مریخ پر آلو کی کاشت!
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
اہلِ عالم کے لئے خوشخبری ہے کہ اب مریخ پر
بھی آلو کاشت کئے جائیں گے، اس سلسلہ میں امریکی خلائی ادارہ ناسا اور
آلوؤں کے بین الاقوامی مرکز (سی آئی پی) سے تعلق رکھنے والے ماہرین مریخ پر
آلو اگانے کا تجربہ کریں گے۔ اس مقصدکے لئے سائنسدانوں نے آلوؤں کی مختلف
قسمیں منتخب کی ہیں، جنہیں مریخ کی سطح جیسے حالات میں کاشت کرنے کی کوشش
کی جائے گی۔ کامیابی کی صورت میں اس سیارے پر سبزی کاشت کرنے کی راہ ہموار
ہوجائے گی۔ آلو دنیا کی نقد آور فصلوں میں اہم حیثیت رکھتا ہے،دنیا بھر میں
آلو کی اپنی مانگ اور اہمیت ہے۔ آلو کی اسی اہمیت کے پیش نظر اسے محاورں کی
زینت بھی بنایا گیا ہے، تاہم اس کی شکل چونکہ بس گول مٹول سی ہوتی ہے، یعنی
اس کی بناوٹ میں نہ تو کوئی ترتیب ہے اور ہی انفرادیت اس لئے اس کی تمام تر
مقبولیت کے باوجود اسے شاعروں نے اپنا موضوع سخن نہیں بنایا، ورنہ بہت سی
سبزیاں جیسی بھی ہوں، ان کی شکل بہت منفرد اور خوبصورت ہوتی ہے، گوبھی،
بھنڈی، گاجر، کریلے، بینگن وغیرہ جس سبزی کو بھی دیکھ لیں خوبصورت رنگ اور
شکل کی حامل ہیں، مگر آلو بیچارے کا رنگ ہے نہ ڈھنگ۔
اس سب کچھ کے باوجود آلو کی اہمیت تمام سبزیوں سے زیادہ ہے، یہ بہت سی
سبزیوں میں ڈال کر اُن کی رونق بڑھائی جاتی ہے، معاملہ سبزیوں تک ہی محدود
نہیں بلکہ اسے گوشت میں بہت اہتمام کے ساتھ ڈالا جاتا ہے۔ آلو کی اہمیت کے
پیشِ نظر کبھی اس کی قیمت آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہے اور کبھی یہی قیمت
زیر زمین چلی جاتی ہے۔ کبھی یہی آلو بھارت سے درآمد کرنے پڑتے ہیں تو کبھی
پاکستان کے اپنے آلوؤں کی قیمت اَسّی روپے سے اوپر چلی جاتی ہے۔ آلو کے
ساتھ کچھ بھی نہ پکایا جائے تو صرف آلو ہی شوربا ڈال کے بنائے جاسکتے ہیں،
گلی گلی میں چپس کی ریڑھیاں سجی ہیں، جو آلوؤں کو تازہ بتازہ تَل کر لوگوں
کی کھانے کے لئے مہیا کرتے ہیں، چپس کا رواج بھی عام ہے۔ انہی وجوہات کی
بنا پر ہی شاید سائنسدانوں نے آلو کا انتخاب کیا ہے، ورنہ دیگر سبزیوں میں
اتنی کشش اور خصوصیات نہیں ہیں کہ انہیں آلو پر ترجیح دی جاتی، بینگن کو
دیکھ لیجئے، بھنڈی کی مثال لے لیجئے، گاجر کو دیکھ لیجئے، ان جیسی اور بھی
بہت سی سزیاں دیدہ زیب بھی ہیں اور ان پر محنت اور خرچہ بھی بہت زیادہ نہیں
ہوتا۔ آلوؤں کے لئے مریخ پر کھاد کی ہزاروں بور یاں لے جانی پڑیں گی، اس کے
بعد کیڑے مار ادویات کی سپرے کا اہتمام کرنا پڑے گا۔ تاہم بہت سے لوگوں کے
ویزے کا مسئلہ نہیں بنے گا، کیونکہ اب انسانوں کی جگہ پر میشنری سے زیادہ
کام لیا جاتا ہے۔
چونکہ مریخ پر کاشت کے لئے جانے والے آلو کی اقسام منتخب کرلی گئی ہیں، اس
لئے یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ ان میں سے کسی قسم کا پاکستان سے کوئی
تعلق نہیں، یہ معرکہ باہر کی دنیا نے خود ہی سر کر لیا ہے، تاہم اگر ناسا
والے مناسب تصور کریں تو کچھ ماہرین پاکستان سے حاصل کرلیں تو ان کی
مہربانی ہوگی، پاکستان بھی چونکہ آلو بہت مہارت سے اور بہت زیادہ کاشت کیا
جاتا ہے، اس لئے ماہرین کی یہاں کوئی کمی نہیں۔ چونکہ آلو کی مریخ پر
کاشتکاری میں امریکہ کا ہاتھ ہے، اس لئے یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ
مریخ پر کاشت ہونے کے بعد آلو سستا ہو جائے گا، پاکستان امریکہ کا اہم
اتحادی ہے، اس لئے یہ بھی امید ہے کہ اس آلو میں سے پاکستان کو بھی معقول
حصہ ملے گا۔ اس ضمن میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان آلوؤں کو زمین تک لانے
کے لئے زیادہ مصنوعی ذرائع نقل وحمل استعمال نہیں کرنے پڑیں گے، بلکہ مریخ
سے زمین کی طرف آلوؤں کی پٹیاں لُڑھکا دی جائیں گی، اور وہ کششِ ثقل کے
ذریعے بغیر کسی ذریعے کے زمین پر پہنچ جائیں گے۔ البتہ ان کے لئے علاقے کا
تعین کرنا ضروری ہوگا، یہ نہ ہو کہ مریخ سے گر کر سمندر میں ہی غرق
ہوجائیں، یا شمالی علاقہ جات کے پہاڑوں پر ہی گر کر غاروں میں کھو جائیں۔
امید ہے حکومت مریخ کے آلوؤں کے لئے کوئی اقتصادی راہداری ضرور تیار کرے
گی، تاکہ پاکستان کو مریخی آلوؤں میں اس کا حصہ دیا جاسکے۔ مریخ سے آنے
والے آلوؤں کی یقینا مانگ بھی زیادہ ہوگی، اس لئے حکومت ہر علاقے اور ہر
طبقہ کے عوام کے لئے اسے قابل قبول بنانے پر سبسڈی دینے کا اعلان کرے، امید
ہے آلوؤں کی کامیاب کاشت کے بعد گنّے کی فصل کا بھی مریخ پر اہتمام کرلیا
جائے، اگر اس میں کامیابی ہوگئی تو پاکستان سے لازمی ایسے صنعتکاروں کا وفد
مریخ پر لے جایا جائے جو وہاں شوگر ملز قائم کرنے کا بندوبست کرے۔ |
|