ایمان بچ گیا
(Ghulam Abbas Siddiqui, Lahore)
انعم بہت خوبصورت اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکی
تھی اس کا گھرانہ سلجھا ہوا دینی ماحول والا تھا انعم کالج یونیورسٹی کی
اپنی دوستوں کے ماحول کے باعث کم دینی رجحان والی لڑکی تھی اس کی زندگی کا
اہم موڑ آگیا تھا اس کے والدین اس کی شادی کرنا چاہتے تھے ،انعم کو جب علم
ہوا کہ اس کے والدین اس کی شادی کے بارے میں سوچ وبچار کررہے ہیں تو اس نے
اپنی امی کو بتایا کہ وہ ایک لڑکے سخاوت کو پسند کرتی ہے جو فیس بک پر اس
کا دوست بنا لندن میں مقیم ہے اور بہت بڑا کاروبار کر رہا ہے صاحب مال
وثروت بھی ۔اس کی امی نے کہا کہ اچھا میں تمھارے ابو سے بات کروں گی ۔
رات کو انعم کی امی نے اپنے شوہر اشرف کو بتایا کہ انعم لندن میں مقیم
سخاوت نامی لڑکے سے شادی کرنا چاہتی ہے ۔
استفسار پر انعم کی امی نے خاوندبتایا کہ سخاوت انعم کا فیس بک پر بننے
والا فرینڈ (دوست) ہے۔۔۔۔۔۔۔
اشرف نے فوراً ناں میں سر ہلا دیا ۔۔۔۔۔ انعم کی امی نے کہا کہ ایسا نہ
کہیں رشتہ اچھا ہے ہاں کردیں ہماری بیٹی خوشحال،خوشگوار زندگی گزارے گی۔
اشرف کا کہناتھا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ فیس بک پر دوستی کا معیار ہی کوئی
نہیں ،شرعی اعتبار سے بھی کوئی لڑکی کسی لڑکے کی دوست نہیں بن سکتی ،اسلام
میں تو محرم اور غیر محرم کا تصور ہے یہ تعلق شرعی اعتبار سے بھی درست نہیں
،دوسرا ہم لڑکے کے خاندان والوں کو جانتے ہی نہیں ہاں کیسے کردوں؟
انعم کی امی نے دوسرے دن انعم کو اس کے والد کا جواب بتایا تووہ غصے میں
آگئی اور امی سے کہنے لگی کہ امی جان !ابو جان سے کہیں کہ اب زمانہ بدل گیا
ہے ،پرانی باتیں چھوڑیں ،دنیا تیز ہوگئی ہے ،رشتہ میں وہیں کروں گی، سخاوت
میری پسند ہے اسے میں نہیں چھوڑ سکتی۔اسلام بھی لڑکی کی مرضی کے بغیر اس کی
شادی کرنے کی اجازت نہیں دیتا ۔
ماں پریشان ہوکر اپنے کمرے میں چلی گئی ،رات کو اپنے شوہر اشرف سے پھر بات
کی تو اشرف نے کہا کہ ٹھیک ہے انعم سے کہو کہ اس لڑکے کا ایڈریس پوچھے
؟لندن میرا دوست وقاص رہتا ہے اس سے معلومات لیکر فیصلہ کریں گے۔
انعم کی امی نے انعم سے سخاوت کا ایڈریس لینے کا کہا تو انعم نے آناً فاناً
ایڈریس لے کر اپنی امی کو دیدیا ،اشرف نے و ہ ایڈریس اپنے دوست کو دیا اور
کہا کہ وہ پتا کرے کہ فیملی کیسی ہے ؟ اس کا پس منظر بتائے۔
چند دن کے بعد وقاص نے اشرف کو بتایا کہ سخاوت کا تعلق تو '' قادیانی" مذہب
سے ہے ۔
اشرف نے اپنی بیوی اوربیٹی کو صورت حال بتائی تو انعم نے پوچھا کہ ابو جان
یہ قادیانی کیا ہوتے ہیں ؟
تو اس کے ابو نے اسے بتایا کہ بیٹی قادیانی دائرہ اسلام سے خارج ہیں کیونکہ
وہ حضرت محمد ﷺ کی ختم نبوت کے منکر ہیں ،یہ جھوٹے نبی مرزا غلام احمد
قادیانی کو نبی آخرالزماں حضرت محمد ﷺ کے بعد اپنا نبی ورسول مانتے ہیں ،جب
کہ قرآن میں واضح ارشاد ہے کہ محمد عربی ﷺ کے بعد کوئی نبی ورسول نہیں آئے
گا ،پاکستان کی قومی اسمبلی ،آئین پاکستان نے بھی انھیں غیر مسلم اقلیت
قرار دے رکھا ہے،ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں جب یہ مسلمان نہیں تو ان سے
شادی تو کسی قیمت پر نہیں ہوسکتی ۔
انعم نے اپنے ابو سے پوچھا کہ ابوجان! حکومتی سطح پر قادیانیت کے رد کیلئے
کیا کیا جارہا ہے ؟
اس کے ابو نے بتایا کہ بیٹی !بدقسمتی سے ہمارے پیارے وطن پاکستان میں اسلام
کے ساتھ سخت زیادتی ہورہی ہے یہاں پر چند قوانین اسلامی اور باقی انگریز کے
بنائے ہوئے ہیں عمل انگریز کے قوانین پر ہورہا ہے ا سلامی قوانین صرف
کتابوں کی حد تک ہیں عمل نہ ہونے کے برابر ہے ۔
اس کے ابو نے کہابیٹی ! ختم نبوت ﷺ کا قانون295.C) ( موجود ہے جو لاکھوں
قربانیوں سے بنایا گیا ملک کا آئین بھی ان کا رد کرتا ہے مگر آج تک کسی بھی
گستاخ رسول کو سزائے موت نہیں دی گئی بلکہ یہودونصاریٰ کے حکم پر ہمارے
حکمرانوں نے گستاخوں کو چھوڑ دیا ہے ۔
انعم کے ابو نے اسے بتا یا کہ بیٹا اب علمائے کرام ،دینی لوگ تبلیغ وتحریر
کے ذریعے ہی ختم نبوت کا تحفظ کر رہے ہیں قانونی سطح پر تحفظ ناموس رسالتؐ
صحیح طرح سے نہیں ہو پارہا ،اگر حکومت اپنا فرض ادا کرتی تو قادیانیت اس
طرح نہ پھولتی پھلتی،انہوں نے انعم کو بڑے درد مندانہ ،آسودہ لہجے میں کہا
کہ بیٹی پاکستان میں جب تک محمد عربی ؐ کا قائم کردہ نظام" اسلامی نظام
خلافت "قائم نہیں ہوجاتا اسلام کی صحیحمعنوں میں ترویج ممکن ہی
نہیں۔مسلمانوں کو چاہیے کہ اسلامی نظام کے لئے پرامن طریقے سے کوشش کریں
تاکہ محمد عربی ﷺ ،صحابہ کرام ؓ کا نظام مسلمانوں کے جذبات کی ترجمانی کر
سکے۔
انعم کے ابو نے اسے سمجھایا کہ بیٹی ہم آپ کی شادی کسی اچھے مسلمان گھرانے
میں کرانا چاہتے ہیں جہاں تمھاری دنیا بہتر ہو اس کے ساتھ تمھارے ایمان کو
بھی خطرہ نہ ہو ،،ہم تمھارا ایمان،عزت وناموس محفوظ دیکھنا چاہتے ہیں ۔
انعم کے ابو نے کہا کہ بیٹی تمھاری پسند اگر کوئی مسلمان،نیک ،صالح،شریف
لڑکا ہوتا تو ہم کبھی بھی نظرانداز نہ کرتے ۔اس میں تمھارا ہی بھلا ہے
والدین اپنی اولاد کے بارے میں کبھی غلط نہیں سوچتے ۔
انعم نے اپنے ابو کی بات سنی تو اپنے ابو سے کہنے لگی ۔ ابو جان! جو ہمارے
پیارے آقا ومولا حضرت محمد ﷺ کی ختم نبوت کا منکر اور دشمن ہے ا س سے ہمارا
کوئی تعلق نہیں ،میں اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کرتی ہوں میرا ایمان بچ گیا اگر
لاعلمی میں میرے ساتھ ھوکا ہوجاتا تو کتنا بڑا نقصان ہوتا جس کی تلافی ہی
ممکن نہ تھی ۔،اگر تحقیق کے بغیر شادی ہوجاتی تو میراایمان تباہ ہوجاتا۔
ابوجان ! آپ جہاں مناسب سمجھیں میری شادی کردیں آپ کی ہاں میری ہاں ہے ۔
انعم کے والدین کو چندماہ کے بعد انعم کا اچھا رشتہ مل گیا ،لڑکا ڈاکٹر تھا
سرکاری ہسپتال میں ملازمت کرتا تھا اعلی ٰ تعلیم کے ساتھ دین کا شعور بھی
رکھتاتھا ایک ہفتے میں ہی انعم کی شادی ڈاکٹر خالد سے کردی گئی
انعم کے شوہر نے پہلے د ن ہی اس کی دلی خواہش پوچھی تو انعم نے کہا کہ میری
خواہش ہے کہ میں اسلامی نظام کے قیام اور قادیانیت پرکام کروں، مجھے
قادیانیت کا چہرہ بے نقاب کرنے کیلئے ختم نبوت کا لٹریچر فراہم کیا جائے
بعد ازمطالعہ قلمی جہاد کر کے قادیانیت کے دجل وفریب کو نوجوان نسل کے
سامنے بے نقاب کرسکوں تاکہ کوئی مسلمان لڑکی یا لڑکا قادیانیت کے جال میں
نہ پھنسے۔شادی کے بعد انعم نے غلبۂ اسلام اور ختم نبوت کاکام اپنا مقصد
حیات بنا لیا۔انعم کا اپنا ایمان بھی بچ گیا اور وہ بے شمار لوگوں کے ایمان
کے تحفظ کیلئے سرگرم عمل ہے ،اب انعم کی زندگی خوشگوار حفاظت ایمان کے ساتھ
گزر رہی ہے وہ اپنی زندگی پر بہت مطمئن ہے اور ہر روز اپنے والدین کیلئے
ڈھیروں دعائیں کرتی ہے۔ ٭٭
نوٹ ۔غلام عباس صدیقی ،کے کالمز قومی اخبارات کے علاوہ ماہنامہ نظام حیات
لاہور میں بھی بیک وقت شائع ہوتے ہیں۔ |
|