- "اب ٹھہرتی ہے دیکھئے جا کر نظر کہاں!"
انسانی آنکھ بال کی باریکی تک دیکھ سکتی ہے، پر اُس سے زیادہ باریک اشیاء
اور سانچے دیکھنا اِس کے بس کی بات نہیں۔ انسانی عقل، بہرحال، جسم کی فطری
کمزوریوں اور حدود کے اندر اندر رہنے کی قائل نہیں اور مستقل ایسے اوزار
اور آلات بنانے کی فکر میں رہتی ہے جو اِن فطری حدود سے آگے تک دکھا سکیں،
سُنا سکیں، اور پہنچا سکیں۔ آج سے ہزاروں سال پہلے انسان نے یہ تو جان لِیا
تھا کہ کچھ شفاف پتھر (کرِسٹل) ایسے ہوتے ہیں جنہیں چھوٹی اشیاء کے قریب
رکھا جائے تو وہ اشیاء بڑی نظر آنے لگتی ہیں۔ پھر جب اُس نے شیشہ بنانے کا
عمل سیکھا تو ساتھ یہ بھی جان لیا کہ اِس کی بعض شکلیں ("عدسے") اُسی شفاف
پتھر کی طرح اشیاء کو بڑا دکھاتی ہیں۔ پر سولہویں صدی عیسوی تک انسان باریک
اشیاء کو صرف چند گنا بڑا کر کے ہی دیکھ پایا تھا۔ اُس سے آگے کیا ہے؟ اِس
سے انسان کی آنکھ بے خبر تھی، اور محض قیاس آرائیوں تک بات رُکی ہوئی تھی۔
بالآخر سولہویں صدی کے اختتام سے عدسوں پر مبنی ایسے نظام سامنے آنا شروع
ہوئے جنہیں آج ہم خورد بین / Microscope کے نام سے جانتے ہیں۔ ابتدا میں یہ
نظام دس گُنا تک بڑا دکھا سکتے تھے (10x) اور یہ زیادہ تر شائقین اور امراء
کی ہلکی پھلکی دلچسپی کا مرکز تھے کہ وہ اِن کی مدد سے اشیاء کو قدرے بڑا
کر کے دیکھتے اور حیران ہوتے۔ اِس کی ایک وجہ تو آج ہم جانتے ہیں، اور وہ
یہ کہ اصل میں "دلچسپ" سانچے اور اشیاء دیکھنے کے لئے دس گُنا بڑا دکھانا
ناکافی ہے۔
- "مکھیوں کا چھتا"
اپنی ایجاد کے بعد کئی دہائیوں تک خورد بین محض ایک دلچسپ کھلونا ہی رہی۔
ساتھ ساتھ بہتر عدسوں کی مدد سے اِس کی "باریک بینی" کو بہتر بنانے کا عمل
بھی کچھ شائقین اور سائنسدانوں کے ہاتھوں جاری رہا۔ بالآخر 1665 میں شائع
ہونے والی ایک سائنسی کتاب نے خورد بین کو ایک کھلونے سے ایک اہم سائنسی
آلے کے درجے پر پہنچا دیا۔ "مائیکروگرافیا" نامی اِس کتاب میں مصنف رابرٹ
ہُک نے ایک جاندار (غالباََ بِیس سے پچاس گُنا تک بڑا دکھانے والی) خورد
بین کی مدد سے بہت سی روزمرہ اشیاء کے اندر موجود زبردست قسم کے باریک
سانچے دکھائے تھے جو پہلے کسی خورد بین کے مدد سے نہ دیکھے گئے تھے۔ اِن
میں مکھی کی آنکھ میں موجود ہزاروں چھوٹی "آنکھیں" اور لکڑی کے ٹکڑوں میں
موجود چھوٹے چھوٹے خانے شامل تھے۔ لکڑی میں نظر آنے والے اِن باریک خانوں
کو رابرٹ ہُک نے "سیلز / Cells" کا نام دیا کیونکہ یہ اُسے شہد کی مکھیوں
کے چھتوں میں موجود خانوں اور عیسائی خانقاہوں میں موجود چھوٹے چھوٹے کمروں
جیسے لگے تھے اور جنہیں انگریزی میں سیلز کہا جاتا ہے۔ رابرٹ ہُک اِس بات
سے بے خبر تھا کہ دراصل اُس نے حیات کی بنیادی اکائی "خِلیے" دریافت کر لئے
ہیں (کیونکہ وہ "مردہ" لکڑی کو دیکھ رہا تھا، اور اِس میں صرف مردہ خلیوں
کے بیرونی سانچے تھے)۔
- "آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے، لب پہ آ سکتا نہیں"
رابرٹ ہُک کی کتاب نے خوردبین اور خوردبینی/ Microscopy کے عمل کو اُس وقت
کی سائنسی دنیا میں مقبول کر دیا اور یہی مقصد تھا اُسے اِس کام پر لگانے
والے برطانوی سائنسی ادارے "رائیل سوسائیٹی" کا۔ پر اسوقت تک شاید رائیل
سوسائیٹی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ مائیکروسکوپی (اور بیالوجی) کی
دنیا میں اصل تہلکہ ابھی چند برس دُور ہے اور یہ تہلکہ مچانے والا رابرٹ
ہُک جیسا کوئی جانا پہچانا سائنسدان نہیں بلکہ ایک گمنام کپڑے کا سوداگر ہو
گا۔ 1673 سے رائیل سوسائیٹی کو ہالینڈ سے کچھ خطوط موصول ہونا شروع ہوئے جن
میں موجود خاکوں نے رائیل سوسائیٹی کے سائنسدانوں کو ورطہ حیرت میں ڈال
دیا۔ لکھنے والے کا دعوی تھا کہ اُس نے اپنی خورد بین کی مدد سے پانی کے
قطروں اور دیگر مادوں میں بال سے سینکڑوں گُنا باریک "چھوٹے جانور" اور
دیگر "زندہ ذرے" دیکھے ہیں۔ ایسی چھوٹی مخلوقات نہ تو آج تک انسانی آنکھ نے
دیکھی تھیں اور نہ ہی اِن کے وجود کی کسی کو خبر تھی۔ خطوط عام بول چال کے
انداز میں لکھے گئے تھے کیونکہ لکھنے والے نے صرف بنیادی تعلیم حاصل کر
رکھی تھی اور سائنسی طریقہ کار سے نابلد تھا۔ یہ شخص جسے آج "فادر آف
مائیکرو بائیولوجی" کے نام سے جانا جاتا ہے ہالینڈ کا ایک پارچہ فروش
اینٹونی فان لِیونہُوک تھا جس نے دھاگوں کے معیار کو جانچنے کی کوشش میں
ایسے عدسے بنا لئے تھے جو 270 گُنا بڑا دکھا سکتے تھے (اُس وقت کی دیگر
خوردبینیں پچاس گُنا سے زیادہ نہیں دکھا سکتی تھیں)۔ اور اب اِن عدسوں کی
مدد سے انسان پہلی بار یہ جان رہا تھا کہ کرّہِ ارض پر زندگی کی دوڑ میں
اُس کے ساتھ چرند پرند اور نباتات کے علاوہ ایسے لاتعداد چھوٹے جاندار /
Microorganisms (بکٹیریا، فنگس، مائٹس، وغیرہ) بھی شامل ہیں جن میں سے کچھ
اُس کے دوست ہیں اور کچھ سخت دشمن۔
دشمنوں (مائیکروبز) کے بارے میں جانتے ہیں اگلی قسط میں۔
تحریر : ابنِ منیب |