پاکستان میں ”دیوار مہربانی“ ....غربت سے مقابلے کی انوکھی مہم

یہ حقیقت ہے کہ انسان کی بے لوث خدمت و قربانی انسان دوستی کے بیش قیمت جذبوں کی ترجمانی کا فریضہ سر انجام دیتی ہے۔ انسانیت کی خدمت ہر انسان کی ازلی خواہش تو ہوتی ہے، لیکن ہر ایک کو اس کے اظہار کی ہمت اور استطاعت نصیب نہیں ہوتی، کیونکہ ذاتی مفادات کی خواہش دوسروں کی خدمت کی بجائے مفاد پرستی اور خود غرضی کے محور میں چکر لگانے پر آمادہ کرتی رہتی ہے، لیکن دنیا میں بہت سے ایسے اچھے لوگ بھی موجود ہیں، جو انسانیت کے تقاضوں پر حقیقی معنوں میں عمل پیرا ہوکر انسان کا سر فخر سے بلند کردیتے ہیں۔ دنیا میں انسان کا دوسرے انسانوں کے لیے ایثار، قربانی اور مہربانی کا جذبہ ایک اٹل حقیقت ہے۔ انسانیت کے درد کو اپنے دل میں جگہ دینے والے انسانوں کو انھی لافانی جذبوں کی بدولت انسانیت کی ایسی بلند و بالا مسند عطا ہوتی ہے، جس پر ہم بجا طور پر فخر کر سکتے ہیں۔ ”دیوار مہربانی“ انسان دوستی کا بہترین ثبوت ہے۔ پاکستان میں روز بروز مقبول ہوتی ہوئی ”دیوار مہربانی“ سے امیر و غریب میں محبت پیدا ہوگی اور معاشرے میں مہربانی کے جذبے کو فروغ ملے گا۔ اس دیوار کا مقصد معاشرے میں مہربانی کے تصور کو عام کرنا اور ضرورت مند خاص طور پر بے گھر افراد کی ضرورت بنا مانگے پوری کرنا ہے۔ اس مہم کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ لوگ کپڑے، کھانے پینے کی اشیاءاور دیگر سامان کو شہر کی ایک خاص دیوار کے ساتھ رکھ کر عطیہ کردیں، جو ضرورت مند افراد کے کام آسکتا ہے۔لوگ اپنے کم استعمال شدہ اور غیر ضروری کپڑے اس دیوار پر لٹکا جاتے ہیں، جوتے اور استعمال کی دیگر اشیاءدیوار کے ساتھ رکھ دیتے ہیں،جہاں سے ضرورت مند لوگ اپنی ضرورت کے مطابق انہیں لے جا کر استعمال کر تے ہیں۔ اس دیوار کو ”دیوار مہربانی“ کا نام دیا گیا ہے۔ انگریزی میں آپ اسے ”وال آف ہیلپ“ بھی کہہ سکتے ہیں۔ دیوارِ مہربانی کا نعرہ ”اگر آپ کو ضرورت نہیں تو چھوڑ جائیے اور اگر ضرورت ہے تو لے جائیے“ ہے۔ سب سے پہلے چند ماہ قبل ایران کے شہر تہران میں”دیوارِ مہربانی“ کے نام سے دیواریں تعمیر کی گئیں، جن پر ”نیاز نداری بگداز“ (اگر ضرورت نہیںہے تو چھوڑ جائیں) اور ”نیاز داری بردار“ (اگر ضرورت ہے تو لے جائیں) کے جملے تحریر تھے۔ ایرانی میڈیا کے مطابق جس شخص نے اس دیوار مہربانی کی ابتدا کی وہ گمنام رہنا چاہتا تھا، لیکن اس کے اس انداز مہربانی کو تیزی سے فروغ ملا۔ لوگوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے اس کو پھیلانے میں اہم کردار نبھایا۔

ہمارے ملک میں غریب افراد کی تعداد کافی زیادہ ہے، جب کہ دوسری طرف ایسے لوگ بھی ہیں جن پر اللہ نے نعمتوں کی فراوانی عطا کی ہے۔ ان کے پاس ضرورت سے زیادہ کپڑے اور استعمال کی دیگر اشیا ہوتی ہیں۔ ان میں بہت سے افراد غریبوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔ دنیا کے تمام ممالک میں ان دونوں طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگ موجود ہوتے ہیں۔ایران سے جنم لینے والاہمدردی کا جذبہ لوگوں کو اتنا پسند آیا کہ نہ صرف ایران کے تمام شہروں میں دیوارِ مہربانی قائم ہوگئی، بلکہ پاکستان اور چین سمیت دیگر کئی ممالک میں بھی دیوار مہربانی کے نام سے کئی دیواریں قائم کی گئیں۔ پاکستان میں بھی اس کا زبردست خیرمقدم کیا جارہا ہے۔ سوشل میڈیا پر اس کام کو خاصی پذیرائی ملی ہے۔ اس وقت پا کستان کے متعدد شہروں میں ”دیوار مہربانی“ کا تصور تیزی سے فروغ پا رہا ہے اور اسلام آباد، کراچی، لاہور، راولپنڈی، پشاور، پشاور، کوئٹہ، ایبٹ آباد، گوجرانوالہ، خضدار، حویلیاں، ساہیوال اور ملک کے دیگر شہروں میں بھی ”دیوار مہربانی“ کا آغاز کیا جا چکا ہے۔ ملک بھر سے لوگ اپنی اشیاءفراہم کر کے اس نیک خیال کو نہ صرف خراج پیش کر رہے ہیں، بلکہ اپنے ”مہربان‘ ‘ ہونے کا ثبوت بھی دے رہے ہیں۔ بہت سے حاجت مند افراد بھی یہاں سے ضرورت کی اشیاءاستعمال کے لیے لے جارہے ہیں۔ دیوار مہربانی بڑی تیزی کے ساتھ پورے پاکستان میں پھیل گئی ہے اور اپنے جیسے دیگر انسانوں کی مدد کا جذبہ رکھنے والوں کی جانب سے اس کا زبردست خیر مقدم کیا جارہا ہے۔ اسے دیکھتے ہوئے توقع ہے بہت جلد یہ ایک عالمی تحریک میں تبدیل ہوجائے گی۔

ملک کے مختلف شہروں میں لوگوں نے غریب لوگوں کی مدد کرنے کے اس انوکھے و نرالے انداز کو بے حد سراہا۔ متعدد تعلیمی اداروں کے طلبہ نے مل کر کئی ”دیوار مہربانی“ بناڈالیں۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ ایک نیک جذبہ اور نرالا تصور ہے۔ ”دیوار مہربانی” کے اس عظیم سلسلے کو آگے بڑھنا چاہیے، اس طرز کی دیواریں پاکستان کے ہر شہر میں تعمیر ہوں۔اب وقت آگیا ہے کہ نفرت کی دیواریں بنانے کی بجائے محبت کی دیواریں بنائی جائیں، جو لوگوں میں قربت کا باعث بنیں گیں۔ جن کی مدد سے کئی حاجت مند کسی کے آگے ہاتھ پھیلائے بغیر اپنی ضروریات پوری کرسکیں گے، جس سے انہیں نہ تو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے گا اور نہ ہی ان کی عزت نفس مجروح ہوگی۔ ایسے منصوبوں کی کامیابی کے لیے مخیرحضرات کے ساتھ ساتھ عام شہریوں کو بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے، تاکہ غریب اور مفلس افراد کی ضروریات باعزت طریقے سے پوری ہوسکیں۔ آج ایک طرف لوگوں کی بڑی تعداد کے پاس پیٹ بھرنے کے لیے ایک وقت کا کھانا نہیں ہے، جبکہ دوسری جانب پوری دنیا میں انسان مجموعی طور پر پیدا ہونے والی خوراک کا ایک تہائی یا 33 فیصد حصہ ضایع کر دیا جاتا ہے، جس کی مالیت 750 ارب ڈالرز بنتی ہے۔ سالانہ ایک ارب 30 کروڑ ٹن خوراک بڑی بے باکی کے ساتھ ضایع کردی جاتی ہے۔ اگر ضایع ہونے والی اس خوراک کو مستحق لوگوں تک پہنچایا جائے تو اس سے سالانہ دو سے تین ارب بھوکے انسانوں کا پیٹ بھرا جاسکتا ہے۔ اگر دنیا میں دیوار مہربانی کے تصور کو آگے بڑھایا جائے تو بہت سے بھوکوں کو پیٹ بھر کر کھانا نصیب ہوسکتا ہے۔

”دیوار مہربانی“ ایک نرالا تصور ہے، جس سے غربت تو ختم نہیں ہوسکتی ، لیکن ایک اچھی سوچ جنم لے سکتی ہے، سوچ کا بدل جانا حقیقی انقلاب ہے۔ یہ بہت اچھی شروعات ہیں۔ ان جوانوں کی سوچ کی پذیرائی لازمی ہے اور اگر ہم سب اس میں اپنا حصہ ڈالیں تو ہمدردی کی یہ دیواریں مل کر ایک بہت بڑی زنجیر کی صورت اختیار کرسکتی ہے۔ اِس مہم کو مزید آگے پھیلانا چاہیے۔ مثبت سوچ اور عملی جدوجہد ہی مسلمانوں کو تمام مسائل سے نجات دلاسکتی ہے۔ انسانیت سے ہمدردی امن کا سب سے بڑا پیغام ہے۔ جس کے دل میں انسانوں کے لیے رحم کا جذبہ ہو وہ کسی بھی طرح سے ملک کو نقصان پہنچانے کا سبب نہیں بن سکتا۔ہمیں آنے والی نسلوں کے لیے رحمدلی اور باہمی ہمدردی کا کلچر عام کرنا چاہیے اور ہر فرد اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ چھوٹے چھوٹے قدم تسلسل کے ساتھ ہو تو بڑے فاصلے طے ہوسکتے ہیں۔ ہمدردی ہی دنیا کا حقیقی حسن ہے۔ وہ لوگ واقعی باہمت، قابل داد اور قابل ستائش ہیں، جو دوسروں کے لیے اپنا وقت نکالتے ہیں اور اپنی صلاحیتوں کا استعمال کرتے ہیں۔ انسان کو فی زمانہ جتنی انسانیت کی ضرورت ہے، شاید پہلے کبھی نہیں تھی۔ ہر انسان اگر یہ عہد کر لے کہ وہ اپنی استطاعت کے مطابق جہاں ضرورت پڑے اور موقع ملے تو ضرور دوسروں کی مدد کرے گا، مجبور اور ضرورت مند لوگوں کی چھوٹی بڑی ضروریات حل کرنے میں مکمل تعاون کرے گا اور ہر ایسا کام کرے گا جس سے کسی انسان کی ضرورت پوری ہوتی ہوتو یقین کیجیے اس سے دنیا بدل جائے گی۔

اللہ تعالیٰ نے پاکستان کے لوگوں کو ہمدردی کے بے بہا جذبے سے نوازا ہے، جس کے مظاہر مختلف اوقات پر سامنے بھی آتے رہتے ہیں۔ دیوار مہربانی بھی انہیں مظاہر میں سے ایک ہے۔ ”دیوار مہربانی“ یقینا ایک اچھا اور نرالا تصور ہے، اس نیک کام کو جاری رہنا چاہیے۔ یہ نہ ہو کہ چند روز کے بعد لوگوں میں مہربانی کا جذبہ دم توڑ جائے۔ ملک میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ غریب لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے شروع گئے بہت سے کام منظم انداز میں نہ چلانے کی وجہ سے وقتی ثابت ہوتے ہیں اور کچھ روز کے بعد لوگ اس کو چھوڑ دیتے ہیں۔ ضروری ہے کہ یہاں سے صرف ضرورت مند ہی اپنی ضرورت کے مطابق اشیاءاٹھائیں، تاکہ زیادہ سے زیادہ حاجت مند اس دیوارِ مہربانی سے فائدہ حاصل کرسکیں۔ نیک دل لوگوں کو چاہیے کہ ایسے تمام عوامل پر نظر رکھیں جو اس تحریک کو ناکام بنانے کا سبب بن سکتے ہیں اور اس کو زیادہ سے زیادہ منظم کرنے کی کوشش کریں۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 677184 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.