاست اور جمہوریت کو بھی تجارت سمجھ لیا ہے اورہمارے حکمران اور
سیاستدان سیاست اور جمہوریت کے ثمرات کو تجارتی بنیادوں پر دیکھ ہیں اور
اِنہیں اِسی انداز سے ڈیل کرکے عوام الناس تک پہنچا رہے ہیں اور سیاست اور
جمہوریت کے ثمرات اپنی مٹھی میں رکھ کر اپنی مرضی کے لوگوں کو بانٹ ہے ہیں۔
آج اپنے دیس کے حکمرانوں اور سیاستدانوں کو دیکھ کر یقینی طور پر یہ
کہاجاسکتاہے کہ میرے دیس کے سیاستدان قوم کو بے وقوف بنانے میں ایسی مہارت
حاصل کرچکے ہیں کہ اِنہیں اِس کے بغیر چین ہی نہیں ملتاہے یوں یہ عوام کو
بے وقوف بنانے کے لئے مُلک میں ہونے والے ہر الیکشن میں کروڑوں کی
انویسٹمنٹ کرتے ہیں پھرعوام کے ووٹوں سے ایوانوں میں پہنچ کراپنے کروڑوں کو
اربوں اور کھربوں میں کرنے کا خواب اپنی آنکھوں میں سجائیمیدان سیاست میں
اُتررہے ہیں اور قومی دولت کو اپنے ذاتی اور سیاسی مفادا ت کے لئے ایسے
استعمال کررہے ہیں جیسے کہ غریب عوام کے خون پیسنے سے بھراہواقومی خزانہ
اِن سیاسی انویسٹروں کے لئے ہے ۔
بہر حال ..!!راقم الحرف کو یہاں بڑے افسوس کے ساتھ یہ بھی کہنا پڑرہاہے کہ
آج میرے دیس کے موجودہ سیاسی میدان میں جتنے بھی سیاسی کھلاڑی میدانِ سیاست
میں اپنی کرشمہ سازیاں کرتے دکھائی دے رہے ہیں اِن سب کی اپروچ اپنے ذاتی
اور سیاسی فوائد اور نظریات تک ہی محدوہیں اِنہیں مُلک اور عوام کی ترقی
اور خوشحالی سے کچھ لینادینانہیں ہے اور نہ ہی اِنہیں اِس سے کوئی سروکار
ہے کہ مُلک اور عوام پستی اور گمنامی کی جانب کس تیزرفتاری سے جارہے ہیں
مُلک اور عوام کی تباہ کاری کا کسی کوکوئی احساس نہیں ہے بس میرے دیس کے
حکمرانوں اور سیاستدانوں اور پسند کی بنیادوں پر قومی اداروں میں تعینات
بیوروکریٹس کو مُلک اور عوام کے بجائے ایک دوسرے کے سیاسی اور ذاتی فائدوں
کی سوچ ہے یہ کبھی تو مُلکی اور عالمی حالات اور واقعات پر بظاہر تو ایک
دوسرے کے خلاف خونی دُشمن بنے نظرآتے ہیں تویہی ایک دوسرے کے مفادات کے
تحفظ میں کبھی ایک دوسرے لنگوٹی یار(جیسے آج کل نیب کے اختیارات محدود کرنے
اور اِس کے پَرکانٹنے کے معاملے میں آصف علی زرداری اورنوازشریف و شہباز
شریف سمیت دیگر سیاسی اور مذہبی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے تمام بڑے چھوٹے
اور نئے اور پرانے سیاسی کھلاڑی باہم متحد ومنظم ہوکر بس ایک یہی راگ لاپ
رہے ہیں کہ نیب کے اختیارات محدود کرنے کے لئے نیب کے پَرکاٹے جائیں) بھی
بن جایاکرتے ہیں،اَب یہ عوام کو بے وقوف بنانے کے لئے کچھ بھی کریں یا کہیں
مگر درحقیقت عوام یہ بات خوب جان چکے ہیں کہ یہ سب اندر سے ایک ہیں جواندر
سے تو ایک پیالہ اور ایک نوالہ اور اِسی طرح یکدل اور یکجان ہیں مگر عوام
کو بے وقوف بنانے کے لئے یہ ایک دوسرے کے خلاف سخت زبان اور جملہ بازیاں
کرتے رہتے ہیں عوام اِن کی زبانی جمع خرچ پر اعتبار نہیں کریں گے۔ |
|